مولانا رومؒ کے مزار پر ہر وقت بانسری بجتی رہتی ہے
حضرت شمس تبریزؒ کا مرقد سادگی کی تصویر۔۔۔۔کوئی عبارت، نہ خطاطی، نہ ٹائل ورک
(ترکی کا سفرنامہ ۔۔۔ تیرہواں پڑاؤ)
میں نے کبھی کسی کنجوس کو محبت بانٹتے نہیں دیکھا
محبت تو ہمیشہ سخی کے ہاتھ سے پھوٹتی ہے
(حضرت شمس تبریز ؒ)
رات ہم نے سخی کے ہاتھ سے محبت پھوٹنے کا نظارہ بھی دیکھ لیا تھا۔ کیا سخی لوگ ہیں قونیہ والے، قونیہ میں داخل ہوتے ہی گلابوں کی خوشبو سے مہکتے ہوئے محبت کے جذبے محسوس کیے تو دل تو کیا دماغ بھی مہک اٹھا۔ صبح ناشتے پر ارحان کے بڑے بھائی حیان سے ملاقات ہوئی۔
ارحان نے کہا تھا، حیان میرا بڑھا بھائی ہے مگر وہ تو جڑواں بھائی لگ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے سلام کیا۔ اس کی مسکراہٹ بالکل ارحان کی طرح تھی، وہ میز پر ناشتہ لگا رہا تھا۔ ڈائننگ ہال میں اس وقت کافی لوگ تھے۔ دو عورتیں عمررسیدہ تھیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکا اور اس کی بیوی اور بچہ تھے۔ ایک ٹرکش خاتون اکیلی بیٹھی کسی سے فون پر مسلسل باتیں کررہی تھیں اور نوٹ بھی کرتی جارہی تھیں۔ وقت کم اور مقابلہ سخت والی بات تھی۔ ساتھ ناشتہ بھی کررہی تھیں۔ سب کچھ جلدی جلدی میں ختم کرکے نوٹ بک اٹھاکر وہ باہر چلیں گئیں۔ ایک میاں بیوی اور ان کے ساتھ دو نوجوان لڑکا لڑکی تھے۔
وہ سیاح لگ رہے تھے۔ حیان کو بالکل فرصت نہیں تھی وہ اور ایک اور لڑکا مسلسل کام کررہے تھے۔ ہم تو کافی دیر میں آئے تھے تقریباً سب نے ناشتہ ختم کرلیا تھا۔ صرف ایک صاحب اور آئے لیکن وہ کونے والے صوفے پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے رہے اور ٹی وی دیکھتے رہے۔ فرصت ملتے ہی حیان ہمارے پاس آگیا۔
ارحان نے بتایا تھا رات کو پاکستانی مہمان آگئے ہیں۔ وہ بتا رہا تھا کہ عزیز کہہ رہا تھا کہ میری ماں شمس ؒ اور مولانا کی زیارت کو جانا چاہتی ہے۔ حیان نے ہمیں بتایا کہ میری ماں کو بھی بہت عقیدت ہے۔ پہلے ہم یہاں رہتے تھے تو ماں روزانہ زیارت کو جاتی تھی۔ اب میری شادی ہوگئی تو ہم اس طرف چلے گئے ہیں۔
میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی ہے یہ دیکھو یہ میری فیملی کی تصویر ہے اس نے موبائل کھول کر ہر ٹرکش کی طرح فیملی فوٹو گراف دکھانی شروع کردی اس دوران ہم ہاں ہوں کرتے رہے۔ ''ادھر گلی سے بھی جاؤگے تو شمس زیادہ دور نہیں ہے اور ادھر ٹرام لے لینا وہ تم کو مولانا کے گیٹ پر اتار دے گی۔'' وہاں جاکر تمہاری روح سرشار ہوجائے گی ۔ حیان کی انگریزی بہت اچھی نہیں تھی مگر محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ قونیہ کے لوگ واقعی مولانا رومی سے بہت محبت کرتے ہیں۔
بہت زیادہ پروفیشنل بھی نہیں ہیں۔ ناشتے کا وقت ختم ہوگیا تھا حالاںکہ استنبول میں تو دس بجتے ہی ناشتہ اٹھالیا جاتا تھا مگر یہاں ابھی بھی ناشتہ لگا ہوا تھا اور دوسرا لڑکا ڈبل روٹی سیک کر رکھ رہا تھا۔ میں نے کہا آپ لوگ سے مل کر بہت خوشی ہوئی مگر ناشتے کا تو وقت ختم ہوگیا ہے۔ ہماری وجہ سے آپ کو دقت ہورہی ہے اور آپ کے بچے بہت پیارے ہیں ماشاء اﷲ۔ وہ خوش ہوگیا ماشاء اﷲ آپ کی محبت آپ Mavlana کے شہر میں آئے ہو ہمارے مہمان ہو اور مولانا کے بھی مہمان ہو وہ ہمیں تمام ممکنہ راستے بتا رہا تھا۔ ہم نے اس سے اجازت لی اور نیچے ریسیپشن پر آگئے۔
یہاں جو صاحب بیٹھے تھے وہ حیان اور ارحان کے بڑے بھائی لگ رہے تھے۔ وہ تسبیح پڑھ رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے سلام کیا اور تسبیح کو چوم کر ایک طرف رکھا اور Welcomeکیا۔ انہیں بھی معلوم تھا کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اب ہمیں اس پروٹوکول کی وجہ سمجھ میں آگئی، وہ ہمارا پاکستانی ہونا تھی اور وہ حیان اور ارحان کے والد تھے۔
ہم شمس ؒ جانے کے لیے نکلے مگر گلیوں کے راستے سے جانے کے بجائے سڑک تک آگئے۔ اس وقت دکانیں مکمل طور پر کھل چکی تھیں۔ گھڑیاں، سونا، بیکری، ہوٹل اور ایک ہی سڑک کے ساتھ بنے بازار میں سب کچھ مل رہا تھا۔ سونے اور گھڑیوں کی تو بہت بڑی بڑی دکانیں تھیں مگر ابھی تو ہمیں شمس جانا تھا۔ فٹ پاتھ بہت چوڑے بنے ہوئے تھے۔ سڑکیں بھی بہت کشادہ تھیں۔ ایک ہی جگہ ٹرام سروس اور آنے جانے والی بسوں کے اسٹاپ تھے۔
قونیہ میں انڈر گراؤنڈ میٹرو کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ شمسؒ کے بس اسٹاپ کے ساتھ ایک بہت بڑی مسجد تھی مگر اس کی بھی کوئی چاردیواری نہیں تھی۔ سامنے ایک باغ بھی تھا جہاں لوگ بیٹھے ہوئے تھے مگر مسجد میں کنسٹرکشن ہورہی تھی اس لیے بند تھی یہ مسجد شمسؒ کہلاتی ہے۔
شمس تبریزیؒ کا مزار کافی دور جاکر مسجد کے پچھلی طرف تھا۔ درمیان میں پتھریلا میدان تھا جو خاصا وسیع تھا، اس کی بھی کوئی چار دیواری نہیں تھی۔ پورے میدان میں جگہ جگہ درخت لگے تھے اور بے انتہا بڑے گھنے درخت بھی احاطے کی دیوار کی طرح سے لگے ہوئے تھے۔ یہاں آکر ایک پرسکون سی ٹھنڈک کا احساس ہورہا تھا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ شمس تبریزیؒ کا مزار بہت شان دار اور بڑا ہوگا، مگر یہ بہت سادہ بنا ہوا تھا۔ سامنے صحن میں وضوخانہ تھا۔
وہاں سب عورتیں اور مرد ساتھ ہی وضو کررہے تھے۔ کوئی تفریق نہیں تھی۔ یہ تفریق میں نے کہیں بھی نہیں دیکھی یہاں بھی سادگی تھی۔ سامنے سادہ سا بنا ہوا برآمدہ تھا جہاں جوتے رکھنے کے لیے ریک بنے ہوئے تھے۔ عزیز نے جتنی دیر میں وضو کیا۔ میں سامنے بینچیں لگی ہوئی تھیں وہاں بیٹھ گئی ایک وسیع اور پختہ صحن اور جگہ جگہ لگے درختوں کے سائے میں لگے ہوئے بینچ تھے۔ اس وقت رش بھی زیادہ نہیں تھا مگر ہم میں سے ایک شخص ہی وضو کرنے جاسکتا تھا، کیوںکہ جب کسی کو بھی جانا ہوتا وہ پاسپورٹ اور پیسے دوسرے کو پکڑا دیتا تھا۔ یہ ایک حفاظتی انتظام تھا جو کرنا ضروری تھا۔
میں جس بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے بالکل سامنے مزار تھا، جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ''راہ عشق میں بے خودی اور بے ہوشی سود مند اور باخبری نقصان دہ ہوتی ہے'' اور یہ ایسے ہی مرد قلندر درویش کی آخری آرام گاہ تھی جو راہ عشق میں دیوانہ ہوکر تبریز اناطولیہ آیا تھا۔ یہ تیرہویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا۔ یہی وہ مرد قلندر تھے جنہوں نے اناطولیہ پہنچ کر جلال الدین رومیؒ کو مولانا روم ؒبنا دیا اور مولانا روم ؒ کے پیرو مرشد کہلائے۔
