بد حواسیوں کے مضمرات
ایئرپورٹ پر حملے کے دوسرے دن چینلز پر یہ خبریں آنے لگیں کہ دہشت گردوں نے اے ایس ایف اکیڈمی پر حملہ کر دیا ہے
ایئرپورٹ پر حملے کے دوسرے دن چینلز پر یہ خبریں آنے لگیں کہ دہشت گردوں نے اے ایس ایف اکیڈمی پر حملہ کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد بتایا گیا کہ اے ایس ایف اکیڈمی پر حملے کی خبر غلط ہے، لیکن اس دوران بد حواسی کا عالم یہ تھا کہ متعلقہ حکام نے اس مفروضہ حملے کو روکنے کے لیے فوج کو طلب کر لیا ہے پھر یہ بے بنیاد کہانی وزیر اعظم تک پہنچ گئی۔ بعد میں اعلان کیا گیا کہ چند دہشت گردوں نے پہلوان گوٹھ سے فائرنگ کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد فرار ہو گئے۔
بدحواسی کا بدترین مظاہرہ یہ کیا گیا کہ بغیر مکمل جانچ پڑتال کے ایئرپورٹ کو کلیئر قرار دے دیا گیا، جب کہ آٹھ افراد جو دہشت گردوں کے خوف سے کولڈ اسٹوریج میں چھپ گئے تھے کولڈ اسٹوریج کے اندر ہی رہ گئے، جب میڈیا کو اس بات کا پتہ چلا تو ایک کہرام مچ گیا، پھر انتظامیہ کو اپنی بدحواسیوں کا خیال آیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ آٹھوں پناہ گزین زندہ انسانوں سے سوختہ لاشوں میں بدل چکے تھے، ان شہداء کے لواحقین کا برا تھا۔
شہید ہونے والوں کی مائیں، بچے، بیویاں، بھائی اور بہنیں دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے لیکن سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ ان آٹھ خوف زدہ انسانوں کے قتل کا ذمے دار کون ہے جو دہشت گردوں کے خوف سے کولڈ اسٹوریج میں پناہ گزین ہوگئے تھے، جنھیں دہشت گردوں نے تو نہیں مارا البتہ متعلقہ حکام کی بدحواسی کی وجہ سے یہ بد قسمت لوگ کولڈ اسٹوریج کو لگائی گئی آگ میں جل گئے، ان کی سوختہ لاشیں ورثاء کے حوالے تو کر دی گئی ہیں لیکن سو گوار لواحقین ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے پیاروں کے قتل کے ذمے دار کون ہیں؟
ان بدحواسیوں کے علاوہ بعض حکومتی اور ادارتی بدحواسیوں کے واقعات بھی پیش آئے، کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی اتنی بڑی کارروائیوں کے موقع پر نیچے سے اوپر تک سب ہی بدحواس ہو جاتے ہیں لیکن دہشت گردی سے ہونے والے اس قسم کے نقصانات کا انکشاف اپنے اندر ایک اہمیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلے عوام ان نقصانات کے اعلانات سے متاثر ہوتے ہیں جن کا اثر عوام کے ذہنوں اور ان کی نفسیات پر پڑتا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ چند دہشت گردوں کے سامنے پوری حکومتی مشینری کس قدر کمزور اور بے بس ہو گئی ہے، یہ سوچ عوام میں مایوسی کی لہر بن کر دوڑ جاتی ہے جو ملک اور معاشرے کے لیے انتہائی نقصان رساں بن جاتی ہے۔
ایئر پورٹ حملے کے بعد نقصانات کے جو اعداد و شمار میڈیا میں بتائے گئے اس کے مطابق دہشت گردی کے اس خوفناک اور المناک حملے میں چھ ہوائی جہازوں کو نقصان پہنچا۔ یہ خبر اخبارات میں سب سے بڑی سرخی بن کر شایع ہوئی لیکن بعض حکومتی اداروں کی طرف سے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس حملے میں کسی جہاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس حوالے سے شایع ہونے والی خبریں غلط ہیں۔ اس تردید سے مشکوک ذہن مطمئن نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے محترم اور ذمے دار وزیر داخلہ کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ ایئر پورٹ حملے میں دو تین جہازوں کو نقصان پہنچا ہے؟ بلاشبہ ایسے ہیبت ناک موقعوں پر افراتفری مچ جاتی ہے لیکن حکومت کی اعلیٰ قیادت بدحواس نہیں ہوتی بلکہ سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لے کر فیصلے کرتی ہے۔
