سیاسی مفاہمت اور معاشی ترقی
پاکستان میں کرپشن کینسر کی طرح پھیل چکی ہے جس نے ہماری آزادی اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے
صدر مملکت آصف علی زرداری نے نئے پارلیمانی سیشن کے مشترکہ اجلاس سے اپنا پہلا خطاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ''آج کے دن کو ایک نئی شروعات کے طور پر دیکھیں۔ ہمیں اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری کرنے اور عوامی ضروریات پر توجہ مرکوزکرنا ہو گی۔ حکومت نوکریاں پیدا کرنے، مہنگائی کم کرنے، ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے لیے معاشی اصلاحات کرے گی۔ ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنا ہوگا، پولرائزیشن سے ہٹ کر عصر حاضر کی سیاست کی طرف بڑھنا ملکی ضرورت ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے دوران خطاب پاکستان کو درپیش مشکلات اور بحرانوں کی سنگینی بارے میں نہ صرف آگاہ کیا، بالکل اس کا حل بھی تجویزکیا۔ درحقیقت سیاسی رہنماؤں کے درمیان عدم اعتماد اور شخصیت پرستی کی سیاست سے پیدا ہونے والے عوارض کی وجہ سے ملک بے یقینی اور بحران کی کیفیت سے دوچار ہے۔
ملک میں ایسی سیاسی انتشار اور بے یقینی کی فضا پیدا کی گئی ہے کہ جس سے ہر شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور یہ صورت حال ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے حقیقی طور پر سنگین خطرات کا موجب بن رہی ہے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا، اسے جاری رکھنا ایسی سیاسی مفاد پرستی ہے جو ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرتے ہوئے زمین سے لگانے کے ہولناک خطرات کا موجب بن سکتی ہے، موجودہ بحران بھی ایسا نہیں کہ اس کا کوئی حل نہ نکل سکے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسٹیک ہولڈر غیر معمولی تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ اور اپنے اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں اور انا کے خول سے باہر نکل کر صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کو اولیت دیں تو موجودہ بحران کو بہترین طریقے سے بات چیت کے ذریعے بآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال ملک اس وقت جن حالات سے دوچار ہے سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھاری ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ہمت سے کام لیں۔ ملک کے مسائل کو سلجھانے کے لیے وسیع تر مفاہمت اور سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سعودی وفد کے حالیہ دورے کے نتیجے میں پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔'' بلاشبہ حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سعودی سرمایہ کاری کی پاکستان میں آمد اور منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔
سعودی عرب نے پاکستان میں پانچ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ بعد ازاں امیر قطر نے بھی پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی نوید سنائی، یہ مثبت خبریں ہیں، جن کے یقیناً پاکستان کی معاشی صورتحال پر گہرے اور دور رس اثرات ہوں گے۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے معاملات بتدریج بہتر ہورہے ہیں۔ اس میں ہونے والے کاروبارکی صورتحال روز بروز مستحکم ہورہی ہے۔ روپے کے مضبوط ہونے کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔ ڈالرکی قدر میں جو کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس نے ماہ اپریل کے بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تین روپے سے زیادہ کی کمی کی ہے، جو مستحکم قدم ہے اور اسے معیشت کی بہتری کی علامت سمجھا جا رہا ہے، تاہم ابھی بھی کچھ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آیا پاکستان اس بدترین معاشی بحران سے نکل سکے گا۔
کیا معیشت کا پہیہ پھر سے دوڑنے لگے گا۔ لوگ آرزو مند ہیں کہ معیشت کے حوالے سے وہ کوئی اچھی خبر سنیں، لیکن کچھ رہنما اور سیاسی جماعتیں سیاسی استحکام آنے ہی نہیں دیتے۔ وہ مسلسل کوشاں ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہ ہی آئے تو اچھا ہے کیونکہ سیاسی استحکام آئے گا تو ان کی سیاست کی دال کیسے گلے گی اور سیاست کی گاڑی کیسے چلے گی؟
پاکستانی وزیر خزانہ نے امید ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی تک آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ متوقع ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ آئی ایف ایم نے بھی پاکستان کو دی گئی شرائط میں نرمی سے انکارکردیا ہے جس کے بعد پاکستان کے لیے آگے مشکلات کا ایسا طوفان کھڑا ہے جس سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے، اُس کے لیے سوچ بچار کا عمل ضروری ہے۔
