جماعت اسلامی کے امیر نئے باتیں پرانی
حافظ نعیم الرحمن نے مشورہ دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں باہم مذاکرات کر کے ملک کو بحران سے نکالیں
حافظ نعیم الرحمن نے مشورہ دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں باہم مذاکرات کر کے ملک کو بحران سے نکالیں۔ یہ ایک صائب مشورہ ہے اور جماعت اسلامی جیسی ذمے دار جماعت کے شایان شان ہے۔
جماعت اسلامی معروف معنوں میں سیاسی جماعت نہیں ہے، وہ ایک اسلامی تحریک ہے جس کے دستور کے مطابق اس کے قیام کا مقصد دیگر سیاسی جماعتوں سے بہت مختلف ہے۔ ١٩٧٠ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کا نعرہ تھا:
'ملک خدا کا
قانون شریعت کا۔۔۔۔ اور
حکومت اللہ کے نیک بندوں کی۔'
جماعت اسلامی کے نزدیک اللہ کے نیک بندے کون تھے؟ جماعت کو سمجھنے کے لیے اس سوال کا جواب ضروری ہے۔ جماعت اسلامی نے سیاسی عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو اس کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے طرح امیدوار عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے بلکہ یہ تھا کہ ہم فرد اور معاشرے کی تربیت کر کے ان کا معیار اتنا بلند کر دیں گے کہ اس کے نتیجے میں اللہ کا ملک خود بہ خود اللہ کے نیک بندوں کی تحویل میں چلا جائے گا جو کار سرکار کو قرآن و سنت کی روشنی میں چلا ئیں گے۔
١٩٥٧ء میں بہاول پور کے قریب ماچھی گوٹھ کے مقام پر جماعت کے تاریخی اجتماع میں جماعت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے مثالیت پسندی کو خیر باد کہہ کر براہ راست انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا توبھی جماعت کا کوئی رکن امیدوار بن سکتا تھا اور نہ ووٹ لینے کے لیے خود امیدوار کے پاس جاتا تھا۔ جماعت جسے امیدوار بناتی تھی، اُس کے لیے انتخابی مہم بھی خود چلاتی تھی۔
اس واقعے کے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو جماعت نے١٩ امیدوار کھڑے کیے۔ ان میں سے١٧ جیت گئے۔ اس الیکشن میں یہ پہلی بار ہوا کہ عوام نے محض نیک نامی کی وجہ سے ایسے امیدواروں کو ووٹ دیے جنھیں وہ جانتے بھی نہیں تھے۔ یہ بھی ایک طرح کی مثالیت پسندی ہی تھی۔ وہ زمانہ گزر چکالیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کے امیدوار آج بھی عام سیاسی کارکنوں کی طرح ووٹ نہیں مانگتے۔ اسامہ رضی حال ہی میں جماعت کے مرکزی نائب امیر مقرر ہوئے ہیں۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلوں سے اختلاف ممکن ہے لیکن ماضی میں جمیعت اور اب جماعت کے لیے انھوں نے ہمیشہ بے غرضی اور ایثار کا مظاہرہ کیا ہے۔
انھوں نے اپنی شخصیت کو کبھی نمایاں کیا اور نہ کبھی ستائش اور صلے کی تمنا کی۔ ان کا ایک وڈیواِن دنوں وائرل ہے جس میں انھیں اپنے انتخابی حلقے میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انتخابی سرگرمی کتنی شائستہ اور دھیمی ہونی چاہیے، اسامہ رضی کی گفتگو اس کی موزوں مثال ہے۔ انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ زمانۂ طالب علمی سے اسلامی تحریک سے وابستہ ہیں اور اس بار جماعت اسلامی نے انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنی گفتگو ختم کر دی۔
