مسلم لیگ ن پر اپنوں کا حملہ
شاید بڑے نام عام انتخابات کے نتائج سے ڈرے ہوئے تھے
مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا میدان مار لیا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کے لیے کوئی انتخابی مہم نہیں چلائی، کوئی جلسہ نہیں کیا۔ اس بار زیادہ تر ٹکٹیں بھی کارکنان کو دی گئیں۔ بڑے بڑ ے نام جو عام انتخابات میں ہار گئے تھے، ان کو ٹکٹ نہیں جاری کیے گئے۔
ورنہ مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ روایت رہی ہے کہ جو بڑے رہنما عام انتخابات میں ہار جاتے تھے، انھیں ضمنی انتخابات میں محفوظ سیٹیوں سے منتخب کرالیا جاتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ جہاں تک مجھے سمجھ ہے، شاید بڑے نام عام انتخابات کے نتائج سے ڈرے ہوئے تھے۔ انھوں نے ٹکٹ ہی نہیں مانگے۔ انھیں ڈر تھا کہ وہ دوبارہ ہار جائیں گے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) کے زیادہ تر غیر معروف امیدواروں نے تحریک انصاف کے بڑے بڑے ناموں کو شکست دی ہے۔ بالخصوص لاہور کی زیادہ تر نشستوں پر تو ایسا ہی ہوا ہے۔ مونس الہی کی سیٹ پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بہر حال تما م نشستیں جیتنے سے مسلم لیگ (ن) میں دوبارہ جوش اور جذبہ آگیا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج میں اب تو فارم 45اور فارم 47کا بھی کوئی جھگڑا نہیں۔ ہارنے والوں کے پاس اب اپنے ہارنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ویسے آپ کہتے رہیں کہ دھاندلی ہوئی تو اس کا تو کوئی علاج نہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی جیت غیر متنازعہ جیت ہے۔
ان ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے اندر تنازعات اس قدر زیادہ تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ پارٹی کے اندر شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ ایک طرف ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، دوسری طرف رانا ثناء اللہ ، جاوید لطیف اور عابد رضا کوٹلہ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی ہی جماعت کے خلاف مہم جوئی شروع کر دیتے تھے۔ ٹی وی پر ن لیگ کے اپنے ہی رہنما، ن لیگ پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ ایک ایسا ماحول تھا کہ ن لیگ کے خلاف ن لیگ ہی مہم چلا رہی تھی۔
سب سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہو تے ہیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں بھی بہت اختلافات ہیں۔ہم ان اختلافات کی بہت بازگشت سنتے بھی ہیں۔ بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کے اختلافات ہیں۔ اسد قیصر اور گنڈا پور کے اختلافات ہیں۔ لیکن یہ سب اندر کی باتیں ہیں، یہ ٹی وی پر آکر اپنی جماعت کی ہی ایسی تیسی نہیں پھیرتے۔ سب سیاسی جماعتوں میں جہاں بات کرنے کی ایک اجازت ہوتی ہے، وہاں پارٹی ڈسپلن بھی ہوتا ہے۔
اگر آپ نے اپنی ہی جماعت کے خلاف میڈیا پر بات کرنی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پھر آپ جماعت چھوڑ دیں۔ لیکن ن لیگ میں ایسا نہیں ہے۔ آپ روزانہ اپنی جماعت کی ایسی تیسی کریں۔ لیکن پھر بھی آپ جماعت کے عہدیدار بھی رہ سکتے ہیں اور جماعت کی سنئیر قیادت میں بھی شمار ہوںگے۔
رانا ثناء اللہ پنجاب کے صدر ہیں۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، وہ ٹاک شوز میں اپنی ہی جماعت پر تنقید کر رہے تھے، مرکزی حکومت پر حملہ آور تھے۔ جاوید لطیف نے تو ریڈ لائن ہی کراس کر دی۔ انھوں نے تو اپنی جماعت کی جیت کو متنازعہ بنا دیا۔ اپنی ایک سیٹ کے غصہ میں انھوں نے پورے عام انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنا دیا۔
انھوں نے میاں نواز شریف کی بھی جیت کو متنازعہ بنا دیا۔انھوں نے تو اپنی جماعت پر ایسا حملہ کیاکہ تحریک انصاف کو نہ صرف مکمل بیانیہ دے دیا بلکہ ان کے بیانیہ کو دلیل اور طاقت بھی دے دی۔ آپ کسی ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ جائیں جب تحریک انصاف کے لوگوں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں کہ آپ جاوید لطیف کی بات سن لیں۔ دیکھیں وہ بھی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ دیکھیں انھوں نے بھی نواز شریف کی جیت کو متنازعہ کیا ہے۔
