بابوؤں کی ریاست پر بالادستی
بلاول بھٹو کی یہ بات درست ہے کہ مذاکرات صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے چاہئیں
اسلام آباد میں بیٹھے بابوؤں کی سوچ اورکم عقلی نے پاکستان کو غریبستان بنا دیا ہے۔ صدر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکی 45 ویں برسی پرگڑھی خدا بخش میں اپنی اساسی تقریر میں کہا کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا چاہیے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے نصیب میں نہیں لکھا کہ ملک غریب رہے۔ خدا نے سب کچھ دیا ہے، ہم سب کچھ سنبھال سکتے ہیں۔ آصف زرداری نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی 40 برس سے لڑ رہی ہے، کبھی دستبردار ہوتی ہے، کبھی آگے بڑھتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ کچھ سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچا کر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ آج بھی کچھ سیاست دان ذاتی انا کی خاطر عوام کی قسمت سے کھیلنا چاہتے ہیں، یہی کچھ بھٹو کے ساتھ نو جماعتوں نے کیا تھا جس کی بناء پر عوام کو طویل مارشل لاء دیکھنا پڑا۔ عوام مسائل، مہنگائی اور بے روزگاری کی بھینٹ چڑھ گئے۔
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکی برسی 4 اپریل کو منائی جاتی ہے۔ اس وقت رمضان کا مہینہ تھا اور صدارتی انتخابات منعقد نہیں ہوئے تھے، لہٰذا پیپلز پارٹی کی قیادت نے 4 اپریل کا روایتی جلسہ ملتوی کیا اور اب جب یہ جلسہ منعقد ہوا تو پیپلز پارٹی مخلوط حکومت میں شامل ہونے کی بناء پر صدر اور ایوانِ بالا سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرچکی ہے، یوں صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ان تقاریرکو پیپلز پارٹی کی نئی پالیسی قرار دیا جاسکتا ہے۔
صدر آصف زرداری نے درست تجزیہ کیا کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بابوؤں کی سوچ اورکم عقلی نے پاکستان کو غریب ملک بنا رکھا ہے مگر ان بابوؤں کو کیوں ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ملا ؟ مگرکیا ان بابوؤں کی مدد سے اقتدار میں آنے والے کیا عوام کی ریاست پر بالادستی کے لیے کچھ کرسکیں گے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لیے تاریخ کی مدد لینی پڑے گی۔
اگر حقائق کا کھلا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس ملک کے قیام میں اکثریتی صوبے مشرقی بنگال نے بنیادی کردار ادا کیا تھا مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد بیوروکریسی نے اس ملک کے نظام پر قبضہ کیا۔ حکومت پاکستان کے پہلے سیکریٹری جنرل چوہدری محمدعلی، غلام محمد اور اسکندر مرزا نے ملک کا آئین بننے نہیں دیا۔ پہلے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا گیا۔
ون یونٹ بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا، 1958میں غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962 کا آئین بنا کر سارے اختیارات اپنے پاس رکھے اور ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل تھے۔ فاطمہ جناح کی شکست کے بعد مشرقی بنگال کے دانشور مایوس ہوگئے۔
ذوالفقارعلی بھٹو ایوب حکومت سے علیحدہ ہوئے۔ 1969میں عوامی تحریک کی تاب نہ لا کر ایوب خان مستعفیٰ ہوئے اور جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلزپارٹی، صوبہ سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے کامیابی حاصل کی۔ یہ وہ موقع تھا کہ ملک کو ایک حقیقی جمہوری فلاحی ریاست بنایا جاسکتا تھا مگر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور مشرقی پاکستان میں آپریشن ہوا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کی مکمل حمایت کی، بہرحال 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے 1973کا متفقہ آئین بنایا البتہ بھٹو حکومت نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا اور بلوچستان میں آپریشن کیا گیا۔ سیاسی مخالفین کو گرفتارکیا گیا۔ 1977میں انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی آڑ لے کر پی این اے نے تحریک چلائی اور جنرل ضیاء الحق نے صورتحال سے فائدہ اٹھا کر مارشل لاء لگایا، یوں پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے مارشل لاء کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں ہزاروں افراد کوکوڑے مارے گئے۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے نتیجے میں ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجوکو وزیر اعظم مقررکیا، پھر ضیاء الحق نے جونیجوکو برطرف کیا اور وہ خود طیارے کے حادثے میں چل بسے۔محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آئیں تو ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی مگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے قائم مقام صدر غلام اسحاق خان اور دیگر بالا دست قوتوں سے مصالحت کی اور آمریت کے نقصانات کا بیانیہ لاپتہ ہوا۔
غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کرایا گیا۔ اسلم بیگ کو ستارہ جمہوریت دیا گیا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت 18ماہ بعد برطرف کر دی گئی۔ 1999 تک یہ کھیل چلا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر اتفاق کر کے نئی جمہوری روایات کا آغاز کیا مگر پھر بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او کر کے ایک دفعہ پھر اسلام آباد کے بابوؤں کا اقتدار مستحکم کیا۔
میثاق جمہوریت کے تحت 18ویں ترمیم ہوئی اور صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہوا مگر نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا، نہ ہی کرپشن کے خاتمے پر توجہ دی گئی اور نہ ہی اچھی طرزِ حکومت کی اہمیت کو اجاگرکیا گیا جس کا فائدہ اسلام آباد کے بابوؤں نے اٹھایا اور تحریک انصاف کا بیانیہ نوجوانوں کے دماغوں میں داخل کیا گیا۔
پیپلزپارٹی پانچ سال وفاق میں برسر اقتدار رہی اور 16 سال سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے مگر سندھ میں ترقی کے تمام انڈیکیٹر منفی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ نچلی سطح کے اختیارات کا مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا، یوں بلدیاتی مسائل قومی مسائل بن گئے۔ اگرچہ میثاق جمہوریت کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی میعاد پوری کی مگر دونوں جماعتوں کے وزرائے اعظم کو عدالتوں کے ذریعے معزول کرایا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 2018کے انتخابات میں کامیاب کرایا۔ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رہا مگر پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور تحریک انصاف کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا۔ پیپلز پارٹی میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت میں شامل ہوگئی۔ بلاول وزیر خارجہ تو بن گئے مگر بھارت سے تجارت پر عائد پابندیاں ختم نہ کرا سکے، یوں میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے دور میں مہنگائی آسمانی پر پہنچ گئی جس کا سارا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔
بلاول بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران میاں شہباز شریف کی حکومت کے خوب پرخچے اڑائے۔ آصف زرداری نے تو یہ تک کہا کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا تجربہ مایوس کن رہا۔ انتخابات کے بعد بلاول بھٹو نے مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار نہ کرنے کا بیانیہ اختیار کیا مگر اس مخلوط حکومت کی حمایت سے صدر اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے حاصل کیے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک کے 70 فیصد حصے پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر بھٹو دور کی طرح بلوچستان میں شدید بد امنی ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے۔ ملک میں اس وقت سیاسی قیدی موجود ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ 2024کے انتخابات کی ساکھ خراب ہے۔ انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے والے بین الاقوامی اور قومی اداروں نے انتخابات کی شفافیت پر اعتراضات کیے۔
ہر مہینے بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے سے غریبوں کا ذکرکیا متوسط طبقہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ پوری دنیا میں اسلام آباد میں ہائبرڈ نظام کے چرچے ہیں۔ اہم فیصلے کہاں ہوتے ہیں، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ کئی پوشیدہ حقائق کو آشکارکر رہی ہے۔ اسلام آباد کے بابوؤں کی آمریت کے خاتمے کے لیے ریاست کی تنظیمِ نو اور سیکیورٹی اسٹیٹ کے بیانیے کا خاتمہ ضروری ہے۔
