عیدالفطر 2024
عید کا تہوار اس بار خوشیوں کی نوید لے کر نہیں آیا بلکہ غم اور صدمہ کا پیغام لے کر آیا ہے
قارئین کرام کو پرخلوص عید مبارک۔ عید رب کریم کی جانب سے روزہ داروں کے لیے تحفہ اور انعام ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کے استقبال کی تیاریاں شعبان کے مہینے سے ہی شروع ہوجاتی ہیں اسی طرح عید کی تیاریوں کا آغاز ماہ صیام کے اختتام سے قبل ہی ہوجاتا ہے۔
روزہ داروں کے لیے عید سعید کی آمد فطری مسرت کا باعث ہے لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ روزہ خوروں کی دلچسپی روزے داروں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے جنھیں اگر مفت خورے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔درزیوں کی تو گویا لاٹری نکل آتی ہے۔
ان کے ناز و نخروں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ صبح سے لے کر رات گئے تک کولہو کے بیل کی طرح جتے رہنے کے دوران انھیں کان کھجانے تلک کی فرصت نہیں ہوتی۔ بس یوں کہیے کہ وہ انسان سے روبوٹ بن جاتے ہیں۔کپڑے والوں کا کاروبار بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ شہروں کی گہما گہمی اور رونق روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ خواتین کا ایک پاؤں گھر میں ہوتا ہے دوسرا بازاروں اور مالز میں۔ جس طرف بھی دیکھیے ان کے غول کے غول خریداری کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔بوتیک بھی بہت توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
عید الفطر اپنی نوعیت کا انوکھا تہوار ہے۔ اس کا سسپنس اس کی روح ہوتا ہے کیونکہ چاند دکھائی دینے پر عید کے تعین کا انحصار ہوتا ہے، جوں جوں شام کا وقت قریب آتا ہے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں۔
شام ہوتے ہی لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں اور ہر کوئی بے قراری کے ساتھ چاند کا متلاشی ہوتا ہے۔رویت ہلال کمیٹی کے فیصلہ اور اعلان کا انتظار لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے، جونہی چاند نظر آنے کی اطلاع ملتی ہے خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔سڑکوں پر اور مارکیٹوں میں عوام کا رش اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جوتوں اور چوڑیوں کی دکانوں پر ہجوم کی وہ کیفیت ہوتی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کھانے پینے کے اسٹالوں پر لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی آپے سے باہر نظر آتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا شہر امڈ آیا ہو۔ ہر چند کہ ٹریفک پولیس اپنی جانب سے بہترین انتظامات کرتی ہے لیکن ہر کسی کے سب سے آگے نکل جانے کی کوشش کی وجہ سے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ ہڑبونگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک جام ہونے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے بلکہ ناخوشگوار واقعات پیدا ہوتے ہیں جن میں جیب تراشی اور لوٹ مار بھی شامل ہے۔ افسوس کہ بابائے قوم نے نظم و ضبط کا جو درس دیا ہے قوم نے اسے یکسر فراموش کردیا ہے جس کی وجہ سے عوام بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن گئے ہیں۔
چاند رات کا اصل لطف خواتین اٹھاتی ہیں۔ مہندی لگانے کے رواج نے ایک مذہبی فریضہ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ مہندی لگانے والیوں کی چاند رات کو خوب چاندی ہوتی ہے۔ ان کے نخرے بھی آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ بیوٹی پارلرز بھی رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ موبائل بیوٹی شنز بھی گھر گھر جاکر اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑ کر خوب کمائی کرتی ہیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب خواتین کا گھروں سے نکلنا عیب سمجھا جاتا تھا اور خواتین خانہ اپنے گھروں کی چہار دیواری کے اندر ہی اپنے سجنے سنورنے کا کام انجام دیتی تھیں۔عید کے موقع پر مٹھائی فروشوں کا کاروبار بھی اپنے نقطہ عروج پر ہوتا ہے۔ لوگ نہ صرف اپنے گھروں پر مہمانوں کی تواضع کے لیے مٹھائیاں خریدتے ہیں بلکہ بیٹیوں اور بیٹوں کی سسرال کو بھی مٹھائیاں بھجواتے ہیں۔کمر توڑ مہنگائی نے متوسط طبقہ کی خواتین کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ کاسمیٹک کا سامان انتہائی مہنگا ہوگیا ہے۔یہ عدم مساوات کا شاخسانہ ہے امیر امیر تر ہورہے ہیں اور غریب غربا کا حال بد سے بدتر ہورہا ہے۔بدعنوانی، رشوت ستانی اور دیگر ذرایع سے دولت کمانا عام ہوگیا ہے۔
