خوشیاں ہم سے ہیں ۔۔۔
تہواروں کی خوشیاں صنف نازک کی تیاریوں سے دوبالا
عیدالفطر تمام مسلمانوں کے لیے یوم مسرت ہے، اللہ تعالیٰ نے روزوں جیسے عظیم فریضے کو ادا کرنے پر مسلمانوں کو عظیم انعام و اکرام کے ساتھ عیدالفطر کا دن عطاکیا ہے۔
اس دن دنیا بھر کے مسلمان مسرت وشادمانی کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک دوسرے سے گلے لگ کرگلے شکوے اوردلوں کی کدورتیںدورکرتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، کیوں کہ یہ آفاقی دین انسانی زندگی کے تمام پہلوکا مکمل احاطہ کرتا ہے، جس پر عمل پیرا ہونے سے ایک مسلمان جسمانی اور روحانی تسکین پاتا ہے۔
اس بات کی تو سب ہی گواہی دیتے ہیں کہ اسلام کے مذہبی تہواروں سے جو روحانی خوشی ملتی ہے، وہ ناقابل بیان ہوتی ہے، اسی لیے تو ان مذہبی تہواورں کو منانے کے حوالے سے مسلمانوں میں کافی جوش وخروش پایاجاتا ہے اور اس کے لیے بھرپور تیاریاں کی جاتی ہیں۔
ویسے تواس مذہبی تہوارکی تیاریاں رمضان المبارک کے پہلے ہی دن سے شروع ہو جاتی ہیں اورچاند رات تک جاری رہتی ہیں۔ ان سب کاموں میں خاتون خانہ پیش پیش ہوتی ہے، گھر کے تمام افراد کے لیے ملبوسات، گھر کی آرائش وزیبائش، مہمانوں، عزیز رشتے داروں، دوستوں کو تحائف کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے بھی شاپنگ کا اہتمام کرنا ہوتا ہے، جب ایک خاتون خانہ کو اتنے سارے کام کرنے ہیں، تو ذرا بھی بے اپرواہی اس سلسلے میں نہیں برتنی چاہیے اور وقت پر یہ تمام انتظامات کرنے چاہیے،
عموماً ہمارے ہاں عیدکے لیے بہت اہتمام کیا جاتا ہے اوراس حوالے سے عید کے موقع پر بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر سب سے پہلے خاتون خانہ کو افراد خانہ کے لباس اور اس کے لوازمات کا انتظام کرنا ہوتا ہے پھر طعام اور آرائش و سجاوٹ کا اہتمام کرنا ہوتاہے، گھر کی آرائش کے لیے پرانی اشیا کو نیا رنگ دیا جا سکتا ہے، پرانے ڈیزائن بھی کارآمد ہو سکتے ہیں، مگر عید کے حوالے سے ملبوسات، چوڑیاں، چپلیں، جوتے، جیولری وغیرہ اتنی ہی ضروری ہوتی ہیں۔
سچ پوچھیے تو اصل عید بچوں کی ہوتی ہے اس لیے بچوں کے لیے عید کی خریداری ان کی عمر اور پسند و ناپسند کا خیال رکھتے ہوئے کی جاتی ہے، لڑکے اور مرد عموماً عید کی نماز کے لیے شلوار، قمیص یا کرتا، پاجامہ پسند کرتے ہیں۔
عید پر تو ہر کوئی جدید فیشن کی اشیا ہی خریدنا پسند کرتا ہے، پھر بچیاں کیوں پیچھے رہیں، عید کے موقع پر ملبوسات پر کام کے ساتھ ساتھ کڑھائی والے ملبوسات میں چوڑی اور پتلی ربن کا استعمال بھی فیشن کا حصہ ہے، بچوں کی عید کی ورائٹی کے لیے خواتین کسی اچھے شاپنگ مال سے سستی اور معیاری اشیا خرید سکتی ہیں، مرد ہوں یا خواتین یا پھر لڑکے لڑکیاں۔ بات صرف ملبوسات تک محدود نہیں رہتی۔ ہم رنگ جوتے، جوتے، بیگ، گھڑی، چوڑیاں، جیولری، میک اپ وغیرہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
عید بازاروں کی رونقیں خواتین ہی کی دم سے ہوتی ہیں اورچاند رات پر جیسے ان کا جم غفیر بازاروں میں امڈآتا ہے، چوڑیاں پہننے، مہندی لگانے کا شوق کئی دن پہلے سے ہی تیاریاں شروع کرا دیتا ہے۔ مہندی اور چوڑیاں عید کی سب سے منفرد روایت ہے۔ عید سے چند روز قبل مہندی اور چوڑیوں کے اسٹال لگ جاتے ہیں، جو لڑکیوں اور خواتین کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ کلائیاں بھر بھر کے اپنے کپڑوں کی میچنگ کی چوڑیاں خود پہنتی ہیں جب کہ سہیلیوں کو 'کون مہندی' عید کے تحفے کے طور پر دیتی ہیں، عام طور پر 'کون' سے لگی ہوئی مہندی چند گھنٹوں میں ہی رچ جاتی ہے، تاہم مہندی کا رنگ تیز کرنے کے لیے آپ مہندی اتارنے کے دو گھنٹوں بعد تک پانی میں ہاتھ نہ ڈالیں۔ مہندی پانی سے دھونے کی بہ جائے رگڑ کر صاف کریں، یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ دیہاتوں میں لڑکیاں اور خواتین چوڑیاں اور مہندی ایک ہفتہ قبل ہی خریدتی ہیں یا یہ ذمہ داری ان کے بھائیوں اور والد پرآن پڑتی ہے۔
