کہیں دیر نہ ہوجائے
کراچی میں ایک بار پھر مسلح دہشت گردوں نے ایک بڑی واردات کرکے ہمارے حفاظتی اقدامات کا پول کھول دیا ہے۔
کراچی میں ایک بار پھر مسلح دہشت گردوں نے ایک بڑی واردات کرکے ہمارے حفاظتی اقدامات کا پول کھول دیا ہے۔ حکومت اور کراچی آپریشن کی ناکامی کا بدترین ثبوت ہے۔ کراچی میں جاری آپریشن پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ 10 دہشت گرد آئے اور کراچی ایئرپورٹ پر اتنی بڑی دہشت گردی کی۔ یہ دہشت گرد ایک دم تو آسمان سے نازل نہیں ہوئے، یقیناً اتنی بڑی دہشت گردی کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی تھی۔
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دوبارہ حملہ ہوا تو وہ ایئرپورٹ کے پیچھے کچی آبادی کی طرف سے ہوا اور پہلا حملہ بھی پیچھے ہی کی طرف سے کیا گیا۔ دہشت گرد اتنے دن سے کراچی میں موجود تھے اور ہمارے اداروں کو خبر تک نہ ہوئی۔ اگر کسی بھی محلے میں کوئی اجنبی فیملی آکر بستی ہے تو محلے والے ساری معلومات لیتے ہیں، کون ہیں کہاں سے آئے ہیں؟ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اور ان 10 دہشت گردوں کا کسی کو بھی معلوم نہ ہوا۔
کراچی میں آئے، اتنے دن منصوبہ بندی کرتے رہے اور پھر ایک بہت بڑی دہشت گردی انجام دی، جس میں کئی قیمتیں جانیں ضایع ہوئیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جو ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں؟ کون لوگ ہیں جو ہمارے ملک کو آگ لگانا چاہتے ہیں؟ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ شام اور عراق کی طرح پاکستان بھی بدامنی کا شکار رہے۔ پاکستان کے اندر اور خصوصی طور پر کراچی میں دہشت گردی پورے منصوبے کی تحت اور مقصد کے تحت ہو رہی ہے۔ آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے جس ملک کو ختم کرنا ہو پہلے وہاں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے اور پھر وہ عناصر جنھوں نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کروائی ہوتی ہے وہ عناصر اس ملک پر حملہ کردیتے ہیں۔
آئیے ہم تھوڑا ماضی میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں پر نظر ڈالتے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کو توڑنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔
پہلا حملہ 15 دسمبر 2012 کو پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پیش آیا ۔ دہشت گردوں کا ہدف پاکستان ایئرفورس بیس تھا، اس واقعے میں 40 سویلین جاں بحق ہوئے، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس کے بعد دوسرا واقعہ 22 مئی 2011 کو پیش آیا، جب دہشت گردوں نے نیول بیس کراچی پر 18 گھنٹے تک قبضہ رکھا تھا اور کئی جانیں ضایع ہوئی تھیں۔ ہماری انتظامیہ سب جانتی ہے۔
کون لوگ ہیں اور کون ان لوگوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں مگر خاموش بنی تماشا دیکھ رہی ہے اور انتظار کرتی ہے، دہشت گرد پھر کب حملے کریں گے۔ ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی منصوبہ بندی، کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہیں۔ تیسرا حملہ 16 اگست 2012 کو کامرہ بیس پر پیش آیا، یہ دہشت گرد پاکستان کے حفاظتی اداروں کو تباہ و برباد کردینا چاہتے ہیں تاکہ وہ عناصر جن کی ان دہشت گردوں کو پشت پناہی حاصل ہے وہ آخر میں بہت آرام سے پاکستان پر حملہ کردیں۔