جماعت اسلامی کا یہی طرز عمل تھا جس سے عوام میں اس کی قدر و قیمت پیدا ہوئی۔ یہ جو کبھی ہر انتخابی حلقے میں جماعت کے پندرہ بیس ہزار ووٹ ہواکرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہی تھی۔ دوسری وجہ ملک میں اسلامی دستور کی جدوجہد میں دی جانے والی قربانیاں تھیں جن میں مولانامودودی نے موت کی سزا کا سامنا تک کیا۔ اس کی تیسری وجہ جمہوریت کے لیے بانی جماعت اسلامی کی کمٹمنٹ تھی جنھوں نے اس مقصد کے لیے ہمیشہ نظریاتی تقسیم سے بالاتر ہو کراتحاد کیے۔
یہ صورتحال ١٩٧٧ء تک برقرار رہی لیکن١٩٨٥ء کے بعد جماعت کا ووٹ بینک بہ تدریج سکڑتا چلا گیا۔ایسا کیوں ہوا؟ یہ سمجھنے کے لیے تاریخ کا حوالہ دے کر تلخی پیدا کرنا مقصود نہیں، حافظ نعیم الرحمن کا تازہ بیان کافی ہے۔ حافظ صاحب کی طرف سے مذاکرات کی تجویز کا سامنے آنا تو واقعی جماعت کے کلاسیکی مزاج سے لگا کھاتا ہے لیکن اسی بیان میں جب وہ کہتے ہیں کہ چلتی ہوئی حکومت کو گھر بھیجنے والے عوام سے معافی مانگیں تو عوام اس مؤقف کو جماعت کے کلاسیکی کردار سے مختلف پاتے ہیں۔
٢٠١٨ء میں پی ٹی آئی کی حکومت غیر قانونی طریقوں اور غیر جمہوری انداز میں بنائی گئی تھی ۔یہ حکومت بنانے کے لیے نواز شریف کو انصاف کا خون کرکے حکومت سے محروم کیا گیا یعنی چلتی ہوئی حکومت کو رخصت کر دیا گیا جس پر جماعت اسلامی نے کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ پاناما کیس کے تعلق سے سراج الحق صاحب کا کردار تو تاریخ کا مستقل حوالہ بن چکا ہے کیوں کہ یہ واقعہ ان بنیادی واقعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے جمہوری عمل غیر مستحکم ہوا۔
پھر پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے قیام کے بعد اقتصادی استحکام کے لیے صرف قائد حزب اختلاف کی طرف سے تعاون کی پیش کش مسترد نہیں کی بلکہ انتقام کی آگ جلا کر ملک کو اس میں بھسم کر دیا ۔کسی حکمت عملی سے محروم اِس حکومت نے ملک میں سنگین سیاسی سماجی اور اقتصادی بحران پیدا کیا۔ پاکستان کو نہ صرف اس کے بیرونی دوستوں سے محروم کیا بلکہ قریب ترین مسلمان برادر ملکوں سے بھی اختلافات گہرے کیے۔
چین کو ناراض کیا، اس پر الزامات لگائے اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کو لپیٹ کر رکھ دیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی منصوبہ بندی کی اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ساز باز کر کے بھارت کو ٥اگست٢٠١٩ء کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی پوزیشن تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ملک میں اخلاق باختگی کی مہم کی سرپرستی کی۔ میرا جسم میری مرضی جیسے مظاہرے اِسی حکومت کی آشیر باد سے ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی آج بھی ریاست کی بنیادوں پر کلہاڑا چلا رہے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن کی تجویز صریحا ًیہی پیغام دے رہی ہے کہ مفاہمت کی بات کرنے کے باوجود وہ پی ٹی آئی کے ہمدرد ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ کسی اصول کی بنیاد پر پی ٹی آئی اور اس کے قائد کی حمایت میں زبان کھولتے تو اسی اصول کی بنیادپر وہ نواز شریف کے ساتھ ہونے والے ظلم کی مذمت بھی کرتے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اگر وہ ایسا کرتے توان کی شخصیت ایک انصاف پسند صلح جو کی حیثیت سے نمایاں ہوتی لیکن انھوں نے پی ٹی آئی کے دھڑے میں کھڑا ہو کر مفاہمت کی بات کی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی تجویز کم ہی توجہ حاصل کر پاتی ہے۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ امیر کی حیثیت سے حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب جماعت میں ایک نئی ابتدا محسوس ہوتاہے۔ سرد جنگ کی لائی ہوئی تباہی سے جماعت کو جو نقصان پہنچا تھا، اس انتخاب کے بعد اس کی اصلاح کی امید توانا ہوئی ہے۔ ایسا ہو جاتا ہے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی اپنا اعتماد اور ساکھ بحال کرنے میں کام یاب ہو جائے گی لیکن عوام کی نظر میں جماعت کی سیاسی روش اگر پی ٹی آئی کے پرجوش ہمدرد ہی کی رہنی ہے تو اس سے نہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا اور نہ کشیدگی میں کمی ہوگی۔
عجب اتفاق ہے ٢٠٢٣ء کا اپریل ہی تھا جب سراج الحق صاحب حکمراں پی ڈی ایم اور تحریک عدم اعتماد سے اقتدار کھونے والی پی ٹی آئی میں مصالحت کے لئے متحرک ہوئے تھے لیکن پی ٹی آئی کے روّیے نے ان کے ساتھ وہی کچھ کیا جو مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتوں کے بعداب پی ٹی آئی اور اس کے لیڈروں نے اُن کے ساتھ کیا۔ اب٢٠٢٤ئ کا اپریل ہے اور حافظ نعیم الرحمن ایک بار پھر یہی علم لے کر پھر میدان میں ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ جماعت اسلامی مسلم لیگ ن کی اتحادی بن جائے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ جومؤقف بھی اختیار کرے ،وہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو جس سے ملک میں جمہوریت اور آئین کی حکمرانی یقینی بنے اور اقتصادی بحالی کی کوششیں سبوتاژ نہ ہوں اور یہ تاثر تو کبھی نہ بنے کہ جماعت اسلامی اُس بے وفا کے لیے ہلکان ہوئی جاتی ہے جو نہیں جانتا وفا کیا ہے۔
جماعت اسلامی معروف معنوں میں سیاسی جماعت نہیں ہے، وہ ایک اسلامی تحریک ہے جس کے دستور کے مطابق اس کے قیام کا مقصد دیگر سیاسی جماعتوں سے بہت مختلف ہے۔ ١٩٧٠ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کا نعرہ تھا:
'ملک خدا کا
قانون شریعت کا۔۔۔۔ اور
حکومت اللہ کے نیک بندوں کی۔'
جماعت اسلامی کے نزدیک اللہ کے نیک بندے کون تھے؟ جماعت کو سمجھنے کے لیے اس سوال کا جواب ضروری ہے۔ جماعت اسلامی نے سیاسی عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو اس کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے طرح امیدوار عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے بلکہ یہ تھا کہ ہم فرد اور معاشرے کی تربیت کر کے ان کا معیار اتنا بلند کر دیں گے کہ اس کے نتیجے میں اللہ کا ملک خود بہ خود اللہ کے نیک بندوں کی تحویل میں چلا جائے گا جو کار سرکار کو قرآن و سنت کی روشنی میں چلا ئیں گے۔
١٩٥٧ء میں بہاول پور کے قریب ماچھی گوٹھ کے مقام پر جماعت کے تاریخی اجتماع میں جماعت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے مثالیت پسندی کو خیر باد کہہ کر براہ راست انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا توبھی جماعت کا کوئی رکن امیدوار بن سکتا تھا اور نہ ووٹ لینے کے لیے خود امیدوار کے پاس جاتا تھا۔ جماعت جسے امیدوار بناتی تھی، اُس کے لیے انتخابی مہم بھی خود چلاتی تھی۔
