سعودی سرمایہ کاری پیکیج اور پاکستانی معیشت
مشکلات کے دور میں پاکستان کے ساتھ یکجہتی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے
سعودی عرب نے 5 ارب ڈالرز سے پاکستان میں سرمایہ کاری پیکیج کا آغاز کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ مکہ مکرمہ میں شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
ملاقات میں طے پایا کہ پاک سعودی کاروبار دیگر شعبوں میں بڑھایا جائے گا، سرمایہ کاری میں تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے رواں اور آیندہ سال کے دوران ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی کی پیش گوئی کرتے ہوئے 2024، 2025 میں جی ڈی پی کی شرح نمو بالترتیب 2 فیصد اور 2.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی رسمی، عارضی، مصلحت کی دوستی نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام ایک دوسرے سے روحانی تعلق کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں۔ مشکلات کے دور میں پاکستان کے ساتھ یکجہتی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اہم وژن 2030 کے ذریعے جہاں مملکت کو بے مثال سماجی و اقتصادی کمالات حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے وہیں علاقائی اور عالمی سطح پر ایک نئی پہچان دی ہے۔ ان کے سر جنوبی ایشیا کے خطے کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے ایک نئے دور کو شروع کرنے کا سہرا بھی جاتا ہے۔
خاص طور پر پاکستان کے ساتھ جہاں اب توجہ مالی امداد کے بجائے اس کی اقتصادی ترقی میں سرمایہ کاری پر ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کامیاب حکومت چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، حالیہ دنوں میں انھوں نے پروفیشنل وزرا کا انتخاب کیا ہے۔ قوی امید ہے کہ معیشت کی بحالی کے حوالے مزید بہتر فیصلے کیے جائیں گے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کئی مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سعودی عرب کے لیے پاکستان کتنا اہم ہے۔ بلاشبہ آگے چل کر دونوں ممالک کو بہت زیادہ اقتصادی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ معاشی بحالی کے لیے برآمدات بڑھانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کلیدی اہمیت رکھتی ہے، پاکستان نے ہمیشہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو اولین ترجیح دی ہے۔
خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد انھی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔
بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت خلیجی ریاستوں میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت کا عمل پاکستان کے لیے بے تحاشا مواقعے فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جن کے ذریعے جی سی سی کو ترقیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے جب کہ جی سی ریاستوں میں ہنرمند افراد قوت بھجوانے اور تجارتی اشیا کی برآمد کے لیے بھی یہ ایک اہم موقع ہے۔
پاکستان سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو 20 ارب ڈالر تک لے جانے کا خواہش مند ہے، جب کہ دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دو طرفہ تجارت میں 35 فیصد اضافہ خوش آیند ہے۔ سعودی حکومت کے پاس پبلک انویسٹمنٹ فنڈز ہیں جن کو استعمال میں لائے وہ، پاکستان کی بڑی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کر کے مزید پیداوار کے لیے انھیں اپ گریڈ کر سکتا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب بھی عالمی روابط کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) سعودی عرب کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ پاکستانی اور سعودی تاجروں دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان موافقت اور تقابلی فائدے کے شعبوں کا تعین کریں۔
دونوں جانب کے چیمبرز آف کامرس کو زیادہ باقاعدگی سے بات چیت اور ضروری قانونی اصلاحات کے لیے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے، جو سرمایہ کاری پر موزوں منافع کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ مزید برآں پاک عرب تاجران کی نمائش بڑے شہروں میں منعقد کی جائے تا کہ وسائل کی مارکیٹنگ کی جا سکے اور پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔ آزاد تجارت (فری ٹریڈ) معاہدہ بھی ممکن ہے۔
پاکستان کے لیے ترسیلات زر ملک کی ثانوی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ ان ترسیلات زر میں سے تقریبا ساٹھ فیصد آمدنی خلیجی ممالک سے حاصل ہوتی ہے، خصوصاً سعودی عرب سے جہاں تقریبا بیس لاکھ سے زائد پاکستانی کارکنان کام کررہے ہیں۔ اس وقت، اس افرادی قوت کا زیادہ تر حصہ غیر ہنر مند مزدوروں پر مشتمل ہے، جو سعودی عرب میں آئی ٹی، سیاحت اور مالیاتی شعبوں میں میسر مواقعے کے لیے ناموزوں ہیں۔
پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے اور بگڑتے ہوئے معاشی ماحول میں روزگار کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان کو سعودی عرب کی ضروریات کے مطابق کارکنوں کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔
سعودی عرب اور پاکستان فوجی تعاون کی بھی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، جس کا آغاز سنہ 1967 میں ایک دفاعی پروٹوکول کے معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس کا دائرہ کار سعودی عرب میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کو پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقع فراہم کیے جانے پر مشتمل تھا۔ اسی طرح 1982 میں ہونے والے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی ۔
