معیشت اور گورننس
پاکستان کے پاس ترقی وخوشحالی کا تمام پوٹینشل موجود ہے۔ ضرورت صرف بدانتظامی اور بے ایمانی کا خاتمہ کرنے کی ہے
پاکستان کے معاشی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، ملکی معیشت کے تمام پہیے ورکنگ حالت میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملک کئی برسوں سے مالی بحران کا شکار ہے اور ترقی کا سفر نیچے کی جانب ہے۔
گزشتہ سات آٹھ برس سے جاری سیاسی چپقلش، آئے روز کے احتجاجی مظاہرے، جلسے جلوس، دھرنے اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست نے کاروباری سرگرمیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، معاشی وژن کی کمی، ناقص معاشی حکمت عملی اور غیرحقیقی خارجہ پالیسی نے پاکستان کو معاشی لحاظ سے بھی تنہائی کا شکار کیا اور سفارتی حوالے سے بھی پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوا۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے بھی پاکستان کی معاشی صورت حال خراب ہوئی۔ بہرحال اب ماضی جیسی صورت حال تو نہیں ہے تاہم معاشی مسائل بدستور موجود ہیں۔ اس پس منظر میں نومنتخب حکومت اپنا کام کر رہی ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کی حکومت نے مثبت پیش رفت کی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی سالانہ آؤٹ لک رپورٹ میں کہا ہے کہ آیندہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 25فیصد سے کم ہوکر 15فیصد تک آ جائے گی، اس کا مطلب ہے کہ مہنگائی میں کسی حد تک کمی آئے گی۔ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے ایام میں اس بار اشیائے خورونوش اور ملبوسات وغیرہ کی قیمتیں خاصی حد تک کنٹرول میں رہی ہیں جب کہ مارکیٹ میں اشیاء کی قلت بھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ آٹے کی فی کلوگرام قیمت میں بھی استحکام رہا ہے ورنہ اس ایام میں گندم اور آٹے کی قیمتیں خاصی حد تک بڑھ جاتی تھیں۔
بہرحال اے ڈی بی کی سالانہ آؤٹ لک رپورٹ کا کہنا ہے کہ آیندہ مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا کے 46 ممالک میں سب سے بلند سطح پر ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی بحالی کے عمل کو مستحکم بنانے کے لئے اقتصادی اصلاحات اہم ہوں گی۔ میکرو اکنامک استحکام اور شرح نمو میں بتدریج اضافے کے لئے اکنامک ایڈجسٹمنٹ پروگرام کی پابندی بہت ضروری ہے۔ گو حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بینک نے سال رواں کے لئے افراط زرکا ہدف21 فیصد مقرر کر رکھا ہے تاہم موجودہ 22 فیصد شرح سود برقرار رہی تو 21 فیصد کا ہدف پورا ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2023 میں مہنگائی کی شرح 29.2 فیصد تک پہنچ گئی جو گزشتہ 50 برس کی بلند ترین سطح ہے۔ رپورٹ میں مہنگائی کی شرح بڑھنے کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں، ان کے مطابق پاکستان میں آنے والے سیلاب کے باعث خوراک کی سپلائی لائن میں رکاوٹیں آئیں، درآمدی کنٹرول کی وجہ سے بھی بعض اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بھی اشیائے ضروریہ اور درآمدی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم اے ڈی بی نے امید ظاہر کی ہے کہ اگر معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کیا گیا تو پاکستان کی معاشی بحالی کا عمل اس سال سے شروع ہو جائے گا اور مہنگائی میں بتدریج کمی آنا شروع ہوجائے گی البتہ توانائی کے مختلف ذرائع کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کے باعث رواں سال مہنگائی میں زیادہ کمی کا امکان نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان میں مہنگائی ایشیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے یعنی ہندوستان، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا وغیرہ میں بھی مہنگائی کی شرح پاکستان سے کم ہے۔ ادھر جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا جائزہ بتاتا ہے کہ پاکستان کا گروتھ ریٹ میانمار اور آذربائیجان کے بعد ایشیا کے تمام ممالک سے کم ہے۔ یہ پاکستان کی معاشی تصویر ہے جو یقینا زیادہ اچھی نہیں ہے۔
مالی سال 2023-24کے دوران پاکستان کی شرح نمو جی ڈی پی کے 1.9 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جب کہ مالی سال2023میں یہ شرح منفی0.2 فیصد تھی۔ یہ بھی اصلاحاتی اقدامات سے مشروط ہے، اگر اصلاحات میں پیشرفت ہوئی تو نجی شعبے کی سرمایہ کاری بہتری آئے گی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا، معاشی عدم توازن میں کمی آئے گی، سیاسی استحکام جاری رہا اور بہتر خارجہ پالیسی کے تسلسل کے باعث گروتھ ریٹ میں بہتری آئے گی اور آیندہ مالی سال شرح نمو2.8 فیصد ہونے کا تخمینہ ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
