شہباز شریف اور بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں فضل الرحمان
زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں، فضل الرحمان کا مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف کراچی اور پشاور میں ملین مارچ کا اعلان
جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملین مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہمیں روکنے کی کوشش کرنے والا خود مصیبت کو دعوت دے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کے زیر صدارت شروع ہوا جس میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر اسد قیصر نے نکتہ اعتراض بلند کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں انسانی حقوق سے متعلق بات کی، آزادی نہ ہونے کا شکوہ کیا اور جلسے کی اجازت دیے جانے کا مطالبہ کیا۔
اسد قیصر کے بعد بات کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایوان میں تقریر کی اور کہا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات شروع نہیں ہوئے لیکن ہمیں انکار بھی نہیں ہے، اگر اسپیکر صاحب نے وقت دیا تو بات کریں گے۔
فضل الرحمان نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسد قیصر کا مطالبہ درست ہے جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے میں اسد قیصر کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، ہمیں سنجیدگی سے دیکھنا پڑے گا ہمارا ملک اب کہاں کھڑا ہے، اس ملک کو حاصل کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کا کوئی کردار نہیں، آج بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کہاں ہے اور عوام کہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عوامی نمائندگی پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے بڑی جدو جہد کے ساتھ عوام کو ووٹ کا حق ملا، عوام کو بڑی جدو جہد کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام ملا، قائد اعظم کا پاکستان کہاں ہے آج ؟ یہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں 2018ء کے الیکشن پر بھی اعتراض تھا اور اس پر بھی اعتراض ہے، اُس مینڈیٹ کے ساتھ اگر وہ دھاندلی تھی تو آج دھاندلی کیوں نہیں ہے؟ سیاست دان معلومات کی بنیاد پر بات کرے اور ہماری معلومات کے مطابق اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئیں، یہ کیسا الیکشن ہے جس میں ہارنے والے مطمئن نہیں اور جیتنے والے بھی پریشان ہیں، جیتنے والوں کے اپنے لیڈر اپنے مینڈیٹ کو مسترد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے، ہم نے اصل پر سمجھوتے کیے اور اپنی جمہوریت کو بیچا، ہم نے اپنے ہاتھوں سے آقا بنائے، ہم اپنی مرضی سے قانون بھی نہیں بناسکتے ذرا ہندوستان اور اپنا موازنہ تو کریں، دونوں ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن کا شکار ہیں، دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں فیصلے وہ کریں اور منہ ہمارا کالا ہو۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ پاکستان کا فرد تین لاکھ کا مقروض ہے ہم نے قوم کو ہجوم بنا کر رکھ دیا، ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا آج ہم سیکولر ریاست بن چکے ہیں، 1973ء سے اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش کر عمل پیرا نہیں ہوا ہم کیسے ہم اسلامی ملک ہیں؟ ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی قسط پرجشن منایا جارہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ایوان میں عوامی نمائندے ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہے، الیکشن میں جو ہوا سب نے دیکھ لیا اور ہم بھی اپنے فیصلے پر مطمئن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو، شہباز شریف کو کہتا ہوں کہ عوامی نمائندے بنیں اور حکومت چھوڑ دیں اور پی ٹی آئی کو حکومت دیں کیونکہ الیکشن میں زیادہ سیٹیں اُن کی ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات جاہلانہ لگے گی۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دو مئی کو کراچی اور نو مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہوگا، اگر ہمارا راستہ کسی نے روکا یا کوشش کی تو پھر وہ خود ہی مصیبت کو دعوت دے گا۔
اسد قیصر کا خطاب
قبل ازیں پی ٹی آئی کے لیڈر اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں میں نکتہ اعتراض پر کہا کہ کیا اس ملک میں بنیادی انسانی حقوق موجود ہیں؟ یہاں جمہوری نظام ہے یا مارشل لا؟ بتایا جائے یہاں آئین معطل اور لاقانونیت ہے، ہمیں بتایا جائے دفعہ 144کیوں لگائی گئی ہے؟ پُرامن احتجاج پر اپوزیشن لیڈر اور پارٹی چیئرمین کے خلاف مقدمہ درج ہوا یہ اسمبلی 1985ء کی مجلس شوریٰ سے بھی زیادہ کمزور ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو سے ہمارا ایک جلسہ برداشت نہیں ہو رہا کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا ہمیں آئین اور قانون کے سامنے رکھنے کی اجازت نہیں؟ حالیہ الیکشن دھاندلی زدہ الیکشن تھا، اسلام آباد اور کراچی سے بیٹھے لوگ ہارے اور مسترد شدہ لوگ ہیں۔