جناح انٹرنیشنل پر چوتھا حملہ اور سب سے خوفناک حملہ ہے۔ یہ ہمارے اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا حملہ کرنے میں کامیاب رہے، آخر کیوں؟ کیا یہ دہشت گرد طاقت ور ہیں یا پھر ان کی پشت پناہی کرنے والے عناصر بہت زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ بات یہ بھی نہیں ہے اصل میں دہشت گرد طاقتور نہیں ہیں بلکہ ہمارے حفاظتی اقدامات بے کار ہیں، جس کی وجہ سے یہ دہشت گرد اپنی کارروائی بہت آسانی سے کرجاتے ہیں۔
انتظامیہ اور اداروں کی بہت بڑی نااہلی ہے کہ یہ دہشت گرد کراچی میں رہے اور ایک کوسٹر میں بھاری اسلحہ لے کر ایئرپورٹ کے اندر آسانی سے داخل ہوگئے۔ کراچی میں جاری ٹارگٹ آپریشن پر یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ یہ سب کیا اور کیسے ہوگیا؟ جب کہ کراچی میں آپریشن جاری تھا۔ کراچی آپریشن ناکام ہوچکا ہے۔ کراچی آپریشن کے دوران ہی ایکسپریس نیوز پر دو بار حملہ ہوا اور دہشت گرد شدید فائرنگ کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، حتیٰ کہ اس وقت کراچی میں آپریشن جاری تھا پھر بھی دہشت گرد اپنی دہشت گردیوں میں کامیاب تھے۔
دہشت گرد ملکی ہوں یا پھر غیر ملکی ہمارے حساس اداروں کا کام ہے کہ جو ان لوگوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان کو ختم کریں۔ اگر دہشت گرد اس طرح سے اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہے تو عام لوگوں کا اور خاص طور پر سرمایہ کاروں کا ہمارے ملک سے اعتبار ختم ہوجائے گا اور سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں اپنا سرمایہ لگائیں گے، جس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوگا اور بہت سے تو سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال کر دوسرے ممالک میں لگا بھی چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی ملک کے حالات سے بہت پریشان ہیں۔
ملک کو نقصان پہنچانے کی سازش تو بہت عرصے سے چل رہی ہے مگر عقل حیران ہوتی ہے جب میں اپنے ملک کے ذمے دار لوگوں پر نظر ڈالتی ہوں تو وہ کیوں اتنے بے حس ہوگئے ہیں اس کی مثال آپ یہ ہی لے لیں کہ ملک دشمن عناصر تو ہم پر اور ملک پر ظلم کر ہی رہے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے اپنے لوگ کیوں بے حس ہو رہے ہیں جب کہ ایکسپریس نیوز پر یہ خبر نشر ہوئی تو سب کو رلا گئی کہ کراچی ایئرپورٹ اولڈ ٹرمینل پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران کولڈ اسٹوریج میں پناہ لینے والے نجی کارگو کمپنی کے 8 ملازمین کی سوختہ لاشیں 30 گھنٹوں کے بعد نکال لی گئیں۔
تمام افراد حملے کے بعد کولڈ اسٹوریج میں پناہ لینے کے لیے چھپ گئے تھے جہاں دہشت گردوں نے کولڈ اسٹوریج کے قریب دستی بموں سے حملے کیے تھے اور اس دوران کولڈ اسٹوریج، کارگو ٹرمینل سمیت متعدد عمارتوں میں آگ بھڑک اٹھی جو بعد میں شدت اختیار کرگئی، سول ایوی ایشن سمیت متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کے باعث آگ کو بجھائے بغیر ہی ریسکیو آپریشن پیر کی دوپہر ختم کردیا گیا، جس کے باعث نجی کارگو کمپنی کے 8 ملازمین پیر کی شام تک پھنسے رہے اور اس دوران وہ اپنے اہلخانہ سے موبائل فون پر رابطہ کرکے التماس کرتے رہے کہ ہم کو بچالو۔
