آفاق احمد صدیقی چند یادیں چند باتیں
آفاق صدیقی کی سوانح حیات و تصنیفات کا میں یہاں جائزہ نہیں لوں گی۔۔۔۔
آفاق صدیقی نے سندھی و اردو ادب کی نصف صدی سے زائد خدمت کی۔ وہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے اور پاک سرزمین میں ہی اپنے تخلیقی سفر کو آخری ایام تک جاری رکھا۔ ہاں البتہ جب ہاتھ و قلم کا رشتہ ٹوٹ گیا تو جسم و روح کا رشتہ بھی قائم نہ رہ سکا اور 17 جون کو یہ ر شتہ ٹوٹ گیا۔مرنے کے بعد زندہ رہنے کا فن میں نے ہر بڑے تخلیق کار کی کہانی پڑھ کر سیکھا ہے۔ جسم خاک ہو جاتا ہے اور لفظ زندہ رہتے ہیں۔ وہ ہنر و فن و علم جو ہم دوسروں میں منتقل کر دیتے ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
استاد کے ان گنت شاگرد جو خود استاد کے درجے پر فائز ہو چکے ہوں۔ شاعر و ادیب و فنکار کے شاگرد جو خود شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہوں وہ اپنے استاد کو اپنے علم کی بدولت زندہ رکھتے ہیں۔ بجھنے والا چراغ جو کئی چراغوں کو روشن کر چکا ہو اگر بجھ بھی جائے تو اسی سے روشن ہونیوالے چراغ اندھیروں میں اجالا کرتے رہتے ہیں۔ استاد مر بھی جائے تو وہ اپنے شاگردوں کے اندر منتقل شدہ علم و حکمت کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
آفاق صدیقی کی سوانح حیات و تصنیفات کا میں یہاں جائزہ نہیں لوں گی۔ کیوں کہ اسی لیے ایک طویل مضمون درکار ہے۔ ان کے علمی و ادبی کارناموں کا اگر تجزیہ کروں گی تو نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط علمی خدمات پر تبصرہ و تنقیدی جائزے کے لیے مقالے کی ضرورت پیش آئے گی ۔ آفاق صدیقی سے میری ملاقات جے (J) بلاک نارتھ ناظم آباد میں قائم ایک نجی کالج میں ہوئی تھی۔ اسی وقت وہ بفرزون سے جہاں ان کی قیام گاہ تھی کالج تک سائیکل پر آتے جاتے تھے۔ درمیان میں سخی حسن کا قبرستان پڑتا تھا جہاں پابندی کے ساتھ اپنی مرحومہ اہلیہ ناظمہ کی قبر پر فاتحہ پڑھتے۔
آفاق صدیقی اکثر اپنے بیٹے کا تذکرہ کرتے، وہ ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ ظاہر ہے باپ تھے اور اکلوتی اولاد۔ لوگ اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں کہ بڑھاپے کا سہارا ہو گی لیکن بڑھاپے میں اب تو ایسا لگتا ہے کہ اﷲ کے علاوہ انسان کا کوئی سہارا نہیں۔ آفاق صاحب کو جب تک صحت نے اجازت دی۔ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہے۔ قلم سے ان کا رشتہ ٹوٹنے نہیں پایا۔ ریڈیو کے فیچرز ہو یا ادبی رسائل و اخبارات کے مضامین، کلام و مجموعہ کی اصلاح ہو یا مقالات و طویل مضامین پر نظر ثانی کا مرحلہ نشستیں، مشاعرے اور ادبی تقریبات میں شرکت انھیں میں نے ہمیشہ فعال دیکھا۔ اکثر ان کے ڈرائنگ روم میں جو چھوٹا سا کمرہ تھا۔
ایک صوفہ سیٹ، درمیان میں میز، دیوار کے ساتھ شو کیس اور چھوٹی سی الماری جس میں کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ بے شمار ایوارڈ اور میڈل اور آفاق صاحب کی مختلف تقاریب کی تصاویر، مسز قیصر آفاق کے زمانے میں صوفے پر سفید براق کور ہوتے تھے۔ گرد کا نام و نشان نہیں، میڈل اور تحفے پلاسٹک کی تھیلیوں میں سلیقے سے رکھے ہوتے۔ صاف ستھرا کمرہ جس میں ادبی نشستیں ہوتیں۔ اگرچہ گنجائش کم ہوتی تھی مگر پھر بھی بلاشبہ یہ نشستیں تربیت میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ نشست گاہ سے متصل چھوٹے سے صحن میں تخت ہوتا تھا جس پر کور ہوتا، چند چھوٹے چھوٹے گملے اندر کچن کے سامنے آفاق صاحب کا دیوار کے ساتھ مخصوص پلنگ تھا۔ قریب ہی ٹیلی فون، پلنگ پر کتابیں بکھری ہوتیں۔