ایک درویش ایک مرد قلندر کا مزار اتنا ہی سادہ ہونا چاہیے تھا جیسی درویشانہ زندگی وہ گزار گئے تھے۔ مزار پر لوگ آتے اندر جاکر فاتحہ پڑھتے اور چلے جاتے۔ عورتیں بھی اپنے بچوں کو پرام میں بٹھاکر آتیں، پرام کو وہیں کھڑا کرتیں، فاتحہ پڑھتیں اور واپس آجاتی تھیں۔ میں نے بھی وہیں سے فاتحہ پڑھ لی تھی مگر نظریں ابھی بھی کھلے دروازے سے اندر دیکھ رہی تھیں یہ ایک عجیب منظر تھا۔ محبت میں احترام اور عقیدت بھی شامل ہوجائے تو یہ احساس مجھے پہلی بار ہورہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ میں یہاں موجود ہی نہیں ہوں۔
یہ احساس مجھے جب ہوا جب عزیز نے میرا کاندھا ہلایا۔ اماں اماں! کیا سوچ رہی ہیں۔ میں تو کب سے آکر بیٹھا ہوا ہوں اندر چلتے ہیں۔ میرا یہاں سے اٹھنے کا دل نہیں کررہا تھا۔ ایک عجیب سا سکون پھیلا ہوا تھا۔ یہ مزار باہر سے جتنا سادہ تھا اندر سے بھی اتنا سادہ تھا۔ صرف آپ کی قبر مبارک پر ایک سبز چادر پڑی تھی۔ باقی نہ دیواروں پر، نہ چھت پر کوئی عبارت درج تھی، نہ خطاطی، نہ ٹائل ورک جو ہم نے ترکی کی ہر مسجد میں دیکھا تھا۔
سامنے کا ہال مسجد کے لیے استعمال ہوتا تھا ایک طرف خواتین والا حصہ تھا۔ میں نے یہاں کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی اور خواتین کے حصے میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی۔ جب ہم باہر آرہے تھے تو وہاں ایک بزرگ کھڑے تھے انہوں نے وہاں رکھی ہوئی مٹھائی اور پیک پانی کے گلاسوں کی طرف اشارہ کیا کہ یہ لے لو۔ ہم نے ایک ایک ٹکڑا اور پانی اٹھالیا۔ ہم جب باہر آنے لگے تو ایک ان کے ہم عمر صاحب نے ہمارے ساتھ آکر ہماری بائیں طرف اشارہ کیا۔ پاشا و بیگم پاشا ہم سمجھ گئے کہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ ہم ٹرکش نہیں ہیں۔ اس لیے انہوں نے باقی جگہ جانے کے لیے کہا تھا۔ دائیں طرف ایک چھوٹی سی سفید سنگ مرمر کی عمارت تھی جس کا پتھر وقت کے ساتھ کچھ پیلا ہوگیا تھا۔
دروازے میں تالا پڑا ہوا تھا۔ صرف کھڑکی سے اندر کی زیارت کی جاسکتی تھی۔ ہم نے فاتحہ پڑھی۔ تختی پر جو کچھ لکھا تھا تو ٹرکش زبان میں تھا جو ترجمہ عزیز نے گوگل سے کیا وہ کچھ یہ تھا کہ یہ پاشا اور ان کی بیگم کی قبریں ہیں جو شمس تبریزیؒ کے معتقدین تھے۔ پہلے ان کی بیگم یہاں دفن ہوئیں پھر ان پاشا نے اس جگہ کی تعمیر میں حصہ لیا لیکن جب ان کا انتقال کہیں اور ہوا پھر ان کی وصیت کے مطابق انہیں اپنی بیگم کے پہلو میں دفن کیاگیا۔
شمس تبریزیؒ کے باہر بائیں طرف بالکل مزار کے پہلو میں بھی ایک قبر تھی، جس کے بالکل قریب گلاب کے پھولوں کی جھاڑیاں تھیں۔ سرہانے کی طرف سے پھولوں کی پتیاں خود بخود قبر پر گر رہی تھیں مگر افسوس صرف اس بات کا تھا کہ ہم کتبہ نہ پڑھ سکے، کچھ مٹا مٹا سا تھا مگر اصل مقصد تو فاتحہ تھا، وہ مقصد پورا کیا اور دوبارہ اسی بینچ پر آکر بیٹھ گئے۔ کیا پُرسکون فضا تھی کہ جانے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔
اب کیا پروگرام ہے؟ عزیز نے پوچھا۔ میں نے کہا میرا دل تو یہاں سے جانے کا نہیں کررہا مگر جانا تو ہے اب مولانا روم ؒ کے مزار پر چلتے ہیں۔ ہمیں ٹرام سے جانا تھا، مگر اس سے پہلے قونیہ کارڈ چارج کروانا تھا۔ بس اسٹاپ پر ہی بوتھ بنے ہوئے تھے وہیں سے کارڈ چارج ہوگیا۔ ہم نے سڑک کراس کرکے ٹرام لے لی۔ ٹرام نے ہمیں بالکل مزار کے گیٹ پر اتار دیا۔
مولانا روم ؒ کا مزار ایک بہت بڑے احاطے کے درمیان ہے۔ داخلے کا گیٹ بھی بہت بڑا اور شان دار ہے۔ اندر داخل ہونے کے بعد کافی دور تک چلنا پڑتا ہے۔ احاطے میں ایک بہت بڑی مسجد ہے اس کا سبز گنبد دور سے نظر آتا ہے مگر آج کل اس مسجد میں بھی کام ہورہا تھا اور گنبد کی بھی تزین و آرائش کی جارہی تھی۔
مسجد مولانا روم ؒ کے نام سے منسوب ہے۔ مسجد کے ساتھ ہی مزار میں داخلے کا گیٹ تھا۔ داخل ہوتے ہی ہماری نظر ایک چھوٹی سی جگہ پر پڑی جہاں آٹھ دس قبریں تھیں۔ یہ مولانا کے خاندان والوں کی تھیں۔ ہر قبر کے گرد گلاب کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ اس وقت بھی کیاریاں مکمل پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔
دائیں طرف سے بھی راستے میں پھولوں کی کیاریاں تھیں جو پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔ چند قبریں اور بھی تھیں۔ جن کے گرد پھولوں کی کیاریاں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم گلابوں کے باغات میں چل رہے ہیں ایک مسحور کن خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔
اصل مزار میں داخلے کے لیے ایک اور گیٹ تھا جو کوئی دس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد تھا۔ یہ سفید پتھر کی بنی ہوئی صاف ستھری سیڑھیاں تھیں۔ گیٹ کے ختم ہوتے ہی ایک بڑا صحن تھا۔
ہم بائیں طرف والے برآمدے کی سمت آگئے۔ بھاری اور اونچے ستونوں والی سفید پتھر کی شان دار عمارت کے وسیع برآمدے میں داخل ہونے سے پہلے بھی سیڑھیاں تھیں جہاں لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ سیڑھیوں پر کچھ برآمدے کے ستونوں سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ وسیع صحن زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور جانے کے راستے پر لائن لگی ہوئی تھی۔ وہاں جوتے اتارنے کا طریقہ نہیں تھا بلکہ پیروں پر پلاسٹک کی تھیلیاں چڑھائی جاتی تھیں۔
صرف اندر جانے کے لیے لائن لگانی پڑتی تھی مگر اندر جاکر کتنی دیر وہاں رہنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ مولانا رومی ؒ کے مزار پر ہر وقت بانسری بجتی رہتی ہے اور ان کے مزار کا حصہ بہت شان دار ہے۔ پوری دیواروں، چھتوں اور ستونوں پر سنہرے اور سبز اور مختلف رنگوں سے بہت نفیس کام کیا ہوا ہے۔
مولانا رومی ؒ کے بالکل برابر ان کے دوست صلاح الدین کی قبر ہے۔ صلاح الدین کو کاتب رومیؒ بھی کہا جاتا ہے جو اصل نسخہ مثنوی مولانا روم ؒ میں موجود ہے وہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ اسی ہال میں بہت سے تبرکات بھی زیارت کے لیے رکھے ہوئے تھے جن میں مولانا کا جبہ بھی شامل تھا۔ باقی ان کے استعمال کی چیزیں تھیں، جیسے پانی پینے کا پیالہ، صراحی وغیرہ، قرآن شریف کے نسخے اور ان کی فقہ اور حدیث پر لکھی کتابیں بھی تھیں۔ بعد میں ان کے ایک بیٹے نے بھی مثنوی کی کتاب لکھی تھی۔ مولانا روم ؒ کا اصل وطن بخارا تھا مگر آپ بلخ میں پیدا ہوئے۔
