کیوپڈس ڈیزیز
جب انگلش فلم میں ایک ڈاکٹر نے اپنی معمر مریضہ سے گفتگو کرتے ہوئے
جب انگلش فلم میں ایک ڈاکٹر نے اپنی معمر مریضہ سے گفتگو کرتے ہوئے Cupid's disease کا تذکرہ کیا تو میرے ہونٹوں پر غیر شعوری مسکراہٹ پھیل گئی۔ گو میں میڈیکل سائنس کی زیادہ معلومات نہیں رکھتا مگر کامن سینس کی بنیاد پر میں سمجھا کہ شاید یہ ایک رومانوی عارضہ ہے۔ جس کو ہم ''مرض محبت'' بھی کہہ سکتے ہیں۔ پھر اس حوالے سے مجھے اردو ادب کے وہ مشہور اشعار یاد آنے لگے جن پر مرزا غالب کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ میں نے سوچا کہ جس طرح غالب نے کہا تھا کہ:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
اسی طرح جب کوئی حسین ہمارے سامنے بیٹھا ہوتا ہے تو ہم عمر اور اخلاق کی زنجیروں میں قید ہوتے ہوئے بھی اپنی ان نظروں کو نہیں روک پاتے، جو کسی پھول جیسے حسین چہرے پر تتلیوں کی طرح منڈلانے لگتی ہیں۔ وہ نظریں جو ہمارے بس میں نہیں رہتیں وہ صرف سامنے والی کی آنکھوں سے ڈرتی ہیں۔ کیوں کہ جب دو انسانوں کی آنکھیں آپس میں ملتی ہیں تو دل میں احساسات کے ساز بجنے لگتے ہیں۔ اس لیے ہم احتیاط بھی کرتے ہیں۔ مگر بقول انڈیا کے فلمی شاعر کہ ''دل تو بچہ ہے'' جس طرح ایک بچہ اپنی پسند کی چیز پر چنچل ہوکر بے قابو بن جاتا ہے اسی طرح ہمارا دل بھی مچل جاتا ہے اس حسن کو دیکھ کر جو دنیاوی دستور کے مطابق ہمارا نہیں ہوتا مگر حسن پر سب سے زیادہ حق تو ان آنکھوں کو ہوا کرتا ہے جو انھیں دیکھنے سے باز نہیں آتیں۔
آنکھیں تو آنکھیں ہیں وہ اگر کسی کے چہرے تک محدود رہیں تب بھی ٹھیک مگر وہ تو حسن کے اس گلشن میں آوارہ گردی کرنے لگتی ہیں۔ حسن صرف چہرے تک محدود ہوتا تو آنکھیں وہاں تک ہی رہتی مگر یہ آنکھیں تو اس حسن کا سراپا دیدار کرنے کے لیے سر سے لے کر پیروں تک وہ سارا سفر کرتی ہیں جس کا تذکرہ نثر میں کرنا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ حسن کی گلی وہ گلی ہوا کرتی ہے جس کے بارے میں مرزا غالب نے لکھا ہے کہ:
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندا رکا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
اس لیے ہماری انا کی کیا اہمیت اس بت ناز کے سامنے جو کبھی اپنی کشش میں عمر کو بھی شکست دے دیتی ہے۔ میں کیا، آپ نے بھی ایسے حسین لوگ دیکھے ہوں گے جن پر عمر کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ ساری زندگی اس تصویر کی طرح نظر آتے ہیں جو بڑھاپے کی طرف نہیں بڑھتی۔ ایسے حسین لوگ صرف میں نے نہیں آپ نے بھی دیکھے ہوں گے اور جب آپ نے دیکھے ہوں گے تو آپ جانتے بھی ہوں گے کہ ان حسینوں سے آنکھیں چرانا عشق کی اخلاقیات کے مطابق تو ایک جرم ہوا کرتا ہے۔
اس لیے ہم اس وقت بھی ان حسین جسموں کو دیکھتے ہیں جب ہم دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرپاتے۔ کیوں کہ انسان تو بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کا احساس بوڑھا نہیں ہوتا۔ وہ احساس جو تہذیب کی بندشوں کو بھی نہیں مانتا۔ جو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ جو تصویر کی طرح ہمارے سامنے بیٹھی ہے اس کے دل میں ہمارے احساسات کے لیے کوئی احساس بھی ہے یا نہیں۔
