ابراہام لنکن کے امریکا کی موت

عظیم امریکی مدبر نے اپنی مملکت کے مستقبل کی خاطر جو حسین خواب دیکھا تھا، اُسے لالچ وہوس کا طوفان بہا لے گیا

عظیم امریکی مدبر نے اپنی مملکت کے مستقبل کی خاطر جو حسین خواب دیکھا تھا، اُسے لالچ وہوس کا طوفان بہا لے گیا ۔ فوٹو : فائل

4جولائی 1776ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد رکھتے ہوئے نوزائیدہ مملکت کے بانیوں نے عہد کیا تھا کہ وہ دنیا میں سچائی، نیکی،عدل وانصاف، انسانی حقوق اور جمہوریت کا بول بالا کریں گے۔

امریکا کے بانیوں (فاؤنڈگ فادرز)میں شامل بعض راہنماؤں مثلاً بنجمن فرینکلن، جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن ، تھامس پائین، جان آدمز اور ابراہام لنکن نے اپنے قول و عمل سے یہ عہد پورا کرنے کی بھرپور کوششیں بھی کیں۔ان راہنماؤں میں ابراہام لنکن اس لیے ممتاز ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی انسان کو غلام نہیں بنایا اور اقتدار سنبھال کر اپنی مملکت سے غلامی کی لعنت کا خاتمہ کر دیا۔

بالکل الٹ کام

مزید براں ابراہام لنکن زندگی بھر انسانوں کو خیر و عدل وانصاف اپنانے کی تلقین کرتے رہے۔ان کا قول ہے:''اس انسان کے ساتھ کھڑے ہو جو حق پر ہو۔لیکن اگر وہ راہ ِ حق سے ہٹ جائے تو اس کا ساتھ چھوڑ دو۔''لنکن اپنے دیس کو انسانیت کے لیے'' اُمید کی نشانی''، ایک''نشان ِ راہ ''بنانا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو دائمی اخلاقی و قانونی اصول ہیں، ان کو کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔یہ نہایت افسوس و صدمے کی بات ہے کہ آج امریکا کا حکمران طبقہ اپنے عظیم حکمران و انسان دوست شخصیت کے اقوال و اعمال کے بالکل الٹ کام کررہا ہے۔

بنیاد ظلم وستم پر

یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد خیر اور عدل وانصاف پہ نہیں رکھی گئی۔جب اطالوی مہم جو، کرسٹوفر کولمبس نے 1492ء نے شمالی امریکا دریافت کیا تو جلد مغربی باشندے اس نودریافت براعظم میں پہنچ کر فارم قائم کرنے لگے۔فیکٹریاں بھی لگائی گئیں۔مغربی باشندوں نے اسلحے کے زور پہ مقامی باشندوں (ریڈ انڈینز)کو مجبور کیا کہ وہ ان کے فارموں اور فیکٹریوں میں کام کریں۔ان کارکنوں پہ ظلم وستم کیا جاتا اور انھیں خوفناک سزائیں دی جاتیں۔

بعد ازاں مغربی باشندے مقامی باشندوں کی زمینیں چھیننے لگے۔اس طرح ظلم وجبر اختیار کر کے انھوں نے امریکا میں اپنی بستیوں کی بنیاد رکھی جو آج بھرے پُرے شہر بن چکے۔امریکا میں مقیم ہونے والے مغربی(برطانوی، فرانسیسی، ہسپانوی، اطالوی وغیرہ) باشندوں اور ان کی اولادوں میں ہمیں ایسے راہنما کم ہی نظر آتے ہیں جنھوں نے اخلاقی اصولوں اور عدل وانصاف پہ عمل کیا اور انسانی حقوق و جمہوریت کا بول بالا کرنے کی کوششیں کیں۔ان میں ابراہم لنکن سب سے نمایاں ہیں۔

یہودی بنیوں کی چاندی

اس دوران یہودی ساہوکار مغربی حکومتوں کو قرضے دے دے کر امیر کبیر بن چکے تھے۔ان قرضوں کے بے پناہ سود نے انھیں دولت مند بنا دیا تھا۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ مغربی ممالک یہودی بنیوں سے رقم لے کر اسلحہ بناتے اور پھر ایک دوسرے سے جنگیں کرتے تھے۔

