عوام کو قومی اسمبلی میں پٹیشن دائر کرنیکی اجازت پیپلز پارٹی بل لانے کیلیے تیار
انفرادی یا اجتماعی طور پر متاثر کرنیوالے معاملے پر پٹیشن اسپیکر متعلقہ کمیٹی کو بھیجے گا
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز نے قومی اسمبلی میں ایسا بل پیش کرنے کی تیاری کرلی جس کے تحت شہری کو قومی اسمبلی میں پبلک پٹیشن دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا کہ قومی اسمبلی انفرادی اور اجتماعی نوعیت کے معاملے میں مداخلت کرے۔
23اپریل کے قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں بتایا گیا ہے پیپلز پارٹی کی ایم این اے نفیسہ شاہ نے قومی اسمبلی میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 ایکٹ میں ترمیم کی درخواست کی ہے۔ ان کی ترمیم کے مطابق نئے رول 295اور 296 کے تحت شہری کو عوامی درخواست کے ساتھ قومی اسمبلی سے رجوع کا حق حاصل ہوجائے گا۔
رول 295 کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری یا نیچرل یا قانونی شخص کو انفرادی طور پر یا دوسروں کے ساتھ ملکر قومی اسمبلی میں اس کو یا ان سب کو متاثر کرنے والا معاملہ کی درخواست دینے کا حق حاصل ہوگا۔ درخواست گزار کو اپنا نام، قومیت اور مستقل ایڈریس درج کرنا ہوگا۔ ایک سے زیادہ پٹیشنرز ہونے کی صورت میں تمام دستخط کرنے والے اپنا ایک نمائندہ مقرر کریں گے۔
پٹیشنرز میں سے کوئی بھی درخواست گزار کسی بھی وقت اس درخواست سے کنارہ کشی اختیار کر سکے گا۔ اردو یا انگلش میں درخواست کو پیشہ ورانہ زبان میں لکھنا ہوگا۔ تاہم سندھی، پنجاب، پشتو، بلوچی، کشمیری ، شینا، ہندکو یا براہوی جیسی صوبائی یا مقامی زبانوں میں درخواستوں کو بھی قبول کیا جائے گا۔ ضوابط پر پورا اترنے والی درخواست کو رجسٹر میں درج کردیا جائے گا۔
وہ درخواست جسے رجسٹر میں درج نہیں کیا جا سکا اس کا درخواست گزار کو بتا دیا جائے گا۔ رجسٹر میں درج درخواستوں کو سپییکر ذمہ دار ''پبلک پٹیشز کمیٹی'' کو بھیج دے گا۔ یہ کمیٹی سب سے پہلے اس درخواست کے قابل قبول ہونے کا جائزہ لے گی۔ اگر درخواست قابل قبول نہ سمجھی گئی تو پٹیشنز کو بتا دیا جائے گا اور درخواست قبول نہ کرنے کی وجہ سے بھی اسے بتا دی جائے گی۔ ممکن ہو تو اسے شکایت کے ازالے کے متبادل ذرائع کا بھی بتایا جائے گا۔
پٹیشن کے رجسٹرڈ ہونے پر یہ درخواست جنرل ضابطے کے تحت پبلک ڈاکیو منٹ بن جائے گی اور ٹرانسپرنسی کے حصول کے لیے قومی اسمبلی اسے پبلش بھی کر سکے گی۔ پبلک ڈاکیومنٹ بننے کی اہلیت پر پوری نہ اترنے کی صورت میں پٹیشنرز کی درخواست پر اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے گا۔ اگر درخواست پر پٹیشنرز کی گمنامی کی وجہ سے تحقیقات نہ ہوسکتی ہوں تو اس حوالے سے پٹیشنرز سے مشاورت کی جا سکے گی۔
پٹیشنرز مزید یہ درخواست بھی کر سکتا ہے کہ اس کی پٹیشن کو رازداری سے نمٹایا جائے۔ اس صورت میں پارلیمنٹ تمام احتیاطی اقداما ت اٹھائے گی۔ کمیٹی جیسا مناسب سمجھے اس پٹیشن کو نمٹانے کے لیے وفاقی محتسب ، متعلقہ حکومتی ادارے یا ڈویژن کو بھی بھیج سکتی ہے۔
