آؤ مل کر ہذیان بکیں
انھوں نے جنگ عظیم دوئم دیکھی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 10 سال تھی، پاکستان بنتے دیکھا،
انھوں نے جنگ عظیم دوئم دیکھی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 10 سال تھی، پاکستان بنتے دیکھا، لوگوں کو اجڑتے، بکھرتے دیکھا، خون کا دریا عبورکیا پھر محلوں اور حویلیوں میں رہنے والوں کو جھونپڑیوں میں بستے دیکھا، کچے مکانوں میں مہاجرین کو آباد ہوتے دیکھا، یہ مہاجرین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔
وہ خود بھی معزز خاندان کی فرد تھیں۔ انھوں نے بڑی محنت اور مشقت سے بچوں کو پالا پوسا اور اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی، پاکستان کی ترقی و استحکام میں ان کا ایک اہم کردار تھا وہ دامے، درمے، سخنے کے اعتبار سے آگے آگے تھیں پاکستان کی بنیاد میں خون دینے اور گارے مٹی میں اینٹیں رکھنے والوں میں ان کا بھی شمار تھا، لیکن جوں جوں حالات بدلتے گئے اور پاکستان کے منظر نامے میں خون کی چھینٹیں نظر آنے لگیں اور ہر روز لوگ باقاعدگی سے مرنے لگے، اس وقت سے وہ بے حد پریشان اور دکھی ہیں۔
چونکہ مرنے والوں میں ان کے تین جوان بیٹے اور شوہر شامل ہیں۔ گھر والے چلے گئے، سہارے ٹوٹ گئے، چھت چھین لی گئی، تب سے وہ بے آسرا و بے سہارا ہوگئیں، گلیوں گلیوں گھومتی ہیں گھروں گھروں میں جاکر اپنی المناک کہانی سناتی ہیں تو اچھے اچھوں کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو اگر پیسہ ہی بٹورنا تھا تو اس کے اور بھی دوسرے طریقے ہیں، یہ طریقہ غلط ہے کہ جھوٹ بول کر ووٹ وصول کرتے ہیں، جھوٹے حلف اٹھاتے ہیں، اقتدار کی مسند تک پہنچتے ہیں اور تعیشات زندگی میں غرق ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں کہ کس طرح وطن عزیز کو خون دینے والے پانی اور روٹی کو ترس گئے ہیں۔
لوٹ کھسوٹ نے پاکستان کا وقار ختم کردیا ہے نہ تدبر ہے نہ حکمت کے خزانے، بس وقتی فائدے کے بارے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی ذات پر ہزاروں نہیں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، عوام کے پاس سفر کے لیے سواری نہیں۔ ان کے پاس گاڑیوں کا قافلہ ہے جو ان کی شان و تمکنت (بقول ان کی سوچ کے) میں اضافے کا باعث ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اس ملک کی رعایا ان سے نفرت کرتی ہے، سر راہ برا بھلا کہتی ہے لیکن بادشاہت کی گدی پر بیٹھنے والوں کو اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ان کے نزدیک دانشمندی یہ ہے کہ اپنا کام کیے جاؤ، باقی جو ہو رہا ہے، ہونے دو۔
وہ چند روز سے بیمار ہیں۔ لوگ ان کی تیمارداری کو گئے ان کا کہنا ہے کہ وہ ہذیان بک رہی ہیں، کہتی ہیں کہ وطن عزیز ڈوب رہا ہے، کوئی آکر اسے بچالے، پھر سے اس کی بنیادوں کو مضبوط کردے، وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ تین آدمی ایسے ہیں جو اس ملک کو بچا سکتے ہیں وہ ہیں عمران خان جنھوں نے اپنے صوبے خیبر پختونخوا سے اقربا پروری، رشوت اور سفارش کو ایک گٹھڑی میں باندھ کر آگ لگادی ہے، عمران خان نے اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کو بھی بڑے عہدوں پر فائز نہیں کیا ہے اور انصاف کا بول بالا کیا ہے، تعلیم کو دوسرے کاموں پر ترجیح دی ہے، ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھائی، دھرنے دیے اور آخر کار معصوم لوگوں کی ہلاکت کو روکنے میں ایک اہم ترین کارنامہ انجام دیا۔ اسی طرح سے پرویز مشرف کا دور حکومت بھی ان کے بعد آنے والی حکومتوں سے کہیں بہتر تھا۔