چھوٹی سی سائیڈ ٹیبل جس پر اکثر ایش ٹرے گلاس اور چائے کا پیالہ ہوتا۔ مزید دو کمرے تھے۔ ایک خواب گاہ اور دوسرے کمرے میں استری اسٹینڈ اور ڈائننگ ٹیبل یہاں بھی برتن سے زیادہ کتابیں نظر آتی تھیں۔ بیرونی گیٹ سے قریب اسٹور نما کمرے میں بھی کتابیں اور رسالے بھرے ہوئے تھے۔ ہمیشہ ان کے گھر پر مہمانوں جن میں ان کے حلقہ احباب، لکھاری، شاعر، ناقد اور نوجوان لکھنے پڑھنے اور ذوق رکھنے والے شاگردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا۔پھر اچانک اطلاع ملی کہ ان کی انتہائی مہذب اور محبت کرنے والی قیصر جہاں (رفیقۂ حیات) ابدی سفر پر روانہ ہو گئیں۔ سیدھی سادی سی خاتون تھیں جو ہمیشہ گھر کو سلیقے سے چلانے کی سعی کرتی رہیں۔
زندگی نے وفا نہ کی اور آفاق صدیقی تنہا رہ گئے۔کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں رفیق سفر کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہماری اپنی کہانی میں شامل بنیادی اور اہم کردار اس قدر معروف ہوتے ہیں کہ ہمارے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ قیصر جہاں کے بعد لازمی طور پر گھر اور آفاق صدیقی میں تبدیلیاں آئیں۔ گھر عورت سے بنتا ہے۔ یہ حقیقت ہے قریبی شاگردوں نے خبر گیری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آفاق صاحب روز بروز کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ دروازے کو دیمک لگ جاتے تو وہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ صحت روز بروز خراب رہنے لگی۔آفاق صدیقی صاحب کے گھر میں ایک نسوانی کردار کا اضافہ ہو گیا۔ کب اور کیسے؟ تھوڑی دیر کے لیے میں چونک سی گئی لیکن مسز روحی آفاق ایک زندہ حقیقت تھیں جن کا تعارف آفاق انکل نے مجھ سے کرایا۔
میری ملاقاتیں مختصر رہیں۔ آفاق صدیقی کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں انھیں بستر پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ان کے ہاتھ اور پائوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ (ایک طرف کا) اور زبان لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ کیا کہنا چاہتے تھے معلوم نہیں۔ اظہار کی کوشش کے باوجود میں سمجھ نہ سکی۔ کیا شدید صدمے کا رد عمل تھا؟ مجھے کسی کے گھریلو معاملات میں مداخلت کا نہ ہی شوق ہے اور نہ ہی جستجو۔ میں ایک فریق کی بات سن کر خاموش ہو جاتی ہوں جب تک دوسرے فریق کی بات نہ سن لوں کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔
دوسری مرتبہ جب میں عیادت کے لیے گئی تو طبیعت قدرے بہتر تھی۔ ہجوم یاراں میں رہنے والا اتنی جلدی اپنے ساتھیوں سے دور ہو جائے گا۔ انھیں یقین نہ تھا۔ آفاق صدیقی اور قریبی ساتھیوں میں اچانک یہ فاصلہ کیوں ہوا۔ ان کے گرد صرف چند چاہنے والے کیوں رہ گئے۔ کیا ان کی زندگی میں آنے والی تبدیلیاں یا فیصلے یا اختلافی امور۔ میں کچھ نہ کہوں گی اور کوئی تبصرہ نہیں کروں گی ہر شخص کو اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے۔
اب وہ ڈرائنگ روم جس میں ان کی ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں وہاں صوفوں پر سفید چادریں نہیں تھیں، کتابیں، میڈل، تمغے، ٹرافیاں اور شوکیس الماری، سب کہاں گئیں؟ ایک سوال میرے ذہن میں آیا لیکن میں خاموش رہی۔ میں جانتی ہوں کہ اہل قلم کی اولاد کو اگر کتابوں سے دلچسپی نہ ہو تو کتابیں یا تو ردی کے ٹھیلے پر بکتی ہیں یا کوئی صاحب ذوق خرید لیتا ہے۔ ورنہ بہتر جگہ کسی کتب خانے کا مخصوص گوشہ ہے۔ آفاق صاحب جو کمرے میں بیماری کے آخری ایام میں تھے وہاں مجھے کچھ کتابیں نظر آئیں۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آ گے