ماضی میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کی بات کی تھی کہ ملکی معیشت کے لیے سیاست دانوں کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیے اور معیشت کی درستگی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تو صحیح معنوں میں یہ وقت ہے جس کے لیے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے غورکرنا ہوگا، اگر آئی ایم ایف اپنی شرائط منوائے گا تو پھر پاکستانی عوام کے لیے اُس میں ایسا مہنگائی کا طوفان چھپا ہوگا جس کا سامنا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی، بجلی کی قیمتیں آسمان پر لے جانا ہوں گی، الغرض ہر وہ چیز جس سے پیسہ بنایا جا سکے، اُس کو مہنگا کیا جائے گا، اگر ایسا وقت آیا تو پھر لامحالہ سب کو اکٹھا بیٹھ کر اُس کا حل نکالنا ہو گا۔
بات درآمدات کی،کی جائے تو ایک مثال دیکھیے کہ پاکستان متحدہ عرب امارات سے جو اشیا درآمد کرتا ہے ان میں تقریباً 90 فیصد اشیا یا مصنوعات انڈیا کی ہوتی ہے۔ ماہرین معیشت سمجھتے ہیں کہ پاکستان کسی تیسرے ملک کے ذریعے اشیا منگوانے کے بجائے براہ راست درآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ بچانے کے ساتھ ساتھ اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی لا سکتا ہے۔ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ تنازعات اور تجارتی معاملات الگ الگ کرنے چاہییں۔ مثلًا انڈیا اور چین ایک دوسرے کے حریف ہیں مگر دونوں ممالک سالانہ 80 ارب ڈالرکی تجارت بھی کرتے ہیں۔
پاکستان کو انڈیا کی مارکیٹ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان آج جو مصنوعات دیگر ممالک سے منگواتا ہے وہ انڈیا سے کم قیمت پر منگوا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ملک اکیلے نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا مل کر پورے خطے کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ یہ تاثر بھی منفی ہے کہ انڈیا کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو نقصان ہوگا۔
اس وقت موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہے کیونکہ ہمارے اخراجات تقریباً 15 ٹریلین پاکستانی روپے ہیں جب کہ حکومت کی آمدنی صرف دس ٹریلین پاکستانی روپے ہے۔ نئی حکومت کو تقریباً پانچ ٹریلین پاکستانی روپے کا گیپ فل کرنا پڑے گا، جس کے لیے مالی نظم وضبط بہت ضروری ہے۔
80 کی دہائی سے حکومتیں سرکاری ادارے بیچ رہی ہیں جس سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ پرائیویٹ ادارہ کبھی بھی بڑے پیمانے پہ روزگار پیدا نہیں کرسکتا۔ پوری دنیا میں سرکاری ادارے بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرتے ہیں، لٰہذا اسٹیل مل، پی آئی اے یا دوسرے اداروں کی نجکاری کے بجائے ان کی بحالی پر کام کیا جانا چاہیے۔
ریاست کو اپنے شہریوں کو معیاری بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے گورننس سسٹم کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا۔ غریب عوام کو ٹارگٹ کر کے اور ان کے لیے مخصوص پالیسی وضع کرکے انھیں غربت کی لکیر سے باہر نکالنا ہوگا، جیسے چین نے غربت کا مسئلہ بڑی کامرانی کے ساتھ حل کیا۔ ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی اور ہیومن ریسورس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ برآمدات میں اضافے کے لیے خصوصی اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
مقامی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں بیرونی قرضوں کے بوجھ کوکم کرنا پڑے گا۔ اکنامک سسٹم کو شراکتی بنانا ہوگا اور اسمال اور میڈیم سائز کی صنعتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ خارجہ پالیسی کو جیو اکنامکس کے اصول پر آگے بڑھانا ہوگا۔ آبادی میں میں تشویش ناک اضافہ کو روکنے کے لیے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ نقصان پر چلنے والے ریاستی اداروں اور کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔
پاکستان میں کرپشن کینسر کی طرح پھیل چکی ہے جس نے ہماری آزادی اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ یکساں احتساب کے لیے ایک ایسا قابل اعتبار ادارہ بنانا ہوگا جو سب کا کڑا احتساب کر سکے۔ مسائل کے حل کے لیے عوام کی سیاسی تائید اور حمایت لازم ہے۔ یہ رائے درست ہے البتہ پاکستان کے سیاسی ماڈل کو حقیقی معنوں میں عوامی اور جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔
ایسا جمہوری نظام جس میں عوام کی شرکت نہ ہو صرف سیاسی خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے جب کہ عوام کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہی رہتی ہے۔ اگرچہ اچھی معیشت ہر ملک کے لیے بڑا چیلنج ہے اور دنیا کے ترقی پذیر ممالک سخت ترین معاشی بحرانوں کی زد میں آئے ہوئے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
جیسے کہ کہا جاتا ہے سیاسی استحکام، معاشی استحکام لاتا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن بنایا جائے کہ ہم پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کو ختم کر سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ سب ادارے اپنی حدود و قیود میں رہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی تحمل سے کام لینا ہو گا۔ ایسی سوچ ہرگز نہیں رکھنی چاہیے جس سے بے چینی و اضطراب بڑھے اور اضافہ ہوتا دکھائی دے۔
