کوچۂ سخن
غزل
کچھ معتدل حیات کا موسم ہُوا تو ہے
آنچل کسی کے دوش پہ پرچم ہوا تو ہے
پہلی سی اب مزاج میں شوخی نہیں رہی!
لہجہ کسی کی بات کا سرگم ہُوا تو ہے
مری شبیہ کا عکس بھی شاید دکھائی دے
گوشہ کسی کی آنکھ کا پُر نم ہوا تو ہے
محسوس کررہا ہوں کئی روز سے کمی
نالہ شبِ فراق کا کچھ کم ہُوا تو ہے
تنہائیوں میں یاد بھی رہتی ہے ساتھ ساتھ
لیکن خیالِ یار بھی ہمدم ہوا تو ہے
اڑتی سی اک خبر ہے کہ وہ بھی اداس ہے
اس کو بھی میری ذات کا کچھ غم ہوا تو ہے
جلتا ہوں سَر سے پیر تک اپنی ہی آگ میں
کچھ حسرتوں کے زخم کا مرہم ہوا تو ہے!
کوئی تو ایسی بات تھی جو دل میں چبھ گئی
جس کا ملال آپ کو محرم ؔ ہوا تو ہے
(رفیع یوسفی محرم۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
بن تمہارے یہ سارا عید کا دن
میں نے رو کر گزارا عید کا دن
چاند کھڑکی میں دیکھ لیتے تو
آج ہوتا ہماراعید کا دن
کوئی تواہلِ قدس سے پوچھے
کیسے گزرا تمہارا عید کا دن
میں نے خوشیاں کشید کرنی ہیں
کون دے گاادھارا عید کا دن
قتل و غارت گری کو دیکھا ہے؟
کیسے اس کو شمارہ عید کا دن
آؤ خود کو گلے لگاتے ہیں
آج ارشدؔ ہے یارا، عید کا دن
(ارشد محمود ارشد۔ سر گودھا)
۔۔۔
غزل
شفق گلاب دھنک رنگ نور شام صنم
تمھارے سامنے مدھم ہیں یہ تمام صنم
کبھی جو ہم کو ستائے گی دھوپ خلوت کی
کریں گے یاد کے سائے میں ہم قیام صنم
ہر اک غزل میں ترا تذکرہ کیا ہم نے
تری ہی یاد میں لکھا گیا کلام صنم
ترے ہی نام سے منسوب ہے کتابِ دل
ہر اک ورق پہ ہے لکھا ترا ہی نام صنم
ترے ہی دید کی خاطر چمن میں پھول کھلے
اب اس سے بڑھ کے تو ہوگا نہ اہتمام صنم
ترے ہی نام سے آغاز عاشقی کی ہے
کیا ہے تجھ پہ محبت کا اختتام صنم
ترے ہی حسن سے شاداب ؔکو ملی تحریک
غزل کے بام پہ لکھا ہے تیرا نام صنم
(محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ، ضلع آکولہ، مہاراشٹر، بھارت)
۔۔۔
غزل
یوں نا امید نہ کر آخری توقع سے
کہ تجھ کو دیکھ رہے ہیں بڑی توقع سے
مجھے بھلانے سے پہلے، یہ سوچ لے کہ اگر
میں مختلف نکل آیا تری توقع سے!
ہنسی پہ اپنی تعجب ہے، میں نے یہ کردار
زیادہ اچھا کیا ہے مری توقع سے
وہ اپنے ہونے کو ثابت ضرور کرتا ہے
پکارتا ہے اُسے جب کوئی، توقع سے
اور اب تو میں یہی کہتا ہوں ملنے والوں کو
کبھی فریب نہ کھانا کسی توقع سے
(زبیرحمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
جب تلک مستیاں نہیں ہوتیں
میری سانسیں رواں نہیں ہوتیں
وصل میں سب گوارا ہوتا ہے
ہجر میں شوخیاں نہیں ہوتیں
عاشقی کے نئے دفاتر میں
آج کل بھرتیاں نہیں ہوتیں
زندگانی کی لاٹری میں دوست
سوچ لے پرچیاں نہیں ہوتیں
اب مری جیب میں سکوں کے لیے
نیند کی گولیاں نہیں ہوتیں
ہجر وادی عجیب ہے جس میں
سردیاں گرمیاں نہیں ہوتیں
ہم فقیروں کی آہ ہوتی ہے
جاہلا! جھولیاں نہیں ہوتیں
تم مری بات مان لیتے اگر
ایسی بربادیاں نہیں ہوتیں
مجھ پر اب مہربان مستحسنؔ
شعر کی دیویاں نہیں ہوتیں
(مستحسن جامی۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
گزر گئے ہیں برس، جوں کا توں میسر ہے
کسی کا ہجرِ مسلسل دروں میسر ہے
مری نگاہ میں اُترا ہے خواب کی مانند
جسے شباب کا رنگِ فسوں میسر ہے
تمہارے بعد تو احساسِ زندگی ہی نہیں
تمہارے بعد میں کیسے کہوں؟ میسر ہے!