ان کا زمانہ 1373عیسوی کا ہے۔ آپ کی شہرت کا سن کر سلجوقی حکم راں کے کہنے پر اناطولیہ تشریف لے آئے۔ اس زمانے میں انا طولیہ روم کہلاتا تھا تو مولانا اس نسبت سے مولانا روم ؒ کہلائے۔ ہم جب باہر آئے تو سامنے بڑی سی ناند میں ایک شخص وہ تھیلے جو ہم پاؤں میں پہنے ہوئے تھے وہ بڑے سے موسل سے کوٹ رہا تھا۔ ہم نے بھی اپنے تھیلے اس ناند میں ڈال دیے۔ دوسری طرف ایک بڑے سے کمرے میں اس زمانے کی بہت سی چیزیں تھیں اور مجسموں کی مدد سے اس وقت کے قونیہ کے ماحول کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ یہاں پر بھی داخلہ ایک لائن لگاکر لیا جاتا تھا۔
اس کمرے کے برابر سے ہی ایک طویل راہ داری تھی جس میں برابر برابر کمرے بنے ہوئے تھے۔
یہ مولانا کا مدرسہ تھا تین طرف برآمدے تھے اور کمرے اونچی چھتوں اور گنبد والے تھے جس میں سے ایک بڑی کھڑکی باہر کی جانب اور دوسری اندر کی جانب کھلتی تھی۔ بعض کمروں کے دروازے مقفل تھے۔ صرف چند کمرے کھلے ہوئے جہاں مولانا اور ان کے مدرسے سے متعلق اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔
درمیان میں مزار اور ان کمروں کے درمیان ایک کنواں تھا۔ جسے اب پاٹ دیا گیا تھا۔ اس میں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا جس کو لوگ چلاکر پانی پی رہے تھے اور اپنے بچوں کو بھی پلا رہے تھے اور ان کے منہ ہاتھ پر مل رہے تھے۔ سامنے چھوٹا سا حوض تھا جس میں سکے بھی پڑے ہوئے تھے۔
ہم جب گیٹ سے واپسی کے راستے پر آرہے تھے تو یہاں بھی ایک خوب صورت باغ تھا جو گلاب کے پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ جو راستہ اندر آنے کا تھا وہ الگ تھا اور باہر جانے کا راستہ دوسری طرف تھا، جہاں ایک اور بڑی مسجد تھی۔
یہ مسجد بھی ایک بڑے اور کشادہ میدان کے بعد بنی ہوئی تھی۔ پورا میدان پختہ تھا۔ عزیز کہنے لگا اماں اﷲ کا شکر ہے ہمیں یہاں کوئی فقیر نہیں ملا ورنہ ہم اگر اپنے ملک میں کسی ایسی جگہ جاتے تو فقیر تو ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیتے۔ اب موازنہ عزیز صاحب کررہے تھے۔ میں نے کہا بیٹا آپ نے کہا تھا اماں آپ تو ہر جگہ موازنہ کرتی ہیں اب آپ کو کیا ہوا۔ فرق معلوم ہوا اصل میں یہ انتظامی معاملات ہیں۔ اس کا فقیروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہ کہنے لگا ہمارے ملک میں غربت بہت زیادہ ہے اس لیے بھی فقیر زیادہ ہیں۔ میں نے کہا میرا نہیں خیال کہ غربت اس کی وجہ ہے، صرف ہم انتظامی طور پر کم زور قوم ہیں۔ گیٹ پر چیکنگ بھی اتنی سخت ہے کہ کوئی غلط شخص اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ پھر چندے خیرات کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ میں نے کہیں چندے کے بکس رکھے نہیں دیکھے۔ ہمارے ملک میں تو بڑے بڑے اسٹور اور فرنچائز والوں نے بھی چندہ باکس رکھنے شروع کردیے ہیں۔
نماز کا وقت ہورہا تھا۔ عزیز کہنے لگا اماں آپ ادھر میرا انتظار کریں میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔ میں اس مسجد کی اونچی چھت اور لمبے ستونوں والے برآمدے میں بیٹھ گئی۔ وہاں بہت لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بچے کھیل رہے تھے اور فیملی کے لوگ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے صرف میں ہی اکیلی تھی۔
ابھی مجھے بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک تیس بتیس سال کی خوب صورت سی لڑکی میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ اس نے السلام وعلیکم کہا۔ میں نے اس کے سوال کا جواب دیا۔ میں دو قدم اونچی جگہ بیٹھی ہوئی تھی اور وہ میرے سامنے کھڑی ہوئی تھی اور میرا چہرہ اس کے چہرے کے سامنے تھا۔ وہ مجھے نظریں گاڑے دیکھ رہی تھی۔
میں نے اس پر ایک نظر ڈالی اور چہرہ دوسری طرف کرلیا۔ عزیز نے جاتے وقت کہا تھا اماں! کسی اجنبی سے بات مت کیجیے گا۔ وہ دوسری طرف آکر کھڑی ہوگئی اور انگریزی میں کہا We are soul sisterاب میری سمجھ میں آیا کہ کیا مسئلہ ہے۔ لیکن میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ میرے اور قریب آکر انگریزی ٹرکش زبان میں ملا جلاکر بولی روحانی بہن soul sister میں کوئی فقیر نہیں ہوں مگر مجبوری ہے۔
اس لیے تم سے کچھ مدد مانگ رہی ہوں۔ میں نے اتنے لوگوں میں تم کو سب سے زیادہ رحم دل پایا ہے۔ اس روحانی جگہ کی برکت سے اﷲ تمہاری ساری مشکلیں آسان کردے گا۔ مجھے تو دل ہی دل میں ہنسی آگئی۔ واہ کیا جملہ کہہ دیا، ہمارے تو حکم رانوں سے لے کر فقیروں تک کو مانگنے کے ایک سو ایک طریقے آتے ہیں اور یہ جملہ جو تم نے بولا ہے وہ تو ہم روز ہی سنتے ہیں۔ میں تو بالکل ان جان بن گئی جیسے مجھے اس کی بات سمجھ ہی نہ آئی ہو۔
میں نے اردو میں کہا کیا کہہ رہی ہو مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے۔ میں نے سامنے کی طرف دیکھا وہاں تین نوجوان اسمارٹ پولیس والے کھڑے تھے وہ آپس میں بات چیت کررہے تھے جب ہم ادھر آرہے تھے تب یہ تینوں اسی انداز میں کھڑے تھے۔ اب جس کا منہ ہماری طرف تھا وہ مسلسل ادھر ہی دیکھ رہا تھا۔ اب وہ آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا لڑکی کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ لڑکی ابھی بھی کچھ کہہ رہی تھی۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر تو جیسے اس کے پر لگ گئے ہوں۔ وہ جس رفتار سے بھاگی ہے اس نے منٹوں میں وہ جگہ کراس کی اور نظروں سے غائب ہوگئی۔
عزیز اس وقت مسجد کے دروازے پر کھڑا جوتے پہن رہا تھا۔ اس نے جو لڑکی کو بھاگتے اور پولیس والے کو میرے پاس کھڑا ہوا دیکھا تو جوتے ہاتھ میں پکڑے بھاگتا ہوا آگیا۔
کیا ہوا اماں وہ گھبراگیا تھا۔
پولیس والے نے عزیز سے ہاتھ ملایا اور انگریزی میں کہا:
پریشان مت ہوں۔ ہم اس لڑکی کو واچ کررہے تھے۔ وہ دیر سے تمہارے پیچھے تھی، Relex ہم یہاں ہیں۔ اگر کچھ Helpچاہیے تو بتانا۔
عزیز نے اس کا شکریہ ادا کرکے مجھ سے پوچھا اماں کیا ہوا تھا۔ میں پھر سے ان جان بن گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی۔ ہم تو اپنی پولیس سے ڈرے ہوئے لوگ تھے اگر یہ کہتا کہ چلو تھانے بیان لکھواؤ۔ کچھ خرچہ پانی دو اس لڑکی کا مقصد کیا تھا، کیا آپ لوگ اس کو پہلے سے جانتے ہیں۔ ہماری پولیس تو ایسے ہی سوال کرتی ہے الٹی آنتیں گلے پڑجائیں۔
