ہر اک جانب مچا کہرام

شہر آشوب لکھنے کا وقت گزر گیا۔ اب صرف مرثیہ اور ماتم اس شہر کا مقدر ہے۔

fatimaqazi7@gmail.com

شہر آشوب لکھنے کا وقت گزر گیا۔ اب صرف مرثیہ اور ماتم اس شہر کا مقدر ہے۔ خدا نہ کرے کہ جو حال کراچی کا ہے، وہ پورے ملک کا ہو جائے۔ ذمے داری سرا سر وفاقی حکومت کی تھی اور ہے۔ کراچی ایئرپورٹ پہ ہونے والے انتہائی سنگین اور الم ناک صورتحال پہ جہاں متعلق ذمے دار ادارے اور صوبائی حکومت کے نمائشی کرداروں کے چہروں پہ بے حسی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ وہیں الیکٹرانک میڈیا نے لمحہ لمحہ لائیو ٹرانسمیشن کے ذریعے بے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کو خراج تحسین پیش نہ کرنا تنگ دلی ہو گی۔ پرنٹ میڈیا کا کردار بھی اس ضمن میں قابل تعریف ہے۔

سچ سامنے لانے اور کولڈ اسٹوریج میں پھنسے لوگوں کی جان نہ بچانے کے مجرم یقیناً وہی ہیں جو اپنی اپنی نوکریاں بچانے کے لیے پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف تھے اور کسی غلطی کو ماننے کے لیے سرے سے تیار ہی نہ تھے۔ خاص طور سے سول ایوی ایشن کے سربراہ کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات اور ان کے منہ چھپانے کی وجوہات سب جاننا چاہتے تھے۔ میرے والد پاکستان بننے سے پہلے برٹش گورنمنٹ کے دور میں سول ایوی ایشن میں نہایت ذمے دارانہ عہدے پر کراچی میں تعینات تھے۔ تقسیم کے بعد ان کی ذمے داریاں اور بڑھ گئی تھیں۔

ایک دفعہ میں نے ان سے بہت ضد کی کہ وہ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں سے جہازوں کی نقل و حرکت دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن انھوں نے ہر بار منع کر دیا کہ وہ بہت حساس جگہ ہے وہاں کوئی نہیں آ سکتا۔ لہٰذا میری والدہ، میں اور بھائی ایئرپورٹ پہ بنے ہوئے Sky Room ریسٹورنٹ میں کچھ کھا پی کر اور وہیں سے جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے مناظر دیکھ کر آ جاتے تھے۔ ایک دفعہ جب میری ضد بہت بڑھ گئی تو انھوں نے باقاعدہ ہمارے لیے پاس بنوائے اور کنٹرول ٹاور میں سیکیورٹی گارڈ کی موجودگی میں صرف پندرہ منٹ (گھڑی دیکھ کر) میں واپس ریسٹوران بھیج دیا کہ کنٹرول ٹاور میں کسی بھی غیر متعلقہ کا آنا مناسب نہیں تھا۔

لیکن یہ وہ زمانے تھے جب سول ایوی ایشن کے سربراہ اور دیگر ذمے داران افسران کا انتخاب صرف اور صرف میرٹ پہ ہوتا تھا۔ یہ روایت کسی حد تک 1960ء تک قرار رہی۔ پھر بیوروکریسی اور حکمرانوں کی سفارش کی دیمک پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کی بنیادوں میں لگنا شروع ہو گئی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے نہایت اہم اور حساس اداروں میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے عاری جونیئر افراد کو سیاسی بنیادوں پہ وہاں کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ قومی ایئرلائن جو دنیا کی بہترین ایئرلائن تھی گزشتہ حکومتوں کی لاپروائی کی وجہ سے جہاں پہنچ چکی ہے وہ سب پہ عیاں ہے۔ ملک دن بہ دن تباہ اور عوام مجبور و لاچار۔ لیکن حکمرانوں اور ان کے اہل و عیال اور دوستوں، رشتے داروں سمیت پوری برأت غلام سے آقا بن بیٹھی۔ لیکن ادارے تباہ ہو گئے۔ لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے لگے۔ کوئی بند گلی میں مارا گیا، کسی کو اغوا کر لیا گیا، کچھ بدنصیب دہشت گردوں کی وحشت کا نشانہ بن گئے۔ اور اب کراچی ایئرپورٹ پہ ہونے والے وقوعے نے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔

اب آئیے اس خبر کی طرف جو 11 جون کے ایکسپریس میں پہلے صفحے پر چھپی ہے۔ یہ خبر ساری کہانی بیان کر دیتی ہے۔ سرخی یہ ہے ''اعلیٰ افسران کی سفارش پر کراچی ایئر پورٹ پر ناتجربہ کار منیجر تعینات'' اس خبر کے مطابق کراچی ایئر پورٹ پہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حکام کے مطابق ایک انتہائی جونیئر افسر کو جو اس سے پہلے کبھی کسی بھی ایئرپورٹ پہ منیجر تعینات نہیں ہوئے، انھیں اعلیٰ افسران کی سفارش پر ایک سال قبل کراچی ایئرپورٹ کا منیجر مقرر کر دیا گیا جو ملک کا انتہائی اہم اور حساس ایئرپورٹ ہے۔ اور اس کی ایک بین الاقوامی حیثیت ہے۔