آہ کیا ہی دردناک خبر تھی، کولڈ اسٹوریج میں پھنسے افراد کے اہل خانہ جائے وقوع پر پہنچ گئے اور متعلقہ اداروں کی منت سماجت کرتے رہے پھر بھی امدادی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ اس قدر بے حسی کا مظاہرہ، آہ اتنا ظلم، وہ بھی اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ۔ ہماری انتظامیہ بھی دہشت گرد بن گئی اور 8افراد کی جان لے لی گئی۔ صرف یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ غیر ملکی دہشت گرد ہم پر ظلم کر رہے ہیں، ہم پر ہمارے لوگ ہی ظلم کر رہے ہیں۔ اپنی لاپرواہی اور اپنی غفلت سے اور ان لوگوں کی غفلت سے ہم اپنے پیاروں کو کھوتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم ایسے ہی غافل رہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارا بھی حشر خدا نہ کرے شام اور عراق جیسا ہو۔
دنیا کے ملکوں پر نظر ڈالیں تو ان کے ایئرپورٹ آبادی سے دور بنے ہوئے ہیں اور کراچی کا ایئرپورٹ بالکل آبادی کے ساتھ آبادی کے اندر موجود ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے رہائشی علاقوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ دہشت گردی کے خطرے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات جہاز ایئرپورٹ پر اترتے وقت کافی حد تک گھروں کی چھتوں کے قریب ہوتے ہیں، اس طرح کبھی بھی کوئی بھی حادثہ رونما ہوسکتا ہے، کوئی جہاز اس رہائشی علاقے پر گر بھی سکتا ہے اور کوئی بھی دہشت گرد گھر کی چھت سے آرام سے جہاز پر فائر بھی کرسکتا ہے۔
اس طرح نہ صرف وہاں کے رہائشی بلکہ ایئرپورٹ پر اترنے والے جہاز بھی کسی طرح محفوظ نہیں ہیں۔ ہماری انتظامیہ کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے اور کراچی ایئرپورٹ کو آبادی سے دور بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ذرا سی بھی غفلت سے کافی تباہی ہوسکتی ہے، ویسے بھی ہم اپنی غفلت سے اپنے ملک اور اپنے ہی لوگوں کو بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اب غفلت سے بیدار ہونے کا وقت ہے۔ خدایا اپنے ملک کو بچالو یہ ملک ہے تو ہماری پہچان ہے ورنہ ہم کچھ بھی نہیں۔
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دوبارہ حملہ ہوا تو وہ ایئرپورٹ کے پیچھے کچی آبادی کی طرف سے ہوا اور پہلا حملہ بھی پیچھے ہی کی طرف سے کیا گیا۔ دہشت گرد اتنے دن سے کراچی میں موجود تھے اور ہمارے اداروں کو خبر تک نہ ہوئی۔ اگر کسی بھی محلے میں کوئی اجنبی فیملی آکر بستی ہے تو محلے والے ساری معلومات لیتے ہیں، کون ہیں کہاں سے آئے ہیں؟ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اور ان 10 دہشت گردوں کا کسی کو بھی معلوم نہ ہوا۔
کراچی میں آئے، اتنے دن منصوبہ بندی کرتے رہے اور پھر ایک بہت بڑی دہشت گردی انجام دی، جس میں کئی قیمتیں جانیں ضایع ہوئیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جو ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں؟ کون لوگ ہیں جو ہمارے ملک کو آگ لگانا چاہتے ہیں؟ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ شام اور عراق کی طرح پاکستان بھی بدامنی کا شکار رہے۔ پاکستان کے اندر اور خصوصی طور پر کراچی میں دہشت گردی پورے منصوبے کی تحت اور مقصد کے تحت ہو رہی ہے۔ آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے جس ملک کو ختم کرنا ہو پہلے وہاں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے اور پھر وہ عناصر جنھوں نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کروائی ہوتی ہے وہ عناصر اس ملک پر حملہ کردیتے ہیں۔
