تبدیلی کی کنجی… پہلا حصہ

کرہ ارض پر حضرت آدم علیہ السلام، حضرت حوا سے نسل انسانی کی ابتدا ہوئی۔۔۔

عوام میں آئے روز بڑھتی ہوئی پریشانیاں، بنیادی ضروریات کا عوام کی دسترس سے دور ہوتے جانا اور عوام کی قوت خرید میں مسلسل کمی قلت زر ہونا، بالا دست طبقے ٹرائیکا (جاگیردا+ سرمایہ کار+ اعلیٰ بیوروکریٹس) کے پاس افراط زر یا ارتکاز زر ہوتے جانا کیا قانون قدرت ہے؟ اس معاشی غلط تقسیم کا تجزیہ کرنے سے قبل ہم انسان کے مقام کو دیکھتے ہیں جو قانون قدرت کے مطابق کائنات یا کرہ ارض پر متعین کیا گیا ہے۔

اس حقیقت سے ہٹ کر کائنات کے بارے قدیمی یونانی فلسفیوں میں سے ایک ہیریقلیتس (475۔535ق م) نے کہا ''کائنات آگ سے بنی ہے۔ کائنات میں ہر شے تغیر پذیر ہے۔ ہر شے میں اس کی ضد موجود ہے۔ اس ضد کی کشمکش سے تغیر اور ارتقا کا عمل ہو رہا ہے۔''حقیقت یہ ہے کہ نظام کائنات میں کشمکش نہیں ہے۔ پوری کائنات ایک منظم ترکیب و ترتیب کے ساتھ چل رہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تخلیق کائنات اور حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کے وقت اپنا نائب (خلیفہ) مقرر فرمایا۔ کسی فرشتے کو اپنا نائب یا خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا اور پھر اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام فرشتوں سے زیادہ علم عطا کیا اور جب حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کی تخلیق ہوئی اور جب دونوں شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تو اﷲ تعالیٰ نے دونوں سمیت شیطان کو زمین پر اتار دیا۔

کرہ ارض پر حضرت آدم علیہ السلام، حضرت حوا سے نسل انسانی کی ابتدا ہوئی اور آج تک حضرت آدم کی نسل انسانی گود در گود سے منتقل ہوتی آ رہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کے زندہ رہنے کا سامان بھی مہیا کیا ہوا ہے۔ سمندری مخلوق ہوں، ہوا میں اڑنیوالے پرندے ہوں، زمین پر رہنے اور چلنے والے جانور ہوں، زمین پر اگنے والی کئی اقسام کی نباتات ہوں، یہ تمام کی تمام گود در گود اپنی تخلیق کے بعد سے چلی آ رہی ہیں۔ ہر شے اپنی ساخت کے مطابق وحدت سے کثرت میں تبدیل ہوتی ہے اور اپنا اپنا دورانیہ پورا کر کے بتدریج اپنی اپنی نفی کرتی ہیں لیکن نفی سے قبل اپنی نسل بڑھانے کا عمل کر چکی ہوتی ہیں۔ جب درختوں پر پھل لگتے ہیں، ابتدائی اور درمیانے وقت کے پھلوں کا ذائقہ کھٹا یا سخت ترش ہوتا ہے۔

کوئی جاندار ایسے پھلوں کے قریب نہیں جاتا اور جب درختوں کے پھلوں میں نسل کی افزائش (بڑھوتری) کا خلیہ مکمل بارآوری کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو اس کے چاروں طرف کے تمام ترش اجزا گلوکوز (شکر) پروٹین، نمکیات میں تبدیل ہو جاتے ہیں، اس کے بعد پھل پک کر زمین پر گر جاتے ہیں یا ان کو انسان یا جاندار کھا کر گٹھلی (بیج) پھینک دیتے ہیں۔ انسان، تمام جاندار، تمام نباتات ''گودیت'' یا گودی دورانیہ کر رہی ہیں۔انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اپنی نیابت کے درجے پر فائز کیا ہے کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام فرشتوں نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے سجدہ کیا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد گود در گود پورے کرہ ارض پر پھیلتی چلی گئی۔

خالق کائنات اور خلیفہ کائنات میں بڑا فرق ہے۔ (1) انسان اپنے داخلی تقاضوں (خواہشات) کو خارجی دنیا سے پورا کرتا ہے۔ (2) جب خارجی دنیا سے انسانی داخلی تقاضے پورے نہیں ہو رہے ہوتے تو انسان خارجی دنیا میں تبدیلیاں پیدا کر کے اپنے داخلی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ خوراک کی ضرورت کو حاصل کرنے کے لیے انسان نے بیجوں کی کاشت کاری شروع کر دی۔ (3) اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ ''علم'' حضرت آدم علیہ السلام کو دیا۔ اسی وجہ سے ہر انسان میں جستجو، تحقیق، غور و فکر کرنے کا عنصر اپنے اپنے خارجی ماحول کیمطابق کم یا زیادہ موجود چلا آ رہا ہے۔ لیکن انسان کا اﷲ تعالیٰ کا خلیفہ یا نیابت کے درجے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان بہت بڑا فرق موجود تھا اور موجود رہے گا۔ اﷲ تعالیٰ کائنات میں کچھ بھی ''عدم'' سے وجود میں لا سکتا ہے۔