ان کا کہنا تھا کہ ''آج کے دن کو ایک نئی شروعات کے طور پر دیکھیں۔ ہمیں اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری کرنے اور عوامی ضروریات پر توجہ مرکوزکرنا ہو گی۔ حکومت نوکریاں پیدا کرنے، مہنگائی کم کرنے، ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے لیے معاشی اصلاحات کرے گی۔ ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنا ہوگا، پولرائزیشن سے ہٹ کر عصر حاضر کی سیاست کی طرف بڑھنا ملکی ضرورت ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے دوران خطاب پاکستان کو درپیش مشکلات اور بحرانوں کی سنگینی بارے میں نہ صرف آگاہ کیا، بالکل اس کا حل بھی تجویزکیا۔ درحقیقت سیاسی رہنماؤں کے درمیان عدم اعتماد اور شخصیت پرستی کی سیاست سے پیدا ہونے والے عوارض کی وجہ سے ملک بے یقینی اور بحران کی کیفیت سے دوچار ہے۔
ملک میں ایسی سیاسی انتشار اور بے یقینی کی فضا پیدا کی گئی ہے کہ جس سے ہر شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور یہ صورت حال ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے حقیقی طور پر سنگین خطرات کا موجب بن رہی ہے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا، اسے جاری رکھنا ایسی سیاسی مفاد پرستی ہے جو ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرتے ہوئے زمین سے لگانے کے ہولناک خطرات کا موجب بن سکتی ہے، موجودہ بحران بھی ایسا نہیں کہ اس کا کوئی حل نہ نکل سکے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسٹیک ہولڈر غیر معمولی تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ اور اپنے اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں اور انا کے خول سے باہر نکل کر صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کو اولیت دیں تو موجودہ بحران کو بہترین طریقے سے بات چیت کے ذریعے بآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال ملک اس وقت جن حالات سے دوچار ہے سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھاری ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ہمت سے کام لیں۔ ملک کے مسائل کو سلجھانے کے لیے وسیع تر مفاہمت اور سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سعودی وفد کے حالیہ دورے کے نتیجے میں پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔'' بلاشبہ حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سعودی سرمایہ کاری کی پاکستان میں آمد اور منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔
سعودی عرب نے پاکستان میں پانچ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ بعد ازاں امیر قطر نے بھی پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی نوید سنائی، یہ مثبت خبریں ہیں، جن کے یقیناً پاکستان کی معاشی صورتحال پر گہرے اور دور رس اثرات ہوں گے۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے معاملات بتدریج بہتر ہورہے ہیں۔ اس میں ہونے والے کاروبارکی صورتحال روز بروز مستحکم ہورہی ہے۔ روپے کے مضبوط ہونے کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔ ڈالرکی قدر میں جو کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس نے ماہ اپریل کے بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تین روپے سے زیادہ کی کمی کی ہے، جو مستحکم قدم ہے اور اسے معیشت کی بہتری کی علامت سمجھا جا رہا ہے، تاہم ابھی بھی کچھ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آیا پاکستان اس بدترین معاشی بحران سے نکل سکے گا۔
کیا معیشت کا پہیہ پھر سے دوڑنے لگے گا۔ لوگ آرزو مند ہیں کہ معیشت کے حوالے سے وہ کوئی اچھی خبر سنیں، لیکن کچھ رہنما اور سیاسی جماعتیں سیاسی استحکام آنے ہی نہیں دیتے۔ وہ مسلسل کوشاں ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہ ہی آئے تو اچھا ہے کیونکہ سیاسی استحکام آئے گا تو ان کی سیاست کی دال کیسے گلے گی اور سیاست کی گاڑی کیسے چلے گی؟
پاکستانی وزیر خزانہ نے امید ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی تک آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ متوقع ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ آئی ایف ایم نے بھی پاکستان کو دی گئی شرائط میں نرمی سے انکارکردیا ہے جس کے بعد پاکستان کے لیے آگے مشکلات کا ایسا طوفان کھڑا ہے جس سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے، اُس کے لیے سوچ بچار کا عمل ضروری ہے۔
