بیرونی سرمایہ کاری کی افادیت اور معیشت
معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں
وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے منعقد کیے گئے خصوصی مکالمے اور گالا ڈنر میں شرکت کی، تقریب کے دوران وزیراعظم نے ولی عہد کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ بعد ازاں وزیراعظم سے امیر کویت نے بھی ملاقات کی۔
دوسری جانب سعودی وزیر سرمایہ کاری نے کہا ہے کہ سعودی سرمایہ کاروں کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان ہماری ترجیح ہے، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبے میں بھرپور تعاون جاری رہے گا، دونوں ممالک کے نجی شعبوں کے درمیان اشتراک ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ عالمی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں اور ایران کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے اعلانات سامنے آرہے ہیں۔ پاکستانی کاوشیں جلد ہی عملی صورت اختیار کر لیں گی۔ سعودی عرب پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی ظاہر کررہا ہے اور سلامتی و تکینکی شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کا خواہش مند ہے۔
ان تعلقات کو وسعت دینے میں سعودی عرب اور پاکستان دونوں کی گہری دلچسپی ہے۔ سعودی نقطہ نظر سے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری سے سعودی معیشت کو متنوع بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے تیل کی برآمدات پر سعودی مملکت کا انحصار کم ہوجائے گا۔ دوسری جانب پاکستان سمجھتا ہے کہ سعودی سرمایہ کاری سے پاکستانی معیشت کو استحکام ملے گا اور روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کی سطح پر اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ حکومت معاشی محاذ پر اپنے قدم جمانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض حاصل کرنے اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے ذریعے زرمبادلہ کے حصول کی پالیسی پر گامزن ہے۔
یہ پالیسی ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے فوری نسخے کے طور پر اہم ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اکثر قانونی ابہام اور تنازعات کے حل میں تاخیر کے خدشات کو کسی خاص ملک میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ قانونی طریقہ کار کو آسان بنا کر، تنازعات کے حل کے متبادل طریقہ کار کو متعارف کروا کر اور منصفانہ اور بروقت قانونی چارہ جوئی کو یقینی بنا کر، پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اپنی کشش کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی عالمی معیشت میں، شفافیت وہ کرنسی ہے جو اعتماد پیدا کرتی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کار میزبان ملک کے ریگولیٹری فریم ورک، مالیاتی نظام اور کاروباری طریقوں کی شفافیت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان کو کھلی اور شفاف معلومات کو فروغ دینے، انسداد بدعنوانی کے اقدامات پر عمل درآمد اور افسر شاہی کے عمل کو ہموار کرکے شفافیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک پاکستان نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ لی ہے، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل کے قیام سے بیرونی سرمایہ کاری کے واضح اثرات سامنے آ رہے ہیں جس کے معاشی ثمرات براہِ راست عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔
مجموعی طور پر ملک میں معاشی بہتری کے اثرات نظر آرہے ہیں جن میں ترقی کی مجموعی آؤٹ لک بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس 2027 تک بڑھا دیا ہے جس کا براہِ راست اثر پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک رسائی ہے، یورپین یونین کا یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہے۔
اگر ہم مقامی سرمایہ کاروں یا کاروباری طبقات کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیں گے تو دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے جتنی بھی پرکشش پیشکش کر لی جائے وہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکے گی۔
جب بیرونی سرمایہ کار کسی ملک میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے پیش نظر وہ حالات ہوتے ہیں جس کا مقامی سرمایہ کار یا انڈسٹری کو سامنا ہوتا ہے، اگر کسی ملک میں انڈسٹری پھل پھول رہی ہو اور معاشی سرگرمیاں پائیدار بنیادوں پر بڑھ رہی ہوں تو حکومتوں کی خصوصی کاوشوں کے بغیر بھی سرمایہ کار خود چل کر اس ملک میں سرمایہ لگانے پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر مقامی سرمایہ کار کو اپنے سرمائے یا کاروبار کو چلانے کے لالے پڑے ہوئے ہوں تو باہر سے کون آ کر اس ملک میں نئی انڈسٹری لگانے یا سرمایہ کاری کرنے کا حوصلہ کرے گا۔
دنیا بھر میں کاروبار کرنے اور اسے بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور سرمایہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ بینک سمجھے جاتے ہیں۔ بینک ایک طرف لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بچتوں کو جمع کرتے ہیں اور دوسری طرف اس سرمائے کو کاروباری اداروں کو اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے مناسب شرائط پر فراہم کرکے معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے جب بھی کسی ملک میں معاشی ترقی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس کے لیے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کا کاروباری طبقہ بینکوں سے کتنا اور کس شرح پر قرض لے رہا ہے۔