پاکستان کی حکومت اگر معاملہ فہمی اور سنجیدگی سے کام کرے تو ترقی کی رفتار میں مزید اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے اور اے ڈی بی کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ 2022کے تباہ کن سیلاب کے دیرپا اثرات، غیریقینی صورت حال اور30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال2023 کے دوران پیداوار، کھپت اور سرمایہ کاری میں کمی کے باعث پاکستان کی معیشت سکڑ گئی ہے۔ پاکستان کا اب بھی بیرونی ادائیگیوں کے لئے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک پر انحصار ہے لیکن رواں مالی سال پاکستان میں زرعی پیداوار اور صنعتی شعبے میں بہتری آنے کی امید ہے۔
اے ڈی بی کی سالانہ آؤٹ لک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی شرح نمو 4.8 فیصد جب کہ بھارت کی 7فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کس تیزرفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔ چین کی شرح میں کمی آئی ہے جب کہ بھارت اپنی شرح ترقی بہتر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ژونگ ژی نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کی معیشت بتدریج بحالی کی طرف گامزن ہے اورپاکستان میں فصلوں کی زیادہ پیداوار اور مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بہتری معاشی بحالی میں معاون ثابت ہوئی ہے، انھوں نے 2024 میں ترقی دوبارہ شروع ہونے اور2025 میں مضبوط ہونے کی پیش گوئی کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے لئے پالیسی اصلاحات کا مسلسل نفاذ بہت ضروری ہے۔ 2024میں اصلاحاتی اقدامات پر پیشرفت سے منسلک نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں بحالی سے ترقی کو سہارا ملے گا۔ 2025میں ترقی کے2.8فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ معاشی استحکام پر پیشرفت سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی مانیٹری پالیسی کو سخت رکھتے ہوئے شرح سودکو 22 فیصد پر ہی برقرار رکھا ہے۔ پاکستان میں 10 کروڑ کے لگ بھگ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ورلڈ بینک نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مزید ایک کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جاسکتے ہیں۔ بعض حلقے ایسے بحرانی حالات میں وزیراعظم آفس کے پہلے سے انتہائی مراعات یافتہ افسروں کو چار تنخواہیں بطور بونس دینے کے اعلان پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ تنقید کسی حد تک درست کہی جا سکتی ہے کیونکہ پہلے سے مراعات یافتہ لوگوں کو قومی خزانے سے مزید ادائیگیاں کرنا مناسب فیصلہ نہیں لگتا۔
اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جس کا اثرمیکرواکنامک پالیسی پر پڑتا ہے اصلاحاتی عمل کو متاثر کرسکتا ہے۔مشرق وسطیٰ میں جاری بحران کے بھی پاکستانی معیشت پر اثرات ہوں گے۔درمیانے درجے کے اصلاحاتی پروگرام کے لئے آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کے ذمے قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کا حجم بہت بڑھ چکا ہے، یہ حجم اب معیشت کے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے، اس پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف حکام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
حکومت پاکستان نے 2024 پرائمری سرپلس کا اندازہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد اور مجموعی خسارہ جی ڈی پی کے ساڑھے7 فیصد پر رکھنے کا اندازہ لگایا تھا، ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق ان دونوں میں بتدریج کمی آرہی ہے تاہم گزشتہ ہفتے ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ حکومت پاکستان ان دونوں اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
وفاقی وزارت اقتصادی امور نے ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی آؤٹ لک رپورٹ کو حکومتی پالیسیوں کی توثیق قرار دیا ہے اور عزم ظاہر کیا ہے کہ مستحکم اور پائیدار معیشت کے لئے کام شروع کر دیا گیا ہے، حکومت اے ڈی بی کی سفارشات پر عمل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔
پاکستان کے پاس ترقی وخوشحالی کا تمام پوٹینشل موجود ہے۔ ضرورت صرف بدانتظامی اور بے ایمانی کا خاتمہ کرنے کی ہے۔ منتخب وزیراعظم اور ان کی کابینہ اگر بے لاگ نگرانی کی روایت ڈال دے تو نوکرشاہی کو کنٹرول کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر نوکرشاہی کنٹرول ہو جائے اور ادارہ جاتی اختیارات میں توازن قائم ہو جائے، قوانین اور ضوابط واضح اور غیرمبہم ہوں تو کاروباری طبقے کو قانون کے دائرے میں لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