ان جنگوں نے انھیں یہود کا مقروض بنا دیا۔یہود نے ہاتھ آئی دولت سے برطانیہ، فرانس، جرمنی ،امریکا وغیرہ میں سرمایہ کاری کی ۔اس سرمایہ کاری سے نئی صنعتوں کا ظہور ہوا۔نیز شعبہ بینکاری وجود میں آیا۔چونکہ بیشتر پیسا یہود کا تھا، اس لیے صنعت وتجارت،کاروبار، بینکاری اور میڈیا کے تشکیل پاتے نئے شعبوں میں ان کا اثرورسوخ کافی زیادہ تھا۔

دو عالمی مسائل کا جنم

مغربی ممالک میں مقیم یہودی امرا نے انیسویں صدی کے اواخر سے فلسطین میں زمینیں خریدیں اور وہاں غریب یہود کو بسانے لگے۔اس طرح مستقبل کی یہودی ریاست، اسرائیل کی داغ بیل پڑ گئی۔اس سے قبل ہندوستان میں یہود ونصاری کی تجارتی کمپنی، ایسٹ انڈیا کمپنی ریاست جموں وکشمیر ایک ہندو وارلارڈ(جنگی سردار) کو فروخت کر چکی تھی حالانکہ ریاست میں بیشتر آبادی مسلمان تھی۔یوں مغربی قوتوں نے اپنے اعمال سے عصر حاضر کے دو سب سے بڑے عالمی مسئلوں...مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو جنم ڈالا۔

کشمیری مسلمان پہ ظلم

دوسری جنگ عظیم میں جرمن قوم پرست راہنما، ایڈلف ہٹر نے برطانوی راج کو پارہ پارہ کیا تو انگریز ہندوستان کو چھوڑنے پہ مجبور ہو گئے جس پر انھوں نے عیاری ومکاری سے قبضہ کیا تھا۔جاتے جاتے بھی وہ عدل انصاف کا خون کر گئے۔پہلے تو پنجاب میں مسلم اکثریتی اضلاع پاکستان کے حوالے نہیں کیے۔پھر جموں وکشمیر کے ہندو راجا کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ تن تنہا اپنی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کر لے۔

اس وقت ریاست میں پچھتر فیصدی آبادی مسلمان تھی اور ان کی اکثریت اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتی تھی۔مگر گاندھی ، پنڈت نہرو، ریاستی ہندو راجا اور انگریز وائسرائے سبھی ریاست کو بھارت میں سمونے کی تمنا رکھتے تھے۔انھوں نے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور سہانے باغ دکھا کشمیری مسلم لیڈر، شیخ عبداللہ کو بھی ساتھ ملا لیا۔

جب ریاستی فوج نے مسلمانوں پر ظلم وستم کیے تو انھیں بچانے کے لیے قبائلی ریاست میں داخل ہو گئے۔ان کے حملے کی آڑ لے کر بھارت نے ریاست جموں وکشمیر پہ قبضہ کر لیا۔یوں مسئلہ کشمیر نے جنم لیا۔

فلسطینی مسلم نشانے پر

اُدھر یہودی امرا کے مالی تعاون سے دنیا بھر کے یہود ہجرت کر کے فلسطین آنے لگے۔تب فلسطین کے حاکم ترک عثمانی تھے۔نہ انھیں اور نہ فلسطینی مسلمانوں کو احساس ہو سکا کہ اپنی بستیاں بسا کر دراصل یہودی اپنی ریاست کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ فلسطین پہ قابض ہو گیا۔اب تو یہود بکثرت فلسطین آنے لگے۔لیکن 1948 ء میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین یہود اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تو مغربی طاقتوں نے ایک بار بھر عدل وانصاف کا قتل کر ڈالا۔

فلسطین میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی، مگر علاقے کا بیشتر رقبہ یہودی ریاست ، اسرائیل کو تقویض کر دیا گیا۔اس ناانصافی کو فلسطینی مسلمانوں نے بجا طور پہ قبول نہیں کیا اور احتجاج کرنے لگے۔مسئلہ فلسطین کی بنیاد یہی غیر اخلاقی عمل ہے ۔گویا کشمیری مسلمانوں کی طرح فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوا ۔اور جب وہ احتجاج کرنے لگے تو بھارتی و اسرائیلی مظالم کا نشانہ بن گئے۔جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ، امریکا، فرانس، جرمنی ، روس وغیرہ عالمی طاقتوں نے کبھی یہ ٹھوس کوششیں نہیں کیں کہ بھارت اور اسرائیل کو ظلم کرنے سے روکا جائے اور مسلمانان ِ کشمیر وفلسطین کو انصاف مل جائے۔