اس قیصر کے بیان پر ایم کیو ایم نے احتجاج کیا تاہم اسد قیصر نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم کراچی اور لاہور جائیں گے روک سکو تو روک لو، ہم کسی کو آئین اور قانون پامال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہمارے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا تو یہ اسمبلی نہیں چلنے دیں گے، مئی کے مہینے میں پھر نو مئی نومئی رونا روئیں گے، عوام نے 9م ئی کارونا دھونا 8 فروری کومسترد کر دیا، 9مئی محسن نقوی اور آئی جی پنجاب کا ڈرامہ تھا 9مئی معاملے کی جوڈیشل تحقیقات کرائی جائیں۔
اسد قیصر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، ہم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ملک میں سول سپرمیسی ہو اور عدلیہ آزاد فیصلے کرے، ہمیں جلسے جلوس کی آزاد کس قانون کے تحت نہیں دی جارہی؟ ہم یہ ہاؤس چلانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فارم 47 کی پیدوار حکومت ہے ہمارے جمہوری حقوق نہیں دیں گے تو ایوان نہیں چلے گا، ہمیں دیوار سے لگائیں گے تو ہم بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔
قادر پٹیل
پیپلز پارٹی کے رکن قادر پٹیل نے کہا کہ آپ کو جلسوں کی اجازت شاید ماضی کے قانون کے تحت نہیں مل رہی، پی ٹی آئی دور میں اپوزیشن رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوتے تھے، ماضی میں ایوان اور قانون سازی کو موبائل کے ذریعے چلایا جاتا تھا، سنی اتحاد کونسل کو جلسوں کی اجازت نہ ملنے کا معاملہ بلاول بھٹو سے جوڑنا مضحکہ خیز ہے، بلاول بھٹو کا جلسوں کی اجازت دینے سے کوئی تعلق نہیں۔
امیر مقام
ن لیگ کے وزیر وزیر سرحدی امور امیر مقام نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سنی اتحاد کونسل ضلع اٹک کے دونوں اطراف الگ قانون چاہتی ہے، کے پی اسمبلی میں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں عدالتی حکم کے باوجود کے پی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف نہیں ہو رہا۔
امیر مقام کے خطاب کے دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے نعرے بازی کی تاہم امیر مقام نے خطاب جاری رکھا اور کہا کہ سنی اتحاد کونسل آئین اور قانون کی پاس داری نہیں کر رہی، کے پی حکومت کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت پیسہ مل رہا ہے نہ جانے کے پی حکومت کو ملنے والا پیسہ کہاں استعمال ہو رہا ہے؟ کے پی میں عمرانی آئین و قانون نافذ ہے، اڈیالہ جیل سے ملنے والی ہدایات کو آئین و قانون سمجھا جاتا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ سب جانتے ہیں نو مئی کو دیر اسکاوٹس کی عمارت میں کیا ہوا تھا؟ پی ٹی آئی دور حکومت نے مجھے بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا، میرے لندن پلٹ بیٹے کو جیل میں ڈال کر ذہنی مریض بنا دیا گیا، مجھ پر اور اہلیہ پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کے زیر صدارت شروع ہوا جس میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر اسد قیصر نے نکتہ اعتراض بلند کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں انسانی حقوق سے متعلق بات کی، آزادی نہ ہونے کا شکوہ کیا اور جلسے کی اجازت دیے جانے کا مطالبہ کیا۔
اسد قیصر کے بعد بات کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایوان میں تقریر کی اور کہا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات شروع نہیں ہوئے لیکن ہمیں انکار بھی نہیں ہے، اگر اسپیکر صاحب نے وقت دیا تو بات کریں گے۔
فضل الرحمان نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسد قیصر کا مطالبہ درست ہے جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے میں اسد قیصر کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، ہمیں سنجیدگی سے دیکھنا پڑے گا ہمارا ملک اب کہاں کھڑا ہے، اس ملک کو حاصل کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کا کوئی کردار نہیں، آج بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کہاں ہے اور عوام کہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عوامی نمائندگی پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے بڑی جدو جہد کے ساتھ عوام کو ووٹ کا حق ملا، عوام کو بڑی جدو جہد کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام ملا، قائد اعظم کا پاکستان کہاں ہے آج ؟ یہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں 2018ء کے الیکشن پر بھی اعتراض تھا اور اس پر بھی اعتراض ہے، اُس مینڈیٹ کے ساتھ اگر وہ دھاندلی تھی تو آج دھاندلی کیوں نہیں ہے؟ سیاست دان معلومات کی بنیاد پر بات کرے اور ہماری معلومات کے مطابق اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئیں، یہ کیسا الیکشن ہے جس میں ہارنے والے مطمئن نہیں اور جیتنے والے بھی پریشان ہیں، جیتنے والوں کے اپنے لیڈر اپنے مینڈیٹ کو مسترد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے، ہم نے اصل پر سمجھوتے کیے اور اپنی جمہوریت کو بیچا، ہم نے اپنے ہاتھوں سے آقا بنائے، ہم اپنی مرضی سے قانون بھی نہیں بناسکتے ذرا ہندوستان اور اپنا موازنہ تو کریں، دونوں ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن کا شکار ہیں، دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں فیصلے وہ کریں اور منہ ہمارا کالا ہو۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ پاکستان کا فرد تین لاکھ کا مقروض ہے ہم نے قوم کو ہجوم بنا کر رکھ دیا، ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا آج ہم سیکولر ریاست بن چکے ہیں، 1973ء سے اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش کر عمل پیرا نہیں ہوا ہم کیسے ہم اسلامی ملک ہیں؟ ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی قسط پرجشن منایا جارہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ایوان میں عوامی نمائندے ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہے، الیکشن میں جو ہوا سب نے دیکھ لیا اور ہم بھی اپنے فیصلے پر مطمئن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو، شہباز شریف کو کہتا ہوں کہ عوامی نمائندے بنیں اور حکومت چھوڑ دیں اور پی ٹی آئی کو حکومت دیں کیونکہ الیکشن میں زیادہ سیٹیں اُن کی ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات جاہلانہ لگے گی۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دو مئی کو کراچی اور نو مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہوگا، اگر ہمارا راستہ کسی نے روکا یا کوشش کی تو پھر وہ خود ہی مصیبت کو دعوت دے گا۔
اسد قیصر کا خطاب
قبل ازیں پی ٹی آئی کے لیڈر اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں میں نکتہ اعتراض پر کہا کہ کیا اس ملک میں بنیادی انسانی حقوق موجود ہیں؟ یہاں جمہوری نظام ہے یا مارشل لا؟ بتایا جائے یہاں آئین معطل اور لاقانونیت ہے، ہمیں بتایا جائے دفعہ 144کیوں لگائی گئی ہے؟ پُرامن احتجاج پر اپوزیشن لیڈر اور پارٹی چیئرمین کے خلاف مقدمہ درج ہوا یہ اسمبلی 1985ء کی مجلس شوریٰ سے بھی زیادہ کمزور ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو سے ہمارا ایک جلسہ برداشت نہیں ہو رہا کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا ہمیں آئین اور قانون کے سامنے رکھنے کی اجازت نہیں؟ حالیہ الیکشن دھاندلی زدہ الیکشن تھا، اسلام آباد اور کراچی سے بیٹھے لوگ ہارے اور مسترد شدہ لوگ ہیں۔
اس قیصر کے بیان پر ایم کیو ایم نے احتجاج کیا تاہم اسد قیصر نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم کراچی اور لاہور جائیں گے روک سکو تو روک لو، ہم کسی کو آئین اور قانون پامال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہمارے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا تو یہ اسمبلی نہیں چلنے دیں گے، مئی کے مہینے میں پھر نو مئی نومئی رونا روئیں گے، عوام نے 9م ئی کارونا دھونا 8 فروری کومسترد کر دیا، 9مئی محسن نقوی اور آئی جی پنجاب کا ڈرامہ تھا 9مئی معاملے کی جوڈیشل تحقیقات کرائی جائیں۔
اسد قیصر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، ہم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ملک میں سول سپرمیسی ہو اور عدلیہ آزاد فیصلے کرے، ہمیں جلسے جلوس کی آزاد کس قانون کے تحت نہیں دی جارہی؟ ہم یہ ہاؤس چلانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فارم 47 کی پیدوار حکومت ہے ہمارے جمہوری حقوق نہیں دیں گے تو ایوان نہیں چلے گا، ہمیں دیوار سے لگائیں گے تو ہم بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔
قادر پٹیل
پیپلز پارٹی کے رکن قادر پٹیل نے کہا کہ آپ کو جلسوں کی اجازت شاید ماضی کے قانون کے تحت نہیں مل رہی، پی ٹی آئی دور میں اپوزیشن رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوتے تھے، ماضی میں ایوان اور قانون سازی کو موبائل کے ذریعے چلایا جاتا تھا، سنی اتحاد کونسل کو جلسوں کی اجازت نہ ملنے کا معاملہ بلاول بھٹو سے جوڑنا مضحکہ خیز ہے، بلاول بھٹو کا جلسوں کی اجازت دینے سے کوئی تعلق نہیں۔
امیر مقام
ن لیگ کے وزیر وزیر سرحدی امور امیر مقام نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سنی اتحاد کونسل ضلع اٹک کے دونوں اطراف الگ قانون چاہتی ہے، کے پی اسمبلی میں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں عدالتی حکم کے باوجود کے پی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف نہیں ہو رہا۔
امیر مقام کے خطاب کے دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے نعرے بازی کی تاہم امیر مقام نے خطاب جاری رکھا اور کہا کہ سنی اتحاد کونسل آئین اور قانون کی پاس داری نہیں کر رہی، کے پی حکومت کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت پیسہ مل رہا ہے نہ جانے کے پی حکومت کو ملنے والا پیسہ کہاں استعمال ہو رہا ہے؟ کے پی میں عمرانی آئین و قانون نافذ ہے، اڈیالہ جیل سے ملنے والی ہدایات کو آئین و قانون سمجھا جاتا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ سب جانتے ہیں نو مئی کو دیر اسکاوٹس کی عمارت میں کیا ہوا تھا؟ پی ٹی آئی دور حکومت نے مجھے بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا، میرے لندن پلٹ بیٹے کو جیل میں ڈال کر ذہنی مریض بنا دیا گیا، مجھ پر اور اہلیہ پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