ججوں کے خط پر ازخود نوٹس سماعت سپریم کورٹ نے ردعمل کیلئے تجاویز طلب کرلیں
تحریری حکم نامے میں عدلیہ کے بطور ادارہ ردعمل کے لیے وفاق، سپریم کورٹ بار اور پاکستان بارکونسل سےتجاویز طلب کی گئی ہیں
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کی پہلی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا اور عدلیہ کی جانب سے بطور ادارہ جواب کے لیے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کرلیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پہلی سماعت کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ازخود نوٹس لیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا اور فل کورٹ اجلاس میں آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو حاصل استثنیٰ کا حوالہ دیا گیا۔
وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم یا وزیر قانون کو طلب نہیں کیا جا سکتا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق وفاقی وزیر قانون نے لاہور میں سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے گھر جا کر ملاقات کی اور بعد ازاں انکوائری کمیشن کے بارے میں مجوزہ ٹی او آرز بھی فراہم کیے گئے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ بدقسمتی سے تصدق حسین جیلانی کے خلاف سوشل میڈیا پر بری مہم چلائی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم نامے میں بتایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ججوں کے خط میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کے دور کا کوئی واقعہ درج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر عدلیہ کا بطور ادارہ ردعمل کے لیے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کر لی ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پہلی سماعت کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ازخود نوٹس لیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا اور فل کورٹ اجلاس میں آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو حاصل استثنیٰ کا حوالہ دیا گیا۔
وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم یا وزیر قانون کو طلب نہیں کیا جا سکتا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق وفاقی وزیر قانون نے لاہور میں سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے گھر جا کر ملاقات کی اور بعد ازاں انکوائری کمیشن کے بارے میں مجوزہ ٹی او آرز بھی فراہم کیے گئے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ بدقسمتی سے تصدق حسین جیلانی کے خلاف سوشل میڈیا پر بری مہم چلائی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم نامے میں بتایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ججوں کے خط میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کے دور کا کوئی واقعہ درج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر عدلیہ کا بطور ادارہ ردعمل کے لیے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کر لی ہیں۔