پاکستان کی مشکلات میں اضافہ 2022 میں سیلاب کا ایک سلسلہ تھا۔ ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں سے 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ سعودی عرب نے کبھی پاکستان کو ضرورت کے وقت ناامید نہیں کیا، جیسا کہ مئی 1998 میں جب پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کرنے پر مجبور ہوا تو اس وقت بھی سعودی عرب پاکستان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوا۔
سعودی مملکت نے اقتصادی پابندیاں لگنے والی پابندیوں کے تباہ کن اثرات کو برداشت کرنے کے لیے پاکستان کی ہنگامی طور پر مالی مدد کی اور پاکستان کو موخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کیا۔
جب 2005 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو اس وقت سعودی عرب وہ پہلا ملک تھا جس نے متاثرین کو مدد کی فراہمی کے لیے فضائی راہداری قائم کی جب کہ دو جدید ترین فیلڈ اسپتال بھی قائم کیے جو میڈیکل اسٹاف اور جراحی کے آلات سے لیس تھے۔ جس کا مقصد اس سانحے سے نمٹنا تھا ۔ سعودی ولی عہد نے سنہ 2019 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے توانائی اور کان کنی کے شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔
درحقیقت بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے سے ادائیگیوں کے توازن کے فرق کو ُپر کرنے میں مدد ملے گی اور پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا ملے گا اور بار بار بیل آؤٹ حاصل کرنے کی ضرورت کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ گہرے تعلقات مشترکہ تاریخ اور باہمی مفادات میں جڑے ہوئے ہیں۔
اس وقت پاکستان مشکل معاشی اور سیکیورٹی صورت حال کے دوران سیاسی تبدیلی کے مشکل عمل سے گزرا ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنما اور فوجی قیادت موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے ۔ پاکستان کی حکومت کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے پیش کردہ عظیم معاشی مواقعے سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہماری مشترکہ تاریخ ایک ایسی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے جس پر امن، خوشحالی اور ترقی کے حامل مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا بحران معاشی محاذ پر ہے۔ پاکستان کو اپنی معاشی حالت ہر صورت بہتر کرنی پڑے گی 'جہاں تک سیاسی استحکام کی بات ہے تو اس وقت ملک میں کسی قسم کا سیاسی بحران نہیں ہے۔
عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو چکا ہے۔ اب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی ہو گیا ہے 'لہٰذا ملک میں سیاسی استحکام خاصی حد تک قائم ہو چکا ہے 'اب حکومت کی ساری توجہ ملک کی معیشت کو ترقی دینے اور مالیاتی مشکلات پر قابو پانے کے لیے فول پروف میکنزم پر عمل کرنا ہو گا اور سرکاری سطح پر سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہو گا۔حکومت اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ملکی معیشت ایک دو برس میں اپنے ٹریک پر واپس آ جائے گی۔
ملاقات میں طے پایا کہ پاک سعودی کاروبار دیگر شعبوں میں بڑھایا جائے گا، سرمایہ کاری میں تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے رواں اور آیندہ سال کے دوران ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی کی پیش گوئی کرتے ہوئے 2024، 2025 میں جی ڈی پی کی شرح نمو بالترتیب 2 فیصد اور 2.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی رسمی، عارضی، مصلحت کی دوستی نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام ایک دوسرے سے روحانی تعلق کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں۔ مشکلات کے دور میں پاکستان کے ساتھ یکجہتی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اہم وژن 2030 کے ذریعے جہاں مملکت کو بے مثال سماجی و اقتصادی کمالات حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے وہیں علاقائی اور عالمی سطح پر ایک نئی پہچان دی ہے۔ ان کے سر جنوبی ایشیا کے خطے کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے ایک نئے دور کو شروع کرنے کا سہرا بھی جاتا ہے۔
خاص طور پر پاکستان کے ساتھ جہاں اب توجہ مالی امداد کے بجائے اس کی اقتصادی ترقی میں سرمایہ کاری پر ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کامیاب حکومت چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، حالیہ دنوں میں انھوں نے پروفیشنل وزرا کا انتخاب کیا ہے۔ قوی امید ہے کہ معیشت کی بحالی کے حوالے مزید بہتر فیصلے کیے جائیں گے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کئی مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سعودی عرب کے لیے پاکستان کتنا اہم ہے۔ بلاشبہ آگے چل کر دونوں ممالک کو بہت زیادہ اقتصادی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ معاشی بحالی کے لیے برآمدات بڑھانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کلیدی اہمیت رکھتی ہے، پاکستان نے ہمیشہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو اولین ترجیح دی ہے۔
خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد انھی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔
بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت خلیجی ریاستوں میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت کا عمل پاکستان کے لیے بے تحاشا مواقعے فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جن کے ذریعے جی سی سی کو ترقیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے جب کہ جی سی ریاستوں میں ہنرمند افراد قوت بھجوانے اور تجارتی اشیا کی برآمد کے لیے بھی یہ ایک اہم موقع ہے۔
