بات کچھ اِدھر اُدھر کی ’باپ‘ وہ عظیم رشتہ جس کے بغیر ہر انسان ادھورا ہے
اور آج پھر وہ اپنے باپ کی ڈانٹ سے ناراض ہوگیا۔ باپ بھی کب تک برداشت کرتا آج اسکے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور آج اس نے بھی گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ماں نے پیچھے پیچھے بھاگ کر روکنے کی کوشش کی مگر غصہ تو جیسے اس کے سر پر سوار تھا۔ ماں سمجھاتی رہی کہ بیٹا تیری بہتری کے لئے ہی کہتے ہیں اس عمر میں ہمیں تیرے سہارے کی ضرورت ہے مگر وہ کہاں رکنے والا تھا غصے میں گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
اس کے جانے سے تو گھر میں ویرانی سی چھا گئی آتا تو وہ گھر میں صرف سونے کے لئے تھا مگر گھر والوں کو یہی آس تھی کہ شاید اب سمجھ جائے گا۔ اس کا باپ اسکی راہ تکتا رہتا بہن اسکے فون کا انتظار کرتی رہتی اور ماں اس کے لوٹنے کی آس میں پورا دن گزر دیتی۔
دوسری طرف اسے بھی اپنی غلطی کا اندازہ ہو رہا تھا اسے بھی اپنے گزرے دن یاد آ رہے تھے گھر میں تو اسے کسی چیز کی فکر نہیں تھی کھانا پکا ہوا، کپڑے دھلے ہوئے جب جتنے پیسوں کی ضرورت ہوئی باپ سے ضد کر کے لے لئے، نہ پڑھائی کی فکر نہ صبح اٹھنے کی پریشانی وہ فٹ پاتھ پر بیٹھا اپنے گزرے دنوں کو یاد کر رہا تھا۔
دیر سے صبح اٹھنا، دن کے وقت ناشتہ کرنا، دن بھر دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنا، راتوں کو دیر سے گھر آنا اور پھر صبح تک ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے فلمیں دیکھنا امتحانات کے دنوں میں بھی پڑھائی نہ کرنا۔
اس کا باپ اس کی یہ ساری حرکتیں نوٹ کرتا کبھی برداشت کرتا کبھی نظر انداز کرتا کبھی ہلکا پھلکا ڈانٹ دیتا کبھی پیار سے سمجھاتا مگر اسے کہاں سمجھ آتی اسے تو باپ کم اور جلاد زیادہ لگتا جو ہر بات پر اسے ٹوکتا ہر بات پر ڈانٹتا۔
اور اس دن بھی یہی ہوا ہمیشہ کی طرح وہ گھر دیر سے پہنچا باپ کی باورچی خانہ میں کھٹ پٹ سے آنکھ کھل گئی کمرے سے باہر نکل کر دیکھا تو صاحب بہادر کھانا کھا رہے تھے باپ کو دیکھ کر اس کے منہ سے نکلا
پاپا کھانا کھائیں؟
باپ نے جواب دیا گھڑی میں وقت دیکھا ہے تجھے گھومنے اور کھانے کے علاوہ کوئی اور کام ہے نوکری کرتا نہیں باپ کے خرچے پر کب تک روٹیاں توڑے گا۔
بس یہ سننا تھا کھانے کی پلیٹ زمین پر ماری اور غصّے میں گھر سے باہر نکل گیا۔
انہیں خیالوں میں گم تھا کہ کانوں سے ایک آواز ٹکرائی یہاں کیوں بیٹھے ہو میاں ؟
نوکری کی تلاش میں؟
اکیلے ہو ؟
نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ہاں بول دیا
چلو ایک نوکری ہے میرے پاس کرو گے ؟
کام کیا کرنا ہوگا ؟
ایک زیر تعمیر عمارت میں مزدور کی نوکری ہے۔
اس کے پاس کوئی دوسرا رستہ نہیں تھا اس لئے فوراً مان گیا
کچھ دیر میں وہ دونوں اس عمارت تک پہنچ گئے کچھ ضروری دستاویزات بھروانے کے بعد اسے کام پر بھیج دیا گیا اب اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اسکا باپ کتنی محنت سے کماتا ہے ٹھیکیدار اسے اتنی دیر میں بیسویں منزل پر لے آیا اور اسے کام سمجھانے لگا۔ کام سمجھنے کے بعد ٹھیکیدار چلا گیا اور وہ اپنے بیتے دن یاد کرتے عمارت پر ٹہل رہا تھا کہ اسی اثنا میں اسکا پاؤں غلط پڑا اور وہ بیسویں منزل سے نیچے گر پڑ۔