انھیں اپنے وطن سے محبت تھی اور ہے۔گرانی کا شہد ہر شخص کو نہیں پلایا تھا اور اب تو یہ زہر ہلاہل گلی کوچوں میں مفت نہیں بلکہ باقاعدہ مہنگائی کی شکل میں فروخت کیا جا رہا ہے، لوگ مر رہے ہیں، قتل کیے جا رہے ہیں۔ افلاس کے غموں نے زندگی کے چراغوں کو گل کردیا ہے لیکن ہمارے مسند نشینوں نے طرب و نشاط کی مہ پی ہوئی ہے، مدہوش ہیں یہ لوگ، انھیں کسی کی فکر نہیں، لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کہہ رہی تھیں ملک کی مایہ ناز شخصیات کو اہل اقتدار نے نہ جانے کہاں گم کردیا ہے، بے نامی کے سمندر میں ڈبونے کی کوشش کی ہے لیکن تاریخ ایسے عظیم لوگوں کو نہیں بھولتی ہے۔ دیش کے باسی ایسے لوگوں کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرتے ہیں، اہل بصیرت نے یہ بھی سنا کہ وہ عبدالقدیر خان کو یاد کر رہی تھیں، وہ شہید ایمل کانسی کو دعائیں دے رہی تھیں، وطن کے شہیدوں کو نذرانہ عقیدت پیش کر رہی تھیں، عظیم فوج کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے اپنا ہاتھ پیشانی تک بلند کر رہی تھیں۔
لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ہوش میں نہ ہوتے ہوئے بھی ہوش کی باتیں کر رہی ہیں، لیکن ہوش و حواس رکھنے والے بے ہوش ہیں، ملک میں دشمن کام کر رہا ہے، بیرونی و اندرونی خطرات سے پاکستان گھر چکا ہے اور ہر روز مالی و جانی طور پر نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ لیکن ہر حکومت چین کی بانسری بجاتی ہے اور سکھ کے گیت الاپتی ہے، محض اپنے مفاد کے لیے، نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ملک سے ۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ عمر کی آخری سیڑھی پر ہیں اسی لیے نہ جانے کیا اول فول بکتی ہیں۔ کل کی ہی بات ہے وہ اول فول بک رہی تھیں کہ پاکستان کے لوگ باشعور نہیں ہیں بہت کم تعداد پڑھے لکھے لوگوں کی ہے، تو پھر ووٹ ڈالنے کا حق بھی ان ہی لوگوں کو ملنا چاہیے، جاہل، ان پڑھ لوگ ''دور کی کوڑی لانا''کی سمجھ نہیں رکھتے ہیں، بس بریانی اور زردے کی ایک ایک پلیٹ، برف کا ٹھنڈا پانی یا سوا دو سو روپے میں بڑی آسانی سے بک جاتے ہیں۔ اور آسانی سے ہی مان جاتے ہیں وہ حکومت وقت کے مظالم کو بھلا دیتے ہیں، روٹی، کپڑا، مکان کے وعدے کو مرغن کھانوں کے ساتھ ہضم کرلیتے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں بھوک بہت بری چیز ہے، افلاس بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔
یہ قاتل، لٹیرے کہاں سے آئے ہیں؟ میں بتاؤں، انھوں نے بھوک کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ سلطانہ ڈاکو نے بھی تو انڈا اسی لیے چرایا تھا کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا تھا، ماں بھوکی تھی، بیٹا بھوکا تھا، اس نے بھی حکمرانوں کی ہی طرح عارضی فائدے کو اپنا جانا اور بڑھتی ہوئی اشیا کو چوری کے انڈے کی بھینٹ چڑھادیا۔