یہ اک لحاظ سے راہِ حیات یکساں ہے
کہیں پہ دکھ تو کہیں پر سکوں میسر ہے
ہماری سمت کسی کی نگاہ تک بھی نہیں
ہمیں لباس جو زاد و زبوں میسر ہے
نگاہِ شوق میں کم ہے یہ وسعتِ دنیا
ہر ایک چیز نگاہوں کو یوں میسر ہے
وہ ایک شخص کہاں اب دکھائی دیتا ہے
یہ اور بات کہ مجھ کو فزوں میسر ہے
ابھی ٹھہر اے مرے دل کو مانگنے والے
میں دل کی سمت ذرا دیکھ لوں؟ میسر ہے!
نگاہِ قیس سے دیکھا ہے اپنی لیلیٰ کو
اِ سی لئے مجھے فیصل ؔجنوں میسر ہے
(فیصل کاشمیری ۔گوجرانوالہ،وزیرآباد)
۔۔۔
غزل
میں جہاں جاؤں تعاقب میں ہے رسوائی مری
مجھ کو محفل میں کیے رکھتی ہے تنہائی مری
ڈھونڈتا ہوں نقص خالق کی ہر اک تخلیق میں
باعثِ شرمندگی ہے پھر تو زیبائی مری
شان گھٹنے کی نہیں ہے، سربلندی ہے میاں
کون کہتا ہے کہ جھکنے میں ہے پس پائی مری
باپ نے کی ہے مشقّت پالنے کے واسطے
کیا سے کیا دکھ سہہ گئی میرے لیے مائی مری
اپنے بیٹے کو نہیں دلوا سکا میں روز گار
کام کی ٹھہری نہ کچھ اتنی شناسائی مری
شعر حسرتؔ مَیں سلیقے کے تو کہہ پایا نہیں
اور فن میں ہے بہت مشہور یکتائی مری
(رشید حسرتؔ۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
میں اپنے درد کا قصہ سنا نہیں سکتا
مگر میں دل بھی تو اپنا دکھا نہیں سکتا
میں مانتا ہوں وہ مجھ سے خفا تو ہے لیکن
میں جانتا ہوں میں اس کو منا نہیں سکتا
اسے پسند ہے زیور بھی اور اک گھر بھی
مگر میں کچھ بھی تو اس کو دلا نہیں سکتا
میں جلتی دھوپ میں سایہ بنا رہا تیرا
میں خود تو جلتا ہو ںتم کو جلا نہیں سکتا
میں اس کو باپ کے کہنے پہ چھوڑ آیا ہوں
میں خود کو ماں کی نظر میں گرا نہیں سکتا
بنا رہا ہو ں تیرا عکس میں خیالوں میں
میں مٹ رہا ہو میں تم کو مٹا نہیں سکتا
پلٹ کے اب وہ دوبارہ تو آگئی ارسلؔ
مگر میں ہاتھ دوبارہ بڑھا نہیں سکتا
(ارسلان شیر ۔ کابل ریور، نوشہرہ)
۔۔۔
غزل
مل نہیں جاتا ہے یوں پیراہنِ آساں کا رنگ
ڈھیر محنت سے خدا دیتا ہے اک پہچاں کا رنگ
آج غصے میں اسے دیکھا تو یہ مجھ پر کھلا
درد کی شدت سے بڑھ کر ہے حریفِ جاں کا رنگ
اور بھی نزدیک منزل کا پتہ ہے مل رہا
دوست تکتا ہوں میں جوں جوں اپنے ہمراہاں کا رنگ
بے قراری ہمتوں میں اور پستی بھر گئی
میں نے جب اڑتا ہوا دیکھا رخِ جاناں کا رنگ
فرق ڈھونڈے سے نہیں نکلا برابر چوٹ ہے
وہ ترے دکھ ہوں یا پھر ہو گردشِ دوراں کا رنگ
ڈھیر سنسانی یہاں اربابؔ بڑھتی ہی رہی