گزشتہ سات آٹھ برس سے جاری سیاسی چپقلش، آئے روز کے احتجاجی مظاہرے، جلسے جلوس، دھرنے اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست نے کاروباری سرگرمیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، معاشی وژن کی کمی، ناقص معاشی حکمت عملی اور غیرحقیقی خارجہ پالیسی نے پاکستان کو معاشی لحاظ سے بھی تنہائی کا شکار کیا اور سفارتی حوالے سے بھی پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوا۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے بھی پاکستان کی معاشی صورت حال خراب ہوئی۔ بہرحال اب ماضی جیسی صورت حال تو نہیں ہے تاہم معاشی مسائل بدستور موجود ہیں۔ اس پس منظر میں نومنتخب حکومت اپنا کام کر رہی ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کی حکومت نے مثبت پیش رفت کی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی سالانہ آؤٹ لک رپورٹ میں کہا ہے کہ آیندہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 25فیصد سے کم ہوکر 15فیصد تک آ جائے گی، اس کا مطلب ہے کہ مہنگائی میں کسی حد تک کمی آئے گی۔ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے ایام میں اس بار اشیائے خورونوش اور ملبوسات وغیرہ کی قیمتیں خاصی حد تک کنٹرول میں رہی ہیں جب کہ مارکیٹ میں اشیاء کی قلت بھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ آٹے کی فی کلوگرام قیمت میں بھی استحکام رہا ہے ورنہ اس ایام میں گندم اور آٹے کی قیمتیں خاصی حد تک بڑھ جاتی تھیں۔
بہرحال اے ڈی بی کی سالانہ آؤٹ لک رپورٹ کا کہنا ہے کہ آیندہ مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا کے 46 ممالک میں سب سے بلند سطح پر ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی بحالی کے عمل کو مستحکم بنانے کے لئے اقتصادی اصلاحات اہم ہوں گی۔ میکرو اکنامک استحکام اور شرح نمو میں بتدریج اضافے کے لئے اکنامک ایڈجسٹمنٹ پروگرام کی پابندی بہت ضروری ہے۔ گو حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بینک نے سال رواں کے لئے افراط زرکا ہدف21 فیصد مقرر کر رکھا ہے تاہم موجودہ 22 فیصد شرح سود برقرار رہی تو 21 فیصد کا ہدف پورا ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2023 میں مہنگائی کی شرح 29.2 فیصد تک پہنچ گئی جو گزشتہ 50 برس کی بلند ترین سطح ہے۔ رپورٹ میں مہنگائی کی شرح بڑھنے کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں، ان کے مطابق پاکستان میں آنے والے سیلاب کے باعث خوراک کی سپلائی لائن میں رکاوٹیں آئیں، درآمدی کنٹرول کی وجہ سے بھی بعض اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بھی اشیائے ضروریہ اور درآمدی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم اے ڈی بی نے امید ظاہر کی ہے کہ اگر معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کیا گیا تو پاکستان کی معاشی بحالی کا عمل اس سال سے شروع ہو جائے گا اور مہنگائی میں بتدریج کمی آنا شروع ہوجائے گی البتہ توانائی کے مختلف ذرائع کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کے باعث رواں سال مہنگائی میں زیادہ کمی کا امکان نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان میں مہنگائی ایشیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے یعنی ہندوستان، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا وغیرہ میں بھی مہنگائی کی شرح پاکستان سے کم ہے۔ ادھر جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا جائزہ بتاتا ہے کہ پاکستان کا گروتھ ریٹ میانمار اور آذربائیجان کے بعد ایشیا کے تمام ممالک سے کم ہے۔ یہ پاکستان کی معاشی تصویر ہے جو یقینا زیادہ اچھی نہیں ہے۔
مالی سال 2023-24کے دوران پاکستان کی شرح نمو جی ڈی پی کے 1.9 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جب کہ مالی سال2023میں یہ شرح منفی0.2 فیصد تھی۔ یہ بھی اصلاحاتی اقدامات سے مشروط ہے، اگر اصلاحات میں پیشرفت ہوئی تو نجی شعبے کی سرمایہ کاری بہتری آئے گی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا، معاشی عدم توازن میں کمی آئے گی، سیاسی استحکام جاری رہا اور بہتر خارجہ پالیسی کے تسلسل کے باعث گروتھ ریٹ میں بہتری آئے گی اور آیندہ مالی سال شرح نمو2.8 فیصد ہونے کا تخمینہ ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
