پاک سعودیہ شراکت داری اور معاشی شرح نمو
سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے
پاکستان اور سعودی عرب نے دونوں ممالک کے باہمی فائدے کے لیے مضبوط شراکت داری قائم کرنے اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی وفد کا دورہ پاک سعودیہ اسٹرٹیجک اور تجارتی شراکت داری کے نئے دورکا آغاز ہے، جب کہ بقول وزیرخارجہ اسحاق ڈار، ایس آئی ایف سی کے ذریعے زراعت اور معدنیات کے شعبے میں موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، سرمایہ کاری کے لیے توانائی، ہائیڈرو، تعلیم، آئی ٹی، کان کنی، زراعت اور دیگر شعبوں میں اثاثوں کو اسٹریم لائن کر رہے ہیں۔
یہ خوش آیند بات ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک بار پھر ایک دوسرے کے اُتنے ہی قریب آ رہے ہیں، جتنے اکثر دیکھے جاتے ہیں لیکن چونکہ گزرے چند برسوں میں ان تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کے بعد اب ایک بار پھر بہتری آ رہی ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کا ہر برے وقت میں ساتھ دیا ہے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے ہیں۔
اس وقت ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ انھیں ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہوگا، اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے چھ سے آٹھ ارب ڈالرکا قرض پروگرام حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کررہے ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ یعنی نومبر 2021میں پاکستان کے گرتے ہوئے زر ِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالرکی رقم ایک سال کے لیے جمع کرائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکاؤنٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ماضی میں پاک سعودی عرب کے تعلقات میں کہیں گرم جوشی دیکھنے کو نہ ملی ہو۔
آپ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں، دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے۔
پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) سعودی عرب کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ پاکستانی اور سعودی تاجروں دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان موافقت اور تقابلی فائدے کے شعبوں کا تعین کریں۔ دونوں جانب کے چیمبرز آف کامرس کو زیادہ باقاعدگی سے بات چیت اور ضروری قانونی اصلاحات کے لیے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے، جو سرمایہ کاری پر موزوں منافع کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
پاک عرب تاجران کی نمائش بڑے شہروں میں منعقد کی جائے تاکہ وسائل کی مارکیٹنگ کی جا سکے اور پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔ آزاد تجارت (فری ٹریڈ) معاہدہ بھی ممکن ہے۔ پاکستان کے لیے ترسیلات زر ملک کی ثانوی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ ان ترسیلات زر میں سے تقریباً ساٹھ فیصد آمدنی خلیجی ممالک سے حاصل ہوتی ہے، خصوصاً سعودی عرب سے جہاں تقریباً بیس لاکھ سے زائد پاکستانی کارکنان کام کر رہے ہیں۔
اس وقت، اس افرادی قوت کا زیادہ تر حصہ غیر ہنر مند مزدوروں پر مشتمل ہے، جو سعودی عرب میں آئی ٹی، سیاحت اور مالیاتی شعبوں میں میسر مواقعے کے لیے ناموزوں ہیں۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے اور بگڑتے ہوئے معاشی ماحول میں روزگارکے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان کو سعودی عرب کی ضروریات کے مطابق کارکنوں کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے معیشت کو متنوع بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری دیگر صنعتوں، جیسے مینوفیکچرنگ یا خدمات کی ترقی کو فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے، جو آمدنی کے زیادہ مستحکم ذرایع فراہم کر سکتی ہے۔
اس سے چند اہم شعبوں پر ملک کا انحصار کم کرنے اور اس کی معیشت کو مزید لچکدار بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سے ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ جب کوئی ملک غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے، تو یہ اکثر برآمدات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ مقامی فرمز اپنی مصنوعات کو سرمایہ کار کی گھریلو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس سے ملک کے تجارتی توازن کو بہتر بنانے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مزید برآں، غیر ملکی سرمایہ کاری بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، جسے مقامی کرنسی کے استحکام اور افراط زر کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔پاکستان سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو 20 ارب ڈالر تک لے جانے کا خواہش مند ہے، جب کہ دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دو طرفہ تجارت میں 35 فیصد اضافہ خوش آیند ہے۔ سعودی حکومت کے پاس پبلک انویسٹمنٹ فنڈز ہیں جن کو استعمال میں لا کر وہ پاکستان کی بڑی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کر کے مزید پیداوار کے لیے انھیں اپ گریڈ کر سکتا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب بھی عالمی روابط کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے رواں مالی سال میں پاکستان کی شرح نمو دو فی صد تک برقرار رہنے، شرح مہنگائی میں ایک فیصد اضافے کی پیش گوئی کردی ہے ۔ مثبت ترقی کی طرف واپسی زراعت اور صنعت دونوں میں بحالی سے آئے گی۔ مالی سال 2024 میں زراعت اور صنعت سے فائدہ اٹھانے والی خدمات میں بحالی کے طور پر خدمات میں اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے، اگر اصلاحات نافذ کی جاتی ہیں تو رواں مالی سال میں ترقی بتدریج دوبارہ شروع ہونے اور اگلے سال قدرے بہتر ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ استحکام کی پالیسیوں کے تحت افراط زرکی شرح اس سال کچھ اور اگلے سال مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