رول 296 میں پٹیشنز کے جائزے، اس کو نمٹانے اور اس کی رپورٹ کے معاملات پر بات کی گئی ہے۔ اس رول میں کہا گیا اگر ضرورت ہوگی کو پٹیشنرز کو بحث کے لیے کمیٹی میں بلایا جائے گا۔ پٹیشنرز کو بات کرنے کا حق کمیٹی کے سربراہ کی صوابدید پر دیا جائے گا۔ کمیٹی اس پٹیشن کے حوالے سے رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور پٹیشن سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات سے پارلیمنٹ کو آگاہ کرے گی۔ زیر غور مسئلہ میں جہاں ضرورت ہو یہ کمیٹی دوسری پارلیمانی کمیٹیوں سے رائے حاصل کر سکے گی۔
رپورٹ میں قانون کی تشریح یا موجود قانون میں مجوزہ تبدیلی کے حوالے سے اس معاملہ سے متعلق قائمہ کمیٹی کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا جائے گا۔ اگر متعلقہ قائمہ کمیٹی قانون میں مجوزہ ترمیم کو قبول نہیں کرتی تو منسلک ہونے والی کمیٹی ترمیم کو براہ راست بھی پارلیمنٹ پیش کرسکے گی۔ درخواستوں کی تحقیقات کرنے کے دوران حقائق کو ثابت کرنے کے لیے یا حل پیش کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کے لیے درخواست سے متعلقہ مقامات کا دورہ بھی کر سکے گی۔ دورہ کرنے والوں کی رپورٹ بھی تیار کی جائے گی۔
کمیٹی کی جانب سے پٹیشنر کو اپنے فیصلوں اور ان فیصلوں کی وجوہات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔ جب قابل قبول پٹیشن کا جائزہ مکمل ہوجائے گا تو اس پٹیشن کو بند کرنے کا اعلان کردیا جائے گا اور پٹیشنر کو اگاہ کردیا جائے گا۔
دوسری طرف واضح رہے کہ سنی اتحاد کونسل کے قانون ساز آئین کے آرٹیکل 175اے اور 215میں ترمیم کے لیے بل لانے کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح نفیسہ شاہ بھی آرٹیکل 25میں ترمیم کے لیے بل لانے کی خواہش مند ہیں۔
23اپریل کے قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں بتایا گیا ہے پیپلز پارٹی کی ایم این اے نفیسہ شاہ نے قومی اسمبلی میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 ایکٹ میں ترمیم کی درخواست کی ہے۔ ان کی ترمیم کے مطابق نئے رول 295اور 296 کے تحت شہری کو عوامی درخواست کے ساتھ قومی اسمبلی سے رجوع کا حق حاصل ہوجائے گا۔
رول 295 کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری یا نیچرل یا قانونی شخص کو انفرادی طور پر یا دوسروں کے ساتھ ملکر قومی اسمبلی میں اس کو یا ان سب کو متاثر کرنے والا معاملہ کی درخواست دینے کا حق حاصل ہوگا۔ درخواست گزار کو اپنا نام، قومیت اور مستقل ایڈریس درج کرنا ہوگا۔ ایک سے زیادہ پٹیشنرز ہونے کی صورت میں تمام دستخط کرنے والے اپنا ایک نمائندہ مقرر کریں گے۔
پٹیشنرز میں سے کوئی بھی درخواست گزار کسی بھی وقت اس درخواست سے کنارہ کشی اختیار کر سکے گا۔ اردو یا انگلش میں درخواست کو پیشہ ورانہ زبان میں لکھنا ہوگا۔ تاہم سندھی، پنجاب، پشتو، بلوچی، کشمیری ، شینا، ہندکو یا براہوی جیسی صوبائی یا مقامی زبانوں میں درخواستوں کو بھی قبول کیا جائے گا۔ ضوابط پر پورا اترنے والی درخواست کو رجسٹر میں درج کردیا جائے گا۔