ہمارا معاشرہ بہت آزاد ہوتے ہوئے بھی بہت ساری پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس لیے ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ سب کچھ کہاں کہہ پاتے ہیں؟ مگر جہاں آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں وہاں کے لکھنے والے وہ سب کچھ لکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ کیا کسی کالم نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف ملک کے سیاسی حالات کو دیکھے۔ میں جانتا ہوں کہ سیاست کی بہت اہمیت ہے۔ اس سیاست سے ہماری معاشیات کا مضبوط رشتہ ہے۔ اس معاشیات سے ہمارے غم اور ہماری خوشیاں وابستہ ہیں۔ اس لیے میں سیاست کی اہمیت سے کس طرح انکار کرسکتا ہوں مگر جب ہمارے سارے صحافی ملک کے اہم مسائل پر لکھ رہے ہیں تب ہمیں تو اجازت ہونی چاہیے کہ ہم انڈیا کے معروف قلمکار خشونت سنگھ کے سلسلے کو کچھ آگے بڑھاتے ہوئے یہ لکھیں کہ:
ہائے اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دلاویز خطوط
آپ ہی کہیے کیا ایسے بھی عنواں ہوں گے؟
تو ہمیں یہ عنوان یاد آگئے جب ہم نے سنا اس مرض کا نام جس کو ڈاکٹر Cupid's disease کہہ رہا تھا۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ کیوپڈ خواہش اور محبت کے اس دیوتا کا نام ہے جس کے ہاتھ میں تیر اور کمان نظر آتے ہیں اور وہ دلوں پر تیر چلانے کا ماہر ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا۔ اس کیوپڈ کے زخم کس دل میں نہیں ہوں گے۔ سب اس ظالم مگر محبوب دیوتا کے زخموں سے چور ہیں۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ اس جرم کا اعتراف صرف ہم کر رہے ہیں۔ وہ کیوپڈ جب انسان کو اپنا نشانہ بناتا ہے تب وہ انسان دیوانہ بن جاتا ہے۔
اس لیے جب کوئی حسین صورت سامنے بیٹھی ہو اور اپنے بالوں کو ادا کے ساتھ پیشانی سے ہٹاتی ہے تب ہماری نظریں اس کو دیکھنے کے لیے بے بس ہوجاتی ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ ہمارا یا اس حسن کا؟ مگر ہم اس سوال کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے آگے چلتے ہیں ان معاشروں کی طرف جہاں آزادی اظہار کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا اور وہاں لکھنے والے وہ سب لکھتے ہیں جس کو ہم شدت کے ساتھ محسوس تو کرسکتے ہیں مگر ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مگر ہمارا یہ خوف کب ختم ہوگا؟ اس سوال کو بھی چھوڑ دیں۔
آپ صرف اس خیال کی انگلی پکڑ کر آگے چلیں کہ کتنا لطف آتا ہے انسان کو اپنے ذہن میں ایک ایسے تصور کو بناتے ہوئے جو غلط ہی کیوں نہ ہو۔ بالکل اس طرح جس طرح چند روز پہلے میں نے اپنے ذہن میں Cupid's disease کا نام سن کر جس رومانوی مرض کا تصور کیا حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ جب میں نے انٹرنیٹ پر اس مرض کے بارے میں جاننا چاہا تو مجھے نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ میرا موڈ بھی آف ہوگیا اور میں سوچنے لگا کہ اس سے کہیں اچھا تھا کہ میں اس لفظ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرتا، صرف اس لفظ کا لطف لیتا۔
مگر میں اس لفظ کی تلاش میں جنسی بیماریوں کے جنگل میں پھنس گیا۔ اور پھر پچھتانے لگا، اور مجھے یہ سوچ کر غصہ آنے لگا وہ میڈیکل سائنس والے آخر خراب بیماریوں کے خوبصورت نام کیوں رکھتے ہیں؟ Cupid's disease تو اس مرض کا نام ہونا چاہیے جس کے بارے میں اردو کے ایک استاد شاعر نے کہا تھا کہ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' Cupid's disease تو عارضہ عشق کو کہا جانا چاہیے۔ یہ بیماری ایک خوبصورت احساس ہوتی تو ٹھیک تھا۔ ایسے احساسات جو ہمارے دلوں میں ہر دن نئے روپ و رنگ لے کر آتے ہیں۔ وہ احساسات جن کا خوبصورت سایہ ہمیں شاعری میں نظر آتا ہے۔ وہی مرزا غالب والی بات کہ:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