اس قسم کے دہشت گرد حملوں میں ہونے والے نقصانات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور حکومتیں اندرونی اور بیرونی حالات کے تناظر میں متفقہ طور پر ایک فیصلہ کرتی ہیں اور اس فیصلے کے تحت نقصانات کے اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات قومی مفادات کے پیش نظر اور عوام کو مایوسی سے بچانے کے لیے نقصانات کے اعداد و شمار میں رد و بدل بھی کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے میڈیا کو اعتماد میں لیا جاتا ہے لیکن اس حملے میں ہونے والے نقصانات کے حوالے سے جو سرکاری بیانات اور اعلانات سامنے آئے وہ بڑے متضاد تھے۔ ان متضاد بیانات اور اعلانات سے یہ بات تو بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان یا تو رابطوں کا فقدان تھا یا باہمی اعتماد کی کمی تھی۔
ایسی صورت حال کا منفی اثر جہاں عوام پر پڑتا ہے وہیں عالمی سطح پر بھی حکومتی اداروں کے درمیان رابطوں کے نقصان کا تاثر ہوتا ہے۔ اس قسم کی صورت حال عمومی طور پر بدحواسی کا نتیجہ ہی کہلاتی ہے لیکن اگر حکومتوں کی اعلیٰ سطح پر اس قسم کی بدحواسی کا مظاہرہ کیا جائے تو اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کراچی ایئرپورٹ کے انتہائی غیر محفوظ ہونے کا خیال ہمارے ذہن پر اس وقت آیا جب ہمیں گلستان جوہر سے شاہ فیصل کی طرف آنے کا اتفاق ہوا۔
سڑک سے گزرنے والا ہر شخص سڑک سے کچھ ہی فاصلے پر درجنوں طیاروں کو رن وے پر کھڑا دیکھتا ہے، عام آدمی تو ان طیاروں کو اس قدر قریب سے دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے لیکن ہر صاحب عقل اربوں روپوں کی مالیت کے ان جہازوں کو اس قدر غیر محفوظ حالت میں دیکھ کر سخت پریشان ہو جاتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ پورا ملک دہشت گردی کا شکار ہے اور کراچی دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ بنا ہوا ہے۔ رن وے پر عام سڑک کے قریب قیمتی طیاروں کو اس قدر غیر محفوظ حالت میں رکھنا کیا عقل مندی کی دلیل ہو سکتی ہے؟
کراچی ایئر پورٹ ملک کا سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے جہاں دنیا بھر کی ایئرلائنوں کے جہاز رات دن آتے جاتے رہتے ہیں، اس اہم ترین ایئرپورٹ پر ممکنہ حملوں کے انتباہ میڈیا میں آتے رہے ہیں، اس انتباہ کے پیش نظر ضرورت اس بات کی تھی کہ ایئر پورٹ کے اطراف ایک سخت حفاظتی دیوار کھڑی کر دی جاتی۔ اگر ایسی سیکیورٹی دیوار کھڑی کر دی جاتی اور ایئرپورٹ آنے والی ہر گاڑی کو ایئر پورٹ سے فاصلے پر ہی روک کر پوری طرح چیک کرنے کا انتظام ہوتا تو یہ کیسے ممکن ہوتا کہ دہشت گردوں اور جدید اسلحے سے بھری گاڑی ایئر پورٹ کے گیٹ تک پہنچ جاتی؟
پہلوان گوٹھ ایئر پورٹ سے بالکل قریب آبادی ہے ، اس بستی میں رہنے والوں کی اکثریت یقیناً امن پسند اور قانون کی پاسداری کرنے والوں کی ہو گی لیکن دہشت گرد اس بستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بستی کو اپنے دہشت گردانہ منصوبوں میں استعمال کر سکتے ہیں اور یہی ہو رہا ہے۔ اے ایس ایف اکیڈمی پر دہشت گردوں نے پہلوان گوٹھ ہی سے فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ سے گھبرا کر پہلوان گوٹھ سے گلستان جوہر کی طرف فرار ہوئے، اس سے قبل بھی رینجرز نے اس بستی پر چھاپے مار کر دہشت گردوں کو پکڑا ہے اور بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کیا ہے۔
بلاشبہ شہر کے دوسرے بہت سارے علاقوں سے بھی دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں اور اسلحہ برآمد ہوتا ہے لیکن پہلوان گوٹھ کی صورت حال ان سے مختلف اور سنگین اس لیے ہے کہ اس کے ساتھ ہی ملک کا سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئر پورٹ موجود ہے۔ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے کوئی کام منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ ہر حکومت کو یہ پتہ ہے کہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب آبادیاں قائم نہیں کی جاتیں کیوں کہ یہ آبادیاں ایئرپورٹ کے لیے مستقل خطرہ بنی رہتی ہیں۔
کیا پہلوان گوٹھ سمیت ایئرپورٹ سے متصل آبادیوں کے خطرناک مضمرات سے ہمارے حکمران لاعلم تھے؟ ہماری ایئر پورٹ اتھارٹی کی نا اہلی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایئر پورٹ کے قریب کچرے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں جہاں چیل کوئوں کا ہجوم رہتا ہے اور یہ پرندے جہازوں سے ٹکرا کر جہازوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایئر پورٹ کے حالیہ خوفناک سانحے کے بعد بدحواسیوں سمیت ان تمام کمزوریوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے جو ایئر پورٹ کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
بدحواسی کا بدترین مظاہرہ یہ کیا گیا کہ بغیر مکمل جانچ پڑتال کے ایئرپورٹ کو کلیئر قرار دے دیا گیا، جب کہ آٹھ افراد جو دہشت گردوں کے خوف سے کولڈ اسٹوریج میں چھپ گئے تھے کولڈ اسٹوریج کے اندر ہی رہ گئے، جب میڈیا کو اس بات کا پتہ چلا تو ایک کہرام مچ گیا، پھر انتظامیہ کو اپنی بدحواسیوں کا خیال آیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ آٹھوں پناہ گزین زندہ انسانوں سے سوختہ لاشوں میں بدل چکے تھے، ان شہداء کے لواحقین کا برا تھا۔
شہید ہونے والوں کی مائیں، بچے، بیویاں، بھائی اور بہنیں دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے لیکن سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ ان آٹھ خوف زدہ انسانوں کے قتل کا ذمے دار کون ہے جو دہشت گردوں کے خوف سے کولڈ اسٹوریج میں پناہ گزین ہوگئے تھے، جنھیں دہشت گردوں نے تو نہیں مارا البتہ متعلقہ حکام کی بدحواسی کی وجہ سے یہ بد قسمت لوگ کولڈ اسٹوریج کو لگائی گئی آگ میں جل گئے، ان کی سوختہ لاشیں ورثاء کے حوالے تو کر دی گئی ہیں لیکن سو گوار لواحقین ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے پیاروں کے قتل کے ذمے دار کون ہیں؟
ان بدحواسیوں کے علاوہ بعض حکومتی اور ادارتی بدحواسیوں کے واقعات بھی پیش آئے، کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی اتنی بڑی کارروائیوں کے موقع پر نیچے سے اوپر تک سب ہی بدحواس ہو جاتے ہیں لیکن دہشت گردی سے ہونے والے اس قسم کے نقصانات کا انکشاف اپنے اندر ایک اہمیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلے عوام ان نقصانات کے اعلانات سے متاثر ہوتے ہیں جن کا اثر عوام کے ذہنوں اور ان کی نفسیات پر پڑتا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ چند دہشت گردوں کے سامنے پوری حکومتی مشینری کس قدر کمزور اور بے بس ہو گئی ہے، یہ سوچ عوام میں مایوسی کی لہر بن کر دوڑ جاتی ہے جو ملک اور معاشرے کے لیے انتہائی نقصان رساں بن جاتی ہے۔
ایئر پورٹ حملے کے بعد نقصانات کے جو اعداد و شمار میڈیا میں بتائے گئے اس کے مطابق دہشت گردی کے اس خوفناک اور المناک حملے میں چھ ہوائی جہازوں کو نقصان پہنچا۔ یہ خبر اخبارات میں سب سے بڑی سرخی بن کر شایع ہوئی لیکن بعض حکومتی اداروں کی طرف سے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس حملے میں کسی جہاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس حوالے سے شایع ہونے والی خبریں غلط ہیں۔ اس تردید سے مشکوک ذہن مطمئن نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے محترم اور ذمے دار وزیر داخلہ کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ ایئر پورٹ حملے میں دو تین جہازوں کو نقصان پہنچا ہے؟ بلاشبہ ایسے ہیبت ناک موقعوں پر افراتفری مچ جاتی ہے لیکن حکومت کی اعلیٰ قیادت بدحواس نہیں ہوتی بلکہ سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لے کر فیصلے کرتی ہے۔
اس قسم کے دہشت گرد حملوں میں ہونے والے نقصانات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور حکومتیں اندرونی اور بیرونی حالات کے تناظر میں متفقہ طور پر ایک فیصلہ کرتی ہیں اور اس فیصلے کے تحت نقصانات کے اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات قومی مفادات کے پیش نظر اور عوام کو مایوسی سے بچانے کے لیے نقصانات کے اعداد و شمار میں رد و بدل بھی کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے میڈیا کو اعتماد میں لیا جاتا ہے لیکن اس حملے میں ہونے والے نقصانات کے حوالے سے جو سرکاری بیانات اور اعلانات سامنے آئے وہ بڑے متضاد تھے۔ ان متضاد بیانات اور اعلانات سے یہ بات تو بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان یا تو رابطوں کا فقدان تھا یا باہمی اعتماد کی کمی تھی۔
ایسی صورت حال کا منفی اثر جہاں عوام پر پڑتا ہے وہیں عالمی سطح پر بھی حکومتی اداروں کے درمیان رابطوں کے نقصان کا تاثر ہوتا ہے۔ اس قسم کی صورت حال عمومی طور پر بدحواسی کا نتیجہ ہی کہلاتی ہے لیکن اگر حکومتوں کی اعلیٰ سطح پر اس قسم کی بدحواسی کا مظاہرہ کیا جائے تو اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کراچی ایئرپورٹ کے انتہائی غیر محفوظ ہونے کا خیال ہمارے ذہن پر اس وقت آیا جب ہمیں گلستان جوہر سے شاہ فیصل کی طرف آنے کا اتفاق ہوا۔
سڑک سے گزرنے والا ہر شخص سڑک سے کچھ ہی فاصلے پر درجنوں طیاروں کو رن وے پر کھڑا دیکھتا ہے، عام آدمی تو ان طیاروں کو اس قدر قریب سے دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے لیکن ہر صاحب عقل اربوں روپوں کی مالیت کے ان جہازوں کو اس قدر غیر محفوظ حالت میں دیکھ کر سخت پریشان ہو جاتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ پورا ملک دہشت گردی کا شکار ہے اور کراچی دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ بنا ہوا ہے۔ رن وے پر عام سڑک کے قریب قیمتی طیاروں کو اس قدر غیر محفوظ حالت میں رکھنا کیا عقل مندی کی دلیل ہو سکتی ہے؟
کراچی ایئر پورٹ ملک کا سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے جہاں دنیا بھر کی ایئرلائنوں کے جہاز رات دن آتے جاتے رہتے ہیں، اس اہم ترین ایئرپورٹ پر ممکنہ حملوں کے انتباہ میڈیا میں آتے رہے ہیں، اس انتباہ کے پیش نظر ضرورت اس بات کی تھی کہ ایئر پورٹ کے اطراف ایک سخت حفاظتی دیوار کھڑی کر دی جاتی۔ اگر ایسی سیکیورٹی دیوار کھڑی کر دی جاتی اور ایئرپورٹ آنے والی ہر گاڑی کو ایئر پورٹ سے فاصلے پر ہی روک کر پوری طرح چیک کرنے کا انتظام ہوتا تو یہ کیسے ممکن ہوتا کہ دہشت گردوں اور جدید اسلحے سے بھری گاڑی ایئر پورٹ کے گیٹ تک پہنچ جاتی؟
پہلوان گوٹھ ایئر پورٹ سے بالکل قریب آبادی ہے ، اس بستی میں رہنے والوں کی اکثریت یقیناً امن پسند اور قانون کی پاسداری کرنے والوں کی ہو گی لیکن دہشت گرد اس بستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بستی کو اپنے دہشت گردانہ منصوبوں میں استعمال کر سکتے ہیں اور یہی ہو رہا ہے۔ اے ایس ایف اکیڈمی پر دہشت گردوں نے پہلوان گوٹھ ہی سے فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ سے گھبرا کر پہلوان گوٹھ سے گلستان جوہر کی طرف فرار ہوئے، اس سے قبل بھی رینجرز نے اس بستی پر چھاپے مار کر دہشت گردوں کو پکڑا ہے اور بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کیا ہے۔
بلاشبہ شہر کے دوسرے بہت سارے علاقوں سے بھی دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں اور اسلحہ برآمد ہوتا ہے لیکن پہلوان گوٹھ کی صورت حال ان سے مختلف اور سنگین اس لیے ہے کہ اس کے ساتھ ہی ملک کا سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئر پورٹ موجود ہے۔ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے کوئی کام منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ ہر حکومت کو یہ پتہ ہے کہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب آبادیاں قائم نہیں کی جاتیں کیوں کہ یہ آبادیاں ایئرپورٹ کے لیے مستقل خطرہ بنی رہتی ہیں۔
کیا پہلوان گوٹھ سمیت ایئرپورٹ سے متصل آبادیوں کے خطرناک مضمرات سے ہمارے حکمران لاعلم تھے؟ ہماری ایئر پورٹ اتھارٹی کی نا اہلی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایئر پورٹ کے قریب کچرے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں جہاں چیل کوئوں کا ہجوم رہتا ہے اور یہ پرندے جہازوں سے ٹکرا کر جہازوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایئر پورٹ کے حالیہ خوفناک سانحے کے بعد بدحواسیوں سمیت ان تمام کمزوریوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے جو ایئر پورٹ کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