آئیے ہم تھوڑا ماضی میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں پر نظر ڈالتے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کو توڑنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔
پہلا حملہ 15 دسمبر 2012 کو پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پیش آیا ۔ دہشت گردوں کا ہدف پاکستان ایئرفورس بیس تھا، اس واقعے میں 40 سویلین جاں بحق ہوئے، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس کے بعد دوسرا واقعہ 22 مئی 2011 کو پیش آیا، جب دہشت گردوں نے نیول بیس کراچی پر 18 گھنٹے تک قبضہ رکھا تھا اور کئی جانیں ضایع ہوئی تھیں۔ ہماری انتظامیہ سب جانتی ہے۔
کون لوگ ہیں اور کون ان لوگوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں مگر خاموش بنی تماشا دیکھ رہی ہے اور انتظار کرتی ہے، دہشت گرد پھر کب حملے کریں گے۔ ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی منصوبہ بندی، کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہیں۔ تیسرا حملہ 16 اگست 2012 کو کامرہ بیس پر پیش آیا، یہ دہشت گرد پاکستان کے حفاظتی اداروں کو تباہ و برباد کردینا چاہتے ہیں تاکہ وہ عناصر جن کی ان دہشت گردوں کو پشت پناہی حاصل ہے وہ آخر میں بہت آرام سے پاکستان پر حملہ کردیں۔
جناح انٹرنیشنل پر چوتھا حملہ اور سب سے خوفناک حملہ ہے۔ یہ ہمارے اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا حملہ کرنے میں کامیاب رہے، آخر کیوں؟ کیا یہ دہشت گرد طاقت ور ہیں یا پھر ان کی پشت پناہی کرنے والے عناصر بہت زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ بات یہ بھی نہیں ہے اصل میں دہشت گرد طاقتور نہیں ہیں بلکہ ہمارے حفاظتی اقدامات بے کار ہیں، جس کی وجہ سے یہ دہشت گرد اپنی کارروائی بہت آسانی سے کرجاتے ہیں۔
انتظامیہ اور اداروں کی بہت بڑی نااہلی ہے کہ یہ دہشت گرد کراچی میں رہے اور ایک کوسٹر میں بھاری اسلحہ لے کر ایئرپورٹ کے اندر آسانی سے داخل ہوگئے۔ کراچی میں جاری ٹارگٹ آپریشن پر یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ یہ سب کیا اور کیسے ہوگیا؟ جب کہ کراچی میں آپریشن جاری تھا۔ کراچی آپریشن ناکام ہوچکا ہے۔ کراچی آپریشن کے دوران ہی ایکسپریس نیوز پر دو بار حملہ ہوا اور دہشت گرد شدید فائرنگ کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، حتیٰ کہ اس وقت کراچی میں آپریشن جاری تھا پھر بھی دہشت گرد اپنی دہشت گردیوں میں کامیاب تھے۔
دہشت گرد ملکی ہوں یا پھر غیر ملکی ہمارے حساس اداروں کا کام ہے کہ جو ان لوگوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان کو ختم کریں۔ اگر دہشت گرد اس طرح سے اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہے تو عام لوگوں کا اور خاص طور پر سرمایہ کاروں کا ہمارے ملک سے اعتبار ختم ہوجائے گا اور سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں اپنا سرمایہ لگائیں گے، جس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوگا اور بہت سے تو سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال کر دوسرے ممالک میں لگا بھی چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی ملک کے حالات سے بہت پریشان ہیں۔