ماضی میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کی بات کی تھی کہ ملکی معیشت کے لیے سیاست دانوں کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیے اور معیشت کی درستگی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تو صحیح معنوں میں یہ وقت ہے جس کے لیے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے غورکرنا ہوگا، اگر آئی ایم ایف اپنی شرائط منوائے گا تو پھر پاکستانی عوام کے لیے اُس میں ایسا مہنگائی کا طوفان چھپا ہوگا جس کا سامنا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی، بجلی کی قیمتیں آسمان پر لے جانا ہوں گی، الغرض ہر وہ چیز جس سے پیسہ بنایا جا سکے، اُس کو مہنگا کیا جائے گا، اگر ایسا وقت آیا تو پھر لامحالہ سب کو اکٹھا بیٹھ کر اُس کا حل نکالنا ہو گا۔
بات درآمدات کی،کی جائے تو ایک مثال دیکھیے کہ پاکستان متحدہ عرب امارات سے جو اشیا درآمد کرتا ہے ان میں تقریباً 90 فیصد اشیا یا مصنوعات انڈیا کی ہوتی ہے۔ ماہرین معیشت سمجھتے ہیں کہ پاکستان کسی تیسرے ملک کے ذریعے اشیا منگوانے کے بجائے براہ راست درآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ بچانے کے ساتھ ساتھ اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی لا سکتا ہے۔ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ تنازعات اور تجارتی معاملات الگ الگ کرنے چاہییں۔ مثلًا انڈیا اور چین ایک دوسرے کے حریف ہیں مگر دونوں ممالک سالانہ 80 ارب ڈالرکی تجارت بھی کرتے ہیں۔
پاکستان کو انڈیا کی مارکیٹ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان آج جو مصنوعات دیگر ممالک سے منگواتا ہے وہ انڈیا سے کم قیمت پر منگوا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ملک اکیلے نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا مل کر پورے خطے کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ یہ تاثر بھی منفی ہے کہ انڈیا کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو نقصان ہوگا۔
اس وقت موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہے کیونکہ ہمارے اخراجات تقریباً 15 ٹریلین پاکستانی روپے ہیں جب کہ حکومت کی آمدنی صرف دس ٹریلین پاکستانی روپے ہے۔ نئی حکومت کو تقریباً پانچ ٹریلین پاکستانی روپے کا گیپ فل کرنا پڑے گا، جس کے لیے مالی نظم وضبط بہت ضروری ہے۔
80 کی دہائی سے حکومتیں سرکاری ادارے بیچ رہی ہیں جس سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ پرائیویٹ ادارہ کبھی بھی بڑے پیمانے پہ روزگار پیدا نہیں کرسکتا۔ پوری دنیا میں سرکاری ادارے بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرتے ہیں، لٰہذا اسٹیل مل، پی آئی اے یا دوسرے اداروں کی نجکاری کے بجائے ان کی بحالی پر کام کیا جانا چاہیے۔
ریاست کو اپنے شہریوں کو معیاری بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے گورننس سسٹم کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا۔ غریب عوام کو ٹارگٹ کر کے اور ان کے لیے مخصوص پالیسی وضع کرکے انھیں غربت کی لکیر سے باہر نکالنا ہوگا، جیسے چین نے غربت کا مسئلہ بڑی کامرانی کے ساتھ حل کیا۔ ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی اور ہیومن ریسورس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ برآمدات میں اضافے کے لیے خصوصی اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
مقامی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں بیرونی قرضوں کے بوجھ کوکم کرنا پڑے گا۔ اکنامک سسٹم کو شراکتی بنانا ہوگا اور اسمال اور میڈیم سائز کی صنعتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ خارجہ پالیسی کو جیو اکنامکس کے اصول پر آگے بڑھانا ہوگا۔ آبادی میں میں تشویش ناک اضافہ کو روکنے کے لیے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ نقصان پر چلنے والے ریاستی اداروں اور کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔
پاکستان میں کرپشن کینسر کی طرح پھیل چکی ہے جس نے ہماری آزادی اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ یکساں احتساب کے لیے ایک ایسا قابل اعتبار ادارہ بنانا ہوگا جو سب کا کڑا احتساب کر سکے۔ مسائل کے حل کے لیے عوام کی سیاسی تائید اور حمایت لازم ہے۔ یہ رائے درست ہے البتہ پاکستان کے سیاسی ماڈل کو حقیقی معنوں میں عوامی اور جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔
ایسا جمہوری نظام جس میں عوام کی شرکت نہ ہو صرف سیاسی خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے جب کہ عوام کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہی رہتی ہے۔ اگرچہ اچھی معیشت ہر ملک کے لیے بڑا چیلنج ہے اور دنیا کے ترقی پذیر ممالک سخت ترین معاشی بحرانوں کی زد میں آئے ہوئے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
جیسے کہ کہا جاتا ہے سیاسی استحکام، معاشی استحکام لاتا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن بنایا جائے کہ ہم پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کو ختم کر سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ سب ادارے اپنی حدود و قیود میں رہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی تحمل سے کام لینا ہو گا۔ ایسی سوچ ہرگز نہیں رکھنی چاہیے جس سے بے چینی و اضطراب بڑھے اور اضافہ ہوتا دکھائی دے۔