راتوں رات امیر بننے کی دوڑ نے معاشرے کو تباہی کے بھاڑ میں جھونک دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر رکے گا۔ بے جا اخراجات نے معاشرے کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ پیسہ کی ریل پیل نے انسانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ہمیں وہ زمانہ رہ رہ کر یاد آرہا ہے جب عید نہایت سادگی سے منائی جاتی تھی۔
دنیادکھاؤے کا نام و نشان نہ تھا تو کجا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ لوگ عید کے کپڑے بناتے تھے اور انھیں کپڑوں کو سنبھال کر عید قرباں پر پہننے کے لیے رکھ دیتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم عید کے کپڑے اور جوتے نہایت احتیاط سے پہنا کرتے تھے تا کہ خراب نہ ہوں اور بقرعید پر کام آئیں۔اب تو یہ عالم ہے کہ ہر کوئی مرزا ظاہردار بیگ بنا ہوا ہے۔ عام طور پر چونی یا اٹھنی عیدی کے طور پر ملا کرتی تھی اور بڑھتے بڑھتے پھر یہ رقم 1 روپے، 5 روپے تک جا پہنچی تھی اور اس کی آخری حد 100 روپے ہوگئی تھی لیکن اب حالت یہ ہے کہ 1000 روپے ملنے کے باوجود منہ ٹیڑھا ہی رہتا ہے۔
عید کا تہوار اس بار خوشیوں کی نوید لے کر نہیں آیا بلکہ غم اور صدمہ کا پیغام لے کر آیا ہے کیونکہ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائی اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ نسل کشی کا یہ ظالمانہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ہمارے فلسطینی بھائی اسرائیل اور اس کے حواریوں کی درندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں اور دین اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے بے دریغ قربانیاں دے رہے ہیں جن میں خواتین اور معصوم بچوں کا کھلے عام قتل شامل ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ہم سب پر لازم ہے کہ مشکل اور ابتلا کی اس گھڑی میں ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے اپنا تن من دھن قربان کردیں۔
روزہ داروں کے لیے عید سعید کی آمد فطری مسرت کا باعث ہے لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ روزہ خوروں کی دلچسپی روزے داروں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے جنھیں اگر مفت خورے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔درزیوں کی تو گویا لاٹری نکل آتی ہے۔
ان کے ناز و نخروں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ صبح سے لے کر رات گئے تک کولہو کے بیل کی طرح جتے رہنے کے دوران انھیں کان کھجانے تلک کی فرصت نہیں ہوتی۔ بس یوں کہیے کہ وہ انسان سے روبوٹ بن جاتے ہیں۔کپڑے والوں کا کاروبار بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ شہروں کی گہما گہمی اور رونق روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ خواتین کا ایک پاؤں گھر میں ہوتا ہے دوسرا بازاروں اور مالز میں۔ جس طرف بھی دیکھیے ان کے غول کے غول خریداری کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔بوتیک بھی بہت توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
عید الفطر اپنی نوعیت کا انوکھا تہوار ہے۔ اس کا سسپنس اس کی روح ہوتا ہے کیونکہ چاند دکھائی دینے پر عید کے تعین کا انحصار ہوتا ہے، جوں جوں شام کا وقت قریب آتا ہے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں۔