بعد تیرے پھر نہیں بدلا دلِ ویراں کا رنگ
(ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو، گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
دعاؤں کا کبھی اپنی ہم اس درجہ اثر دیکھیں
ہیں جتنے دربدر سارے وہ جا کر اپنا گھر دیکھیں
فقط دو چار لقمے ہی میسر ہوں تو جی لیں گے
نہیں خواہش ہماری بھی کہ ہم لعل و گہر دیکھیں
ہجومِ دوستاں کے ہم نہیں قائل مگر پھر بھی
جوباعث،راحتِ جاں ہوچلو وہ ہم سفر دیکھیں
وصالِ یار کا موقع تو جیتے جی نہیں ملنا
یقیں محشر میں ملنے کا دلا ئے وہ تو مر دیکھیں
دعائے بد سے قاصر ہے زبانِ غم زدہ میری
گوارہ دل نہیں کرتا اسے ہم دربدر دیکھیں
ہوئی پوری نہ اب تک وہ ہماری آخری خواہش
فقط اتنی سی چاہت تھی اسے ہم اک نظر دیکھیں
ہماری آنکھ کا ساغر کیا ہے خشک جس نے وہ
بہائے خون کے آنسو اسے ہم جس ڈگر دیکھیں
فقط اس آس پر اٹکی ہیں سانسیں اب تلک دائمؔ
کیے پر اپنے نادم ہو، اسے شوریدہ سر دیکھیں
(ندیم دائم۔ ہری پور)
۔۔۔
غزل
گاتی ہیں سبھی بلبلیں خوشبو کی زباں سے
شاداب چمن سارا ہے پھولوں کے سماں سے
جینے کی تمنّا میں مرا جاتا ہوں کب سے
اے زیست تجھے ڈھونڈ کے لاؤں میں کہاں سے
ہر چیز کو تم اپنی ہی نظروں سے نہ پرکھو
بنتا ہے یقیں جب بھی نکلتا ہے گماں سے
کمزور نہ سمجھو کبھی مخلوقِ خدا کو
ٹکرائے گی چیونٹی بھی کبھی کوہِ گراں سے
تم سمجھو نہ،مانو نہ مگر جانتے ہو سب
جو زخم مرے دل میں ہیں، آتے ہیں جہاں سے
تم دل کو ٹٹولو تو پڑا ہو گا کہیں پر
یہ پیار کا جذبہ نہیں ملتا ہے دکاں سے
دنیا میں شہابؔ اُس کا مقدر ہے ترقّی
باہر جو نکل آتا ہے ہر سود و زیاں سے
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
آپ کہتے ہیں دل دکھاتا ہوں
میں تو بس حالِ دل سناتا ہوں
حسن ویسے دلیل کوئی نہیں
آپ کہتے ہیں مان جاتا ہوں
تھوڑی ہو نم زمیں محبت کی
آنکھ سے اشک یوں بہاتا ہوں
جانچتا ہوں میں اپنی چاہت کو
تم کو تھوڑی میں آزماتا ہوں
چبھتا ہے گر چراغ آنکھوں میں
جانے من! میں اِسے بجھاتا ہوں
جن سے ہوتا ہے موسم افسردہ
میں وہی گیت گنگناتا ہوں
مانا میں تھا بخیل بھی بے حد
اشک بھی اب نہیں بچاتا ہوں
خوب کھلتے ہیں مجھ پہ یار اپنے
بازی جب بھی میں ہار جاتا ہوں
بات جو بھی ضروری ہوتی ہے
میں وہی بات بھول جاتا ہوں
(ڈاکٹر سالم احسان۔ گوجرانوالہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی