پاک ایران تعلقات کی اہمیت

پچھلے مہینے وزیر اعظم نواز شریف نے ایران کا دورہ کیا جس کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔

پچھلے مہینے وزیر اعظم نواز شریف نے ایران کا دورہ کیا جس کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طویل عرصے سے سازشیں ہو رہی ہیں کہ ایران پاکستان تعلقات دشمنی کی سطح پر پہنچ جائیں۔بھارت میں مودی سرکار اور افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کا برسراقتدار آنا کوئی نیک شگن نہیں۔ خطے کی سنگین صورتحال اور پاکستان کی سلامتی کے پیش نظر پاکستان ایران دوستی کا مستحکم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبہ بروقت مکمل ہو جاتا تو پاکستانی عوام اور اس کی معیشت کو بے پناہ فائدہ پہنچتا۔

پاکستانی معیشت جس بدترین بحران سے دوچار ہے اس سے باہر نکلتی لیکن پاکستان کی اندرونی بیرون ملک دشمن قوتوں کو یہ سب منظور نہیں ۔ ایران میں مذہبی حکومت قائم ہونے کے باوجود وہاں کی لیڈر شپ نے سمجھداری سے کام لیا' کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ مثال کے طور پر ایران نے افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ ضرور دی ہر سہولت دی لیکن انھیں کیمپوں سے باہر نکلنے نہیں دیا۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل گئے جس سے پاکستانی قوم ایک عذاب میں مبتلا ہے اور پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی اور بیرونی دنیا یہ شکایت کرنے لگی کہ پاکستان دہشتگردی ہمسایہ ممالک سمیت پوری دنیا میں ایکسپورٹ کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ادھر ایران پوری دنیا سے اپنے تعلقات بڑی تیزی سے بڑھا کر عالمی تنہائی سے باہر نکل رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ایران کے جوہری معاملات کے حوالے سے پہلی مرتبہ امریکا ایران کی براہ راست بات چیت ہے۔ ایران کے تعلقات بھارت سے بھی بڑے گہرے' قریبی' بداعتمادی اور شکوک و شبہات سے پاک ہیں اور صرف ایران ہی نہیں عرب بادشاہتوں اور حکومتوں کے تعلقات بھی بھارت سے گہرے اور قریبی ہیں۔ جب کہ ہم پاکستانی بحیثیت مجموعی ایک عجیب و غریب کیفیت سے دو چار ہیں کہ بھارت اگر ہمارا دشمن ہے تو دنیا نہ سہی کم از کم مسلم دنیا ہماری محبت میں ہمارے دشمن کا بائیکاٹ کرے۔

کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ ایران کا بنیادی مقصد سعودی عرب' ایران کے درمیان ثالثی تھا۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ نواز شریف گیارہ مئی کو تہران پہنچے تو امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل کی بھی مشرق وسطیٰ کے دو روزہ دورے پر 12 مئی کو ریاض آمد ہوئی۔ یہ امریکی سیکریٹری دفاع کا ایک سال میں تیسرا دور تھا جس کا مقصد گلف کی ریاستوں خاص طور پر سعودی عرب کے امریکا ایران جوہری ڈیل کے حوالے سے خدشات کا ازالہ کرنا تھا۔ دوسرا اتفاق یہ دیکھئے کہ جیسے ہی امریکی سیکریٹری دفاع ریاض پہنچے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے بیان دیا کہ سعودی عرب ایران سے بہتر تعلقات بنانے کے لیے مذاکرات پر تیا رہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور ہم ایران سے اس امید پر گفتگو کرنے پر تیار ہیں کہ اگر ہمارے درمیان اختلافات ہیں تو ان کو دونوں ملکوں کے اطمینان کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے۔ ہم ایران سے امید کرتے ہیں کہ وہ اس خطے کی خوشحالی اور استحکام کا حصے بنے۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی سہولت کے مطابق ہمارے ملک آ سکتے ہیں۔ جب کہ پچھلے دسمبر میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کا دورہ کرنا پسند کریں گے۔


سعودی حکمرانوں سے اپیل کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ تہران سے مل کر کام کریں تا کہ خطے میں استحکام لایا جا سکے۔ طویل عرصے بعد سعودی عرب کی طرف سے بہت اچھی خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو بدگمانی ہی بدگمانی تھی۔ تہران تو بہت دیر سے سعودی عرب سے گلے ملنے کے لیے تیار بیٹھا ہے لیکن موقعہ اب آیا ہے جب امریکا نے ایران کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اب عرب بادشاہتوں کو بھی سمجھ میں آ گیا ہے کہ امریکا ایران کی طرف جوہری ڈیل کے حوالے سے جس راستے پر چل پڑا ہے اس سے واپسی ممکن نہیں کیونکہ خطے اور دنیا کا امن اس میں پوشیدہ ہے ورنہ دنیا کو اپنی ہار اور القاعدہ کی فتح کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

امریکی ایما پر سعودی عرب سمیت گلف ریاستیں ایران سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں القاعدہ اور ذیلی تنظیم کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ صرف پورے خطے بلکہ سعودی عرب اور دیگر بادشاہتوں کے لیے بھی خطرے کا باعث ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ صرف اس صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ جب ایران اور دیگر بادشاہتیں مل کر اس کا مقابلہ کریں۔ حالات کس قدر سنگین ہیں اس کا اندازہ موصل کے بعد عراق کے دوسرے شہر پر القاعدہ کے قبضے سے ہو سکتا ہے جو صوبہ نینوا میں واقع ہے۔

مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک فرقہ واریت کی جو آگ لگی ہوئی ہے اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ جب تمام مسلمان ملک مل کر اس خطرے کا مقابلہ کریں ورنہ یہ فرقہ واریت کی آگ ان سب کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔اس سال کے شروع میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ ڈرون حملے مئی آخر 'جون کے آغاز میں دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ اگست ستمبر تک ڈرونز حملے اپنی انتہا پر پہنچ جائیں گے۔

18'22اور 25۔26جون کے عرصے میں گرمی کی شدت میں کمی آ جائے گی۔

سیل فون :0346-4527997
Load Next Story