آزادی پسند''دہشت گرد'' بن گئے

دورجدید میں جب حساس مسلمانوں نے کشمیر، فلسطین، فلپائن، بوسنیا، تھائی لینڈ ، چیچنیا، داغستان وغیرہ میں ظالموں کے ظلم سہتے مسلم بھائیوں کا ساتھ دینے کی خاطر مسلح تنظیمیں قائم کیں تو عالمی طاقتوں نے انھیں ''دہشت گرد''قرار دے دیا۔انھوں نے تب بھی وہ وجوہ دور کرنے کی کوششیں نہ کیں جن سے بقول ان کے خود ساختہ ''دہشت گردی''نے جنم لیا۔

مسلمان ان تنظیموں کو آزادی اور حریت پسندی کی تحریکیں قرار دیتے ہیں جو بے بس و مجبور مسلمانوں کو غاصبوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے شروع ہوئیں۔بعد ازاں کئی تنظیمیں مسلم حکومتوں ہی سے نبردآزما ہو گئیں اور ان کا اصل مقصد پش پشت چلا گیا۔معلوم نہیں کہ اسے نظریاتی اختلاف قرار دیں یا مغربی طاقتوں کی سازش کہ انھوں نے عیاری سے آزادی کی تحریکوں کا اپنوں ہی کی طرف موڑ کر انھیں دہشت گرد بنا دیا۔

کشمیری مسلمانوں کی حالت زار

ریاست جموں و کشمیر کے جن اضلاع میں مسلمان زیادہ ہیں، وہاں بھارتی سیکورٹی فورسز بھری پڑی ہیں۔وہ کشمیری مسلمانوں کی ہر حرکت پہ کڑی نگاہ رکھتی ہیں۔ جبکہ بھارت نے ریاست میں کڑی سینسرشپ عائد کر رکھی ہے۔اس لیے دنیا والوں کو کم ہی معلوم ہو پاتا ہے کہ کشمیری مسلمان کس قم کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔

اس ناقابل یقین ریاستی ظلم وجبر کے باوجود کشمیری نوجوانوں نے اپنی مسلح تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں۔وہ وقتاً فوقتاً بھارتی سیورٹی فورسز پہ حملے کرتے رہتے ہیں۔آئے دن خبر آتی ہے کہ فلاں مقام پہ مقابلے میں بھارتی فوجی جہنم رسید ہوئے یا کشمیری مجاہدین شہید ہو گئے۔انھوں نے اپنا لہو دے کر آزادی کی شمع روشن رکھی ہے۔

دو ارضی جہنم

فلسطین میں بھی فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ آئے دن فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ اس مقابلے میں عموماً فلسطینی ہی شہید ہوتے ہیں۔ ان کو معمولی بات پہ قید کر لیا جاتا ہے۔دوران اسیری ان پہ خوفناک مظالم توڑے جاتے ہیں۔


غرض سچ یہ ہے کہ جموں وکشمیر اور فلسطین آج وہاں بستے مسلمانوں کے لیے دیوہیکل قید خانوں اور ارضی جہنم میں تبدیل ہو چکے۔بھارتی و اسرائیلی حکومتیں کشمیری و فلسطینی مسلمانوں پہ ہر قسم کے ظلم وستم کرتی ہیں۔ان کے گھر مسمار کیے جاتے ہیں۔روزی روٹی پہ لات ماری جاتی ہے۔خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

بچوں تک کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔انھیں ضروریات زندگی سے محروم رکھا جاتا ہے۔پانی و غذا بھی انھیں آسانی سے نہیں مل پاتی۔ لیکن کسی مسلم ملک میں اتنی صلاحیت وجرات نہیں کہ وہ بھارت اور اسرائیل کو مسلمانوں پہ مظالم ڈھانے سے روک سکے، باز رکھ سکے۔ایران کچھ عملی اقدام کرتا ہے، بقیہ اسلامی ممالک زبانی کلامی تنقید پر ہی اکتفا کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ادا ہو گیا۔