وڈیرے، جاگیرداروں نے علم کے دروازوں کو مقفل کردیا ہے اگر کسی کے کان میں روشن الفاظ اتر جائیں اور اس کا سینہ منور ہوجائے تب یہ لوگ کانوں میں سیسہ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ہاری اپنا حق سمجھ سکے، یکم مئی کی چھٹی محض دکھاوا ہے۔ وہ شاید ہذیان بک رہی ہیں اگر ایسا ہی ہذیان ہے تو آؤ سب مل کر ہذیان بکیں۔
وہ خود بھی معزز خاندان کی فرد تھیں۔ انھوں نے بڑی محنت اور مشقت سے بچوں کو پالا پوسا اور اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی، پاکستان کی ترقی و استحکام میں ان کا ایک اہم کردار تھا وہ دامے، درمے، سخنے کے اعتبار سے آگے آگے تھیں پاکستان کی بنیاد میں خون دینے اور گارے مٹی میں اینٹیں رکھنے والوں میں ان کا بھی شمار تھا، لیکن جوں جوں حالات بدلتے گئے اور پاکستان کے منظر نامے میں خون کی چھینٹیں نظر آنے لگیں اور ہر روز لوگ باقاعدگی سے مرنے لگے، اس وقت سے وہ بے حد پریشان اور دکھی ہیں۔
چونکہ مرنے والوں میں ان کے تین جوان بیٹے اور شوہر شامل ہیں۔ گھر والے چلے گئے، سہارے ٹوٹ گئے، چھت چھین لی گئی، تب سے وہ بے آسرا و بے سہارا ہوگئیں، گلیوں گلیوں گھومتی ہیں گھروں گھروں میں جاکر اپنی المناک کہانی سناتی ہیں تو اچھے اچھوں کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو اگر پیسہ ہی بٹورنا تھا تو اس کے اور بھی دوسرے طریقے ہیں، یہ طریقہ غلط ہے کہ جھوٹ بول کر ووٹ وصول کرتے ہیں، جھوٹے حلف اٹھاتے ہیں، اقتدار کی مسند تک پہنچتے ہیں اور تعیشات زندگی میں غرق ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں کہ کس طرح وطن عزیز کو خون دینے والے پانی اور روٹی کو ترس گئے ہیں۔
لوٹ کھسوٹ نے پاکستان کا وقار ختم کردیا ہے نہ تدبر ہے نہ حکمت کے خزانے، بس وقتی فائدے کے بارے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی ذات پر ہزاروں نہیں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، عوام کے پاس سفر کے لیے سواری نہیں۔ ان کے پاس گاڑیوں کا قافلہ ہے جو ان کی شان و تمکنت (بقول ان کی سوچ کے) میں اضافے کا باعث ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اس ملک کی رعایا ان سے نفرت کرتی ہے، سر راہ برا بھلا کہتی ہے لیکن بادشاہت کی گدی پر بیٹھنے والوں کو اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ان کے نزدیک دانشمندی یہ ہے کہ اپنا کام کیے جاؤ، باقی جو ہو رہا ہے، ہونے دو۔
وہ چند روز سے بیمار ہیں۔ لوگ ان کی تیمارداری کو گئے ان کا کہنا ہے کہ وہ ہذیان بک رہی ہیں، کہتی ہیں کہ وطن عزیز ڈوب رہا ہے، کوئی آکر اسے بچالے، پھر سے اس کی بنیادوں کو مضبوط کردے، وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ تین آدمی ایسے ہیں جو اس ملک کو بچا سکتے ہیں وہ ہیں عمران خان جنھوں نے اپنے صوبے خیبر پختونخوا سے اقربا پروری، رشوت اور سفارش کو ایک گٹھڑی میں باندھ کر آگ لگادی ہے، عمران خان نے اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کو بھی بڑے عہدوں پر فائز نہیں کیا ہے اور انصاف کا بول بالا کیا ہے، تعلیم کو دوسرے کاموں پر ترجیح دی ہے، ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھائی، دھرنے دیے اور آخر کار معصوم لوگوں کی ہلاکت کو روکنے میں ایک اہم ترین کارنامہ انجام دیا۔ اسی طرح سے پرویز مشرف کا دور حکومت بھی ان کے بعد آنے والی حکومتوں سے کہیں بہتر تھا۔