ملک کو نقصان پہنچانے کی سازش تو بہت عرصے سے چل رہی ہے مگر عقل حیران ہوتی ہے جب میں اپنے ملک کے ذمے دار لوگوں پر نظر ڈالتی ہوں تو وہ کیوں اتنے بے حس ہوگئے ہیں اس کی مثال آپ یہ ہی لے لیں کہ ملک دشمن عناصر تو ہم پر اور ملک پر ظلم کر ہی رہے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے اپنے لوگ کیوں بے حس ہو رہے ہیں جب کہ ایکسپریس نیوز پر یہ خبر نشر ہوئی تو سب کو رلا گئی کہ کراچی ایئرپورٹ اولڈ ٹرمینل پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران کولڈ اسٹوریج میں پناہ لینے والے نجی کارگو کمپنی کے 8 ملازمین کی سوختہ لاشیں 30 گھنٹوں کے بعد نکال لی گئیں۔
تمام افراد حملے کے بعد کولڈ اسٹوریج میں پناہ لینے کے لیے چھپ گئے تھے جہاں دہشت گردوں نے کولڈ اسٹوریج کے قریب دستی بموں سے حملے کیے تھے اور اس دوران کولڈ اسٹوریج، کارگو ٹرمینل سمیت متعدد عمارتوں میں آگ بھڑک اٹھی جو بعد میں شدت اختیار کرگئی، سول ایوی ایشن سمیت متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کے باعث آگ کو بجھائے بغیر ہی ریسکیو آپریشن پیر کی دوپہر ختم کردیا گیا، جس کے باعث نجی کارگو کمپنی کے 8 ملازمین پیر کی شام تک پھنسے رہے اور اس دوران وہ اپنے اہلخانہ سے موبائل فون پر رابطہ کرکے التماس کرتے رہے کہ ہم کو بچالو۔
آہ کیا ہی دردناک خبر تھی، کولڈ اسٹوریج میں پھنسے افراد کے اہل خانہ جائے وقوع پر پہنچ گئے اور متعلقہ اداروں کی منت سماجت کرتے رہے پھر بھی امدادی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ اس قدر بے حسی کا مظاہرہ، آہ اتنا ظلم، وہ بھی اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ۔ ہماری انتظامیہ بھی دہشت گرد بن گئی اور 8افراد کی جان لے لی گئی۔ صرف یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ غیر ملکی دہشت گرد ہم پر ظلم کر رہے ہیں، ہم پر ہمارے لوگ ہی ظلم کر رہے ہیں۔ اپنی لاپرواہی اور اپنی غفلت سے اور ان لوگوں کی غفلت سے ہم اپنے پیاروں کو کھوتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم ایسے ہی غافل رہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارا بھی حشر خدا نہ کرے شام اور عراق جیسا ہو۔
دنیا کے ملکوں پر نظر ڈالیں تو ان کے ایئرپورٹ آبادی سے دور بنے ہوئے ہیں اور کراچی کا ایئرپورٹ بالکل آبادی کے ساتھ آبادی کے اندر موجود ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے رہائشی علاقوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ دہشت گردی کے خطرے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات جہاز ایئرپورٹ پر اترتے وقت کافی حد تک گھروں کی چھتوں کے قریب ہوتے ہیں، اس طرح کبھی بھی کوئی بھی حادثہ رونما ہوسکتا ہے، کوئی جہاز اس رہائشی علاقے پر گر بھی سکتا ہے اور کوئی بھی دہشت گرد گھر کی چھت سے آرام سے جہاز پر فائر بھی کرسکتا ہے۔
اس طرح نہ صرف وہاں کے رہائشی بلکہ ایئرپورٹ پر اترنے والے جہاز بھی کسی طرح محفوظ نہیں ہیں۔ ہماری انتظامیہ کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے اور کراچی ایئرپورٹ کو آبادی سے دور بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ذرا سی بھی غفلت سے کافی تباہی ہوسکتی ہے، ویسے بھی ہم اپنی غفلت سے اپنے ملک اور اپنے ہی لوگوں کو بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اب غفلت سے بیدار ہونے کا وقت ہے۔ خدایا اپنے ملک کو بچالو یہ ملک ہے تو ہماری پہچان ہے ورنہ ہم کچھ بھی نہیں۔