مسلم حکمران بے عمل کیوں؟

اسلامی ممالک کے حکمران طبقوں کی بے عملی ، لاتعلقی اور عدم حساسیت کے ضمن میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔مثال کے طور پہ یہ کہ حکمران طبقے پُرآسائش اور آرام دہ طرز زندگی کے عادی ہو چکے۔یہ طرز زندگی چونکہ ڈالراور پاؤنڈ کی مرہون منت ہے لہذا وہ امریکا وبرطانیہ کی مخالفت کر کے اپنی آسائشوں سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔ایک تاثر یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کے حکمران دراصل عالمی طاقتوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔یہ طاقتیں جو عمل کرنے کو کہتی ہیں، کٹھ پتلیاں اپنے آقاؤں کے اشاروں پہ ناچتی ہیں۔اور جو مسلم حکمران کٹھ پتلی بننے کو تیار نہ ہو، اسے راہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔اور اس کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی صنعت وتجارت اور کاروبار مغربی ملکوں کی مدد سے پھلتی پھولتی ہے۔لہذا مسلم حکمران امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔وہ زبانی کلامی تو مغربی طاقتوں پہ تنقید کرتے ہیں مگر عملی طور پہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاتے جو آقاؤں کے مفادات کو نقصان پہنچا دے۔

اسلامی حکمران اور عام مسلمان

غرض وجوہ جیسی بھی ہوں، سچ یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے بیشتر حکمران ان ملکوں کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتے جن کی حکومتیں مسلمانوں پہ ظلم وستم کر رہی ہیں، جیسے بھارت اور اسرائیل۔روس ، چین ، فلپائن ، تھائی لینڈ ، اریٹیریا ، ایتھوپیا، سری لنکا اور دیگر ممالک پر بھی گاہے بگائے الزام لگتا ہے کہ ان کی حکومتیں مقامی مسلمانوں پہ ظلم کرنے میں ملوث ہیں۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ عام مسلمانوں اور اسلامی حکمرانوں کی فکروعمل میں کافی فرق ہے۔اسلامی بھائی چارے کے نظریے کے تحت عام مسلمان سمجھتے ہیں کہ دنیا کے جس خطے میں بھی مسلمان اغیار کے مظالم کا شکار ہوں تو سبھی مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی ہر ممکن مدد کریں۔اسی نظریے کے باعث القاعدہ جسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔

اسلامی حکمران مگر اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور ان میں باہمی اتحاد ویک جہتی عنقا ہے۔اسی لیے وہ بھارت اور اسرائیل جیسے آمر وظالم ممالک کے خلاف کوئی متفقہ حکمت عملی کبھی نہیں بنا پائے۔اسلامی حکمران طبقوں کی بے عملی اور عدم دلچسپی سے بھی بھارتی اور اسرائیلی حکومتوں کو شہ ملی اور وہ کھلم کھلا کشمیری و فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ڈھانے لگیں۔

مسلم دشمن نریندر مودی

بھارت میں اب تو عالم یہ ہے کہ مسلم دشمن بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی عوامی جلسوں میں مسلمانوں کو ٹارگٹ بنانے لگا ہے۔اس نے کچھ عرصہ قبل راجھستان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا اور انھیں طنز وحقارت کا نشانہ بنایا۔مودی کو اتنی ہمت اسی لیے ملی کہ اب اسلامی ممالک کے حکمران دینی غیرت وحمیت پہ مادہ پرستی کو ترجیع دینے لگے ہیں۔

اسلامی ممالک کے حکمران طبقوں کی بے عملی و بے رغبتی کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ انھوں نے مل بیٹھنے کا خیال ہی ترک کر دیا ہے تاکہ کشمیری و فلسطینی و بھارتی مسلمانوں کو مشکلات ومصائب سے نکالا جا سکے۔ جب بھی کشمیری ، فلسطینی یا کسی دوسرے علاقے میں مقیم مسلمانوں پہ بُرا وقت آئے، تو مسلم حکمران دہائی دینے لگتے ہیں کہ دنیا والو! انھیں ظالموں سے بچاؤ۔وہ عالمی طاقتوں کا در کھٹکاتے ہیں کہ ظالم کا ہاتھ روکا جائے...وہ خود مل بیٹھ کر کسی قسم کی عملی حکمت عملی نہیں اپناتے۔