عزیز نے اس سے کہا میری ماں کی سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ وہ okکرتا ہوا اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد عزیز نے پوچھا اماں! کیا معاملہ تھا۔ میں نے پوری بات عزیز کو بتادی اس نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا اماں اچھا ہوا آپ نے soul sister کو دینے کے لیے پرس نہیں کھولا ورنہ وہ ساری رقم لے اڑتی۔ ساتھ پاسپورٹ ویزہ سب جاتے، میں تو یہ سوچ رہا ہوں اگر ایسا ہوجاتا تو کیا ہوتا؟
جب میں نے پہلی بار اس سے منہ موڑا تو وہ میرے سامنے آگئی تھی وہ چاہ رہی تھی کہ میں اس سے آنکھیں ملا لوں۔ اب جو یہ سب سوچا تو ہزاروں وسوسے، خدشات ذہن میں آنے لگے۔ ہم دونوں نے لاحول پڑھی درود شریف اور جو بھی زبان اور ذہن میں آیا سب پڑھ کر پھونک لیا۔ سب بھوک پیاس اڑ چکی تھی۔ ہم دونوں خالی ذہن کے ساتھ کافی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ وہ تینوں پولیس والے اب وہاں نہیں تھے لیکن یہ ہمت بندھ گئی تھی کہ یہاں کی پولیس جرم روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ راستہ ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اس سے متصل تھا۔ بس یا ٹرام سے جانے کی ضرورت نہ تھی۔ سامنے ایک جوس والا بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے وہاں سے گاجر اور اورنج کا مکس جوس پیا۔ یہاں زیادہ ریڈبلڈ مالٹے ہوتے ہیں یا موسمی ہوتی ہے۔ دکان دار نے جوس نکلانے سے پہلے ہم سے پوچھا کہ اس میں گاجر مکس کردوں ٹیسٹ بڑھ جائے گا۔ واقعی اس نے موسمی ریڈ بلڈ مالٹے اور گاجر مکس کرکے بہترین جوس بنایا تھا اور خاصے بڑے ڈسپوزایبل گلاسوں میں ڈال کر دیا تھا۔
ہم جہاں بیٹھے ہوئے تھے اس میں زیادہ تر دکانیں ہینڈی کرافٹ کی تھیں جو زیادہ تر مولانا رومی ؒ کے مزار کے ماڈل اور رقص درویش کے اسٹائل کی تھیں۔ عزیز نے کہا اماں! میرا کہیں جانے کا دل نہیں کررہا ہے ایسا کرتے ہیں ہوٹل چلتے ہیں۔ ایسا میرا بھی دل ہورہا تھا۔ ابھی تک ہمارا ٹرپ بہت پرسکون اور شان دار رہا تھا۔ ہر قدم پر راہ نمائی کرنے والے لوگ ملے تھے۔ ہم نے دوست بنائے تھے اور فقیر اور اس قسم کے نوسربازوں کی تو ہم پروا نہیں کرتے ہیں مگر عزیز کو اچھا نہیں لگا تھا۔ بقول اس کے مجھے اس لڑکی کو بھاگتے اور پولیس والے کو دیکھ کر عجیب سا لگا تھا۔ میں نے سوچا آخر میں اماں کو اکیلا چھوڑ کر کیوں گیا۔
میں نے کہا بیٹا! اس کا ایک ہی علاج ہے وہ ہے شاپنگ۔ آؤ آج یہاں سے ہینڈی کرافٹ خریدتے ہیں اور اپنی اماں کی طرف سے پریشان مت ہو۔ میں کوئی اتنی بچی بھی نہیں تھی کہ وہ مجھ سے کچھ چھین سکتی۔ میں نے تو اس کی طرف منہ ہی نہیں کیا۔
ہم قونیہ کی ہینڈی کرافٹ مارکیٹ میں جو داخل ہوئے تو باہر نکلنے کا دل ہی نہیں چاہا۔ کیا کیا چیزیں تھیں، خوب صورتی نفاست اور قیمت بھی مناسب تھی۔ خریدا تو اتنا نہیں جتنا دیکھ لیا تھا جس دکان میں داخل ہو کوئی نئی چیز نظر آجاتی۔ مجھے تو قونیہ کی ہینڈی کرافٹ میں رقص درویش والی ٹرے بہت اچھی لگیں۔
میں نے تحفے میں دینے کے لیے لے لیں۔ کچھ چھوٹے چھوٹے ماڈل تھے۔ وزن کا بھی تو خیال رکھنا تھا۔ آتے وقت عائشہ نے کہا تھا، اماں! میرے لیے قونیہ کی مٹھائی ضرور لائیے گا۔ عنایا کو تو جیولری کا شوق ہے ایک جگہ رقص درویش کا ہار اور بندے کا سیٹ ملا تو حیرانی ہوئی اتنا باریک کام تھا۔ ہیئرپن کا سیٹ تھا جس پر رقص درویش بنا ہوا تھا۔ وہ انان کے لیے لیا، اسے ہیئر پن کا شوق ہے۔ بس یہ خیال کیا کہ سامان بھاری نہ ہو۔ اچھا خاصا وقت گزرگیا بس ذہن سے بھی سب نکل گیا مغرب کی اذان میں دیر تھی اور سورج نہیں ڈوبا تھا۔ سامان بھی زیادہ بھاری نہ تھا۔
ارحان نے کہا تھا کہ مولانا رومی ؒکا راستہ گلیوں سے ہوکر بہت قریب پڑتا ہے اور بالکل ہوٹل کے سامنے نکلتا ہے۔ دوسرا راستہ پہلے ایک بہت بڑی مارکیٹ پڑے گی پھر سیدھے راستے سے ہوتے ہوئے ہوٹل والی اسٹریٹ آئے گی، پھر مڑکر ہوٹل آئے گا۔
کیا خیال ہے اماں ہم گلی سے نکلتے ہیں۔ ہوٹل پہنچ کر فریش ہوکر کھانا کھانے نکلیں گے۔ یہ ٹھیک ہے مجھے بھی یہ تجویز مناسب لگی۔ ہم جس جگہ سے مڑے تھے وہاں خاصے ہوٹل اور دکانیں بنی ہوئی تھیں اور خاصا رش تھا مگر جیسے جیسے ہم آگے بڑھے رہائشی علاقہ شروع ہوگیا اور علاقے کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں بالکل غریب لوگ رہتے ہیں۔ پرانی طرز کے پلستر جھڑے چھوٹے فلیٹوں اور مکانوں کی وجہ سے اور اندھیرا سا لگ رہا تھا۔ گلیاں بھی ٹیڑھی میڑھی تھیں۔ کئی جگہ خالی پلاٹ بھی تھے جہاں کچرے کے ڈس بن رکھے ہوئے تھے۔
اب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر مشکل یہ تھی ہم نے جتنا فاصلہ طے کیا تھا اتنا ہی فاصلہ طے کرکے ہوٹل بھی تھا۔ اب واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
میں نے کہا عزیز جلدی جلدی چلو اور گلی کراس کرلو۔ ایک جگہ کچھ ادھیڑ عمر عورتیں بیٹھی کسی بحث میں الجھی ہوئی تھیں، ان کے قریب بچے کھیل رہے تھے اور ایک سبزی کی دکان تھی جس پر ایک بوڑھا سبزی والا بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ سامنے کے خالی پلاٹ پر ایک عورت نے کچرے سے ڈھونڈ کر خالی بوتلیں جمع کی ہوئی تھیں اور وہیں بیٹھ کر ایک ایک بوتل سے بچی شراب کے قطرے حلق میں انڈیل کر حلق تر کررہی تھی۔
میں نے عزیز سے کہا ہمارا اﷲ کتنا سخی ہے اپنے بندے کو کبھی مایوس نہیں کرتا، بندے کو جس چیز کی چاہ ہوتی ہے اسے ضرور دیتا ہے۔ عزیز کہنے لگا، اماں! آپ بھی حد کرتی ہیں یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کی بندہ چاہ کرے اور اﷲ دے دے۔ ہاں اﷲ ہی ہے، جس کو کچرے سے ڈھونڈ کر شراب پینے کی چاہت ہے جو اسے کچرے سے ضرور ملے گی اور جیسے کوئلے کی کان سے ہیرا ملنے کی چاہت ہے تو اسے ضرور ملے گا۔
اسی وقت پیچھے سے کسی کے قدموں کی آواز آئی۔ یہ دو پولیس والے تھے جو گلیوں میں گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر انہوں نے ہیلو کہا اور باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ایسے پولیس والے رات کو استنبول میں بھی گشت کرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر ہماری بھی ہمت بندھ گئی۔ ہم تو تھے ہی گلی کے سرے پر مگر یہ تو وہ جگہ ہی نہ تھی جہاں ہمارا ہوٹل تھا۔