شام ہوتے ہی لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں اور ہر کوئی بے قراری کے ساتھ چاند کا متلاشی ہوتا ہے۔رویت ہلال کمیٹی کے فیصلہ اور اعلان کا انتظار لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے، جونہی چاند نظر آنے کی اطلاع ملتی ہے خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔سڑکوں پر اور مارکیٹوں میں عوام کا رش اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جوتوں اور چوڑیوں کی دکانوں پر ہجوم کی وہ کیفیت ہوتی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کھانے پینے کے اسٹالوں پر لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی آپے سے باہر نظر آتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا شہر امڈ آیا ہو۔ ہر چند کہ ٹریفک پولیس اپنی جانب سے بہترین انتظامات کرتی ہے لیکن ہر کسی کے سب سے آگے نکل جانے کی کوشش کی وجہ سے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ ہڑبونگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک جام ہونے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے بلکہ ناخوشگوار واقعات پیدا ہوتے ہیں جن میں جیب تراشی اور لوٹ مار بھی شامل ہے۔ افسوس کہ بابائے قوم نے نظم و ضبط کا جو درس دیا ہے قوم نے اسے یکسر فراموش کردیا ہے جس کی وجہ سے عوام بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن گئے ہیں۔
چاند رات کا اصل لطف خواتین اٹھاتی ہیں۔ مہندی لگانے کے رواج نے ایک مذہبی فریضہ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ مہندی لگانے والیوں کی چاند رات کو خوب چاندی ہوتی ہے۔ ان کے نخرے بھی آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ بیوٹی پارلرز بھی رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ موبائل بیوٹی شنز بھی گھر گھر جاکر اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑ کر خوب کمائی کرتی ہیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب خواتین کا گھروں سے نکلنا عیب سمجھا جاتا تھا اور خواتین خانہ اپنے گھروں کی چہار دیواری کے اندر ہی اپنے سجنے سنورنے کا کام انجام دیتی تھیں۔عید کے موقع پر مٹھائی فروشوں کا کاروبار بھی اپنے نقطہ عروج پر ہوتا ہے۔ لوگ نہ صرف اپنے گھروں پر مہمانوں کی تواضع کے لیے مٹھائیاں خریدتے ہیں بلکہ بیٹیوں اور بیٹوں کی سسرال کو بھی مٹھائیاں بھجواتے ہیں۔کمر توڑ مہنگائی نے متوسط طبقہ کی خواتین کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ کاسمیٹک کا سامان انتہائی مہنگا ہوگیا ہے۔یہ عدم مساوات کا شاخسانہ ہے امیر امیر تر ہورہے ہیں اور غریب غربا کا حال بد سے بدتر ہورہا ہے۔بدعنوانی، رشوت ستانی اور دیگر ذرایع سے دولت کمانا عام ہوگیا ہے۔
راتوں رات امیر بننے کی دوڑ نے معاشرے کو تباہی کے بھاڑ میں جھونک دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر رکے گا۔ بے جا اخراجات نے معاشرے کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ پیسہ کی ریل پیل نے انسانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ہمیں وہ زمانہ رہ رہ کر یاد آرہا ہے جب عید نہایت سادگی سے منائی جاتی تھی۔
دنیادکھاؤے کا نام و نشان نہ تھا تو کجا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ لوگ عید کے کپڑے بناتے تھے اور انھیں کپڑوں کو سنبھال کر عید قرباں پر پہننے کے لیے رکھ دیتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم عید کے کپڑے اور جوتے نہایت احتیاط سے پہنا کرتے تھے تا کہ خراب نہ ہوں اور بقرعید پر کام آئیں۔اب تو یہ عالم ہے کہ ہر کوئی مرزا ظاہردار بیگ بنا ہوا ہے۔ عام طور پر چونی یا اٹھنی عیدی کے طور پر ملا کرتی تھی اور بڑھتے بڑھتے پھر یہ رقم 1 روپے، 5 روپے تک جا پہنچی تھی اور اس کی آخری حد 100 روپے ہوگئی تھی لیکن اب حالت یہ ہے کہ 1000 روپے ملنے کے باوجود منہ ٹیڑھا ہی رہتا ہے۔
عید کا تہوار اس بار خوشیوں کی نوید لے کر نہیں آیا بلکہ غم اور صدمہ کا پیغام لے کر آیا ہے کیونکہ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائی اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ نسل کشی کا یہ ظالمانہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ہمارے فلسطینی بھائی اسرائیل اور اس کے حواریوں کی درندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں اور دین اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے بے دریغ قربانیاں دے رہے ہیں جن میں خواتین اور معصوم بچوں کا کھلے عام قتل شامل ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ہم سب پر لازم ہے کہ مشکل اور ابتلا کی اس گھڑی میں ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے اپنا تن من دھن قربان کردیں۔