پاکستان کی حکومت اگر معاملہ فہمی اور سنجیدگی سے کام کرے تو ترقی کی رفتار میں مزید اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے اور اے ڈی بی کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ 2022کے تباہ کن سیلاب کے دیرپا اثرات، غیریقینی صورت حال اور30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال2023 کے دوران پیداوار، کھپت اور سرمایہ کاری میں کمی کے باعث پاکستان کی معیشت سکڑ گئی ہے۔ پاکستان کا اب بھی بیرونی ادائیگیوں کے لئے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک پر انحصار ہے لیکن رواں مالی سال پاکستان میں زرعی پیداوار اور صنعتی شعبے میں بہتری آنے کی امید ہے۔
اے ڈی بی کی سالانہ آؤٹ لک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی شرح نمو 4.8 فیصد جب کہ بھارت کی 7فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کس تیزرفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔ چین کی شرح میں کمی آئی ہے جب کہ بھارت اپنی شرح ترقی بہتر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ژونگ ژی نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کی معیشت بتدریج بحالی کی طرف گامزن ہے اورپاکستان میں فصلوں کی زیادہ پیداوار اور مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بہتری معاشی بحالی میں معاون ثابت ہوئی ہے، انھوں نے 2024 میں ترقی دوبارہ شروع ہونے اور2025 میں مضبوط ہونے کی پیش گوئی کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے لئے پالیسی اصلاحات کا مسلسل نفاذ بہت ضروری ہے۔ 2024میں اصلاحاتی اقدامات پر پیشرفت سے منسلک نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں بحالی سے ترقی کو سہارا ملے گا۔ 2025میں ترقی کے2.8فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ معاشی استحکام پر پیشرفت سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی مانیٹری پالیسی کو سخت رکھتے ہوئے شرح سودکو 22 فیصد پر ہی برقرار رکھا ہے۔ پاکستان میں 10 کروڑ کے لگ بھگ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ورلڈ بینک نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مزید ایک کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جاسکتے ہیں۔ بعض حلقے ایسے بحرانی حالات میں وزیراعظم آفس کے پہلے سے انتہائی مراعات یافتہ افسروں کو چار تنخواہیں بطور بونس دینے کے اعلان پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ تنقید کسی حد تک درست کہی جا سکتی ہے کیونکہ پہلے سے مراعات یافتہ لوگوں کو قومی خزانے سے مزید ادائیگیاں کرنا مناسب فیصلہ نہیں لگتا۔
اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جس کا اثرمیکرواکنامک پالیسی پر پڑتا ہے اصلاحاتی عمل کو متاثر کرسکتا ہے۔مشرق وسطیٰ میں جاری بحران کے بھی پاکستانی معیشت پر اثرات ہوں گے۔درمیانے درجے کے اصلاحاتی پروگرام کے لئے آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کے ذمے قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کا حجم بہت بڑھ چکا ہے، یہ حجم اب معیشت کے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے، اس پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف حکام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
حکومت پاکستان نے 2024 پرائمری سرپلس کا اندازہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد اور مجموعی خسارہ جی ڈی پی کے ساڑھے7 فیصد پر رکھنے کا اندازہ لگایا تھا، ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق ان دونوں میں بتدریج کمی آرہی ہے تاہم گزشتہ ہفتے ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ حکومت پاکستان ان دونوں اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
وفاقی وزارت اقتصادی امور نے ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی آؤٹ لک رپورٹ کو حکومتی پالیسیوں کی توثیق قرار دیا ہے اور عزم ظاہر کیا ہے کہ مستحکم اور پائیدار معیشت کے لئے کام شروع کر دیا گیا ہے، حکومت اے ڈی بی کی سفارشات پر عمل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔
پاکستان کے پاس ترقی وخوشحالی کا تمام پوٹینشل موجود ہے۔ ضرورت صرف بدانتظامی اور بے ایمانی کا خاتمہ کرنے کی ہے۔ منتخب وزیراعظم اور ان کی کابینہ اگر بے لاگ نگرانی کی روایت ڈال دے تو نوکرشاہی کو کنٹرول کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر نوکرشاہی کنٹرول ہو جائے اور ادارہ جاتی اختیارات میں توازن قائم ہو جائے، قوانین اور ضوابط واضح اور غیرمبہم ہوں تو کاروباری طبقے کو قانون کے دائرے میں لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