پاکستان ایران تجارتی واقتصادی تعاون نئی جہت
پاکستان اور ایران نے اگلے پانچ سالوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم 10 ارب امریکی ڈالرز تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے
پاکستان اور ایران نے اگلے پانچ سالوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم 10 ارب امریکی ڈالرز تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 8 شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی، ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی۔ ملاقات میں علاقائی امن، استحکام اور سرحدی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بلاشبہ ایرانی صدرابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا باب کھل گیا ہے، عرصہ دارز سے پاکستان اور ایران کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مستحکم اور دیر پا بنانے کے لیے سنجیدہ اور دور رس حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی ، اور اس حوالے سے لازم تھا کہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کا اعلیٰ سطح پر Interaction بڑھایا جائے۔موجودہ حکومت نے اس بات کی اہمیت وافادیت کو سمجھتے ہوئے دوررس اقدامات اٹھا ئے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ مذہبی، تاریخی اور ثقافتی تعلقات ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ملکوں کا تعاون ضروری ہے، دہشت گردی، منظم جرائم اور منشیات کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں گے۔سعودی عرب اور ایران کی دوستی کے اچھے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اب پاکستان اور ایران کے درمیان بھی ایک عرصہ بعد تعلقات میں دوبارہ وہی گرم جوشی نظر آنے لگی ہے جو کبھی پاک ایران تعلقات کا خاصہ تھی۔
تاریخ کا اایک اہم سبق یہ ہے اور اصول یہ ہے کہ ایک ملک ہرچیز بدل سکتا ہے، پڑوسی نہیں بدل سکتا کیونکہ پڑوسی کا تعلق جغرافیائی حقائق سے جو اٹل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں ہوسکتی۔جب ہم کہتے یا لکھتے ہیں کہ دونوں پڑوسی ممالک تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک ہیں تو ہمارا اشارہ ایران کی چار ہزار سالہ تاریخ اور برصغیر پاک وہند کے ساتھ سرزمین فارس کے بادشاہوں، سیاحوں اور تاجروں کے تعلقات کی طرف ہوتا ہے۔
ایران ہمارا پڑوسی برادراسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور1965 کی جنگ میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔آج بھی پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان قائم آر سی ڈی شاہراہ کی یاد بہت سے دلوں میں تازہ ہے۔ جب کراچی تا تہران و استنبول تک ٹرانسپورٹ اس سڑک پر رواں دواں رہتی تھی ۔ایران کے ساتھ ہمارے زمینی سرحد کے علاوہ سمندری سرحد بھی لگتی ہے۔
اس حساب سے دیکھا جائے تو دونوں برادر ملکوں کے درمیان سیاسی سماجی واقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے بے شمار مواقعے بھی ہیں اور راستے بھی۔ فی الحال تفتان کے راستے سڑک اور ٹرین کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں، اگر اس کے علاوہ دیگر سرحدی پوائنٹس بھی کھولے جائیں اور سمندری راستے سے بھی چاہ بہار اور گوادر تجارتی پوائنٹس قائم کیے جائیں تو دونوں ممالک کے درمیان بڑی اچھی کاروباری راہیں کھل سکتی ہیں۔
گزشتہ برس ایران کے صدر محترم ابراہیم رئیسی نے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ردیگ پشین کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی طریقے سے تجارت کو فروغ ملے گا اور اسمگلنگ پر قابو پایا جا سکے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایران سے 100 میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بولان گبد کا بھی افتتاح کیا گیا جس سے سرحدی علاقے اور پنجگور گوادر کو بجلی فراہم کی جائے گی۔اسی طرح اگر اس ایک ہزار کلومیٹر طویل بارڈر پر دیگر انٹری پوائنٹس پر بھی ایسے تجارتی مراکز و بازار قائم کیے جائیں تو دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اس وقت بھی دونوں ممالک اس تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ اس طویل سرحد پٹی پر درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں سے روزانہ ہزاروں لٹر پٹرول اسمگل ہوکر پاکستان لایا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان عرصہ دراز سے گیس پائپ لائن بچھا کر ایران سے گیس کی فراہمی کا کام ایران مکمل کر چکا ہے۔ اب پاکستان پر جرمانے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے اسے فوری کام مکمل کرنا چاہیے۔