کسی کے سامنے بیٹھے رہنا اور اس کی مینا جیسی گردن اور بھرے ہوئے ساغروں کو دیکھتے حسن کی گہری نظر میں کھو جانا اور رات کو انھیں سوچتے سوچتے سوجانا۔ اس کیفیت کا نام ہونا چاہیے Cupid's disease۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
اسی طرح جب کوئی حسین ہمارے سامنے بیٹھا ہوتا ہے تو ہم عمر اور اخلاق کی زنجیروں میں قید ہوتے ہوئے بھی اپنی ان نظروں کو نہیں روک پاتے، جو کسی پھول جیسے حسین چہرے پر تتلیوں کی طرح منڈلانے لگتی ہیں۔ وہ نظریں جو ہمارے بس میں نہیں رہتیں وہ صرف سامنے والی کی آنکھوں سے ڈرتی ہیں۔ کیوں کہ جب دو انسانوں کی آنکھیں آپس میں ملتی ہیں تو دل میں احساسات کے ساز بجنے لگتے ہیں۔ اس لیے ہم احتیاط بھی کرتے ہیں۔ مگر بقول انڈیا کے فلمی شاعر کہ ''دل تو بچہ ہے'' جس طرح ایک بچہ اپنی پسند کی چیز پر چنچل ہوکر بے قابو بن جاتا ہے اسی طرح ہمارا دل بھی مچل جاتا ہے اس حسن کو دیکھ کر جو دنیاوی دستور کے مطابق ہمارا نہیں ہوتا مگر حسن پر سب سے زیادہ حق تو ان آنکھوں کو ہوا کرتا ہے جو انھیں دیکھنے سے باز نہیں آتیں۔
آنکھیں تو آنکھیں ہیں وہ اگر کسی کے چہرے تک محدود رہیں تب بھی ٹھیک مگر وہ تو حسن کے اس گلشن میں آوارہ گردی کرنے لگتی ہیں۔ حسن صرف چہرے تک محدود ہوتا تو آنکھیں وہاں تک ہی رہتی مگر یہ آنکھیں تو اس حسن کا سراپا دیدار کرنے کے لیے سر سے لے کر پیروں تک وہ سارا سفر کرتی ہیں جس کا تذکرہ نثر میں کرنا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ حسن کی گلی وہ گلی ہوا کرتی ہے جس کے بارے میں مرزا غالب نے لکھا ہے کہ:
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندا رکا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
اس لیے ہماری انا کی کیا اہمیت اس بت ناز کے سامنے جو کبھی اپنی کشش میں عمر کو بھی شکست دے دیتی ہے۔ میں کیا، آپ نے بھی ایسے حسین لوگ دیکھے ہوں گے جن پر عمر کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ ساری زندگی اس تصویر کی طرح نظر آتے ہیں جو بڑھاپے کی طرف نہیں بڑھتی۔ ایسے حسین لوگ صرف میں نے نہیں آپ نے بھی دیکھے ہوں گے اور جب آپ نے دیکھے ہوں گے تو آپ جانتے بھی ہوں گے کہ ان حسینوں سے آنکھیں چرانا عشق کی اخلاقیات کے مطابق تو ایک جرم ہوا کرتا ہے۔
اس لیے ہم اس وقت بھی ان حسین جسموں کو دیکھتے ہیں جب ہم دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرپاتے۔ کیوں کہ انسان تو بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کا احساس بوڑھا نہیں ہوتا۔ وہ احساس جو تہذیب کی بندشوں کو بھی نہیں مانتا۔ جو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ جو تصویر کی طرح ہمارے سامنے بیٹھی ہے اس کے دل میں ہمارے احساسات کے لیے کوئی احساس بھی ہے یا نہیں۔
ہمارا معاشرہ بہت آزاد ہوتے ہوئے بھی بہت ساری پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس لیے ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ سب کچھ کہاں کہہ پاتے ہیں؟ مگر جہاں آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں وہاں کے لکھنے والے وہ سب کچھ لکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ کیا کسی کالم نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف ملک کے سیاسی حالات کو دیکھے۔ میں جانتا ہوں کہ سیاست کی بہت اہمیت ہے۔ اس سیاست سے ہماری معاشیات کا مضبوط رشتہ ہے۔ اس معاشیات سے ہمارے غم اور ہماری خوشیاں وابستہ ہیں۔ اس لیے میں سیاست کی اہمیت سے کس طرح انکار کرسکتا ہوں مگر جب ہمارے سارے صحافی ملک کے اہم مسائل پر لکھ رہے ہیں تب ہمیں تو اجازت ہونی چاہیے کہ ہم انڈیا کے معروف قلمکار خشونت سنگھ کے سلسلے کو کچھ آگے بڑھاتے ہوئے یہ لکھیں کہ:
ہائے اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دلاویز خطوط
آپ ہی کہیے کیا ایسے بھی عنواں ہوں گے؟
تو ہمیں یہ عنوان یاد آگئے جب ہم نے سنا اس مرض کا نام جس کو ڈاکٹر Cupid's disease کہہ رہا تھا۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ کیوپڈ خواہش اور محبت کے اس دیوتا کا نام ہے جس کے ہاتھ میں تیر اور کمان نظر آتے ہیں اور وہ دلوں پر تیر چلانے کا ماہر ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا۔ اس کیوپڈ کے زخم کس دل میں نہیں ہوں گے۔ سب اس ظالم مگر محبوب دیوتا کے زخموں سے چور ہیں۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ اس جرم کا اعتراف صرف ہم کر رہے ہیں۔ وہ کیوپڈ جب انسان کو اپنا نشانہ بناتا ہے تب وہ انسان دیوانہ بن جاتا ہے۔
اس لیے جب کوئی حسین صورت سامنے بیٹھی ہو اور اپنے بالوں کو ادا کے ساتھ پیشانی سے ہٹاتی ہے تب ہماری نظریں اس کو دیکھنے کے لیے بے بس ہوجاتی ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ ہمارا یا اس حسن کا؟ مگر ہم اس سوال کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے آگے چلتے ہیں ان معاشروں کی طرف جہاں آزادی اظہار کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا اور وہاں لکھنے والے وہ سب لکھتے ہیں جس کو ہم شدت کے ساتھ محسوس تو کرسکتے ہیں مگر ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مگر ہمارا یہ خوف کب ختم ہوگا؟ اس سوال کو بھی چھوڑ دیں۔
آپ صرف اس خیال کی انگلی پکڑ کر آگے چلیں کہ کتنا لطف آتا ہے انسان کو اپنے ذہن میں ایک ایسے تصور کو بناتے ہوئے جو غلط ہی کیوں نہ ہو۔ بالکل اس طرح جس طرح چند روز پہلے میں نے اپنے ذہن میں Cupid's disease کا نام سن کر جس رومانوی مرض کا تصور کیا حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ جب میں نے انٹرنیٹ پر اس مرض کے بارے میں جاننا چاہا تو مجھے نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ میرا موڈ بھی آف ہوگیا اور میں سوچنے لگا کہ اس سے کہیں اچھا تھا کہ میں اس لفظ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرتا، صرف اس لفظ کا لطف لیتا۔
مگر میں اس لفظ کی تلاش میں جنسی بیماریوں کے جنگل میں پھنس گیا۔ اور پھر پچھتانے لگا، اور مجھے یہ سوچ کر غصہ آنے لگا وہ میڈیکل سائنس والے آخر خراب بیماریوں کے خوبصورت نام کیوں رکھتے ہیں؟ Cupid's disease تو اس مرض کا نام ہونا چاہیے جس کے بارے میں اردو کے ایک استاد شاعر نے کہا تھا کہ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' Cupid's disease تو عارضہ عشق کو کہا جانا چاہیے۔ یہ بیماری ایک خوبصورت احساس ہوتی تو ٹھیک تھا۔ ایسے احساسات جو ہمارے دلوں میں ہر دن نئے روپ و رنگ لے کر آتے ہیں۔ وہ احساسات جن کا خوبصورت سایہ ہمیں شاعری میں نظر آتا ہے۔ وہی مرزا غالب والی بات کہ:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
کسی کے سامنے بیٹھے رہنا اور اس کی مینا جیسی گردن اور بھرے ہوئے ساغروں کو دیکھتے حسن کی گہری نظر میں کھو جانا اور رات کو انھیں سوچتے سوچتے سوجانا۔ اس کیفیت کا نام ہونا چاہیے Cupid's disease۔