پاکستان سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو 20 ارب ڈالر تک لے جانے کا خواہش مند ہے، جب کہ دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دو طرفہ تجارت میں 35 فیصد اضافہ خوش آیند ہے۔ سعودی حکومت کے پاس پبلک انویسٹمنٹ فنڈز ہیں جن کو استعمال میں لائے وہ، پاکستان کی بڑی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کر کے مزید پیداوار کے لیے انھیں اپ گریڈ کر سکتا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب بھی عالمی روابط کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) سعودی عرب کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ پاکستانی اور سعودی تاجروں دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان موافقت اور تقابلی فائدے کے شعبوں کا تعین کریں۔
دونوں جانب کے چیمبرز آف کامرس کو زیادہ باقاعدگی سے بات چیت اور ضروری قانونی اصلاحات کے لیے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے، جو سرمایہ کاری پر موزوں منافع کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ مزید برآں پاک عرب تاجران کی نمائش بڑے شہروں میں منعقد کی جائے تا کہ وسائل کی مارکیٹنگ کی جا سکے اور پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔ آزاد تجارت (فری ٹریڈ) معاہدہ بھی ممکن ہے۔
پاکستان کے لیے ترسیلات زر ملک کی ثانوی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ ان ترسیلات زر میں سے تقریبا ساٹھ فیصد آمدنی خلیجی ممالک سے حاصل ہوتی ہے، خصوصاً سعودی عرب سے جہاں تقریبا بیس لاکھ سے زائد پاکستانی کارکنان کام کررہے ہیں۔ اس وقت، اس افرادی قوت کا زیادہ تر حصہ غیر ہنر مند مزدوروں پر مشتمل ہے، جو سعودی عرب میں آئی ٹی، سیاحت اور مالیاتی شعبوں میں میسر مواقعے کے لیے ناموزوں ہیں۔
پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے اور بگڑتے ہوئے معاشی ماحول میں روزگار کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان کو سعودی عرب کی ضروریات کے مطابق کارکنوں کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔
سعودی عرب اور پاکستان فوجی تعاون کی بھی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، جس کا آغاز سنہ 1967 میں ایک دفاعی پروٹوکول کے معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس کا دائرہ کار سعودی عرب میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کو پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقع فراہم کیے جانے پر مشتمل تھا۔ اسی طرح 1982 میں ہونے والے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی ۔
پاکستان کی مشکلات میں اضافہ 2022 میں سیلاب کا ایک سلسلہ تھا۔ ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں سے 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ سعودی عرب نے کبھی پاکستان کو ضرورت کے وقت ناامید نہیں کیا، جیسا کہ مئی 1998 میں جب پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کرنے پر مجبور ہوا تو اس وقت بھی سعودی عرب پاکستان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوا۔
سعودی مملکت نے اقتصادی پابندیاں لگنے والی پابندیوں کے تباہ کن اثرات کو برداشت کرنے کے لیے پاکستان کی ہنگامی طور پر مالی مدد کی اور پاکستان کو موخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کیا۔
جب 2005 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو اس وقت سعودی عرب وہ پہلا ملک تھا جس نے متاثرین کو مدد کی فراہمی کے لیے فضائی راہداری قائم کی جب کہ دو جدید ترین فیلڈ اسپتال بھی قائم کیے جو میڈیکل اسٹاف اور جراحی کے آلات سے لیس تھے۔ جس کا مقصد اس سانحے سے نمٹنا تھا ۔ سعودی ولی عہد نے سنہ 2019 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے توانائی اور کان کنی کے شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔
درحقیقت بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے سے ادائیگیوں کے توازن کے فرق کو ُپر کرنے میں مدد ملے گی اور پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا ملے گا اور بار بار بیل آؤٹ حاصل کرنے کی ضرورت کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ گہرے تعلقات مشترکہ تاریخ اور باہمی مفادات میں جڑے ہوئے ہیں۔
اس وقت پاکستان مشکل معاشی اور سیکیورٹی صورت حال کے دوران سیاسی تبدیلی کے مشکل عمل سے گزرا ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنما اور فوجی قیادت موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے ۔ پاکستان کی حکومت کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے پیش کردہ عظیم معاشی مواقعے سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہماری مشترکہ تاریخ ایک ایسی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے جس پر امن، خوشحالی اور ترقی کے حامل مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا بحران معاشی محاذ پر ہے۔ پاکستان کو اپنی معاشی حالت ہر صورت بہتر کرنی پڑے گی 'جہاں تک سیاسی استحکام کی بات ہے تو اس وقت ملک میں کسی قسم کا سیاسی بحران نہیں ہے۔
عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو چکا ہے۔ اب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی ہو گیا ہے 'لہٰذا ملک میں سیاسی استحکام خاصی حد تک قائم ہو چکا ہے 'اب حکومت کی ساری توجہ ملک کی معیشت کو ترقی دینے اور مالیاتی مشکلات پر قابو پانے کے لیے فول پروف میکنزم پر عمل کرنا ہو گا اور سرکاری سطح پر سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہو گا۔حکومت اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ملکی معیشت ایک دو برس میں اپنے ٹریک پر واپس آ جائے گی۔