اس واقعے کے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو جماعت نے١٩ امیدوار کھڑے کیے۔ ان میں سے١٧ جیت گئے۔ اس الیکشن میں یہ پہلی بار ہوا کہ عوام نے محض نیک نامی کی وجہ سے ایسے امیدواروں کو ووٹ دیے جنھیں وہ جانتے بھی نہیں تھے۔ یہ بھی ایک طرح کی مثالیت پسندی ہی تھی۔ وہ زمانہ گزر چکالیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کے امیدوار آج بھی عام سیاسی کارکنوں کی طرح ووٹ نہیں مانگتے۔ اسامہ رضی حال ہی میں جماعت کے مرکزی نائب امیر مقرر ہوئے ہیں۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلوں سے اختلاف ممکن ہے لیکن ماضی میں جمیعت اور اب جماعت کے لیے انھوں نے ہمیشہ بے غرضی اور ایثار کا مظاہرہ کیا ہے۔
انھوں نے اپنی شخصیت کو کبھی نمایاں کیا اور نہ کبھی ستائش اور صلے کی تمنا کی۔ ان کا ایک وڈیواِن دنوں وائرل ہے جس میں انھیں اپنے انتخابی حلقے میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انتخابی سرگرمی کتنی شائستہ اور دھیمی ہونی چاہیے، اسامہ رضی کی گفتگو اس کی موزوں مثال ہے۔ انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ زمانۂ طالب علمی سے اسلامی تحریک سے وابستہ ہیں اور اس بار جماعت اسلامی نے انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنی گفتگو ختم کر دی۔
جماعت اسلامی کا یہی طرز عمل تھا جس سے عوام میں اس کی قدر و قیمت پیدا ہوئی۔ یہ جو کبھی ہر انتخابی حلقے میں جماعت کے پندرہ بیس ہزار ووٹ ہواکرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہی تھی۔ دوسری وجہ ملک میں اسلامی دستور کی جدوجہد میں دی جانے والی قربانیاں تھیں جن میں مولانامودودی نے موت کی سزا کا سامنا تک کیا۔ اس کی تیسری وجہ جمہوریت کے لیے بانی جماعت اسلامی کی کمٹمنٹ تھی جنھوں نے اس مقصد کے لیے ہمیشہ نظریاتی تقسیم سے بالاتر ہو کراتحاد کیے۔
یہ صورتحال ١٩٧٧ء تک برقرار رہی لیکن١٩٨٥ء کے بعد جماعت کا ووٹ بینک بہ تدریج سکڑتا چلا گیا۔ایسا کیوں ہوا؟ یہ سمجھنے کے لیے تاریخ کا حوالہ دے کر تلخی پیدا کرنا مقصود نہیں، حافظ نعیم الرحمن کا تازہ بیان کافی ہے۔ حافظ صاحب کی طرف سے مذاکرات کی تجویز کا سامنے آنا تو واقعی جماعت کے کلاسیکی مزاج سے لگا کھاتا ہے لیکن اسی بیان میں جب وہ کہتے ہیں کہ چلتی ہوئی حکومت کو گھر بھیجنے والے عوام سے معافی مانگیں تو عوام اس مؤقف کو جماعت کے کلاسیکی کردار سے مختلف پاتے ہیں۔
٢٠١٨ء میں پی ٹی آئی کی حکومت غیر قانونی طریقوں اور غیر جمہوری انداز میں بنائی گئی تھی ۔یہ حکومت بنانے کے لیے نواز شریف کو انصاف کا خون کرکے حکومت سے محروم کیا گیا یعنی چلتی ہوئی حکومت کو رخصت کر دیا گیا جس پر جماعت اسلامی نے کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ پاناما کیس کے تعلق سے سراج الحق صاحب کا کردار تو تاریخ کا مستقل حوالہ بن چکا ہے کیوں کہ یہ واقعہ ان بنیادی واقعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے جمہوری عمل غیر مستحکم ہوا۔
پھر پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے قیام کے بعد اقتصادی استحکام کے لیے صرف قائد حزب اختلاف کی طرف سے تعاون کی پیش کش مسترد نہیں کی بلکہ انتقام کی آگ جلا کر ملک کو اس میں بھسم کر دیا ۔کسی حکمت عملی سے محروم اِس حکومت نے ملک میں سنگین سیاسی سماجی اور اقتصادی بحران پیدا کیا۔ پاکستان کو نہ صرف اس کے بیرونی دوستوں سے محروم کیا بلکہ قریب ترین مسلمان برادر ملکوں سے بھی اختلافات گہرے کیے۔