یہاں ہم اپنے پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔
میں نے کبھی کسی کنجوس کو محبت بانٹتے نہیں دیکھا
محبت تو ہمیشہ سخی کے ہاتھ سے پھوٹتی ہے
(حضرت شمس تبریز ؒ)
رات ہم نے سخی کے ہاتھ سے محبت پھوٹنے کا نظارہ بھی دیکھ لیا تھا۔ کیا سخی لوگ ہیں قونیہ والے، قونیہ میں داخل ہوتے ہی گلابوں کی خوشبو سے مہکتے ہوئے محبت کے جذبے محسوس کیے تو دل تو کیا دماغ بھی مہک اٹھا۔ صبح ناشتے پر ارحان کے بڑے بھائی حیان سے ملاقات ہوئی۔
ارحان نے کہا تھا، حیان میرا بڑھا بھائی ہے مگر وہ تو جڑواں بھائی لگ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے سلام کیا۔ اس کی مسکراہٹ بالکل ارحان کی طرح تھی، وہ میز پر ناشتہ لگا رہا تھا۔ ڈائننگ ہال میں اس وقت کافی لوگ تھے۔ دو عورتیں عمررسیدہ تھیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکا اور اس کی بیوی اور بچہ تھے۔ ایک ٹرکش خاتون اکیلی بیٹھی کسی سے فون پر مسلسل باتیں کررہی تھیں اور نوٹ بھی کرتی جارہی تھیں۔ وقت کم اور مقابلہ سخت والی بات تھی۔ ساتھ ناشتہ بھی کررہی تھیں۔ سب کچھ جلدی جلدی میں ختم کرکے نوٹ بک اٹھاکر وہ باہر چلیں گئیں۔ ایک میاں بیوی اور ان کے ساتھ دو نوجوان لڑکا لڑکی تھے۔
وہ سیاح لگ رہے تھے۔ حیان کو بالکل فرصت نہیں تھی وہ اور ایک اور لڑکا مسلسل کام کررہے تھے۔ ہم تو کافی دیر میں آئے تھے تقریباً سب نے ناشتہ ختم کرلیا تھا۔ صرف ایک صاحب اور آئے لیکن وہ کونے والے صوفے پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے رہے اور ٹی وی دیکھتے رہے۔ فرصت ملتے ہی حیان ہمارے پاس آگیا۔
ارحان نے بتایا تھا رات کو پاکستانی مہمان آگئے ہیں۔ وہ بتا رہا تھا کہ عزیز کہہ رہا تھا کہ میری ماں شمس ؒ اور مولانا کی زیارت کو جانا چاہتی ہے۔ حیان نے ہمیں بتایا کہ میری ماں کو بھی بہت عقیدت ہے۔ پہلے ہم یہاں رہتے تھے تو ماں روزانہ زیارت کو جاتی تھی۔ اب میری شادی ہوگئی تو ہم اس طرف چلے گئے ہیں۔
میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی ہے یہ دیکھو یہ میری فیملی کی تصویر ہے اس نے موبائل کھول کر ہر ٹرکش کی طرح فیملی فوٹو گراف دکھانی شروع کردی اس دوران ہم ہاں ہوں کرتے رہے۔ ''ادھر گلی سے بھی جاؤگے تو شمس زیادہ دور نہیں ہے اور ادھر ٹرام لے لینا وہ تم کو مولانا کے گیٹ پر اتار دے گی۔'' وہاں جاکر تمہاری روح سرشار ہوجائے گی ۔ حیان کی انگریزی بہت اچھی نہیں تھی مگر محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ قونیہ کے لوگ واقعی مولانا رومی سے بہت محبت کرتے ہیں۔
بہت زیادہ پروفیشنل بھی نہیں ہیں۔ ناشتے کا وقت ختم ہوگیا تھا حالاںکہ استنبول میں تو دس بجتے ہی ناشتہ اٹھالیا جاتا تھا مگر یہاں ابھی بھی ناشتہ لگا ہوا تھا اور دوسرا لڑکا ڈبل روٹی سیک کر رکھ رہا تھا۔ میں نے کہا آپ لوگ سے مل کر بہت خوشی ہوئی مگر ناشتے کا تو وقت ختم ہوگیا ہے۔ ہماری وجہ سے آپ کو دقت ہورہی ہے اور آپ کے بچے بہت پیارے ہیں ماشاء اﷲ۔ وہ خوش ہوگیا ماشاء اﷲ آپ کی محبت آپ Mavlana کے شہر میں آئے ہو ہمارے مہمان ہو اور مولانا کے بھی مہمان ہو وہ ہمیں تمام ممکنہ راستے بتا رہا تھا۔ ہم نے اس سے اجازت لی اور نیچے ریسیپشن پر آگئے۔
یہاں جو صاحب بیٹھے تھے وہ حیان اور ارحان کے بڑے بھائی لگ رہے تھے۔ وہ تسبیح پڑھ رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے سلام کیا اور تسبیح کو چوم کر ایک طرف رکھا اور Welcomeکیا۔ انہیں بھی معلوم تھا کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اب ہمیں اس پروٹوکول کی وجہ سمجھ میں آگئی، وہ ہمارا پاکستانی ہونا تھی اور وہ حیان اور ارحان کے والد تھے۔
ہم شمس ؒ جانے کے لیے نکلے مگر گلیوں کے راستے سے جانے کے بجائے سڑک تک آگئے۔ اس وقت دکانیں مکمل طور پر کھل چکی تھیں۔ گھڑیاں، سونا، بیکری، ہوٹل اور ایک ہی سڑک کے ساتھ بنے بازار میں سب کچھ مل رہا تھا۔ سونے اور گھڑیوں کی تو بہت بڑی بڑی دکانیں تھیں مگر ابھی تو ہمیں شمس جانا تھا۔ فٹ پاتھ بہت چوڑے بنے ہوئے تھے۔ سڑکیں بھی بہت کشادہ تھیں۔ ایک ہی جگہ ٹرام سروس اور آنے جانے والی بسوں کے اسٹاپ تھے۔
قونیہ میں انڈر گراؤنڈ میٹرو کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ شمسؒ کے بس اسٹاپ کے ساتھ ایک بہت بڑی مسجد تھی مگر اس کی بھی کوئی چاردیواری نہیں تھی۔ سامنے ایک باغ بھی تھا جہاں لوگ بیٹھے ہوئے تھے مگر مسجد میں کنسٹرکشن ہورہی تھی اس لیے بند تھی یہ مسجد شمسؒ کہلاتی ہے۔
شمس تبریزیؒ کا مزار کافی دور جاکر مسجد کے پچھلی طرف تھا۔ درمیان میں پتھریلا میدان تھا جو خاصا وسیع تھا، اس کی بھی کوئی چار دیواری نہیں تھی۔ پورے میدان میں جگہ جگہ درخت لگے تھے اور بے انتہا بڑے گھنے درخت بھی احاطے کی دیوار کی طرح سے لگے ہوئے تھے۔ یہاں آکر ایک پرسکون سی ٹھنڈک کا احساس ہورہا تھا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ شمس تبریزیؒ کا مزار بہت شان دار اور بڑا ہوگا، مگر یہ بہت سادہ بنا ہوا تھا۔ سامنے صحن میں وضوخانہ تھا۔
وہاں سب عورتیں اور مرد ساتھ ہی وضو کررہے تھے۔ کوئی تفریق نہیں تھی۔ یہ تفریق میں نے کہیں بھی نہیں دیکھی یہاں بھی سادگی تھی۔ سامنے سادہ سا بنا ہوا برآمدہ تھا جہاں جوتے رکھنے کے لیے ریک بنے ہوئے تھے۔ عزیز نے جتنی دیر میں وضو کیا۔ میں سامنے بینچیں لگی ہوئی تھیں وہاں بیٹھ گئی ایک وسیع اور پختہ صحن اور جگہ جگہ لگے درختوں کے سائے میں لگے ہوئے بینچ تھے۔ اس وقت رش بھی زیادہ نہیں تھا مگر ہم میں سے ایک شخص ہی وضو کرنے جاسکتا تھا، کیوںکہ جب کسی کو بھی جانا ہوتا وہ پاسپورٹ اور پیسے دوسرے کو پکڑا دیتا تھا۔ یہ ایک حفاظتی انتظام تھا جو کرنا ضروری تھا۔
میں جس بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے بالکل سامنے مزار تھا، جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ''راہ عشق میں بے خودی اور بے ہوشی سود مند اور باخبری نقصان دہ ہوتی ہے'' اور یہ ایسے ہی مرد قلندر درویش کی آخری آرام گاہ تھی جو راہ عشق میں دیوانہ ہوکر تبریز اناطولیہ آیا تھا۔ یہ تیرہویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا۔ یہی وہ مرد قلندر تھے جنہوں نے اناطولیہ پہنچ کر جلال الدین رومیؒ کو مولانا روم ؒبنا دیا اور مولانا روم ؒ کے پیرو مرشد کہلائے۔