شرح کو مضبوط بنانے کے لیے خواتین کی مالی شمولیت کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔پاکستان کی سالانہ ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات ہیں جو اِس کی کل برآمدات سے دگنی ہیں۔ اس خلا کو کم و بیش ترسیلات زر سے پورا کیا جاتا ہے، جب تک تجارتی خسارے کو قابو میں رکھا جائے گا، روپیہ مستحکم رہے گا اور افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار برقرار رکھی جا سکتی ہے۔
بصورت دیگر زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جائیں گے تاہم طویل مدت تک ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے، بچوں اور صحت کی دیکھ بھال، تعلیم بشمول پیشہ ورانہ تعلیم، آبادی میں اضافہ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ملازمت کے تحفظ، زندگی گزارنے کی اجرت، بدعنوانی میں کمی وغیرہ سمیت سماجی شعبوں کو بہت زیادہ توجہ اور ترجیح کی ضرورت ہوگی۔ انتظامیہ اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات کی وجہ سے اِن ترجیحات کے لیے بہت کم بجٹ کی گنجائش ہے۔
پبلک فنانس میں سرکاری مہارت کی کوئی ضرورت نہیں، جس کے لیے بنیادی طور پر دانشمندانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ کپاس اور چاول کی خریداری کی قیمتوں کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو مارکیٹ کی قیمتوں سے زیادہ تھیں جن کا کوئی مقصد نہیں تھا کیونکہ اس طرح سے عوامی وسائل کو ضایع کیا گیا اور صارفین کے لیے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
اسی طرح گیس، پٹرولیم اور بجلی کی اصل قیمتوں سے کم قیمت وصول کی گئی جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا جو اب ایک عفریت بن چکا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط تجارتی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں۔ سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی کام کرتے ہیں۔ سعودی عرب مالی بحران سے دوچار پاکستان کے لیے ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
مشکل وقت میں سعودی عرب اکثر پاکستان کی مدد کے لیے آگے آیا ہے۔ اس کی جانب سے ملک کو باقاعدگی سے موخر ادائیگی پر تیل فراہم کیا گیا۔ مزید برآں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد کے لیے سعودی عرب کی طرف سے براہ راست مالی مدد کی گئی، آئی ایم ایف کے قرض کے ذریعے طویل مدتی گھریلو اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری ممکن ہے جو ترقی کی شرح کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے،لہٰذا معیشت کی بہتری کے لیے دانشمندانہ فیصلے وقت کی اہم ضرورت کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد بھی ضروری ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی وفد کا دورہ پاک سعودیہ اسٹرٹیجک اور تجارتی شراکت داری کے نئے دورکا آغاز ہے، جب کہ بقول وزیرخارجہ اسحاق ڈار، ایس آئی ایف سی کے ذریعے زراعت اور معدنیات کے شعبے میں موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، سرمایہ کاری کے لیے توانائی، ہائیڈرو، تعلیم، آئی ٹی، کان کنی، زراعت اور دیگر شعبوں میں اثاثوں کو اسٹریم لائن کر رہے ہیں۔
یہ خوش آیند بات ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک بار پھر ایک دوسرے کے اُتنے ہی قریب آ رہے ہیں، جتنے اکثر دیکھے جاتے ہیں لیکن چونکہ گزرے چند برسوں میں ان تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کے بعد اب ایک بار پھر بہتری آ رہی ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کا ہر برے وقت میں ساتھ دیا ہے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے ہیں۔
اس وقت ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ انھیں ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہوگا، اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے چھ سے آٹھ ارب ڈالرکا قرض پروگرام حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کررہے ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ یعنی نومبر 2021میں پاکستان کے گرتے ہوئے زر ِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالرکی رقم ایک سال کے لیے جمع کرائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکاؤنٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ماضی میں پاک سعودی عرب کے تعلقات میں کہیں گرم جوشی دیکھنے کو نہ ملی ہو۔
آپ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں، دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے۔
پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) سعودی عرب کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ پاکستانی اور سعودی تاجروں دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان موافقت اور تقابلی فائدے کے شعبوں کا تعین کریں۔ دونوں جانب کے چیمبرز آف کامرس کو زیادہ باقاعدگی سے بات چیت اور ضروری قانونی اصلاحات کے لیے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے، جو سرمایہ کاری پر موزوں منافع کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
پاک عرب تاجران کی نمائش بڑے شہروں میں منعقد کی جائے تاکہ وسائل کی مارکیٹنگ کی جا سکے اور پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔ آزاد تجارت (فری ٹریڈ) معاہدہ بھی ممکن ہے۔ پاکستان کے لیے ترسیلات زر ملک کی ثانوی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ ان ترسیلات زر میں سے تقریباً ساٹھ فیصد آمدنی خلیجی ممالک سے حاصل ہوتی ہے، خصوصاً سعودی عرب سے جہاں تقریباً بیس لاکھ سے زائد پاکستانی کارکنان کام کر رہے ہیں۔