افسوس صرف اپنا سر پیٹیے کہ جس شخص کو ایئر پورٹ چلانے کا کوئی تجربہ نہیں اس کے حوالے وہ عہدہ کر دیا جس نے دہشت گردوں کو باآسانی ممکنہ ہدف تک رسائی دے دی۔ چونکہ وہ اپنی ''غیرمعمولی'' صلاحیتوں سے بھی واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے گاڈ فادر بخوبی ٹیلی ویژن اسکرین پہ ان کا بھرپور دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اس سانحے کا کوئی نوٹس اس لیے نہیں لیا کہ انھیں ان کے ''سرپرستوں'' نے ہی منہ چھپانے کو کہا تھا۔ جہاں انتہائی حساس اداروں کا سربراہ حکومت کی سفارش پہ بھرتی کیا جاتا ہو ۔ کیا وہ اس قابل ہے کہ کوئی دعویٰ کر سکے؟

پاکستان میں اداروں کی تباہی کی بنیادی وجہ من پسند جونیئر افسران کو بھاری رشتوں کے عوض، ذات برادری کے عوض، ووٹ دلوانے کے عوض، اور من پسند لوگوں کو اپنی مرضی کی خبریں لگانے کے عوض اداروں کا سربراہ بنایا جانا ایک معمول بن چکا ہو وہاں یہ امید رکھنا کہ آئندہ کچھ نہیں ہو گا، محض چاپلوسی اور حماقت ہے۔

ایوب خان کی حکومت کے زمانے میں ان کے سگے بھائی سردار بہادر خان اپوزیشن لیڈر تھے اور انھوں نے اپنے بھائی کی حکمرانی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسمبلی کے اجلاس میں برملا کہہ دیا تھا کہ

دیورا چمن پہ زاغ و زغن مصروف ہیں نوحہ خوانی میں
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے' انجام گلستاں کیا ہو گا

آج ''انجام گلستاں'' صاف نظر آ رہا ہے۔ وجہ میرٹ کا قتل عام اور سفارشی بنیادوں پہ اداروں کے سربراہوں کا تقرر ہے۔ کسی کو بھی اس وطن عزیز کی فکر اس لیے نہیں ہے کہ یہ اپنے اثاثے، محلات، فلیٹ اور جیولری سوئٹزرلینڈ اور دیگر غیرملکی بینکوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ جب خود ان کے پالے ہوئے دہشت گرد اس ملک کا سبزہ تک ختم کر دیں گے تو یہ اس کی پیشگی اطلاع پر فوراً بیرون ملک چلے جائیں گے۔ ایک وہ ڈکٹیٹر تھا جس نے میڈیا کو پوری آزادی دی۔ اور ایک نام نہاد جمہوریت کے چیمپئن وہ ہیں جو ''لائیو ٹرانسمیشن'' پہ اس لیے پابندی لگانے پہ غور کر رہے ہیں کہ عوام کو کبھی سچ کا پتہ نہ چلے۔ ایک وہ ڈکٹیٹر تھا جس کا سگا بھائی اپوزیشن لیڈر تھا اور برملا حکومت کو للکارتا تھا۔ اور ایک آج کی ''فرینڈلی اپوزیشن''۔ کسی بھی سانحے پر حکمرانوں کا صرف میڈیا پہ جلوہ آرائی اور وہی گھسے پٹے برسوں پرانے بہانے۔ جن میں ''دہشت گردوں کو سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور حملہ آوروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور انھیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔'' جیسے پہلے سے ٹائپ شدہ بیانات۔ کیا آج تک کوئی حملہ آور یا دہشت گرد گرفتار ہوا جو آج ہو جائے گا۔ عوام اس الف لیلہٰ کی کہانیوں کو خوب سمجھتے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایئرپورٹ کے سانحے پر جشن منانا چاہیے کہ ان کا کوئی عزیز، رشتے دار، سفارشی افسر اور ذات برادری کے لوگوں میں سے کوئی حادثے میں نہیں مرا۔ کرپشن اور سفارش کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اب انھیں کوئی طوفان نوح بھی ختم نہیں کر سکتا، پیغمبروں کی آمد اب ہو گی نہیں کہ معجزوں کا وقت بھی گزر گیا۔ بہتر یہی ہے کہ جن سے مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں انھیں ہی پاور دے دی جائے۔ کیونکہ لوگ امن اور روٹی چاہتے ہیں۔ جمہوری حکومتیں اس میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ لہٰذا انھیں موقع دینا چاہیے جو امن و سلامتی یقینی بنا سکیں۔
Load Next Story