اس بزدلانہ روش کی وجہ ہی سے مسلمان دو ارب سے زائد ہونے کے باوجود عالمی سطح پر کوئی اثرورسوخ نہیں رکھتے۔ عالمی طاقتیں اور ان کے حواری جو مرضی کریں، مسلم حکمران بے چوں چرا ان کے فیصلوں کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ امت مسلمہ نے اپنی طویل تاریخ میں شاید ہی اتنے زیادہ بزدل، بے عمل اور دنیاوی مفادت میں گھرے حکمران دیکھے ہوں گے۔

برطانیہ و امریکا نے مایوس کیا

اٹھارہویں صدی سے لے کر وسط بیسویں صدی تک برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری ومعاشی طاقت رہا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ مقام امریکا کو مل گیا۔افسوس کی بات ہے کہ وہ دونوں طاقتیں عالمی معاملات اور مسائل میں عدل وانصاف اختیار نہ کر سکیں بلکہ بیشتر مواقع پہ انھوں نے منافقت اور اپنے مفادات کو اولیت دینے کا طرزعمل پیش کیا۔یہ دونوں طاقتیں آج بھی دنیاوی طور پہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں، مگر اخلاقیات کی کسوٹی پہ ناکام و نامراد دکھائی دیتی ہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ برطانوی اور امریکی حکمران طبقے اکثر اوقات خود کو انسانی حقوق، عدل وانصاف اور جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتے ہیں۔مگر ان طاقتوںکے عمل دیکھے جائیں تو بالکل مختلف صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ان کی منافقت اور دھوکے بازی کو غزہ پہ اسرائیل کے حالیہ حملے نے پوری طرح نمایاں کر دیا۔اس سے قبل یوکرائن پہ روس کا حملہ بھی ان کا دوغلاپن ظاہر کر چکا تھا۔

روسی کامل مجرم نہیں

سویت یونین مٹ گیا تو امریکا و برطانیہ نے نئے روسی حکمرانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے دائرہ ِ اثرورسوخ میں شامل ممالک مثلاً یوکرین ، ہنگری، فن لینڈ، چیکوسلاواکیہ وغیرہ میں مغربی تہذیب وتمدن اور سرمایہ دارانہ نظریات وافکار پھیلانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ یہ وعدہ مگر امریکی وبرطانوی حکمران طبقے نے ایفا نہیں کیا اور وہ روس کے دائرہ ِ عمل میں شامل ملکوں کو اپنے عسکری اتحاد، نیٹو میں شامل کرنے لگے۔اس وعدہ خلافی پر روسی حکومت کا طیش میں آنا قدرتی عمل تھا۔

روس خاص طور پہ یوکرین کو اپنی طفیلی ریاست سمجھتا ہے ۔نیز روس اور یوکرین کے سرحدی علاقوں میں بکثرت روسی باشندے آباد ہیں۔جب یوکرین اور مغرب کی قربت بڑھی تو یہ روسی شکایت کرنے لگے کہ یوکرینی حکومت ان سے سوتیلی اولاد جیسا ناروا سلوک کرنے لگی ہے۔ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہوتے اور نہ انھیں تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں دی جاتی ہیں۔آخرکار ان روسی باشندوں نے یوکرینی حکومت کی بدروش کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اپنے علاقے روس میں شامل کرنے کی تحریک چلانے لگے۔

یوکرینی حکومت نے اپنے روسی باشندوں کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیا اور ان پہ فوج کشی کر دی۔یوکرین میں پھیلتے امریکی وبرطانوی اثرات روکنے اور روسی باشندوں کو یوکرینی فوج کے ظلم سے بچانے کے لیے ہی روس نے یوکرین پہ دھاوا بول دیا۔حقائق سے آشکارا ہے کہ یہ حملہ یوکرینی حکمران طبقے کی غلطیوں اور بے وقوفیوں کے باعث بھی ہوا۔انھوں نے روس کی شکایات دور نہیں کیں اور خود حملے کی دعوت دے ڈالی۔

امریکا و برطانیہ مگر اس جنگ میں یوکرین کے کٹر حامی بن گئے اور اسے کثیر تعداد میں اسلحہ فراہم کرنے لگے۔انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جنگ شروع کرنے میں یوکرینی حکمران طبقہ بھی قصور وار ہے۔وجہ یہ ہے کہ دونوں مغربی ممالک روس کو زیر اور اپنا محکوم بنانا چاہتے ہیں۔انھیں روس اور چین کی آزادی پسندی اور خودمختاری ایک آنکھ نہیں بھاتی۔اسی لیے وہ یوکرین کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے لگے تاکہ روس کو عسکری ومعاشی شکست دی جا سکے۔امریکا تو یوکرین کو اربوں ڈالر دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

