’’میرا ووٹ میری مرضی‘‘ سے آج تک ۔۔۔

برصغیر میں مسلم خواتین کانفرنس کا قیام 1914ء میں عمل میں آیا

فوٹو : فائل

کیا آپ فیمنسٹ ہیں؟

''جی ہاں!'' بہت سے افراد ایک لمحہ ضائع کیے بغیر بہت آسانی سے جواب دیتے ہیں، لیکن وہیں بہت سے افراد ایک لمحہ آپ کو گْھور کر دیکھیں گے اور پھر 'میرا جسم میری مرضی،' 'اپنا کھانا خود گرم کرو' یا پھر مرد سے نفرت پھیلانے والے نعرے اور تحریک ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی وابستگی کی تردید کرتے یا مخالفت کرتے نظر آئیں گے، جن میں اکثر خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔

اس لیے نہیں کہ ان کو خواتین کے حقوق سے کوئی مسئلہ درپیش ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ 'فیمنزم' کی تحریک کی اصل روح سے واقف ہوں گی۔

فیمنزم (نسوانیت) یا حقوق نسواں کی تحریک کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ درحقیقیت یہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کے لیے سماجی و سیاسی تحریکوں اور نظریات کا ایک سلسلہ جس کا مقصد صنف کی بنیاد پر سیاسی، معاشی، ذاتی اور سماجی مساوات کی وضاحت اور اسے قائم کرنا تھا۔

اٹھارویں صدی کے وہ مغربی معاشرے جہاں مردانہ نقطۂ نظر کو ترجیح دینا ور خواتین کے حقوق پر بات نہ کرنا، ان کی رائے کو اہمیت نہ دینا، حکومت سازی میں خواتین کو شریک نہ کرنا، ان کو انتخابات میں حق رائے دہی نہ دینا، تعلیم کے یک ساں مواقع فراہم نہ کرنا، جائیداد میں حصہ نہ دینا اور زندگی کے دیگر معاملات میں ان کی حق تلفی اور انصافی کرنا ایک عام بات تھی۔

'فیمنزم' کی مہم اور کوششوں میں اس کو تبدیل کرنا، صنفی دقیانوسی تصورات کے خلاف لڑنا اور خواتین کے لیے تعلیمی، پیشہ ورانہ، اور باہمی مواقع اور نتائج کو بہتر بنانا شامل تھا۔

اٹھارویں صدی کے اواخر میں یورپ میں شروع ہونے والی 'حقوقِ نسواں' کی تحریکوں نے خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلائی۔ جس میں خواتین کو ووٹ کا حق، عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑنا، نوکری یا بزنس کرنا، مساوی تنخواہ کمانا، اپنی جائیداد، تعلیم حاصل کرنا، معاہدے کرنا، شادی میں مساوی حقوق حاصل کرنا اور زچگی کی چھٹی، ازدواجی زندگی اور سماجی روابط تک کے حقوقکو یقینی بنانا شامل ہے۔


گزرتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے فیمنزم کی تحریک آگے بڑھی اس میں خواتین سے جڑے دیگر مسائل اور ان کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف بھی آواز بلند ہونا شروع ہوگئی۔ خواتین اور لڑکیوں کو جنسی حملے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے، خواتین کے لباس کے معیار اور خواتین کے لیے قابل قبول جسمانی سرگرمیوں میں تبدیلیاں بھی حقوق نسواں کی تحریکوں کا حصہ بنتی گئیں۔

ویسے تو 1792 میں شائع ہونے والی برطانوی مصنف میری وولسٹون کرافٹ کی کتاب کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کو حقوق نسواں کے بانی کے طور پردیکھتے ہیں جس میں میری وولسٹون نے دلیل دی ہے کہ طبقاتی نظام اور نجی جائیداد خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی بنیاد ہیں، اور خواتین کو مردوں کی برابری کی ضرورت ہے، لیکن 'فیمنزم' کی اصطلاح پہلی بار فرانس اور نیدرلینڈ میں 1872ء، برطانیہ میں 1890ء جب کہ امریکا میں 1910ء میں استعمال ہوئی۔ جس کا مقصد خالصتاً خواتین کے سماجی سیاسی، معاشرتی اور معاشی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا اور ان کے خلاف ہونے والے سنگین جرائم کو روکنا تھا۔

عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کی تحریک کا آغازاس وقت ہوا جب 1908 میں نیویارک میں 5000 خواتین نے کام کے اوقات میں کمی، انتخابات میں حق رائے دہی اور اپنے حق میں بہتر تنخواہ کے لیے مارچ کیا تھا، جب کہ 1911 میں آسٹریا، جرمنی، سوئٹزرلینڈ میں پہلی بار خواتین کا دن منایا گیا۔

فلسفے اور تحقیق سے وابستہ افراد یقیناً یہ جانتے ہوں گے فیمنزم کی تحریک کو مختلف 'ویووز' میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دورِجدید میں فیمنسٹ یا فیمنزم، خواتین اور بچوں سمیت ان مردوں کے لیے حقوق کی جدوجہد بھی فیمنزم کی تحریک کا حصہ بن چکے ہیں، جن کی آواز اور حقوق معاشرے میں یک سر نظرانداز کیا جاتا ہے۔

دورِ جدید میں داخل ہوتی حقوق نسواں کی تحریک جنس اور جسم نہیں، بلکہ معاشرے کے تمام پس ماندہ افراد قطع نظر مذہب، جنس اور قومیت کے مساوی حقوق کی جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔ جس کا اصل مقصد صنفی عدم مساوات اور اس ڈھانچے کو ختم کرنا ہے جو اسے برقرار رکھتے ہیں۔

یہ تنخواہ میں عدم مساوات، جنس پر مبنی صحت کی دیکھ بھال کا فقدان، سخت سماجی توقعات، یا صنفی بنیاد پر تشدد ہو سکتی ہے، جو آج بھی لوگوں کو ہر جگہ متاثر کرتی ہے۔

یورپ اور امریکا میں خواتین کے حقوق کے لیے شروع ہونے والی تحریک کو ایک صدی سے زائد گزرنے کے باوجود آج بھی اس معاشرے کی عورت اپنے حقوق کے حوالے سے مطمئین نہیں، وہ سمجھتی ہے کہ گھر اور کام کی جگہ پر خواتین کو مساوی حقوق حاصل کرنا ابھی باقی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے لیے آواز اٹھانا اپنا حق سمجھتی ہے، جب کہ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ برصغیر میں مسلم خواتین کانفرنس کا قیام 1914ء میں عمل میں آیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ برصغیر کی مسلم خواتین عالمی سطح پر چلائے جانے والی حقوقِ نسواں کی تحریک سے ناواقف نہ تھیں، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں 2018 میں متعارف کرائے گئے متعدد نعروں اور ان کو حقوق نسواں کی تحریک سے جوڑنے کے بعد فیمنزم کو فحاشی، جسم اور جنس سے جوڑا جانے لگا، جس کے بعد پاکستان میں حقوقِ نسواں یا فیمنزم کی بحث نے نیا رخ اختیار کرلیا اور اس تحریک سے جْڑے اصل مسائل کہیں پیچھے رہ گئے۔

فیمنسٹ یا فیمنزم سے جڑے افراد پر کبھی بے حیائی کا لیبل لگایا گیا تو کبھی اسلامی تعلیمات اور اقدار کی خلاف ورزی کا۔ معاشرتی رویوں کو چیلنج کرتی اور پدر شاہی نظام کو للکارتی خواتین پر مرد سے نفرت کا بھی الزام لگایا گیا، لیکن معاشرے کا خواندہ طبقہ یہ ضرور جانتا ہے کہ حقوق نسواں کی اصل تحریک کیا ہے، اس تحریک کے تمام ادوار اور اس کے مقاصد 'میرا جسم میری مرضی نہیں' بلکہ 'میرا حق، میرا فیصلہ' ہے۔
Load Next Story