انھیں اپنے وطن سے محبت تھی اور ہے۔گرانی کا شہد ہر شخص کو نہیں پلایا تھا اور اب تو یہ زہر ہلاہل گلی کوچوں میں مفت نہیں بلکہ باقاعدہ مہنگائی کی شکل میں فروخت کیا جا رہا ہے، لوگ مر رہے ہیں، قتل کیے جا رہے ہیں۔ افلاس کے غموں نے زندگی کے چراغوں کو گل کردیا ہے لیکن ہمارے مسند نشینوں نے طرب و نشاط کی مہ پی ہوئی ہے، مدہوش ہیں یہ لوگ، انھیں کسی کی فکر نہیں، لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کہہ رہی تھیں ملک کی مایہ ناز شخصیات کو اہل اقتدار نے نہ جانے کہاں گم کردیا ہے، بے نامی کے سمندر میں ڈبونے کی کوشش کی ہے لیکن تاریخ ایسے عظیم لوگوں کو نہیں بھولتی ہے۔ دیش کے باسی ایسے لوگوں کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرتے ہیں، اہل بصیرت نے یہ بھی سنا کہ وہ عبدالقدیر خان کو یاد کر رہی تھیں، وہ شہید ایمل کانسی کو دعائیں دے رہی تھیں، وطن کے شہیدوں کو نذرانہ عقیدت پیش کر رہی تھیں، عظیم فوج کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے اپنا ہاتھ پیشانی تک بلند کر رہی تھیں۔
لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ہوش میں نہ ہوتے ہوئے بھی ہوش کی باتیں کر رہی ہیں، لیکن ہوش و حواس رکھنے والے بے ہوش ہیں، ملک میں دشمن کام کر رہا ہے، بیرونی و اندرونی خطرات سے پاکستان گھر چکا ہے اور ہر روز مالی و جانی طور پر نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ لیکن ہر حکومت چین کی بانسری بجاتی ہے اور سکھ کے گیت الاپتی ہے، محض اپنے مفاد کے لیے، نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ملک سے ۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ عمر کی آخری سیڑھی پر ہیں اسی لیے نہ جانے کیا اول فول بکتی ہیں۔ کل کی ہی بات ہے وہ اول فول بک رہی تھیں کہ پاکستان کے لوگ باشعور نہیں ہیں بہت کم تعداد پڑھے لکھے لوگوں کی ہے، تو پھر ووٹ ڈالنے کا حق بھی ان ہی لوگوں کو ملنا چاہیے، جاہل، ان پڑھ لوگ ''دور کی کوڑی لانا''کی سمجھ نہیں رکھتے ہیں، بس بریانی اور زردے کی ایک ایک پلیٹ، برف کا ٹھنڈا پانی یا سوا دو سو روپے میں بڑی آسانی سے بک جاتے ہیں۔ اور آسانی سے ہی مان جاتے ہیں وہ حکومت وقت کے مظالم کو بھلا دیتے ہیں، روٹی، کپڑا، مکان کے وعدے کو مرغن کھانوں کے ساتھ ہضم کرلیتے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں بھوک بہت بری چیز ہے، افلاس بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔
یہ قاتل، لٹیرے کہاں سے آئے ہیں؟ میں بتاؤں، انھوں نے بھوک کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ سلطانہ ڈاکو نے بھی تو انڈا اسی لیے چرایا تھا کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا تھا، ماں بھوکی تھی، بیٹا بھوکا تھا، اس نے بھی حکمرانوں کی ہی طرح عارضی فائدے کو اپنا جانا اور بڑھتی ہوئی اشیا کو چوری کے انڈے کی بھینٹ چڑھادیا۔
وڈیرے، جاگیرداروں نے علم کے دروازوں کو مقفل کردیا ہے اگر کسی کے کان میں روشن الفاظ اتر جائیں اور اس کا سینہ منور ہوجائے تب یہ لوگ کانوں میں سیسہ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ہاری اپنا حق سمجھ سکے، یکم مئی کی چھٹی محض دکھاوا ہے۔ وہ شاید ہذیان بک رہی ہیں اگر ایسا ہی ہذیان ہے تو آؤ سب مل کر ہذیان بکیں۔