انسان صرف اور صرف اپنے ماحول میں ترمیم، تبدیلی، مرمت اور ''تجرباتی تخلیق'' کر سکتا ہے۔ اگر انسان صرف ''خیال و تصور'' میں کسی تپتے ریگستان کو چمن، باغ و بہار میں بدل دینے کا سوچتا ہے تو یہ خام خیالی ہے۔ انسان صرف زمینی حقائق اور لائف یونیورس کے مطابق ہی عملاً تجرباتی تخلیق اور تبدیلی کر سکتا ہے۔ یونانی فلسفی ہریقلیتس نے کہا کہ ''مادے کے اندر اس کی ضد ہے۔ اسی کشمکش سے تغیر کا عمل ہو رہا ہے۔'' جرمن فلسفی ہیگل نے کہا کہ ''خیال ہی سب کچھ ہے اور مادے میں کشمکش یعنی ضد کی وجہ سے ارتقا کا عمل ہو رہا ہے۔'' لیکن حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں ہر شے گود در گود اپنا اپنا دورانیہ پورا کرتی ہے۔

جاندار اشیا، نباتات اپنی نفی ہونے سے قبل اپنی ''تولید'' کا عمل کرتی ہیں اور دیگر اشیا جب اپنا دورانیہ مکمل کرتی ہیں تو (1) کیمیائی تبدیلی سے ان کی ساخت بدل جاتی ہے لیکن ان کی جگہ ویسی ہی اشیا وجود میں آ جاتی ہیں۔ (2) طبعی تبدیلیاں، پانی کا بھاپ بن کر اڑ جانا، سمندروں کے پانی کا گرمی سے بادل بن جانا اور پھر بارش بن کر گرنا، اﷲ تعالیٰ نے کائنات اور ہر ذرے میں توازن قائم رکھا ہوا ہے۔ انسان اپنی نیابت کے درجے کی وجہ سے (1) داخلی و خارجی تقاضوں کی تبدیلیوں کے دوران نظریات بدلتا رہتا ہے۔ ایک ماہر ترین سرجن آپریشن کے دوران صرف جسم میں پیدا ہونیوالے نقص کو دور کرتا ہے، کوئی تخلیق نہیں کرتا۔ ہم کوئی بھی کام کر رہے ہوں، سو رہے ہیں، ہم سب کے جسموں کے تمام اعضاؤں کے خلیے مسلسل اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں، بے جان مادہ، مسلسل اپنا دورانیہ مکمل کر رہا ہے۔

کائنات میں کہیں بھی کشمکش نہیں ہو رہی ہے۔ انسان نے آج اپنے چاروں طرف ایجادات کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ سائنسدان ارشیمیدس (287۔212ق م) مسلسل غور و فکر میں رہتا تھا۔ سراکیوس کے بادشاہ کو مسئلہ درپیش تھا کہ اس کے سونے کے تاج میں ملاوٹ کو کیسے معلوم کیا جائے۔ ارشمیدس جب پانی کے ٹب میں نہانے کے لیے داخل ہوا تو قانون کثافت دریافت کر لیا۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے ٹیلی فون، تھامس ایڈیشن نے بلب، گراموفون دیگر کئی اشیا ایجاد کیں۔ فنلے مورس نے ''تار برقی'' ایجاد کیا۔ مارکونی نے ریڈیو ایجاد کیا۔ جان لوئی ہیئرڈ نے ٹیلی ویژن ایجاد کیا۔ ایڈورڈ جیز نے چیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا اور سیکڑوں ایجادات ہیں۔

لیکن یہ تمام کی تمام ''تجرباتی تخلیق'' ہیں، یعنی لاء آف یونیورس کے بھید پانے اور ان اصولوں کو روزمرہ زندگی کے لیے سہولتوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس طرح لاء آف یونیورس انسانی جدوجہد کے لیے نئے ''تجرباتی تخلیق'' کے دروازے کھولتا ہے۔ دوسری طرف لاء آف یونیورس ہر جاندار کے لیے ہر موسم میں اس کی خوراک کو وسیع مقدار میں مہیا کرتا ہے۔ ایک بیج سے تناور درخت بن کر کئی مدتوں تک انسانوں کو اپنے موسم کیمطابق پھل دیتا ہے۔ گندم کا ایک بیج کئی دانوں کو پیدا کرتا ہے۔ لاء آف یونیورس میں وحدت سے اشیا کثرت میں تبدیل ہوتی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرہ ارض پر ہر بسنے والے انسان کو زندہ رہنے کی ضمانت قانون قدرت کیمطابق حاصل ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story