وزن اٹھانے اور سامان کی ترسیل کرنیوالے مزدور 10 گھنٹے کام کرتے ہیں ایکسپریس سروے

آج بھی مزدور طبقہ قدیم انداز میں ہاتھ گاڑی اور اپنی کمر پر سامان لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے۔

محنت کش ہاتھ گاڑی پر سامان لاد کر بولٹن مارکیٹ سے گزر رہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی کی معیشت میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،اس طبقے میں وزن اٹھانے اور سامان کی ترسیل کرنے والے مزدور شامل ہیں۔

ایکسپریس نے کراچی کے بازاروں اور مارکیٹوں میں سامان اٹھانے والے مزدوروں سے متعلق سروے کیا، سروے کے دوران بولٹن مارکیٹ پر کام کرنے والے مزدور فاضل خان نے بتایا کہ کراچی میں ہر برادری اور قوم سے تعلق رکھنے والے افراد مزدوری کا کام کر رہے ہیں۔

ان مزدوروں میں اکثریت پختون، بلوچ ، ہزارہ وال ، سرائیکی کمیونٹی کی ہے تاہم وزن اٹھانے کا زیادہ تر کام پختون اور بلوچ کمیونٹی کرتی ہے، اس کے علاوہ دیگر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کم تعداد میں وزن اٹھانے کا کام کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ وزن اٹھانے اور اسے منتقل کرنے کا کام انتہائی محنت طلب ہے لیکن اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہیں، ایک اور مزدور احمد خان نے بتایا کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا کے علاقے میں روزگار کے ذرائع کم ہیں، اسی لیے ہم لوگ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر کراچی آتے ہیں اور جن افراد کے پاس کوئی ہنر نہیں ہوتا وہ وزن اٹھانے اور اس سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں روزگار آسانی سے مل جاتا ہے اور ہم دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ کما لیتے ہیں تاہم جب شہر کے حالات خراب ہوں یا احتجاج ، ہڑتال اور سرکاری تعطیلات کے باعث مارکیٹیں ، بازار اور دیگر کاروباری سرگرمیاں معطل ہوں تو ہماری چھٹی ہوتی ہے اور اس روز ہمیں اجرت نہیں ملتی، ہم روز کھانے اور روز کمانے والے لوگ ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ صبح فجر کی اذان سے قبل اٹھ جاتے ہیں، نماز پڑھ کر 7 بجے کے بعد اپنی متعلقہ جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں پھر جیسے جیسے کاروباری سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے تو ہمیں کام ملنا شروع ہو جاتا ہے اور رات 8 بجے تک ہم لوگ وزن اٹھانے اور اس کی منتقلی کا کام کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔

مقامی بس اڈے پر مزدوری کا کام کرنے والے شخص شاہنواز بلوچ نے بتایا کہ وزن اٹھانے کا کام اس لیے کرتے ہیں کہ ہم نے تعلیم حاصل نہیں کی، اگر پڑھ لیا ہوتا تو آج یہ کام نہیں کرتے لیکن خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں روزگار دیا ہے، بس ہماری دعا ہے کہ شہر کے حالات اچھے رہیں تاکہ ہماری دال روٹی بھی چلتی رہے ، انھوں نے بتایا کہ مہنگائی، بے روزگاری اورغربت کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اب نوکری نہیں مل رہی ہے، اسی لیے پڑھا لکھا طبقہ بھی مزدوری کا کام کرنے پر مجبور ہے۔


مزدوروں کی بڑی تعداد6سے8ماہ کراچی میں محنت مزدوری کرکے واپس اپنے آبائی علاقوںمیں چلی جاتی ہے،ایک سے 2 ماہ آرام کرکے یہ مزدور طبقہ واپس کراچی آجاتا ہے، زیادہ ترمزدور مشترکہ رہائش اختیار کرتے ہیں ،ان مزدوروں میںزیادہ ترکا تعلق ایک ہی خاندان یا علاقے سے ہوتا ہے ، وزن اٹھانے کے سبب مزدوروںکی بڑی تعداد کمر کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے اور ان کو پائوں اور گھٹنوں کے درد کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

وزن اٹھانے والے مزدوروں کی اکثریت ضلع جنوبی میں کام کرتی ہے کیونکہ یہ ضلع کراچی کا معاشی حب ہے ،اس ضلع میں کراچی کی بڑی اجناس مارکیٹ کے علاوہ دیگر روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا اور دیگر سامان کی ہول سیل مارکیٹیں ہیں ،مزدوروں کی بڑی تعداد وزن اٹھانے کا کام انہیں مارکیٹوں اور بازاروں میں کرتے ہیں ۔ سامان اٹھانے اور منتقل کرنے کی مختلف اجرت وصول کی جاتی ہے۔

اجناس کی ایک بوری کا وزن اٹھانے کے 30 روپے لیے جاتے ہیں جبکہ دیگر پیکنگ سامان اور اشیا کا وزن اٹھانے اور انہیں ہاتھ گاڑی پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے 80 روپے سے 200 روپے تک لیے جاتے ہیں، الیکٹرونکس آئٹم کو بڑی لوڈنگ گاڑیوں سے اتارنے، چڑھانے یا ان کی منتقلی کے 50 روپے سے 150 روپے تک لیے جاتے ہیں ، اس حوالے سے مختلف مزدوروں کا کہنا ہے کہ سارا دن وزن اٹھانے اور ان کی منتقلی کا کام کرنے کے بعد 400 روپے سے 800 روپے تک کی آمدنی ہو جاتی ہے ۔

کراچی کی اہم مارکیٹوں ، بازاروں ، منڈیوں ، بس اسٹینڈ اور ٹرک اڈے پر سامان کی ترسیل کے لیے ہاتھ گاڑی ، ٹھیلے اور گدھا گاڑی استعمال کی جاتی ہے،ہاتھ گاڑی لکڑی کی بنی ہوئی ہوتی ہے ،اس گاڑی کی تیاری میں کیکر اور بعض میں شیشم کی لکڑی بھی استعمال ہوتی ہے ، یہ خصوصی گاڑیاں لیاری ، رنچھورلائن ، لیاقت آباد اور دیگر علاقوں میں خصوصی کارپینٹرز تیار کرتے ہیں جن کی تعداد 30 سے 40 کے درمیان ہے۔

یہ ہاتھ گاڑی کم از کم 3 ہزار سے لے کر 6 ہزار روپے تک تیار ہوتی ہے،ایک ہاتھ گاڑی پر زیادہ سے زیادہ وزن 700 سے 800 کلو تک مزدور طبقہ اپنی طاقت سے کھینچ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے، اجناس منڈی میں سامان کی ترسیل کیلیے گدھا گاڑی بھی استعمال کی جاتی ہے جبکہ ٹرک اڈے پر وزن کی ترسیل کیلیے اونٹ گاڑی بھی استعمال کی جاتی ہیں،زیادہ تر مارکیٹوں میں سامان کی ترسیل کے لیے ٹھیلے بھی استعمال کیے جاتے ہیں ،ایک ٹھیلا 4 ہزار سے 6 ہزار کے درمیان تیار ہوتا ہے۔
Load Next Story