ایک درویش ایک مرد قلندر کا مزار اتنا ہی سادہ ہونا چاہیے تھا جیسی درویشانہ زندگی وہ گزار گئے تھے۔ مزار پر لوگ آتے اندر جاکر فاتحہ پڑھتے اور چلے جاتے۔ عورتیں بھی اپنے بچوں کو پرام میں بٹھاکر آتیں، پرام کو وہیں کھڑا کرتیں، فاتحہ پڑھتیں اور واپس آجاتی تھیں۔ میں نے بھی وہیں سے فاتحہ پڑھ لی تھی مگر نظریں ابھی بھی کھلے دروازے سے اندر دیکھ رہی تھیں یہ ایک عجیب منظر تھا۔ محبت میں احترام اور عقیدت بھی شامل ہوجائے تو یہ احساس مجھے پہلی بار ہورہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ میں یہاں موجود ہی نہیں ہوں۔
یہ احساس مجھے جب ہوا جب عزیز نے میرا کاندھا ہلایا۔ اماں اماں! کیا سوچ رہی ہیں۔ میں تو کب سے آکر بیٹھا ہوا ہوں اندر چلتے ہیں۔ میرا یہاں سے اٹھنے کا دل نہیں کررہا تھا۔ ایک عجیب سا سکون پھیلا ہوا تھا۔ یہ مزار باہر سے جتنا سادہ تھا اندر سے بھی اتنا سادہ تھا۔ صرف آپ کی قبر مبارک پر ایک سبز چادر پڑی تھی۔ باقی نہ دیواروں پر، نہ چھت پر کوئی عبارت درج تھی، نہ خطاطی، نہ ٹائل ورک جو ہم نے ترکی کی ہر مسجد میں دیکھا تھا۔
سامنے کا ہال مسجد کے لیے استعمال ہوتا تھا ایک طرف خواتین والا حصہ تھا۔ میں نے یہاں کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی اور خواتین کے حصے میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی۔ جب ہم باہر آرہے تھے تو وہاں ایک بزرگ کھڑے تھے انہوں نے وہاں رکھی ہوئی مٹھائی اور پیک پانی کے گلاسوں کی طرف اشارہ کیا کہ یہ لے لو۔ ہم نے ایک ایک ٹکڑا اور پانی اٹھالیا۔ ہم جب باہر آنے لگے تو ایک ان کے ہم عمر صاحب نے ہمارے ساتھ آکر ہماری بائیں طرف اشارہ کیا۔ پاشا و بیگم پاشا ہم سمجھ گئے کہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ ہم ٹرکش نہیں ہیں۔ اس لیے انہوں نے باقی جگہ جانے کے لیے کہا تھا۔ دائیں طرف ایک چھوٹی سی سفید سنگ مرمر کی عمارت تھی جس کا پتھر وقت کے ساتھ کچھ پیلا ہوگیا تھا۔
دروازے میں تالا پڑا ہوا تھا۔ صرف کھڑکی سے اندر کی زیارت کی جاسکتی تھی۔ ہم نے فاتحہ پڑھی۔ تختی پر جو کچھ لکھا تھا تو ٹرکش زبان میں تھا جو ترجمہ عزیز نے گوگل سے کیا وہ کچھ یہ تھا کہ یہ پاشا اور ان کی بیگم کی قبریں ہیں جو شمس تبریزیؒ کے معتقدین تھے۔ پہلے ان کی بیگم یہاں دفن ہوئیں پھر ان پاشا نے اس جگہ کی تعمیر میں حصہ لیا لیکن جب ان کا انتقال کہیں اور ہوا پھر ان کی وصیت کے مطابق انہیں اپنی بیگم کے پہلو میں دفن کیاگیا۔
شمس تبریزیؒ کے باہر بائیں طرف بالکل مزار کے پہلو میں بھی ایک قبر تھی، جس کے بالکل قریب گلاب کے پھولوں کی جھاڑیاں تھیں۔ سرہانے کی طرف سے پھولوں کی پتیاں خود بخود قبر پر گر رہی تھیں مگر افسوس صرف اس بات کا تھا کہ ہم کتبہ نہ پڑھ سکے، کچھ مٹا مٹا سا تھا مگر اصل مقصد تو فاتحہ تھا، وہ مقصد پورا کیا اور دوبارہ اسی بینچ پر آکر بیٹھ گئے۔ کیا پُرسکون فضا تھی کہ جانے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔
اب کیا پروگرام ہے؟ عزیز نے پوچھا۔ میں نے کہا میرا دل تو یہاں سے جانے کا نہیں کررہا مگر جانا تو ہے اب مولانا روم ؒ کے مزار پر چلتے ہیں۔ ہمیں ٹرام سے جانا تھا، مگر اس سے پہلے قونیہ کارڈ چارج کروانا تھا۔ بس اسٹاپ پر ہی بوتھ بنے ہوئے تھے وہیں سے کارڈ چارج ہوگیا۔ ہم نے سڑک کراس کرکے ٹرام لے لی۔ ٹرام نے ہمیں بالکل مزار کے گیٹ پر اتار دیا۔
مولانا روم ؒ کا مزار ایک بہت بڑے احاطے کے درمیان ہے۔ داخلے کا گیٹ بھی بہت بڑا اور شان دار ہے۔ اندر داخل ہونے کے بعد کافی دور تک چلنا پڑتا ہے۔ احاطے میں ایک بہت بڑی مسجد ہے اس کا سبز گنبد دور سے نظر آتا ہے مگر آج کل اس مسجد میں بھی کام ہورہا تھا اور گنبد کی بھی تزین و آرائش کی جارہی تھی۔
مسجد مولانا روم ؒ کے نام سے منسوب ہے۔ مسجد کے ساتھ ہی مزار میں داخلے کا گیٹ تھا۔ داخل ہوتے ہی ہماری نظر ایک چھوٹی سی جگہ پر پڑی جہاں آٹھ دس قبریں تھیں۔ یہ مولانا کے خاندان والوں کی تھیں۔ ہر قبر کے گرد گلاب کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ اس وقت بھی کیاریاں مکمل پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔
دائیں طرف سے بھی راستے میں پھولوں کی کیاریاں تھیں جو پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔ چند قبریں اور بھی تھیں۔ جن کے گرد پھولوں کی کیاریاں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم گلابوں کے باغات میں چل رہے ہیں ایک مسحور کن خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔
اصل مزار میں داخلے کے لیے ایک اور گیٹ تھا جو کوئی دس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد تھا۔ یہ سفید پتھر کی بنی ہوئی صاف ستھری سیڑھیاں تھیں۔ گیٹ کے ختم ہوتے ہی ایک بڑا صحن تھا۔
ہم بائیں طرف والے برآمدے کی سمت آگئے۔ بھاری اور اونچے ستونوں والی سفید پتھر کی شان دار عمارت کے وسیع برآمدے میں داخل ہونے سے پہلے بھی سیڑھیاں تھیں جہاں لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ سیڑھیوں پر کچھ برآمدے کے ستونوں سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ وسیع صحن زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور جانے کے راستے پر لائن لگی ہوئی تھی۔ وہاں جوتے اتارنے کا طریقہ نہیں تھا بلکہ پیروں پر پلاسٹک کی تھیلیاں چڑھائی جاتی تھیں۔
صرف اندر جانے کے لیے لائن لگانی پڑتی تھی مگر اندر جاکر کتنی دیر وہاں رہنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ مولانا رومی ؒ کے مزار پر ہر وقت بانسری بجتی رہتی ہے اور ان کے مزار کا حصہ بہت شان دار ہے۔ پوری دیواروں، چھتوں اور ستونوں پر سنہرے اور سبز اور مختلف رنگوں سے بہت نفیس کام کیا ہوا ہے۔
مولانا رومی ؒ کے بالکل برابر ان کے دوست صلاح الدین کی قبر ہے۔ صلاح الدین کو کاتب رومیؒ بھی کہا جاتا ہے جو اصل نسخہ مثنوی مولانا روم ؒ میں موجود ہے وہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ اسی ہال میں بہت سے تبرکات بھی زیارت کے لیے رکھے ہوئے تھے جن میں مولانا کا جبہ بھی شامل تھا۔ باقی ان کے استعمال کی چیزیں تھیں، جیسے پانی پینے کا پیالہ، صراحی وغیرہ، قرآن شریف کے نسخے اور ان کی فقہ اور حدیث پر لکھی کتابیں بھی تھیں۔ بعد میں ان کے ایک بیٹے نے بھی مثنوی کی کتاب لکھی تھی۔ مولانا روم ؒ کا اصل وطن بخارا تھا مگر آپ بلخ میں پیدا ہوئے۔