بلاول بھٹو کی یہ بات درست ہے کہ مذاکرات صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے چاہئیں۔ پارلیمنٹ اس کے لیے بہترین فورم ہے مگر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے لاپتہ افراد کی عدالتوں میں پیشی، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نہ نظر آنے والی پابندیوں کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے نصیب میں نہیں لکھا کہ ملک غریب رہے۔ خدا نے سب کچھ دیا ہے، ہم سب کچھ سنبھال سکتے ہیں۔ آصف زرداری نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی 40 برس سے لڑ رہی ہے، کبھی دستبردار ہوتی ہے، کبھی آگے بڑھتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ کچھ سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچا کر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ آج بھی کچھ سیاست دان ذاتی انا کی خاطر عوام کی قسمت سے کھیلنا چاہتے ہیں، یہی کچھ بھٹو کے ساتھ نو جماعتوں نے کیا تھا جس کی بناء پر عوام کو طویل مارشل لاء دیکھنا پڑا۔ عوام مسائل، مہنگائی اور بے روزگاری کی بھینٹ چڑھ گئے۔
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکی برسی 4 اپریل کو منائی جاتی ہے۔ اس وقت رمضان کا مہینہ تھا اور صدارتی انتخابات منعقد نہیں ہوئے تھے، لہٰذا پیپلز پارٹی کی قیادت نے 4 اپریل کا روایتی جلسہ ملتوی کیا اور اب جب یہ جلسہ منعقد ہوا تو پیپلز پارٹی مخلوط حکومت میں شامل ہونے کی بناء پر صدر اور ایوانِ بالا سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرچکی ہے، یوں صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ان تقاریرکو پیپلز پارٹی کی نئی پالیسی قرار دیا جاسکتا ہے۔
صدر آصف زرداری نے درست تجزیہ کیا کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بابوؤں کی سوچ اورکم عقلی نے پاکستان کو غریب ملک بنا رکھا ہے مگر ان بابوؤں کو کیوں ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ملا ؟ مگرکیا ان بابوؤں کی مدد سے اقتدار میں آنے والے کیا عوام کی ریاست پر بالادستی کے لیے کچھ کرسکیں گے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لیے تاریخ کی مدد لینی پڑے گی۔
اگر حقائق کا کھلا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس ملک کے قیام میں اکثریتی صوبے مشرقی بنگال نے بنیادی کردار ادا کیا تھا مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد بیوروکریسی نے اس ملک کے نظام پر قبضہ کیا۔ حکومت پاکستان کے پہلے سیکریٹری جنرل چوہدری محمدعلی، غلام محمد اور اسکندر مرزا نے ملک کا آئین بننے نہیں دیا۔ پہلے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا گیا۔
ون یونٹ بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا، 1958میں غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962 کا آئین بنا کر سارے اختیارات اپنے پاس رکھے اور ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل تھے۔ فاطمہ جناح کی شکست کے بعد مشرقی بنگال کے دانشور مایوس ہوگئے۔
ذوالفقارعلی بھٹو ایوب حکومت سے علیحدہ ہوئے۔ 1969میں عوامی تحریک کی تاب نہ لا کر ایوب خان مستعفیٰ ہوئے اور جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلزپارٹی، صوبہ سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے کامیابی حاصل کی۔ یہ وہ موقع تھا کہ ملک کو ایک حقیقی جمہوری فلاحی ریاست بنایا جاسکتا تھا مگر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور مشرقی پاکستان میں آپریشن ہوا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کی مکمل حمایت کی، بہرحال 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے 1973کا متفقہ آئین بنایا البتہ بھٹو حکومت نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا اور بلوچستان میں آپریشن کیا گیا۔ سیاسی مخالفین کو گرفتارکیا گیا۔ 1977میں انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی آڑ لے کر پی این اے نے تحریک چلائی اور جنرل ضیاء الحق نے صورتحال سے فائدہ اٹھا کر مارشل لاء لگایا، یوں پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے مارشل لاء کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں ہزاروں افراد کوکوڑے مارے گئے۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے نتیجے میں ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجوکو وزیر اعظم مقررکیا، پھر ضیاء الحق نے جونیجوکو برطرف کیا اور وہ خود طیارے کے حادثے میں چل بسے۔محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آئیں تو ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی مگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے قائم مقام صدر غلام اسحاق خان اور دیگر بالا دست قوتوں سے مصالحت کی اور آمریت کے نقصانات کا بیانیہ لاپتہ ہوا۔
غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کرایا گیا۔ اسلم بیگ کو ستارہ جمہوریت دیا گیا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت 18ماہ بعد برطرف کر دی گئی۔ 1999 تک یہ کھیل چلا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر اتفاق کر کے نئی جمہوری روایات کا آغاز کیا مگر پھر بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او کر کے ایک دفعہ پھر اسلام آباد کے بابوؤں کا اقتدار مستحکم کیا۔
میثاق جمہوریت کے تحت 18ویں ترمیم ہوئی اور صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہوا مگر نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا، نہ ہی کرپشن کے خاتمے پر توجہ دی گئی اور نہ ہی اچھی طرزِ حکومت کی اہمیت کو اجاگرکیا گیا جس کا فائدہ اسلام آباد کے بابوؤں نے اٹھایا اور تحریک انصاف کا بیانیہ نوجوانوں کے دماغوں میں داخل کیا گیا۔
پیپلزپارٹی پانچ سال وفاق میں برسر اقتدار رہی اور 16 سال سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے مگر سندھ میں ترقی کے تمام انڈیکیٹر منفی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ نچلی سطح کے اختیارات کا مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا، یوں بلدیاتی مسائل قومی مسائل بن گئے۔ اگرچہ میثاق جمہوریت کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی میعاد پوری کی مگر دونوں جماعتوں کے وزرائے اعظم کو عدالتوں کے ذریعے معزول کرایا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 2018کے انتخابات میں کامیاب کرایا۔ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رہا مگر پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور تحریک انصاف کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا۔ پیپلز پارٹی میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت میں شامل ہوگئی۔ بلاول وزیر خارجہ تو بن گئے مگر بھارت سے تجارت پر عائد پابندیاں ختم نہ کرا سکے، یوں میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے دور میں مہنگائی آسمانی پر پہنچ گئی جس کا سارا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔
بلاول بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران میاں شہباز شریف کی حکومت کے خوب پرخچے اڑائے۔ آصف زرداری نے تو یہ تک کہا کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا تجربہ مایوس کن رہا۔ انتخابات کے بعد بلاول بھٹو نے مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار نہ کرنے کا بیانیہ اختیار کیا مگر اس مخلوط حکومت کی حمایت سے صدر اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے حاصل کیے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک کے 70 فیصد حصے پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر بھٹو دور کی طرح بلوچستان میں شدید بد امنی ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے۔ ملک میں اس وقت سیاسی قیدی موجود ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ 2024کے انتخابات کی ساکھ خراب ہے۔ انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے والے بین الاقوامی اور قومی اداروں نے انتخابات کی شفافیت پر اعتراضات کیے۔
ہر مہینے بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے سے غریبوں کا ذکرکیا متوسط طبقہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ پوری دنیا میں اسلام آباد میں ہائبرڈ نظام کے چرچے ہیں۔ اہم فیصلے کہاں ہوتے ہیں، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ کئی پوشیدہ حقائق کو آشکارکر رہی ہے۔ اسلام آباد کے بابوؤں کی آمریت کے خاتمے کے لیے ریاست کی تنظیمِ نو اور سیکیورٹی اسٹیٹ کے بیانیے کا خاتمہ ضروری ہے۔
بلاول بھٹو کی یہ بات درست ہے کہ مذاکرات صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے چاہئیں۔ پارلیمنٹ اس کے لیے بہترین فورم ہے مگر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے لاپتہ افراد کی عدالتوں میں پیشی، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نہ نظر آنے والی پابندیوں کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے۔