گیٹ سے متصل اسٹور نما کمرے میں نایاب رسالوں کی جگہ ایک سائیکل اور جنریٹر رکھا ہوا نظر آیا۔ تخت صحن میں موجود نہ تھا۔ پودے سوکھ چکے تھے اور ٹوٹے گملے سائیڈ پر تھے۔ ان کے لکھنے کے پلنگ کی جگہ اب ڈائننگ ٹیبل تھی۔ مگر بعد میں دیگر اشیا کی طرح مجھے ٹیبل بھی نظر نہ آئی۔ آفاق صدیقی کی زندگی کے شب و روز کی طرح ہر چیز تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی۔
استاد کے ان گنت شاگرد جو خود استاد کے درجے پر فائز ہو چکے ہوں۔ شاعر و ادیب و فنکار کے شاگرد جو خود شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہوں وہ اپنے استاد کو اپنے علم کی بدولت زندہ رکھتے ہیں۔ بجھنے والا چراغ جو کئی چراغوں کو روشن کر چکا ہو اگر بجھ بھی جائے تو اسی سے روشن ہونیوالے چراغ اندھیروں میں اجالا کرتے رہتے ہیں۔ استاد مر بھی جائے تو وہ اپنے شاگردوں کے اندر منتقل شدہ علم و حکمت کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
آفاق صدیقی کی سوانح حیات و تصنیفات کا میں یہاں جائزہ نہیں لوں گی۔ کیوں کہ اسی لیے ایک طویل مضمون درکار ہے۔ ان کے علمی و ادبی کارناموں کا اگر تجزیہ کروں گی تو نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط علمی خدمات پر تبصرہ و تنقیدی جائزے کے لیے مقالے کی ضرورت پیش آئے گی ۔ آفاق صدیقی سے میری ملاقات جے (J) بلاک نارتھ ناظم آباد میں قائم ایک نجی کالج میں ہوئی تھی۔ اسی وقت وہ بفرزون سے جہاں ان کی قیام گاہ تھی کالج تک سائیکل پر آتے جاتے تھے۔ درمیان میں سخی حسن کا قبرستان پڑتا تھا جہاں پابندی کے ساتھ اپنی مرحومہ اہلیہ ناظمہ کی قبر پر فاتحہ پڑھتے۔
آفاق صدیقی اکثر اپنے بیٹے کا تذکرہ کرتے، وہ ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ ظاہر ہے باپ تھے اور اکلوتی اولاد۔ لوگ اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں کہ بڑھاپے کا سہارا ہو گی لیکن بڑھاپے میں اب تو ایسا لگتا ہے کہ اﷲ کے علاوہ انسان کا کوئی سہارا نہیں۔ آفاق صاحب کو جب تک صحت نے اجازت دی۔ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہے۔ قلم سے ان کا رشتہ ٹوٹنے نہیں پایا۔ ریڈیو کے فیچرز ہو یا ادبی رسائل و اخبارات کے مضامین، کلام و مجموعہ کی اصلاح ہو یا مقالات و طویل مضامین پر نظر ثانی کا مرحلہ نشستیں، مشاعرے اور ادبی تقریبات میں شرکت انھیں میں نے ہمیشہ فعال دیکھا۔ اکثر ان کے ڈرائنگ روم میں جو چھوٹا سا کمرہ تھا۔
ایک صوفہ سیٹ، درمیان میں میز، دیوار کے ساتھ شو کیس اور چھوٹی سی الماری جس میں کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ بے شمار ایوارڈ اور میڈل اور آفاق صاحب کی مختلف تقاریب کی تصاویر، مسز قیصر آفاق کے زمانے میں صوفے پر سفید براق کور ہوتے تھے۔ گرد کا نام و نشان نہیں، میڈل اور تحفے پلاسٹک کی تھیلیوں میں سلیقے سے رکھے ہوتے۔ صاف ستھرا کمرہ جس میں ادبی نشستیں ہوتیں۔ اگرچہ گنجائش کم ہوتی تھی مگر پھر بھی بلاشبہ یہ نشستیں تربیت میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ نشست گاہ سے متصل چھوٹے سے صحن میں تخت ہوتا تھا جس پر کور ہوتا، چند چھوٹے چھوٹے گملے اندر کچن کے سامنے آفاق صاحب کا دیوار کے ساتھ مخصوص پلنگ تھا۔ قریب ہی ٹیلی فون، پلنگ پر کتابیں بکھری ہوتیں۔
چھوٹی سی سائیڈ ٹیبل جس پر اکثر ایش ٹرے گلاس اور چائے کا پیالہ ہوتا۔ مزید دو کمرے تھے۔ ایک خواب گاہ اور دوسرے کمرے میں استری اسٹینڈ اور ڈائننگ ٹیبل یہاں بھی برتن سے زیادہ کتابیں نظر آتی تھیں۔ بیرونی گیٹ سے قریب اسٹور نما کمرے میں بھی کتابیں اور رسالے بھرے ہوئے تھے۔ ہمیشہ ان کے گھر پر مہمانوں جن میں ان کے حلقہ احباب، لکھاری، شاعر، ناقد اور نوجوان لکھنے پڑھنے اور ذوق رکھنے والے شاگردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا۔پھر اچانک اطلاع ملی کہ ان کی انتہائی مہذب اور محبت کرنے والی قیصر جہاں (رفیقۂ حیات) ابدی سفر پر روانہ ہو گئیں۔ سیدھی سادی سی خاتون تھیں جو ہمیشہ گھر کو سلیقے سے چلانے کی سعی کرتی رہیں۔
