بیماری آنے سے پہلے سرگوشی کرتی ہے
علاج معالجہ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال سیاہ بادل کی طرح برس جانے کےلیے تیار ہوچکا ہے۔ گھن گرج سننے والے سن رہے ہیں اور مشاہدہ کرنے والے آنے والے کل کا نقشہ دیکھ رہے ہیں۔ آئیے سمجھتے ہیں کہ یہ کیا ہے، اس کا فائدہ کتنا اور اس میں پوشیدہ نقصان کیسے ہے، وغیرہ۔
بچے کے رونے کی آواز سے ماں اس کی بھوک اور اس کو لگنے والی چوٹ میں تمیز کرسکتی ہے۔ یہ ماں اس لہجے کو پہچانتی ہے۔ ماں کے لاشعور میں بچوں کی عادات، اس بچے کا انفرادی رویہ محفوظ ہوتا ہے اور ازخود وہ رونے کی آواز سے پیٹرن پکڑتی ہے۔ پیٹرن اسے بتاتا ہے کہ یہ رونا بھوک کا ہے یا چوٹ کا یا کچھ نیا۔
ایک زمانہ تھا بلکہ آج بھی ہے کہ ادویہ ساز کمپنی میں کچھ تجربہ کار بابے ہوتے تھے، وہ ٹیبلیٹ کےلیے بنائے جانے والے گرینولز مٹھی میں لیتے، اپنی آنکھوں اور مٹھی کو حرکت دیتے اور کہتے کہ تھوڑا اور حرارت دو یا تھوڑا اور پانی دو، کبھی کہتے کہ اس کو اس چھلنی سے گزارو یا کبھی کہتے کہ اس میں اسٹارچ یا اسٹیرک ایسڈ اور ملاؤ وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر ان کی بات مانی جاتی تو ٹیبلیٹ صحیح بنتی اور نہیں مانی جاتی تو ٹیبلیٹ بننے کے دوران خراب نظر آتی، کبھی چور ہوجاتی، کبھی تہہ نکل آتی، کبھی موٹی کبھی سخت۔ ادھر فیکٹری میں چکر لگانے والے مشین کی آواز میں تبدیلی محسوس کرکے کہتے کہ کمرے میں نمی کے تناسب کو قابو کرو اور مشاہدہ کرنے ہر ان کی بات صحیح ثابت ہوتی۔ مختصر یہ کہ مختلف چیزوں کے تعلق سے پیدا ہونے والے اثرات کو وقت سے پہلے محسوس کرنا ایک حیرت انگیز قوت ہے۔ مگر اسے اہلیت کہیے یا صلاحیت یا تجربہ، اس شعوری بنیاد پر قطعی اعتماد نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ہوائی اندازے کی معمولی سی غلطی کسی کی جان لینے کا باعث بن سکتی ہے۔ جب تک ان اندازوں تک پہنچنے کی جزئیات کا حسابی تخمینہ، محرک و اثرات کے مابین تعلق کے مستند شواہد اور پوشیدہ وجوہات کے اصول کو ایک ساتھ سمجھنے کےلیے بنیادی اور لازمی علم نہ ہو۔
آئیے دوسری طرف چلتے ہیں۔ ڈاکٹر کھانسی کی آواز سن کر اندازہ لگاتے اور اس طرح کے اندازوں کو طبی فیصلے سے موسوم کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کی سائنس دنیا کو تیزی سے تبدیل کررہی ہے۔ اب دیکھیے پہلی بار کسی سافٹ ویئر کو امریکی ایف ڈی اے نے استعمال کرنے کے لیے منظور کیا ہے۔ گزشتہ دس سال سے مختلف اسپتال مریضوں کے انفرادی طبی اشاروں کو ملا کر مطلب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جراثیم کا پورے خون میں پھیل جانا اکثر جان لیوا ثابت ہوتا ہے کیونکہ وقت بہت محدود اور جراثیم دو سے چار اور چار سے آٹھ ہوتے ہیں، یعنی جراثیم کے بڑھنے کی رفتار راکٹ کی سی ہوجاتی ہے۔ کام کرنے والوں نے مریض کے انفرادی بائیس مختلف نکتوں کے آپس کے تعلقات کو سمجھا ہے، مثلاً دل کے دھڑکنے کی رفتار، خون کی اندورنی ترتیب کی حالت، جسم کا درجہ حرارت وغیرہ اور وہ ایک ایسے نتیجے تک پہنچے ہیں جہاں کسی انفرادی مریض کو متوقع پورے جسم میں جراثیم کی نشوونما پھیل جانے والی حالت کا پیشگی اندازہ لگا سکتا ہے۔
ایف ڈی اے مریضوں کے تحفظ اور پروڈکٹ کے اثر یعنی پروڈکٹ کے وعدے کو اچھی طرح پرکھتی ہے۔ ہر طرح کے خدشات اور سوالات کو مختلف زاویوں سے ابھار کر اس کا تسلی بخش جواب حاصل کیا جاتا ہے، نامعلوم کو خطرناک تصور کرنا ریگولیٹری اتھارٹی کی وراثتی ذمے داری ہے۔ پہلے بھی اس طرح کے کچھ سافٹ ویئر اسپتالوں نے بنائے تھے لیکن اب یہ واضح ہے کہ ہر وہ چیز جو مریض کےلیے خطرات اور موثر ہونے کےلیے تحقیق کا مطالبہ کرتی ہے وہ سب ایف ڈی اے کی جانب سے پڑتال سے گزر کر منظوری کے بعد ہی استعمال کی جاسکتی ہے۔
آگے آگے دیکھیے کہ طبی دنیا کس تیزی سے تبدیل ہوتی ہے، انفرادی علاج کتنا تیز ترقی کرتا ہے۔ آنکھوں میں ہونے والی تبدیلی آگے برسوں بعد ہونے والے الزائمر کا پتہ پہلے دے رہی ہیں۔ بہت کچھ وقت سے پہلے معلوم ہوسکتا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ہم اعداد و شمار یا اطلاق کیے جانے والے کلیہ میں بے ایمان ہوں۔ اندازہ، گمان اور پیش گوئی کا طوفان علم کی شکل دھار چکا ہے۔ علم طاقت ہے اور علم کو بدعنوان ہونے سے بچائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