میڈیا واچ ڈاگ ریپسٹ بن رہا ہے انڈیا

تو پھر کیا خیال ہے بھارت میں 'Charity begins at home' کو تبدیل کر کے'Rapist comes from home' نہیں ہونا چاہئے ؟؟

جب بچیوں کو کلا کے نام پر آدھے ادھورے کپڑوں میں نچائیں گے۔ جب ویلنٹائین سرکاری مستی میرا مطلب ہے سر پرستی میں چستی کے ساتھ منایا جائے گا تو پھر پھر یہ سب کچھ ریپ بن کر معاشرتی جڑوں کو بہا لے جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
آج کل بھارتی ٹی وی چینلز پر مختلف اشتہار چل رہے ہیں جن کا لُبِ لباب یا مرکزی خیال کچھ اس طرح ہوتا ہے مثلا اگر میک اپ کی مصنوعات کا اشتہار ہے تو اس میں بھانت بھانت کی چیزیں دکھا کر آخر میں ایک جملہ یوں کہا جاتا ہے

"خوبصورت بن رہا ہے انڈیا"

یا پھر کچھ دنوں پہلے ایک اور اشتہار دیکھا جس کا مرکزی خیال تو کافی مزے کا تھا

ایک بچہ آئینے کے سامنے اپنے والدکے ساتھ کھڑا ہے اور اپنا عکس دیکھ کر بال درست کررہا ہے ۔۔ بال درست کرتے ہوئے وہ اپنے ابو کی طرف دیکھ کر کہتا ہے پاپا میرے بالوں کا اسٹائل دیکھ کر لوگ کہتے ہیں یہ تو بالکل اووستی (ابو کا نام) پر گیا ہے پھر اپنے چہرے اور نقوش کو بغور دیکھ کر کہتا ہے ابو دیکھیں جو بھی میرا چہرا دیکھتا ہے کہتا ہے بالکل اووستی پر گیا ہے "یہ سن کر اس کے والدین مسکرا اٹھتے ہیں ایک دم اس کی نظر اپنے کپڑوں پر پڑتی ہے جو فیشن کے مطابق نہیں ہوتے تو وہ منہ بسورتے ہوئے کہتا ہے ۔۔ کہ مجھے جو دیکھتا ہے کہتا ہے اس کے کپڑے دیکھو کہیں سے نہیں لگتا کہ اووستی کا بیٹا ہے یہ سن کر والدین مسکراتا چہرا اتر جاتا ہے ۔۔ منظر تبدیل ہوتا ہے اب وہی بچہ مختلف طرح کے لباس پہنے ہوئے ہے اور ایک پس پردہ آواز کہہ رہی ہے ۔۔ جدید فیشن کی شرٹس وغیرہ وغیرہ آخر میں وہی جملہ"اسٹائلش بن رہا ہے انڈیا"

یہ تو ہوئی بھارت کی مصنوعی چکا چوند کی ایک جھلک لیکن اب آجائیں ذرا حقیقی بھارت کی راج زانی اوہ سوری راجھدانی میں جہاں کے داخلی سیکیورٹی کے ذمہ دار منتری بابو لال گور فرماتے ہیں کہ ریپ ایک معاشرتی جرم ہے اور اس کو روکنا آسان نہیں ۔۔ یہاں تک تو ٹھیک ہو سکتا ہے کہ جیسا منہ ویسا تھپڑ جب چھوٹی چھوٹی بچیوں کو کلا کے نام پر آدھے ادھورے کپڑوں میں نچائیں گے۔ جب ویلنٹائین سرکاری مستی میرا مطلب ہے سر پرستی میں چستی کے ساتھ منایا جائے گا تو پھر اس سیلاب کو روکنا واقعی آسان نہیں جو جذبات کی صورت ابلتا ہے اور ریپ بن کر معاشرتی جڑوں کو بہا لے جاتا ہے ۔۔


لیکن یہ صاحب اس سے کہیں آگے نکل گئے اور سی این ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے نجانے کس خواہش کہ تحت یہ فرمایا کہ ریپ ایک دماغی بیماری ہے ریپ کرنے والا پولیس یا سرکار کو مطلع نہیں کرتا تو ہم اس پر روک نہیں لگا سکتے یعنی کوئی باڑھ نہیں لگا سکتے ایسے جرائم پر کیوں کہ یہ دماغی کیفیت کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ہم ہیلمٹ نہ پہنے والوں پر تو گرفت کر سکتے ہیں لیکن ہم کسی مخصوص جگہ ہونے والے ریپ کو کیسے روک سکتے ہیں یہ ایک معاشرتی جرم ہے جو مرد وعورت دونوں پر منحصر ہے اس لیے یہ "کبھی غلط ہو سکتا ہے کبھی سہی"

یاد رہے کہ بابو لال نریندرا مودوی کی دیگ کا ایک چاول ہے جوقانون نافذ کرنے کے بجائے عذر از گناہ بدتر ازگناہ کا پرچار کر رہا ہے ۔ آپ کاکیا خیال ہے کیوں نہ بھارت سرکار ایک پبلک سروس اشتہاری مہم چلائے جس میں بابو لال کی فیملی پرفارم کرے اور جس کے آخر میں ایک وائس اوور آئے ۔۔

ریپسٹ بن رہا ہے انڈیا ۔ یا پھر۔ ریپ کر رہا ہے انڈیا

تو کیا خیال ہے پھر ان کے ہاں "Charity begins at home" کو تبدیل کر کے"Rapist comes from home" نہیں ہونا چاہئے ؟؟ پھر ایسے واقعات کو بھی سرکاری سرپرستی مل جائے گی ۔جیسے کہ کسی بس میں تین غنڈے چڑھ کر کسی طالبہ کا ریپ کریں یا کچھ لڑکیوں کو ریپ کر کے قتل کیا جائے اور درخت پر لٹکانے کے بعد کہا جائے ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story