ان کا زمانہ 1373عیسوی کا ہے۔ آپ کی شہرت کا سن کر سلجوقی حکم راں کے کہنے پر اناطولیہ تشریف لے آئے۔ اس زمانے میں انا طولیہ روم کہلاتا تھا تو مولانا اس نسبت سے مولانا روم ؒ کہلائے۔ ہم جب باہر آئے تو سامنے بڑی سی ناند میں ایک شخص وہ تھیلے جو ہم پاؤں میں پہنے ہوئے تھے وہ بڑے سے موسل سے کوٹ رہا تھا۔ ہم نے بھی اپنے تھیلے اس ناند میں ڈال دیے۔ دوسری طرف ایک بڑے سے کمرے میں اس زمانے کی بہت سی چیزیں تھیں اور مجسموں کی مدد سے اس وقت کے قونیہ کے ماحول کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ یہاں پر بھی داخلہ ایک لائن لگاکر لیا جاتا تھا۔
اس کمرے کے برابر سے ہی ایک طویل راہ داری تھی جس میں برابر برابر کمرے بنے ہوئے تھے۔
یہ مولانا کا مدرسہ تھا تین طرف برآمدے تھے اور کمرے اونچی چھتوں اور گنبد والے تھے جس میں سے ایک بڑی کھڑکی باہر کی جانب اور دوسری اندر کی جانب کھلتی تھی۔ بعض کمروں کے دروازے مقفل تھے۔ صرف چند کمرے کھلے ہوئے جہاں مولانا اور ان کے مدرسے سے متعلق اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔
درمیان میں مزار اور ان کمروں کے درمیان ایک کنواں تھا۔ جسے اب پاٹ دیا گیا تھا۔ اس میں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا جس کو لوگ چلاکر پانی پی رہے تھے اور اپنے بچوں کو بھی پلا رہے تھے اور ان کے منہ ہاتھ پر مل رہے تھے۔ سامنے چھوٹا سا حوض تھا جس میں سکے بھی پڑے ہوئے تھے۔
ہم جب گیٹ سے واپسی کے راستے پر آرہے تھے تو یہاں بھی ایک خوب صورت باغ تھا جو گلاب کے پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ جو راستہ اندر آنے کا تھا وہ الگ تھا اور باہر جانے کا راستہ دوسری طرف تھا، جہاں ایک اور بڑی مسجد تھی۔
یہ مسجد بھی ایک بڑے اور کشادہ میدان کے بعد بنی ہوئی تھی۔ پورا میدان پختہ تھا۔ عزیز کہنے لگا اماں اﷲ کا شکر ہے ہمیں یہاں کوئی فقیر نہیں ملا ورنہ ہم اگر اپنے ملک میں کسی ایسی جگہ جاتے تو فقیر تو ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیتے۔ اب موازنہ عزیز صاحب کررہے تھے۔ میں نے کہا بیٹا آپ نے کہا تھا اماں آپ تو ہر جگہ موازنہ کرتی ہیں اب آپ کو کیا ہوا۔ فرق معلوم ہوا اصل میں یہ انتظامی معاملات ہیں۔ اس کا فقیروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہ کہنے لگا ہمارے ملک میں غربت بہت زیادہ ہے اس لیے بھی فقیر زیادہ ہیں۔ میں نے کہا میرا نہیں خیال کہ غربت اس کی وجہ ہے، صرف ہم انتظامی طور پر کم زور قوم ہیں۔ گیٹ پر چیکنگ بھی اتنی سخت ہے کہ کوئی غلط شخص اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ پھر چندے خیرات کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ میں نے کہیں چندے کے بکس رکھے نہیں دیکھے۔ ہمارے ملک میں تو بڑے بڑے اسٹور اور فرنچائز والوں نے بھی چندہ باکس رکھنے شروع کردیے ہیں۔
نماز کا وقت ہورہا تھا۔ عزیز کہنے لگا اماں آپ ادھر میرا انتظار کریں میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔ میں اس مسجد کی اونچی چھت اور لمبے ستونوں والے برآمدے میں بیٹھ گئی۔ وہاں بہت لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بچے کھیل رہے تھے اور فیملی کے لوگ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے صرف میں ہی اکیلی تھی۔
ابھی مجھے بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک تیس بتیس سال کی خوب صورت سی لڑکی میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ اس نے السلام وعلیکم کہا۔ میں نے اس کے سوال کا جواب دیا۔ میں دو قدم اونچی جگہ بیٹھی ہوئی تھی اور وہ میرے سامنے کھڑی ہوئی تھی اور میرا چہرہ اس کے چہرے کے سامنے تھا۔ وہ مجھے نظریں گاڑے دیکھ رہی تھی۔
میں نے اس پر ایک نظر ڈالی اور چہرہ دوسری طرف کرلیا۔ عزیز نے جاتے وقت کہا تھا اماں! کسی اجنبی سے بات مت کیجیے گا۔ وہ دوسری طرف آکر کھڑی ہوگئی اور انگریزی میں کہا We are soul sisterاب میری سمجھ میں آیا کہ کیا مسئلہ ہے۔ لیکن میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ میرے اور قریب آکر انگریزی ٹرکش زبان میں ملا جلاکر بولی روحانی بہن soul sister میں کوئی فقیر نہیں ہوں مگر مجبوری ہے۔
اس لیے تم سے کچھ مدد مانگ رہی ہوں۔ میں نے اتنے لوگوں میں تم کو سب سے زیادہ رحم دل پایا ہے۔ اس روحانی جگہ کی برکت سے اﷲ تمہاری ساری مشکلیں آسان کردے گا۔ مجھے تو دل ہی دل میں ہنسی آگئی۔ واہ کیا جملہ کہہ دیا، ہمارے تو حکم رانوں سے لے کر فقیروں تک کو مانگنے کے ایک سو ایک طریقے آتے ہیں اور یہ جملہ جو تم نے بولا ہے وہ تو ہم روز ہی سنتے ہیں۔ میں تو بالکل ان جان بن گئی جیسے مجھے اس کی بات سمجھ ہی نہ آئی ہو۔
میں نے اردو میں کہا کیا کہہ رہی ہو مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے۔ میں نے سامنے کی طرف دیکھا وہاں تین نوجوان اسمارٹ پولیس والے کھڑے تھے وہ آپس میں بات چیت کررہے تھے جب ہم ادھر آرہے تھے تب یہ تینوں اسی انداز میں کھڑے تھے۔ اب جس کا منہ ہماری طرف تھا وہ مسلسل ادھر ہی دیکھ رہا تھا۔ اب وہ آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا لڑکی کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ لڑکی ابھی بھی کچھ کہہ رہی تھی۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر تو جیسے اس کے پر لگ گئے ہوں۔ وہ جس رفتار سے بھاگی ہے اس نے منٹوں میں وہ جگہ کراس کی اور نظروں سے غائب ہوگئی۔
عزیز اس وقت مسجد کے دروازے پر کھڑا جوتے پہن رہا تھا۔ اس نے جو لڑکی کو بھاگتے اور پولیس والے کو میرے پاس کھڑا ہوا دیکھا تو جوتے ہاتھ میں پکڑے بھاگتا ہوا آگیا۔
کیا ہوا اماں وہ گھبراگیا تھا۔
پولیس والے نے عزیز سے ہاتھ ملایا اور انگریزی میں کہا:
پریشان مت ہوں۔ ہم اس لڑکی کو واچ کررہے تھے۔ وہ دیر سے تمہارے پیچھے تھی، Relex ہم یہاں ہیں۔ اگر کچھ Helpچاہیے تو بتانا۔
عزیز نے اس کا شکریہ ادا کرکے مجھ سے پوچھا اماں کیا ہوا تھا۔ میں پھر سے ان جان بن گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی۔ ہم تو اپنی پولیس سے ڈرے ہوئے لوگ تھے اگر یہ کہتا کہ چلو تھانے بیان لکھواؤ۔ کچھ خرچہ پانی دو اس لڑکی کا مقصد کیا تھا، کیا آپ لوگ اس کو پہلے سے جانتے ہیں۔ ہماری پولیس تو ایسے ہی سوال کرتی ہے الٹی آنتیں گلے پڑجائیں۔