چین کو ناراض کیا، اس پر الزامات لگائے اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کو لپیٹ کر رکھ دیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی منصوبہ بندی کی اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ساز باز کر کے بھارت کو ٥اگست٢٠١٩ء کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی پوزیشن تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ملک میں اخلاق باختگی کی مہم کی سرپرستی کی۔ میرا جسم میری مرضی جیسے مظاہرے اِسی حکومت کی آشیر باد سے ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی آج بھی ریاست کی بنیادوں پر کلہاڑا چلا رہے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن کی تجویز صریحا ًیہی پیغام دے رہی ہے کہ مفاہمت کی بات کرنے کے باوجود وہ پی ٹی آئی کے ہمدرد ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ کسی اصول کی بنیاد پر پی ٹی آئی اور اس کے قائد کی حمایت میں زبان کھولتے تو اسی اصول کی بنیادپر وہ نواز شریف کے ساتھ ہونے والے ظلم کی مذمت بھی کرتے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اگر وہ ایسا کرتے توان کی شخصیت ایک انصاف پسند صلح جو کی حیثیت سے نمایاں ہوتی لیکن انھوں نے پی ٹی آئی کے دھڑے میں کھڑا ہو کر مفاہمت کی بات کی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی تجویز کم ہی توجہ حاصل کر پاتی ہے۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ امیر کی حیثیت سے حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب جماعت میں ایک نئی ابتدا محسوس ہوتاہے۔ سرد جنگ کی لائی ہوئی تباہی سے جماعت کو جو نقصان پہنچا تھا، اس انتخاب کے بعد اس کی اصلاح کی امید توانا ہوئی ہے۔ ایسا ہو جاتا ہے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی اپنا اعتماد اور ساکھ بحال کرنے میں کام یاب ہو جائے گی لیکن عوام کی نظر میں جماعت کی سیاسی روش اگر پی ٹی آئی کے پرجوش ہمدرد ہی کی رہنی ہے تو اس سے نہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا اور نہ کشیدگی میں کمی ہوگی۔
عجب اتفاق ہے ٢٠٢٣ء کا اپریل ہی تھا جب سراج الحق صاحب حکمراں پی ڈی ایم اور تحریک عدم اعتماد سے اقتدار کھونے والی پی ٹی آئی میں مصالحت کے لئے متحرک ہوئے تھے لیکن پی ٹی آئی کے روّیے نے ان کے ساتھ وہی کچھ کیا جو مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتوں کے بعداب پی ٹی آئی اور اس کے لیڈروں نے اُن کے ساتھ کیا۔ اب٢٠٢٤ئ کا اپریل ہے اور حافظ نعیم الرحمن ایک بار پھر یہی علم لے کر پھر میدان میں ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ جماعت اسلامی مسلم لیگ ن کی اتحادی بن جائے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ جومؤقف بھی اختیار کرے ،وہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو جس سے ملک میں جمہوریت اور آئین کی حکمرانی یقینی بنے اور اقتصادی بحالی کی کوششیں سبوتاژ نہ ہوں اور یہ تاثر تو کبھی نہ بنے کہ جماعت اسلامی اُس بے وفا کے لیے ہلکان ہوئی جاتی ہے جو نہیں جانتا وفا کیا ہے۔