رانا ثناء اللہ نے جاوید لطیف کے بارے میں کہا ہے کہ انھیں اپنی ہار اور رانا تنویر کی جیت ہضم نہیں ہو رہی۔ مسلم لیگ (ن) میں مقامی سطح پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ خود رانا ثناء اللہ کے بھی عابد شیر سے فیصل آباد میں اختلافات ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھا، اپنی جیت سے زیادہ دوسرے کی ہار کی زیادہ فکر تھی۔
گجرات کے مسلم لیگ (ن) کے صدر عابد رضا کوٹلہ نے نہ صرف عام انتخابات کے انتخابی نتائج کو متنازعہ کر دیا ۔ انھوں نے کہا ہم سب ہارے ہوئے تھے، ہمیں جتوا یا گیا۔ ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کو عابد رضا کوٹلہ نے بھی بہت ایندھن فراہم کیا۔ اپنی ہار کے غم میں انھوں نے پوری جماعت کو ہی رگڑ دیا۔
انھوں نے بھی تحریک انصاف کے بیانیہ کو طاقت بخشنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کا مسئلہ بھی گجرات کا تھا۔ ان سے تحریک انصاف کا امیدوار جیتا تھا۔ لیکن اس نے جیتنے کے بعد تحریک انصا ف چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) جوائن کر لی، یوں وہ حکمران اتحاد کا حصہ بن گیا ہے۔
یہ عابد رضاکوٹلہ کے لیے بڑا مسئلہ بن گیا کیونکہ ان کا سیاسی مدمقابل اپوزیشن سے نکل کر حکمران اتحاد کا حصہ بن گیا ہے۔ انھیں محسوس ہورہا ہے کہ اگر آیندہ الیکشن میں ان کا مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے تو وہ کہاں کھڑے ہوںگے؟ پھر گجرات میں عابد رضا کوٹلہ اور چوہدری وجاہت کی مخالفت بھی کوئی نئی نہیں ہے۔
ضمنی الیکشن میں عابد رضا کوٹلہ کے لیے چوہدری وجاہت حسین کے بیٹے کی حمایت مشکل تھی۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ہی جماعت پر حملہ کر دیا۔ وہ بھی تحریک انصاف کے چند دنوں میں ڈارلنگ بن گئے ہیں۔ لیکن کیا آگے ن لیگ میں ان کی جگہ محدود ہو گئی ہے، یہ ایک سوال ہے۔
یہ ساری صورتحا ل لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ منظر نامہ یہ بھی ہے کہ ن لیگ نے ہی ن لیگ پر حملہ کر دیا ہے۔ ن لیگ کو شاید اس وقت تحریک انصاف سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن ن لیگ کو اپنے ہی لوگوں سے زیادہ خطرہ ہے اور وہ اپنے ہی لوگوں کے حملہ سے ن زیادہ زخمی نظرآ رہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے دو سال تک شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل بھی یہی کام کرتے رہے ہیں۔ اب رانا ثنا اء اللہ جاوید لطیف اور عابد رضا کوٹلہ کر رہے ہیں، ن اس کی عادی ہے۔
ورنہ مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ روایت رہی ہے کہ جو بڑے رہنما عام انتخابات میں ہار جاتے تھے، انھیں ضمنی انتخابات میں محفوظ سیٹیوں سے منتخب کرالیا جاتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ جہاں تک مجھے سمجھ ہے، شاید بڑے نام عام انتخابات کے نتائج سے ڈرے ہوئے تھے۔ انھوں نے ٹکٹ ہی نہیں مانگے۔ انھیں ڈر تھا کہ وہ دوبارہ ہار جائیں گے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) کے زیادہ تر غیر معروف امیدواروں نے تحریک انصاف کے بڑے بڑے ناموں کو شکست دی ہے۔ بالخصوص لاہور کی زیادہ تر نشستوں پر تو ایسا ہی ہوا ہے۔ مونس الہی کی سیٹ پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بہر حال تما م نشستیں جیتنے سے مسلم لیگ (ن) میں دوبارہ جوش اور جذبہ آگیا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج میں اب تو فارم 45اور فارم 47کا بھی کوئی جھگڑا نہیں۔ ہارنے والوں کے پاس اب اپنے ہارنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ویسے آپ کہتے رہیں کہ دھاندلی ہوئی تو اس کا تو کوئی علاج نہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی جیت غیر متنازعہ جیت ہے۔
ان ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے اندر تنازعات اس قدر زیادہ تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ پارٹی کے اندر شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ ایک طرف ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، دوسری طرف رانا ثناء اللہ ، جاوید لطیف اور عابد رضا کوٹلہ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی ہی جماعت کے خلاف مہم جوئی شروع کر دیتے تھے۔ ٹی وی پر ن لیگ کے اپنے ہی رہنما، ن لیگ پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ ایک ایسا ماحول تھا کہ ن لیگ کے خلاف ن لیگ ہی مہم چلا رہی تھی۔