اس کے علاوہ عید کے اہم پکوان شیر خورمہ اور سوَیاں ہیں، ان کے لیے میوے پہلے سے کتر لیے جائیں، بریانی کا مسالا رات ہی کو تیار کر لیں، تاکہ صبح اس کی تیاری جلد ہو جائے۔ شہری علاقوں میں عید کے موقع پر کیک کا رواج ہے، لیکن دیہاتوں میں سویوں، حلوہ جات اور مٹھائیاں ایک دوسرے کو بھجوائی جاتی ہیں، تاہم زیادہ ترلوگ اپنی پسند کے مطابق روایتی پکوانوں کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔
عید کی ایک خصوصی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ شہری علاقوں میں بیاہی بہن یا بیٹی کے لیے سویاں، مہندی، چوڑیاں اوربعض لوگ کپڑے بھی خوشی کے طور پر دیتے ہیں، لیکن دیہاتی علاقوں میں عید سے ایک ہفتہ قبل سویاں، چاول، گھی کا کنستر، مٹھائی اور دیگر روزمرہ کی اشیا بھجوائی جاتی ہیں، یعنی ایک طرح سے اس بیاہی بہن ، بیٹیوں کا حصہ بھی ضرور رکھا جاتا ہے، لیکن دوسری جانب وہی بہنیں اور بیٹیاں بھی اپنے والد اور بھائیوں کی طرف سے ان اشیا کا بڑی شدت سے انتظارکرتی ہیں۔
یہی میل جول، خیر خواہی اور صلہ رحمی ان مذہبی تہواروں کا مقصد بھی ہوتا ہے۔ اگرایک جانب یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی ہمیں سکھاتا ہے، تودوسری جانب یہ انسانوں کے ساتھ ہمیں پیارومحبت کا درس بھی دیتاہے اورآج ان چیزوں کی جتنی ضرورت ہے، اس مناسبت سے ہمیں ان کا پرچارکرناچاہیے اور اس پیغام کو پھیلانا چاہیے۔
اس دن دنیا بھر کے مسلمان مسرت وشادمانی کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک دوسرے سے گلے لگ کرگلے شکوے اوردلوں کی کدورتیںدورکرتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، کیوں کہ یہ آفاقی دین انسانی زندگی کے تمام پہلوکا مکمل احاطہ کرتا ہے، جس پر عمل پیرا ہونے سے ایک مسلمان جسمانی اور روحانی تسکین پاتا ہے۔
اس بات کی تو سب ہی گواہی دیتے ہیں کہ اسلام کے مذہبی تہواروں سے جو روحانی خوشی ملتی ہے، وہ ناقابل بیان ہوتی ہے، اسی لیے تو ان مذہبی تہواورں کو منانے کے حوالے سے مسلمانوں میں کافی جوش وخروش پایاجاتا ہے اور اس کے لیے بھرپور تیاریاں کی جاتی ہیں۔
ویسے تواس مذہبی تہوارکی تیاریاں رمضان المبارک کے پہلے ہی دن سے شروع ہو جاتی ہیں اورچاند رات تک جاری رہتی ہیں۔ ان سب کاموں میں خاتون خانہ پیش پیش ہوتی ہے، گھر کے تمام افراد کے لیے ملبوسات، گھر کی آرائش وزیبائش، مہمانوں، عزیز رشتے داروں، دوستوں کو تحائف کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے بھی شاپنگ کا اہتمام کرنا ہوتا ہے، جب ایک خاتون خانہ کو اتنے سارے کام کرنے ہیں، تو ذرا بھی بے اپرواہی اس سلسلے میں نہیں برتنی چاہیے اور وقت پر یہ تمام انتظامات کرنے چاہیے،
عموماً ہمارے ہاں عیدکے لیے بہت اہتمام کیا جاتا ہے اوراس حوالے سے عید کے موقع پر بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر سب سے پہلے خاتون خانہ کو افراد خانہ کے لباس اور اس کے لوازمات کا انتظام کرنا ہوتا ہے پھر طعام اور آرائش و سجاوٹ کا اہتمام کرنا ہوتاہے، گھر کی آرائش کے لیے پرانی اشیا کو نیا رنگ دیا جا سکتا ہے، پرانے ڈیزائن بھی کارآمد ہو سکتے ہیں، مگر عید کے حوالے سے ملبوسات، چوڑیاں، چپلیں، جوتے، جیولری وغیرہ اتنی ہی ضروری ہوتی ہیں۔