لوگ اسے اسپتال لے کر بھاگے باپ پر اس کے زخمی ہونے کی خبر پہاڑ بن کر اتری اس کے بیٹے کی دونوں ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
اس حادثے نے تو اسے بلکل ہی خاموش کردیا نہ کھانا نہ پینا نہ کسی سے بات کرنا بس چپ چاپ کھڑکی سے باہر دوسرے نوجوانوں کو دیکھتا رہتا۔
باپ بھی کب تک صبر کرتا اس سے اپنے جگر کے ٹکرے کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی آخر ایک دن اسکی بوڑھی ہڈیوں نے ٹھان ہی لی وہ اٹھا اور اپنے بیٹے کو گود میں لیا اور گھر کے باہر لان میں آگیا وہ بھی حیران پریشان کہ آپ اس کا باپ کیا کرنے والا ہے سوال کرتا کہ
پاپا یہ کیا کر رہے ہو؟
لان میں اپنے بیٹے کو اپنی کمر پر سوار کیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا اس کے بیٹے کے پاؤں بھی زمین کو چھوتے چھوتے آگے بڑھ رہے تھے ۔اسے اپنے بچپن کے دن یاد آ نے لگے جب اسکا باپ اسے کندھوں پر سوار کر کے گھنٹوں گھمایا پھرایا کرتا اسے انگلی پکڑ کر چلاتا۔ مگر آج وہ جوان تھا آج تو اسکے باپ کو اسکے سہارے کی ضرورت تھی احساس ندامت شرمندگی اس کو گھیر لیتی اور وہ زارو قطار روتا۔ دن یوں ہی گزرتے رہے اس کے باپ نے اپنا یہ معمول بنالیا روز شام کو کندھے پر بیٹے کو سوار کرتا اور شہر میں نکل پڑتا۔
مجھے تھکنے نہیں دیتا ضرورتوں کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا ہونے نہیں دیتے
بوڑھے باپ کے نہ حوصلے پست ہوئے نہ اسکے شانوں نے ذرا بھی شکایات کی - پہلے بیٹے کے پیر بمشکل زمین کو چھو پاتے آہستہ آہستہ زمین پر گھسیٹنے لگے اور پھر ہلکے ہلکے قدم بھی لینے لگے دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے اور پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ایک شام وہ اپنے بیٹے کو لینے اس کے کمرے میں گیا تو اسنے خود کھڑے ہو کر اپنے باپ کا استقبال کیا۔
باپ کی تو جیسے کوئی لاٹری نکل آئی ہو وہ خوشی سے جھومنے لگا۔
یہ کہانی جنوبی کوریا ایک خاندان کی تھی۔ ایسی ہزاروں کہانیاں یقیناً ہمارے ارد گرد بھی موجود ہیں مگر ہم غور نہیں کرتے یا شاید دیکھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں اس کہانی کو پڑھ کر شاید ہمیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہو جائے اور ہمیں اپنے والد کی لازوال قربانیوں کا احساس ہو جائے۔ جو ہماری جیت کے لئے اپنا سب کچھ ہار دیتا ہے۔
آج کا دن اس عظیم ہستی کے نام سے منسوب ہے وہ رشتہ جس کے بغیر ہر انسان ادھورا ہے جس کے نام کے بغیر میرا نام نا مکمل ہے جو میری پہچان ہے اور آج ہم کیا کر رہے ہیں وہ اس شعر سے واضح ہے۔
میری انگلی پکڑ کر چلتے تھے
اب مجھے رستہ دکھاتے ہیں
اب مجھے کس طرح سے جینا ہے
میرے بچے مجھے سکھاتے ہیں
اور آخر میں اپنے والد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے چند شعر،
یہ کامیابیاں یہ عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہے میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