وہ درخواست جسے رجسٹر میں درج نہیں کیا جا سکا اس کا درخواست گزار کو بتا دیا جائے گا۔ رجسٹر میں درج درخواستوں کو سپییکر ذمہ دار ''پبلک پٹیشز کمیٹی'' کو بھیج دے گا۔ یہ کمیٹی سب سے پہلے اس درخواست کے قابل قبول ہونے کا جائزہ لے گی۔ اگر درخواست قابل قبول نہ سمجھی گئی تو پٹیشنز کو بتا دیا جائے گا اور درخواست قبول نہ کرنے کی وجہ سے بھی اسے بتا دی جائے گی۔ ممکن ہو تو اسے شکایت کے ازالے کے متبادل ذرائع کا بھی بتایا جائے گا۔
پٹیشن کے رجسٹرڈ ہونے پر یہ درخواست جنرل ضابطے کے تحت پبلک ڈاکیو منٹ بن جائے گی اور ٹرانسپرنسی کے حصول کے لیے قومی اسمبلی اسے پبلش بھی کر سکے گی۔ پبلک ڈاکیومنٹ بننے کی اہلیت پر پوری نہ اترنے کی صورت میں پٹیشنرز کی درخواست پر اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے گا۔ اگر درخواست پر پٹیشنرز کی گمنامی کی وجہ سے تحقیقات نہ ہوسکتی ہوں تو اس حوالے سے پٹیشنرز سے مشاورت کی جا سکے گی۔
پٹیشنرز مزید یہ درخواست بھی کر سکتا ہے کہ اس کی پٹیشن کو رازداری سے نمٹایا جائے۔ اس صورت میں پارلیمنٹ تمام احتیاطی اقداما ت اٹھائے گی۔ کمیٹی جیسا مناسب سمجھے اس پٹیشن کو نمٹانے کے لیے وفاقی محتسب ، متعلقہ حکومتی ادارے یا ڈویژن کو بھی بھیج سکتی ہے۔
رول 296 میں پٹیشنز کے جائزے، اس کو نمٹانے اور اس کی رپورٹ کے معاملات پر بات کی گئی ہے۔ اس رول میں کہا گیا اگر ضرورت ہوگی کو پٹیشنرز کو بحث کے لیے کمیٹی میں بلایا جائے گا۔ پٹیشنرز کو بات کرنے کا حق کمیٹی کے سربراہ کی صوابدید پر دیا جائے گا۔ کمیٹی اس پٹیشن کے حوالے سے رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور پٹیشن سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات سے پارلیمنٹ کو آگاہ کرے گی۔ زیر غور مسئلہ میں جہاں ضرورت ہو یہ کمیٹی دوسری پارلیمانی کمیٹیوں سے رائے حاصل کر سکے گی۔
رپورٹ میں قانون کی تشریح یا موجود قانون میں مجوزہ تبدیلی کے حوالے سے اس معاملہ سے متعلق قائمہ کمیٹی کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا جائے گا۔ اگر متعلقہ قائمہ کمیٹی قانون میں مجوزہ ترمیم کو قبول نہیں کرتی تو منسلک ہونے والی کمیٹی ترمیم کو براہ راست بھی پارلیمنٹ پیش کرسکے گی۔ درخواستوں کی تحقیقات کرنے کے دوران حقائق کو ثابت کرنے کے لیے یا حل پیش کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کے لیے درخواست سے متعلقہ مقامات کا دورہ بھی کر سکے گی۔ دورہ کرنے والوں کی رپورٹ بھی تیار کی جائے گی۔
کمیٹی کی جانب سے پٹیشنر کو اپنے فیصلوں اور ان فیصلوں کی وجوہات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔ جب قابل قبول پٹیشن کا جائزہ مکمل ہوجائے گا تو اس پٹیشن کو بند کرنے کا اعلان کردیا جائے گا اور پٹیشنر کو اگاہ کردیا جائے گا۔
دوسری طرف واضح رہے کہ سنی اتحاد کونسل کے قانون ساز آئین کے آرٹیکل 175اے اور 215میں ترمیم کے لیے بل لانے کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح نفیسہ شاہ بھی آرٹیکل 25میں ترمیم کے لیے بل لانے کی خواہش مند ہیں۔