قصور وار اسرائیلی حکمران

اہل فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں تو سراسر قصوروار اسرائیلی حکمران طبقہ ہے۔بعض مسلم دانشور کہتے ہیں کہ فلسطینی جہادی تنظیمیں غیر مسلح اسرائیلی باشندوں ، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنا کر جنگی اسلامی اصول وقوانین کی نفی کرتی ہیں۔مگر یہ دانشور یہ نوٹ نہیں کرتے کہ اسرائیل کے حکمران طبقے نے اول دن سے اپنی ریاست کو جنگی حالت میں قرار دے رکھا ہے۔اسی لیے بیشتر اسرائیلی شہری ہر فلسطینی بالغ کو اپنا دشمن اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔اور اسرائیل میں'' بالغ'' کی تعریف یہ ہے'':چار سال سے بڑی عمر کا فلسطینی بالغ تصور ہو گا۔''

اس صورت حال میں اسرائیل کا بھی ہر'' بالغ'' فلسطینی مجاہدین کا جائز ٹارگٹ بن جاتا ہے۔اسرائیلی سیکورٹی فورسز 1948ء سے لے کر اب تک لاکھوں فلسطینی بچوں، خواتین اور مردوں کو شہید کر چکیں۔امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل کا طرزعمل مگر یہی عیاں کرتا ہے کہ فلسطینی جواب میں خاموش رہیں اور کوئی ردعمل ظاہر نہ کریں۔کیا اس طرزعمل کو فطری کہنا چاہیے؟ اگر جواباً فلسطینی مجاہدین نے پہلی بار اسرائیل پہ ایک بڑا حملہ کر دیا اور اسرائیلی باشندوں کو بھی جنگ کی خوفناکیوں اور لرزہ خیزیوںسے آگاہ کیا جو وہ پچھلے ستتر سال سے سہہ رہے ہیں تو یہ ناروا اقدام تھا؟

اسرائیل نے پھر اہل غزہ پہ دھاوا بول کر ایسی وحشت اور غیر انسانی رویّے کا مظاہرہ کیا کہ سخت دل لوگ بھی فلسطینیوں پہ ہوتے ظلم وستم دیکھ کر تھرّا اٹھے ۔قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ یہ مظالم امریکا، برطانیہ اور بیشتر یورپی ممالک کی مکمل حمایت سے انجام پائے۔امریکی حکمران طبقہ مسلسل اعلان کرتا رہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ان ملکوں نے اسرائیل کو سرمایہ اور اسلحہ بھی فراہم کیا تاکہ وہ سہولت سے اہل فلسطین کو نشانہ بنا سکے۔

پاکستان کی قراردار مسترد

حالیہ وسط اپریل میں پاکستان نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد کا مسوہ تیار کیا۔اس قرارداد کی منظوری سے فلسطین اقوام متحدہ کا مکمل رکن بن جاتا۔اس قراردار کو مگر امریکا نے ویٹو کر دیا۔سیکورٹی کونسل کے بقیہ ارکان اسے منظور کرنا چاہتے تھے۔حتی کہ برطانیہ نے غیرحاضر رہ کر قرارداد کی منظوری کا راستہ صاف کر دیا۔مگر اسرائیل کے سرپرست و مربی ، امریکا نے سینہ تان کر اسے ویٹو کر ڈالا۔

امریکی حکمران طبقے کے اعمال روز ِ روشن کی طرح دنیا والوں کو بتاتے ہیں کہ اس مملکت کے بانیوں ، خصوصاً ابراہام لنکن نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو کرہ ارض پہ عدل و انصاف، سچائی، انسانی حقوق اور جمہوریت کا سب سے بڑا نام لیوا اور قائد بنانے کا جو حسین خواب دیکھا تھا، وہ دور جدید کے حکمرانوں نے آئینے کی طرح چکناچور کر دیا۔لالچ وہوس، حب ِ جاہ و زمین اور ذاتی مفادات کا تیزرفتارطوفان اس خوبصورت خواب کو ملیامیٹ کر گیا جو اہل دنیا کو امن، محبت، بھائی چارے اور خوشحالی کے عظیم تحفے عطا کر سکتا تھا۔
Load Next Story