پاکستان گیس پائپ لائن والا کام مکمل کر کے ارزاں نرخوں پر ایران سے گیس حاصل کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک ایران بارڈر پر اہم مقامات پر تجارتی مراکز قائم کر کے دونوں ممالک باہمی تعلقات و تجارتی تعلقات کو بڑھایا جائے سی پیک کی وجہ سے ایسے تجارتی پوانٹس کا فائدہ دو چند ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی قریبی ملک ہونے کی وجہ سے ہم ایرانی تیل و گیس حاصل کرکے آمد ورفت کے اخراجات کی مد میں اربوں روپے بچا سکتے ہیں، اگر آر سی ڈی شاہراہ کے منصوبے کو بحال کر دیا جائے تو سڑک اور ٹرین کی بدولت سالانہ اربوں ڈالر کی تجارتی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس سے علاقے میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
چین بھی سی پیک کو اسی طرح افغانستان، ایران، ترکی تک لے جانے کا خواہاں ہے جس کی بدولت پاکستان میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کا باب کھل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ سب کچھ کرنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں، امریکا اور ایران کے درمیان تنازعہ سمیت کئی ایسے امور اور مسائل ہیں ، جو پاک ایران تجارتی تعلقات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی روس اور چین کے ساتھ آویزش چال رہی ہے، امریکا پاک ایران تعلقات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے، مگر روس اور چین کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی کی وجہ امریکا کے لیے بھی آسان نہ ہو گا کہ من مانی کارروائیاں کر سکے۔
اس وقت روس، چین اور ایران خطے کے وہ ممالک ہیں جو امریکی دباؤ سہنے کے باوجود اپنی پالیسیاں خود بنا رہے ہیں۔ پاک ایران بارڈر پر دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ جو صدیوں سے باہمی رشتہ داریوں سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں یہ علاقہ بلوچستان اور ایران میں سیستان کہلاتا ہے۔ اس سرحدی پٹی پر اگر تفتان کے علاوہ، ریگ ملک، قلعہ لدگشت کوھک اور سمندری ساحل پر گوادر کے علاوہ جیون اور پیشوکان میں بھی سرحدی بازار بنائے جائیں جو گوادر سے پہلے ایرانی سمندری سرحد کے ز یادہ قریب ہیں تو اسمگلنگ کے غیر قانونی دھندے پر قابو پایا جا سکتا ہے اور قانونی طریقے سے اربوں ڈالر کی تجارت ممکن ہو سکتی ہے۔
اسی بات سے ہمارے دشمن پریشان ہیں اور وہ حالات خراب کرنے کے لیے دہشت گردوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان کی سرحدیں پہلے ہی محفوظ نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جو ہمیں بہت حد تک محفوطStrategic Depth فراہم کرتاہے۔ اب جب کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو Revisit کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ایران کے معاملے میں بھی عظیم تر قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات کرنا ضروری ہیں کیونکہ خارجہ تعلقات میں نہ تو کوئی دشمن دائمی ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دوست کو دائمی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ان تعلقات میں صر ف اور صرف قومی مفادہی دائمی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ہمیں اس امر کا خیال بھی رکھنا ہے کہ ہم بلوچستان کی ساحلی پٹی اور گوادر بندر گاہ کو جس طرح پاکستان کے مستقبل کے اقتصادی حب کی حیثیت دنیا چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں ایران کے تعاون اور پر امن سرحد کی خصوصی ضرورت ہے۔ایران بھی سیستان بلوچستان کی ترقی چاہتا ہے اور پاکستان، اپنے بلوچستان کی۔ یہ نکتہ دونوں ملکوں کے لیے نہ صرف یہ کہ بقائے باہمی کے سفارتی اصول پر پورا اترتا ہے بلکہ دونوں ممالک کی دور رس اقتصادی ترقی اور عظیم خوشحالی کا باعث بھی ہو گا۔
گوادر اور اس سے ملحقہ علاقے کو توانائی کے حصول (پٹرول، گیس اور بجلی) ایران سے لینا آسان تر اور سستا ترین ہے جب کہ پاکستان کے دوسرے حصوں سے یہ توانائی وہاں لے جانا یا نئے ذرایع تیار کرنا مہنگا ترین اور مشکل تر کام ہے۔بلوچستان حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کا بہت اچھا رابطہ ہے، یہ رہنا چاہیے اور اس میں مزید اضافہ ہونا چاہیے کیونکہ جس ملک میں سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے اور بہتر منافع مل رہا ہوتا ہے تو وہ وہاں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے سرمایہ کار بھی اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔
گوادر پاکستان کا فوکل پوائنٹ بنے گا جس سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کو فائدہ ہوگا۔ موجودہ حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات میں ماضی میں اضافہ نہیں ہوا اور برآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی، جب برآمدات نہیں بڑھیں گی تو روپے پر دباؤ بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کی صورت میں مسائل پیدا ہوں گے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کو خصوصی اقتصادی زونز اور نارتھ فری زون جیسے مقامات پر سرمایہ کاری کے لیے راغب کریں تاکہ ملک کی آمدنی بڑھے اور میکرو اقتصادی عدم توازن ختم ہو۔ایران کی بہت سی مصنوعات لاگت میں پاکستانی مصنوعات سے سستی ہوتی ہیں۔پاک ایران تجارت سے پاکستانی عوام کو ہرپہلو سے فائدے ہی فائدے ہیں۔ایران سے سستا تیل اور سستی گیس پاکستان میں مہنگائی کی کمی کا باعث بنے گی۔