زندگی نے وفا نہ کی اور آفاق صدیقی تنہا رہ گئے۔کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں رفیق سفر کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہماری اپنی کہانی میں شامل بنیادی اور اہم کردار اس قدر معروف ہوتے ہیں کہ ہمارے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ قیصر جہاں کے بعد لازمی طور پر گھر اور آفاق صدیقی میں تبدیلیاں آئیں۔ گھر عورت سے بنتا ہے۔ یہ حقیقت ہے قریبی شاگردوں نے خبر گیری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آفاق صاحب روز بروز کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ دروازے کو دیمک لگ جاتے تو وہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ صحت روز بروز خراب رہنے لگی۔آفاق صدیقی صاحب کے گھر میں ایک نسوانی کردار کا اضافہ ہو گیا۔ کب اور کیسے؟ تھوڑی دیر کے لیے میں چونک سی گئی لیکن مسز روحی آفاق ایک زندہ حقیقت تھیں جن کا تعارف آفاق انکل نے مجھ سے کرایا۔
میری ملاقاتیں مختصر رہیں۔ آفاق صدیقی کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں انھیں بستر پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ان کے ہاتھ اور پائوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ (ایک طرف کا) اور زبان لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ کیا کہنا چاہتے تھے معلوم نہیں۔ اظہار کی کوشش کے باوجود میں سمجھ نہ سکی۔ کیا شدید صدمے کا رد عمل تھا؟ مجھے کسی کے گھریلو معاملات میں مداخلت کا نہ ہی شوق ہے اور نہ ہی جستجو۔ میں ایک فریق کی بات سن کر خاموش ہو جاتی ہوں جب تک دوسرے فریق کی بات نہ سن لوں کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔
دوسری مرتبہ جب میں عیادت کے لیے گئی تو طبیعت قدرے بہتر تھی۔ ہجوم یاراں میں رہنے والا اتنی جلدی اپنے ساتھیوں سے دور ہو جائے گا۔ انھیں یقین نہ تھا۔ آفاق صدیقی اور قریبی ساتھیوں میں اچانک یہ فاصلہ کیوں ہوا۔ ان کے گرد صرف چند چاہنے والے کیوں رہ گئے۔ کیا ان کی زندگی میں آنے والی تبدیلیاں یا فیصلے یا اختلافی امور۔ میں کچھ نہ کہوں گی اور کوئی تبصرہ نہیں کروں گی ہر شخص کو اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے۔
اب وہ ڈرائنگ روم جس میں ان کی ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں وہاں صوفوں پر سفید چادریں نہیں تھیں، کتابیں، میڈل، تمغے، ٹرافیاں اور شوکیس الماری، سب کہاں گئیں؟ ایک سوال میرے ذہن میں آیا لیکن میں خاموش رہی۔ میں جانتی ہوں کہ اہل قلم کی اولاد کو اگر کتابوں سے دلچسپی نہ ہو تو کتابیں یا تو ردی کے ٹھیلے پر بکتی ہیں یا کوئی صاحب ذوق خرید لیتا ہے۔ ورنہ بہتر جگہ کسی کتب خانے کا مخصوص گوشہ ہے۔ آفاق صاحب جو کمرے میں بیماری کے آخری ایام میں تھے وہاں مجھے کچھ کتابیں نظر آئیں۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آ گے
گیٹ سے متصل اسٹور نما کمرے میں نایاب رسالوں کی جگہ ایک سائیکل اور جنریٹر رکھا ہوا نظر آیا۔ تخت صحن میں موجود نہ تھا۔ پودے سوکھ چکے تھے اور ٹوٹے گملے سائیڈ پر تھے۔ ان کے لکھنے کے پلنگ کی جگہ اب ڈائننگ ٹیبل تھی۔ مگر بعد میں دیگر اشیا کی طرح مجھے ٹیبل بھی نظر نہ آئی۔ آفاق صدیقی کی زندگی کے شب و روز کی طرح ہر چیز تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی۔