سب سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہو تے ہیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں بھی بہت اختلافات ہیں۔ہم ان اختلافات کی بہت بازگشت سنتے بھی ہیں۔ بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کے اختلافات ہیں۔ اسد قیصر اور گنڈا پور کے اختلافات ہیں۔ لیکن یہ سب اندر کی باتیں ہیں، یہ ٹی وی پر آکر اپنی جماعت کی ہی ایسی تیسی نہیں پھیرتے۔ سب سیاسی جماعتوں میں جہاں بات کرنے کی ایک اجازت ہوتی ہے، وہاں پارٹی ڈسپلن بھی ہوتا ہے۔
اگر آپ نے اپنی ہی جماعت کے خلاف میڈیا پر بات کرنی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پھر آپ جماعت چھوڑ دیں۔ لیکن ن لیگ میں ایسا نہیں ہے۔ آپ روزانہ اپنی جماعت کی ایسی تیسی کریں۔ لیکن پھر بھی آپ جماعت کے عہدیدار بھی رہ سکتے ہیں اور جماعت کی سنئیر قیادت میں بھی شمار ہوںگے۔
رانا ثناء اللہ پنجاب کے صدر ہیں۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، وہ ٹاک شوز میں اپنی ہی جماعت پر تنقید کر رہے تھے، مرکزی حکومت پر حملہ آور تھے۔ جاوید لطیف نے تو ریڈ لائن ہی کراس کر دی۔ انھوں نے تو اپنی جماعت کی جیت کو متنازعہ بنا دیا۔ اپنی ایک سیٹ کے غصہ میں انھوں نے پورے عام انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنا دیا۔
انھوں نے میاں نواز شریف کی بھی جیت کو متنازعہ بنا دیا۔انھوں نے تو اپنی جماعت پر ایسا حملہ کیاکہ تحریک انصاف کو نہ صرف مکمل بیانیہ دے دیا بلکہ ان کے بیانیہ کو دلیل اور طاقت بھی دے دی۔ آپ کسی ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ جائیں جب تحریک انصاف کے لوگوں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں کہ آپ جاوید لطیف کی بات سن لیں۔ دیکھیں وہ بھی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ دیکھیں انھوں نے بھی نواز شریف کی جیت کو متنازعہ کیا ہے۔
رانا ثناء اللہ نے جاوید لطیف کے بارے میں کہا ہے کہ انھیں اپنی ہار اور رانا تنویر کی جیت ہضم نہیں ہو رہی۔ مسلم لیگ (ن) میں مقامی سطح پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ خود رانا ثناء اللہ کے بھی عابد شیر سے فیصل آباد میں اختلافات ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھا، اپنی جیت سے زیادہ دوسرے کی ہار کی زیادہ فکر تھی۔
گجرات کے مسلم لیگ (ن) کے صدر عابد رضا کوٹلہ نے نہ صرف عام انتخابات کے انتخابی نتائج کو متنازعہ کر دیا ۔ انھوں نے کہا ہم سب ہارے ہوئے تھے، ہمیں جتوا یا گیا۔ ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کو عابد رضا کوٹلہ نے بھی بہت ایندھن فراہم کیا۔ اپنی ہار کے غم میں انھوں نے پوری جماعت کو ہی رگڑ دیا۔
انھوں نے بھی تحریک انصاف کے بیانیہ کو طاقت بخشنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کا مسئلہ بھی گجرات کا تھا۔ ان سے تحریک انصاف کا امیدوار جیتا تھا۔ لیکن اس نے جیتنے کے بعد تحریک انصا ف چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) جوائن کر لی، یوں وہ حکمران اتحاد کا حصہ بن گیا ہے۔
یہ عابد رضاکوٹلہ کے لیے بڑا مسئلہ بن گیا کیونکہ ان کا سیاسی مدمقابل اپوزیشن سے نکل کر حکمران اتحاد کا حصہ بن گیا ہے۔ انھیں محسوس ہورہا ہے کہ اگر آیندہ الیکشن میں ان کا مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے تو وہ کہاں کھڑے ہوںگے؟ پھر گجرات میں عابد رضا کوٹلہ اور چوہدری وجاہت کی مخالفت بھی کوئی نئی نہیں ہے۔
ضمنی الیکشن میں عابد رضا کوٹلہ کے لیے چوہدری وجاہت حسین کے بیٹے کی حمایت مشکل تھی۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ہی جماعت پر حملہ کر دیا۔ وہ بھی تحریک انصاف کے چند دنوں میں ڈارلنگ بن گئے ہیں۔ لیکن کیا آگے ن لیگ میں ان کی جگہ محدود ہو گئی ہے، یہ ایک سوال ہے۔
یہ ساری صورتحا ل لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ منظر نامہ یہ بھی ہے کہ ن لیگ نے ہی ن لیگ پر حملہ کر دیا ہے۔ ن لیگ کو شاید اس وقت تحریک انصاف سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن ن لیگ کو اپنے ہی لوگوں سے زیادہ خطرہ ہے اور وہ اپنے ہی لوگوں کے حملہ سے ن زیادہ زخمی نظرآ رہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے دو سال تک شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل بھی یہی کام کرتے رہے ہیں۔ اب رانا ثنا اء اللہ جاوید لطیف اور عابد رضا کوٹلہ کر رہے ہیں، ن اس کی عادی ہے۔