عزیز نے اس سے کہا میری ماں کی سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ وہ okکرتا ہوا اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد عزیز نے پوچھا اماں! کیا معاملہ تھا۔ میں نے پوری بات عزیز کو بتادی اس نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا اماں اچھا ہوا آپ نے soul sister کو دینے کے لیے پرس نہیں کھولا ورنہ وہ ساری رقم لے اڑتی۔ ساتھ پاسپورٹ ویزہ سب جاتے، میں تو یہ سوچ رہا ہوں اگر ایسا ہوجاتا تو کیا ہوتا؟
جب میں نے پہلی بار اس سے منہ موڑا تو وہ میرے سامنے آگئی تھی وہ چاہ رہی تھی کہ میں اس سے آنکھیں ملا لوں۔ اب جو یہ سب سوچا تو ہزاروں وسوسے، خدشات ذہن میں آنے لگے۔ ہم دونوں نے لاحول پڑھی درود شریف اور جو بھی زبان اور ذہن میں آیا سب پڑھ کر پھونک لیا۔ سب بھوک پیاس اڑ چکی تھی۔ ہم دونوں خالی ذہن کے ساتھ کافی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ وہ تینوں پولیس والے اب وہاں نہیں تھے لیکن یہ ہمت بندھ گئی تھی کہ یہاں کی پولیس جرم روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ راستہ ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اس سے متصل تھا۔ بس یا ٹرام سے جانے کی ضرورت نہ تھی۔ سامنے ایک جوس والا بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے وہاں سے گاجر اور اورنج کا مکس جوس پیا۔ یہاں زیادہ ریڈبلڈ مالٹے ہوتے ہیں یا موسمی ہوتی ہے۔ دکان دار نے جوس نکلانے سے پہلے ہم سے پوچھا کہ اس میں گاجر مکس کردوں ٹیسٹ بڑھ جائے گا۔ واقعی اس نے موسمی ریڈ بلڈ مالٹے اور گاجر مکس کرکے بہترین جوس بنایا تھا اور خاصے بڑے ڈسپوزایبل گلاسوں میں ڈال کر دیا تھا۔
ہم جہاں بیٹھے ہوئے تھے اس میں زیادہ تر دکانیں ہینڈی کرافٹ کی تھیں جو زیادہ تر مولانا رومی ؒ کے مزار کے ماڈل اور رقص درویش کے اسٹائل کی تھیں۔ عزیز نے کہا اماں! میرا کہیں جانے کا دل نہیں کررہا ہے ایسا کرتے ہیں ہوٹل چلتے ہیں۔ ایسا میرا بھی دل ہورہا تھا۔ ابھی تک ہمارا ٹرپ بہت پرسکون اور شان دار رہا تھا۔ ہر قدم پر راہ نمائی کرنے والے لوگ ملے تھے۔ ہم نے دوست بنائے تھے اور فقیر اور اس قسم کے نوسربازوں کی تو ہم پروا نہیں کرتے ہیں مگر عزیز کو اچھا نہیں لگا تھا۔ بقول اس کے مجھے اس لڑکی کو بھاگتے اور پولیس والے کو دیکھ کر عجیب سا لگا تھا۔ میں نے سوچا آخر میں اماں کو اکیلا چھوڑ کر کیوں گیا۔
میں نے کہا بیٹا! اس کا ایک ہی علاج ہے وہ ہے شاپنگ۔ آؤ آج یہاں سے ہینڈی کرافٹ خریدتے ہیں اور اپنی اماں کی طرف سے پریشان مت ہو۔ میں کوئی اتنی بچی بھی نہیں تھی کہ وہ مجھ سے کچھ چھین سکتی۔ میں نے تو اس کی طرف منہ ہی نہیں کیا۔
ہم قونیہ کی ہینڈی کرافٹ مارکیٹ میں جو داخل ہوئے تو باہر نکلنے کا دل ہی نہیں چاہا۔ کیا کیا چیزیں تھیں، خوب صورتی نفاست اور قیمت بھی مناسب تھی۔ خریدا تو اتنا نہیں جتنا دیکھ لیا تھا جس دکان میں داخل ہو کوئی نئی چیز نظر آجاتی۔ مجھے تو قونیہ کی ہینڈی کرافٹ میں رقص درویش والی ٹرے بہت اچھی لگیں۔
میں نے تحفے میں دینے کے لیے لے لیں۔ کچھ چھوٹے چھوٹے ماڈل تھے۔ وزن کا بھی تو خیال رکھنا تھا۔ آتے وقت عائشہ نے کہا تھا، اماں! میرے لیے قونیہ کی مٹھائی ضرور لائیے گا۔ عنایا کو تو جیولری کا شوق ہے ایک جگہ رقص درویش کا ہار اور بندے کا سیٹ ملا تو حیرانی ہوئی اتنا باریک کام تھا۔ ہیئرپن کا سیٹ تھا جس پر رقص درویش بنا ہوا تھا۔ وہ انان کے لیے لیا، اسے ہیئر پن کا شوق ہے۔ بس یہ خیال کیا کہ سامان بھاری نہ ہو۔ اچھا خاصا وقت گزرگیا بس ذہن سے بھی سب نکل گیا مغرب کی اذان میں دیر تھی اور سورج نہیں ڈوبا تھا۔ سامان بھی زیادہ بھاری نہ تھا۔
ارحان نے کہا تھا کہ مولانا رومی ؒکا راستہ گلیوں سے ہوکر بہت قریب پڑتا ہے اور بالکل ہوٹل کے سامنے نکلتا ہے۔ دوسرا راستہ پہلے ایک بہت بڑی مارکیٹ پڑے گی پھر سیدھے راستے سے ہوتے ہوئے ہوٹل والی اسٹریٹ آئے گی، پھر مڑکر ہوٹل آئے گا۔
کیا خیال ہے اماں ہم گلی سے نکلتے ہیں۔ ہوٹل پہنچ کر فریش ہوکر کھانا کھانے نکلیں گے۔ یہ ٹھیک ہے مجھے بھی یہ تجویز مناسب لگی۔ ہم جس جگہ سے مڑے تھے وہاں خاصے ہوٹل اور دکانیں بنی ہوئی تھیں اور خاصا رش تھا مگر جیسے جیسے ہم آگے بڑھے رہائشی علاقہ شروع ہوگیا اور علاقے کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں بالکل غریب لوگ رہتے ہیں۔ پرانی طرز کے پلستر جھڑے چھوٹے فلیٹوں اور مکانوں کی وجہ سے اور اندھیرا سا لگ رہا تھا۔ گلیاں بھی ٹیڑھی میڑھی تھیں۔ کئی جگہ خالی پلاٹ بھی تھے جہاں کچرے کے ڈس بن رکھے ہوئے تھے۔
اب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر مشکل یہ تھی ہم نے جتنا فاصلہ طے کیا تھا اتنا ہی فاصلہ طے کرکے ہوٹل بھی تھا۔ اب واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
میں نے کہا عزیز جلدی جلدی چلو اور گلی کراس کرلو۔ ایک جگہ کچھ ادھیڑ عمر عورتیں بیٹھی کسی بحث میں الجھی ہوئی تھیں، ان کے قریب بچے کھیل رہے تھے اور ایک سبزی کی دکان تھی جس پر ایک بوڑھا سبزی والا بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ سامنے کے خالی پلاٹ پر ایک عورت نے کچرے سے ڈھونڈ کر خالی بوتلیں جمع کی ہوئی تھیں اور وہیں بیٹھ کر ایک ایک بوتل سے بچی شراب کے قطرے حلق میں انڈیل کر حلق تر کررہی تھی۔
میں نے عزیز سے کہا ہمارا اﷲ کتنا سخی ہے اپنے بندے کو کبھی مایوس نہیں کرتا، بندے کو جس چیز کی چاہ ہوتی ہے اسے ضرور دیتا ہے۔ عزیز کہنے لگا، اماں! آپ بھی حد کرتی ہیں یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کی بندہ چاہ کرے اور اﷲ دے دے۔ ہاں اﷲ ہی ہے، جس کو کچرے سے ڈھونڈ کر شراب پینے کی چاہت ہے جو اسے کچرے سے ضرور ملے گی اور جیسے کوئلے کی کان سے ہیرا ملنے کی چاہت ہے تو اسے ضرور ملے گا۔
اسی وقت پیچھے سے کسی کے قدموں کی آواز آئی۔ یہ دو پولیس والے تھے جو گلیوں میں گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر انہوں نے ہیلو کہا اور باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ایسے پولیس والے رات کو استنبول میں بھی گشت کرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر ہماری بھی ہمت بندھ گئی۔ ہم تو تھے ہی گلی کے سرے پر مگر یہ تو وہ جگہ ہی نہ تھی جہاں ہمارا ہوٹل تھا۔
یہاں ہم اپنے پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