اس وقت، اس افرادی قوت کا زیادہ تر حصہ غیر ہنر مند مزدوروں پر مشتمل ہے، جو سعودی عرب میں آئی ٹی، سیاحت اور مالیاتی شعبوں میں میسر مواقعے کے لیے ناموزوں ہیں۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے اور بگڑتے ہوئے معاشی ماحول میں روزگارکے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان کو سعودی عرب کی ضروریات کے مطابق کارکنوں کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے معیشت کو متنوع بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری دیگر صنعتوں، جیسے مینوفیکچرنگ یا خدمات کی ترقی کو فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے، جو آمدنی کے زیادہ مستحکم ذرایع فراہم کر سکتی ہے۔
اس سے چند اہم شعبوں پر ملک کا انحصار کم کرنے اور اس کی معیشت کو مزید لچکدار بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سے ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ جب کوئی ملک غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے، تو یہ اکثر برآمدات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ مقامی فرمز اپنی مصنوعات کو سرمایہ کار کی گھریلو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس سے ملک کے تجارتی توازن کو بہتر بنانے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مزید برآں، غیر ملکی سرمایہ کاری بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، جسے مقامی کرنسی کے استحکام اور افراط زر کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔پاکستان سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو 20 ارب ڈالر تک لے جانے کا خواہش مند ہے، جب کہ دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دو طرفہ تجارت میں 35 فیصد اضافہ خوش آیند ہے۔ سعودی حکومت کے پاس پبلک انویسٹمنٹ فنڈز ہیں جن کو استعمال میں لا کر وہ پاکستان کی بڑی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کر کے مزید پیداوار کے لیے انھیں اپ گریڈ کر سکتا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب بھی عالمی روابط کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے رواں مالی سال میں پاکستان کی شرح نمو دو فی صد تک برقرار رہنے، شرح مہنگائی میں ایک فیصد اضافے کی پیش گوئی کردی ہے ۔ مثبت ترقی کی طرف واپسی زراعت اور صنعت دونوں میں بحالی سے آئے گی۔ مالی سال 2024 میں زراعت اور صنعت سے فائدہ اٹھانے والی خدمات میں بحالی کے طور پر خدمات میں اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے، اگر اصلاحات نافذ کی جاتی ہیں تو رواں مالی سال میں ترقی بتدریج دوبارہ شروع ہونے اور اگلے سال قدرے بہتر ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ استحکام کی پالیسیوں کے تحت افراط زرکی شرح اس سال کچھ اور اگلے سال مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
شرح کو مضبوط بنانے کے لیے خواتین کی مالی شمولیت کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔پاکستان کی سالانہ ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات ہیں جو اِس کی کل برآمدات سے دگنی ہیں۔ اس خلا کو کم و بیش ترسیلات زر سے پورا کیا جاتا ہے، جب تک تجارتی خسارے کو قابو میں رکھا جائے گا، روپیہ مستحکم رہے گا اور افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار برقرار رکھی جا سکتی ہے۔
بصورت دیگر زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جائیں گے تاہم طویل مدت تک ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے، بچوں اور صحت کی دیکھ بھال، تعلیم بشمول پیشہ ورانہ تعلیم، آبادی میں اضافہ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ملازمت کے تحفظ، زندگی گزارنے کی اجرت، بدعنوانی میں کمی وغیرہ سمیت سماجی شعبوں کو بہت زیادہ توجہ اور ترجیح کی ضرورت ہوگی۔ انتظامیہ اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات کی وجہ سے اِن ترجیحات کے لیے بہت کم بجٹ کی گنجائش ہے۔
پبلک فنانس میں سرکاری مہارت کی کوئی ضرورت نہیں، جس کے لیے بنیادی طور پر دانشمندانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ کپاس اور چاول کی خریداری کی قیمتوں کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو مارکیٹ کی قیمتوں سے زیادہ تھیں جن کا کوئی مقصد نہیں تھا کیونکہ اس طرح سے عوامی وسائل کو ضایع کیا گیا اور صارفین کے لیے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
اسی طرح گیس، پٹرولیم اور بجلی کی اصل قیمتوں سے کم قیمت وصول کی گئی جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا جو اب ایک عفریت بن چکا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط تجارتی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں۔ سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی کام کرتے ہیں۔ سعودی عرب مالی بحران سے دوچار پاکستان کے لیے ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
مشکل وقت میں سعودی عرب اکثر پاکستان کی مدد کے لیے آگے آیا ہے۔ اس کی جانب سے ملک کو باقاعدگی سے موخر ادائیگی پر تیل فراہم کیا گیا۔ مزید برآں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد کے لیے سعودی عرب کی طرف سے براہ راست مالی مدد کی گئی، آئی ایم ایف کے قرض کے ذریعے طویل مدتی گھریلو اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری ممکن ہے جو ترقی کی شرح کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے،لہٰذا معیشت کی بہتری کے لیے دانشمندانہ فیصلے وقت کی اہم ضرورت کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد بھی ضروری ہے۔