پنجاب کا دس کھرب چوالیس ارب روپے کا بجٹ
پنجاب کے بجٹ میں ریسکیو ون ون ٹو ٹو کا دائرہ چھتیس اضلاع تک پھیلانے کا اعلان بھی کیا گیا
صوبہ پنجاب کا لگ بھگ ساڑھے دس کھرب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، بڑی گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس اور بڑے گھروں پر ٹیکس بڑھانے کی بھی تجویز ہے، بڑے گھروں پر ڈیڑھ سے اڑھائی کنال تک ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
مزدور کی کم سے کم اجرت بارہ ہزار مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔جنوبی پنجاب کے لیے کل ترقیاتی فنڈ سے 119 ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔ وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ چار برسوں کے دوران چالیس لاکھ نئے روزگار پیدا ہوں گے۔ پرائیویٹ اور کوآپریٹو ہاؤسنگ اسکیموں میں واقع جائیداد کی خرید و فروخت پر رجسٹریشن فیس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی کے منصوبوں کے لیے اکتیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پنجاب کے بجٹ میں ریسکیو ون ون ٹو ٹو کا دائرہ چھتیس اضلاع تک پھیلانے کا اعلان بھی کیا گیا جو کہ یقینی طور پر ایک بہت مثبت فیصلہ ہے جس سے دور دراز کے شہروں اور قصبوں کے عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی میں کمی آ سکتی ہے۔
آئندہ مالی سال میں رحیم یار خان، اوکاڑہ اور ساہیوال میں تین نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے ان علاقوں کی طالبات کو اپنے آبائی علاقوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا جن کے والدین پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹیاں دور دراز کے شہروں میں جائیں۔ تعلیم کے ساتھ ہی پینے کے پانی کے منصوبوں پر سترہ ارب سے کچھ زیادہ خرچ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صحت کے شعبے کے لیے ایک سو بائیس ارب روپے کے لگ بھگ مختص کیے گئے ہیں۔
زراعت کے شعبہ کے لیے پندرہ ارب جب کہ لائیو اسٹاک کے لیے نو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ درآمد شدہ گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس میں تین سو فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ چھ سواریوں کی گنجائش سے زیادہ استعداد والی گاڑیوں ماسوائے بس، ویگن کا ٹیکس آٹھ سو سے بڑھا کر پچیس سو روپے فی سیٹ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ جنگلات کے لیے کل سوا دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن کیا ٹمبر مافیا کے سد باب کے لیے بھی کوئی خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ نہیں کیونکہ ہمارے جنگلات کو ٹمبر مافیا کی جو دیمک چاٹ رہی ہے اس کے سدباب کے بغیر جنگلات کے حجم میں اضافے کا خیال عبث ہے۔
پنجاب میں کاشتکاروں کو کھاد کی فراہمی کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران بھی پانچ ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔جنوبی پنجاب پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے حکومت نے ملتان، وہاڑی، ڈی جی خان اور مظفر گڑھ میں ضلعی اسپتالوں کی اپ گریڈیشن، بہاولپور میں ویٹرنری یونیورسٹی کا قیام، ملتان میں میٹرو ٹرین اور چلڈرن اسپتال کا قیام، جام پور اور چولستان کے لیے خصوصی پیکیج شامل ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے پنجاب بجٹ کو عوام دشمنی اور سیاسی مشہوری قرار دیا اور کہا عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جب کہ حکمران میٹرو چلانے پر بضد ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ مسترد کر دیا تاہم صوبائی وزراء نے بجٹ کی جی بھر کر تعریف کی ہے البتہ مزدوروں، کلرکوں اور اساتذہ کی تنظیموں نے بھی بجٹ کو غریب دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ غریبوں کے ساتھ ایک بھیانک مذاق کے سوا اور کچھ نہیں۔ پنجاب حکومت نے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اچھا بجٹ پیش کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جن جن شعبوں کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور کرپشن کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں، اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے ہیں تو اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں گے۔
مزدور کی کم سے کم اجرت بارہ ہزار مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔جنوبی پنجاب کے لیے کل ترقیاتی فنڈ سے 119 ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔ وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ چار برسوں کے دوران چالیس لاکھ نئے روزگار پیدا ہوں گے۔ پرائیویٹ اور کوآپریٹو ہاؤسنگ اسکیموں میں واقع جائیداد کی خرید و فروخت پر رجسٹریشن فیس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی کے منصوبوں کے لیے اکتیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پنجاب کے بجٹ میں ریسکیو ون ون ٹو ٹو کا دائرہ چھتیس اضلاع تک پھیلانے کا اعلان بھی کیا گیا جو کہ یقینی طور پر ایک بہت مثبت فیصلہ ہے جس سے دور دراز کے شہروں اور قصبوں کے عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی میں کمی آ سکتی ہے۔
آئندہ مالی سال میں رحیم یار خان، اوکاڑہ اور ساہیوال میں تین نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے ان علاقوں کی طالبات کو اپنے آبائی علاقوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا جن کے والدین پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹیاں دور دراز کے شہروں میں جائیں۔ تعلیم کے ساتھ ہی پینے کے پانی کے منصوبوں پر سترہ ارب سے کچھ زیادہ خرچ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صحت کے شعبے کے لیے ایک سو بائیس ارب روپے کے لگ بھگ مختص کیے گئے ہیں۔
زراعت کے شعبہ کے لیے پندرہ ارب جب کہ لائیو اسٹاک کے لیے نو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ درآمد شدہ گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس میں تین سو فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ چھ سواریوں کی گنجائش سے زیادہ استعداد والی گاڑیوں ماسوائے بس، ویگن کا ٹیکس آٹھ سو سے بڑھا کر پچیس سو روپے فی سیٹ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ جنگلات کے لیے کل سوا دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن کیا ٹمبر مافیا کے سد باب کے لیے بھی کوئی خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ نہیں کیونکہ ہمارے جنگلات کو ٹمبر مافیا کی جو دیمک چاٹ رہی ہے اس کے سدباب کے بغیر جنگلات کے حجم میں اضافے کا خیال عبث ہے۔
پنجاب میں کاشتکاروں کو کھاد کی فراہمی کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران بھی پانچ ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔جنوبی پنجاب پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے حکومت نے ملتان، وہاڑی، ڈی جی خان اور مظفر گڑھ میں ضلعی اسپتالوں کی اپ گریڈیشن، بہاولپور میں ویٹرنری یونیورسٹی کا قیام، ملتان میں میٹرو ٹرین اور چلڈرن اسپتال کا قیام، جام پور اور چولستان کے لیے خصوصی پیکیج شامل ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے پنجاب بجٹ کو عوام دشمنی اور سیاسی مشہوری قرار دیا اور کہا عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جب کہ حکمران میٹرو چلانے پر بضد ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ مسترد کر دیا تاہم صوبائی وزراء نے بجٹ کی جی بھر کر تعریف کی ہے البتہ مزدوروں، کلرکوں اور اساتذہ کی تنظیموں نے بھی بجٹ کو غریب دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ غریبوں کے ساتھ ایک بھیانک مذاق کے سوا اور کچھ نہیں۔ پنجاب حکومت نے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اچھا بجٹ پیش کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جن جن شعبوں کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور کرپشن کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں، اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے ہیں تو اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں گے۔