سچ پوچھیے تو اصل عید بچوں کی ہوتی ہے اس لیے بچوں کے لیے عید کی خریداری ان کی عمر اور پسند و ناپسند کا خیال رکھتے ہوئے کی جاتی ہے، لڑکے اور مرد عموماً عید کی نماز کے لیے شلوار، قمیص یا کرتا، پاجامہ پسند کرتے ہیں۔
عید پر تو ہر کوئی جدید فیشن کی اشیا ہی خریدنا پسند کرتا ہے، پھر بچیاں کیوں پیچھے رہیں، عید کے موقع پر ملبوسات پر کام کے ساتھ ساتھ کڑھائی والے ملبوسات میں چوڑی اور پتلی ربن کا استعمال بھی فیشن کا حصہ ہے، بچوں کی عید کی ورائٹی کے لیے خواتین کسی اچھے شاپنگ مال سے سستی اور معیاری اشیا خرید سکتی ہیں، مرد ہوں یا خواتین یا پھر لڑکے لڑکیاں۔ بات صرف ملبوسات تک محدود نہیں رہتی۔ ہم رنگ جوتے، جوتے، بیگ، گھڑی، چوڑیاں، جیولری، میک اپ وغیرہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
عید بازاروں کی رونقیں خواتین ہی کی دم سے ہوتی ہیں اورچاند رات پر جیسے ان کا جم غفیر بازاروں میں امڈآتا ہے، چوڑیاں پہننے، مہندی لگانے کا شوق کئی دن پہلے سے ہی تیاریاں شروع کرا دیتا ہے۔ مہندی اور چوڑیاں عید کی سب سے منفرد روایت ہے۔ عید سے چند روز قبل مہندی اور چوڑیوں کے اسٹال لگ جاتے ہیں، جو لڑکیوں اور خواتین کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ کلائیاں بھر بھر کے اپنے کپڑوں کی میچنگ کی چوڑیاں خود پہنتی ہیں جب کہ سہیلیوں کو 'کون مہندی' عید کے تحفے کے طور پر دیتی ہیں، عام طور پر 'کون' سے لگی ہوئی مہندی چند گھنٹوں میں ہی رچ جاتی ہے، تاہم مہندی کا رنگ تیز کرنے کے لیے آپ مہندی اتارنے کے دو گھنٹوں بعد تک پانی میں ہاتھ نہ ڈالیں۔ مہندی پانی سے دھونے کی بہ جائے رگڑ کر صاف کریں، یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ دیہاتوں میں لڑکیاں اور خواتین چوڑیاں اور مہندی ایک ہفتہ قبل ہی خریدتی ہیں یا یہ ذمہ داری ان کے بھائیوں اور والد پرآن پڑتی ہے۔
اس کے علاوہ عید کے اہم پکوان شیر خورمہ اور سوَیاں ہیں، ان کے لیے میوے پہلے سے کتر لیے جائیں، بریانی کا مسالا رات ہی کو تیار کر لیں، تاکہ صبح اس کی تیاری جلد ہو جائے۔ شہری علاقوں میں عید کے موقع پر کیک کا رواج ہے، لیکن دیہاتوں میں سویوں، حلوہ جات اور مٹھائیاں ایک دوسرے کو بھجوائی جاتی ہیں، تاہم زیادہ ترلوگ اپنی پسند کے مطابق روایتی پکوانوں کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔
عید کی ایک خصوصی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ شہری علاقوں میں بیاہی بہن یا بیٹی کے لیے سویاں، مہندی، چوڑیاں اوربعض لوگ کپڑے بھی خوشی کے طور پر دیتے ہیں، لیکن دیہاتی علاقوں میں عید سے ایک ہفتہ قبل سویاں، چاول، گھی کا کنستر، مٹھائی اور دیگر روزمرہ کی اشیا بھجوائی جاتی ہیں، یعنی ایک طرح سے اس بیاہی بہن ، بیٹیوں کا حصہ بھی ضرور رکھا جاتا ہے، لیکن دوسری جانب وہی بہنیں اور بیٹیاں بھی اپنے والد اور بھائیوں کی طرف سے ان اشیا کا بڑی شدت سے انتظارکرتی ہیں۔
یہی میل جول، خیر خواہی اور صلہ رحمی ان مذہبی تہواروں کا مقصد بھی ہوتا ہے۔ اگرایک جانب یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی ہمیں سکھاتا ہے، تودوسری جانب یہ انسانوں کے ساتھ ہمیں پیارومحبت کا درس بھی دیتاہے اورآج ان چیزوں کی جتنی ضرورت ہے، اس مناسبت سے ہمیں ان کا پرچارکرناچاہیے اور اس پیغام کو پھیلانا چاہیے۔