دوسری جانب پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی، ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی۔ ملاقات میں علاقائی امن، استحکام اور سرحدی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بلاشبہ ایرانی صدرابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا باب کھل گیا ہے، عرصہ دارز سے پاکستان اور ایران کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مستحکم اور دیر پا بنانے کے لیے سنجیدہ اور دور رس حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی ، اور اس حوالے سے لازم تھا کہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کا اعلیٰ سطح پر Interaction بڑھایا جائے۔موجودہ حکومت نے اس بات کی اہمیت وافادیت کو سمجھتے ہوئے دوررس اقدامات اٹھا ئے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ مذہبی، تاریخی اور ثقافتی تعلقات ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ملکوں کا تعاون ضروری ہے، دہشت گردی، منظم جرائم اور منشیات کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں گے۔سعودی عرب اور ایران کی دوستی کے اچھے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اب پاکستان اور ایران کے درمیان بھی ایک عرصہ بعد تعلقات میں دوبارہ وہی گرم جوشی نظر آنے لگی ہے جو کبھی پاک ایران تعلقات کا خاصہ تھی۔
تاریخ کا اایک اہم سبق یہ ہے اور اصول یہ ہے کہ ایک ملک ہرچیز بدل سکتا ہے، پڑوسی نہیں بدل سکتا کیونکہ پڑوسی کا تعلق جغرافیائی حقائق سے جو اٹل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں ہوسکتی۔جب ہم کہتے یا لکھتے ہیں کہ دونوں پڑوسی ممالک تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک ہیں تو ہمارا اشارہ ایران کی چار ہزار سالہ تاریخ اور برصغیر پاک وہند کے ساتھ سرزمین فارس کے بادشاہوں، سیاحوں اور تاجروں کے تعلقات کی طرف ہوتا ہے۔
ایران ہمارا پڑوسی برادراسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور1965 کی جنگ میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔آج بھی پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان قائم آر سی ڈی شاہراہ کی یاد بہت سے دلوں میں تازہ ہے۔ جب کراچی تا تہران و استنبول تک ٹرانسپورٹ اس سڑک پر رواں دواں رہتی تھی ۔ایران کے ساتھ ہمارے زمینی سرحد کے علاوہ سمندری سرحد بھی لگتی ہے۔
اس حساب سے دیکھا جائے تو دونوں برادر ملکوں کے درمیان سیاسی سماجی واقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے بے شمار مواقعے بھی ہیں اور راستے بھی۔ فی الحال تفتان کے راستے سڑک اور ٹرین کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں، اگر اس کے علاوہ دیگر سرحدی پوائنٹس بھی کھولے جائیں اور سمندری راستے سے بھی چاہ بہار اور گوادر تجارتی پوائنٹس قائم کیے جائیں تو دونوں ممالک کے درمیان بڑی اچھی کاروباری راہیں کھل سکتی ہیں۔
گزشتہ برس ایران کے صدر محترم ابراہیم رئیسی نے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ردیگ پشین کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی طریقے سے تجارت کو فروغ ملے گا اور اسمگلنگ پر قابو پایا جا سکے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایران سے 100 میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بولان گبد کا بھی افتتاح کیا گیا جس سے سرحدی علاقے اور پنجگور گوادر کو بجلی فراہم کی جائے گی۔اسی طرح اگر اس ایک ہزار کلومیٹر طویل بارڈر پر دیگر انٹری پوائنٹس پر بھی ایسے تجارتی مراکز و بازار قائم کیے جائیں تو دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اس وقت بھی دونوں ممالک اس تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ اس طویل سرحد پٹی پر درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں سے روزانہ ہزاروں لٹر پٹرول اسمگل ہوکر پاکستان لایا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان عرصہ دراز سے گیس پائپ لائن بچھا کر ایران سے گیس کی فراہمی کا کام ایران مکمل کر چکا ہے۔ اب پاکستان پر جرمانے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے اسے فوری کام مکمل کرنا چاہیے۔
پاکستان گیس پائپ لائن والا کام مکمل کر کے ارزاں نرخوں پر ایران سے گیس حاصل کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک ایران بارڈر پر اہم مقامات پر تجارتی مراکز قائم کر کے دونوں ممالک باہمی تعلقات و تجارتی تعلقات کو بڑھایا جائے سی پیک کی وجہ سے ایسے تجارتی پوانٹس کا فائدہ دو چند ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی قریبی ملک ہونے کی وجہ سے ہم ایرانی تیل و گیس حاصل کرکے آمد ورفت کے اخراجات کی مد میں اربوں روپے بچا سکتے ہیں، اگر آر سی ڈی شاہراہ کے منصوبے کو بحال کر دیا جائے تو سڑک اور ٹرین کی بدولت سالانہ اربوں ڈالر کی تجارتی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس سے علاقے میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
چین بھی سی پیک کو اسی طرح افغانستان، ایران، ترکی تک لے جانے کا خواہاں ہے جس کی بدولت پاکستان میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کا باب کھل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ سب کچھ کرنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں، امریکا اور ایران کے درمیان تنازعہ سمیت کئی ایسے امور اور مسائل ہیں ، جو پاک ایران تجارتی تعلقات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی روس اور چین کے ساتھ آویزش چال رہی ہے، امریکا پاک ایران تعلقات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے، مگر روس اور چین کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی کی وجہ امریکا کے لیے بھی آسان نہ ہو گا کہ من مانی کارروائیاں کر سکے۔
اس وقت روس، چین اور ایران خطے کے وہ ممالک ہیں جو امریکی دباؤ سہنے کے باوجود اپنی پالیسیاں خود بنا رہے ہیں۔ پاک ایران بارڈر پر دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ جو صدیوں سے باہمی رشتہ داریوں سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں یہ علاقہ بلوچستان اور ایران میں سیستان کہلاتا ہے۔ اس سرحدی پٹی پر اگر تفتان کے علاوہ، ریگ ملک، قلعہ لدگشت کوھک اور سمندری ساحل پر گوادر کے علاوہ جیون اور پیشوکان میں بھی سرحدی بازار بنائے جائیں جو گوادر سے پہلے ایرانی سمندری سرحد کے ز یادہ قریب ہیں تو اسمگلنگ کے غیر قانونی دھندے پر قابو پایا جا سکتا ہے اور قانونی طریقے سے اربوں ڈالر کی تجارت ممکن ہو سکتی ہے۔
اسی بات سے ہمارے دشمن پریشان ہیں اور وہ حالات خراب کرنے کے لیے دہشت گردوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان کی سرحدیں پہلے ہی محفوظ نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جو ہمیں بہت حد تک محفوطStrategic Depth فراہم کرتاہے۔ اب جب کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو Revisit کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ایران کے معاملے میں بھی عظیم تر قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات کرنا ضروری ہیں کیونکہ خارجہ تعلقات میں نہ تو کوئی دشمن دائمی ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دوست کو دائمی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ان تعلقات میں صر ف اور صرف قومی مفادہی دائمی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ہمیں اس امر کا خیال بھی رکھنا ہے کہ ہم بلوچستان کی ساحلی پٹی اور گوادر بندر گاہ کو جس طرح پاکستان کے مستقبل کے اقتصادی حب کی حیثیت دنیا چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں ایران کے تعاون اور پر امن سرحد کی خصوصی ضرورت ہے۔ایران بھی سیستان بلوچستان کی ترقی چاہتا ہے اور پاکستان، اپنے بلوچستان کی۔ یہ نکتہ دونوں ملکوں کے لیے نہ صرف یہ کہ بقائے باہمی کے سفارتی اصول پر پورا اترتا ہے بلکہ دونوں ممالک کی دور رس اقتصادی ترقی اور عظیم خوشحالی کا باعث بھی ہو گا۔
گوادر اور اس سے ملحقہ علاقے کو توانائی کے حصول (پٹرول، گیس اور بجلی) ایران سے لینا آسان تر اور سستا ترین ہے جب کہ پاکستان کے دوسرے حصوں سے یہ توانائی وہاں لے جانا یا نئے ذرایع تیار کرنا مہنگا ترین اور مشکل تر کام ہے۔بلوچستان حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کا بہت اچھا رابطہ ہے، یہ رہنا چاہیے اور اس میں مزید اضافہ ہونا چاہیے کیونکہ جس ملک میں سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے اور بہتر منافع مل رہا ہوتا ہے تو وہ وہاں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے سرمایہ کار بھی اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔
گوادر پاکستان کا فوکل پوائنٹ بنے گا جس سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کو فائدہ ہوگا۔ موجودہ حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات میں ماضی میں اضافہ نہیں ہوا اور برآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی، جب برآمدات نہیں بڑھیں گی تو روپے پر دباؤ بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کی صورت میں مسائل پیدا ہوں گے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کو خصوصی اقتصادی زونز اور نارتھ فری زون جیسے مقامات پر سرمایہ کاری کے لیے راغب کریں تاکہ ملک کی آمدنی بڑھے اور میکرو اقتصادی عدم توازن ختم ہو۔ایران کی بہت سی مصنوعات لاگت میں پاکستانی مصنوعات سے سستی ہوتی ہیں۔پاک ایران تجارت سے پاکستانی عوام کو ہرپہلو سے فائدے ہی فائدے ہیں۔ایران سے سستا تیل اور سستی گیس پاکستان میں مہنگائی کی کمی کا باعث بنے گی۔