سرمائے کی گردش کے اس نظام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک میں بینکوں سے قرض لینا آسان بنایا جاتا ہے تاکہ نئے کاروباری مواقعے سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف ملکی معیشت کو ترقی دی جا سکے بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرکے معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس طرح نہ صرف معیشت کا پہیہ چلتا ہے بلکہ بینکوں میں اپنی بچتیں جمع کروانے والے شہریوں کو بھی مناسب منافع حاصل ہوتا رہتا ہے۔
تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بینکوں کا یہ ماڈل اس کے بالکل الٹ ہے۔ یہاں عام آدمی تو دور کی بات ہے بڑے بڑے کاروباری اداروں کے لیے بھی بینکوں سے قرض لینا مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نجی بینکوں کو اپنا سرمایہ ایسے غیر پیداواری شعبوں میں لگانے کی سہولت دستیاب ہے جہاں بیش بہا منافع یقینی ہے۔
دوسری طرف بلند شرح سود نے بینکوں سے قرض لینے والے صنعتی و کاروباری اداروں کی ترقی کے عمل کو جامد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لحاظ سے لمحہ فکریہ ہیں کہ حکومتی محصولات میں اضافے کے باوجود حکومت بینکوں سے بھاری شرح سود پر بے دریغ قرضے لے رہی ہے اور اس کا بوجھ لامحالہ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
دوسری طرف اس طرح کی پالیسیوں کے سبب نجی شعبے کا بینکنگ سسٹم پر انحصار اور اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں نجی شعبے نے بینکوں سے بمشکل 35ارب روپے کا قرضہ لیا ہے جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ رقم 264 ارب روپے سے زائد تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بینکوں کی بلند شرح سود ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اسے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے لیکن بدقسمتی سے مشکل فیصلوں کا تمام بوجھ پاکستان کے غریب آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اشرافیہ ان تمام مشکلات سے ماورا ہو کر اپنی زندگی گزارتی ہے۔
غریب آدمی جو پہلے ہی گیس اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے اس کی ٹوٹی کمر پر مزید بوجھ لادا جائے گا۔ کاش ! ہمارے وزیر خزانہ ایسے اقدامات کریں کہ جس سے حکومتی حجم میں کمی ہو اور ایسے اداروں کو نجکاری کے ذریعے فروخت کیا جائے جو جونک کی طرح ملکی معیشت کو چمٹے ہوئے ہیں۔ مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
کاروبار کے لیے افسر شاہی کا سرخ فیتہ ختم کیا جائے، سرمایہ کار کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ایک محسن کے روپ میں دیکھا جائے تب ہی یہ معیشت درست سمت پر گامزن ہو سکتی ہے، غریب آدمی تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک قربانی دے رہا ہے اب تو اس میں ذبح ہونے کی سکت باقی نہیں پاکستانی قوم ریلیف ملنے کی منتظر ہے۔
ملک میں زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافے اور حکومتی و عسکری اداروں کی جانب سے ڈالر و اشیاء کی غیر قانونی اسمگلنگ و تجارت کی روک تھام کی بدولت پاکستانی روپے کی قدر میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے، اگر ملک ترقی و خوشحالی کے اسی راستے پر گامزن رہا تو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں متوقع کمی، بہتر فصل کی پیداوار، خوراک کی پیداوار، اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں بتدریج کمی ممکن نظر آتی ہے۔
مختصراً یہ کہ معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملک اسی راستے پر چلتا رہا تو راستے مستقبل میں مزید ہموار ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا، نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ امید کی، کمی صرف خلوصِ نیت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ہے جس کی جھلک حالیہ کاوشوں میں نظر آئی ہے۔
دوسری جانب سعودی وزیر سرمایہ کاری نے کہا ہے کہ سعودی سرمایہ کاروں کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان ہماری ترجیح ہے، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبے میں بھرپور تعاون جاری رہے گا، دونوں ممالک کے نجی شعبوں کے درمیان اشتراک ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ عالمی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں اور ایران کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے اعلانات سامنے آرہے ہیں۔ پاکستانی کاوشیں جلد ہی عملی صورت اختیار کر لیں گی۔ سعودی عرب پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی ظاہر کررہا ہے اور سلامتی و تکینکی شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کا خواہش مند ہے۔
ان تعلقات کو وسعت دینے میں سعودی عرب اور پاکستان دونوں کی گہری دلچسپی ہے۔ سعودی نقطہ نظر سے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری سے سعودی معیشت کو متنوع بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے تیل کی برآمدات پر سعودی مملکت کا انحصار کم ہوجائے گا۔ دوسری جانب پاکستان سمجھتا ہے کہ سعودی سرمایہ کاری سے پاکستانی معیشت کو استحکام ملے گا اور روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کی سطح پر اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ حکومت معاشی محاذ پر اپنے قدم جمانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض حاصل کرنے اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے ذریعے زرمبادلہ کے حصول کی پالیسی پر گامزن ہے۔
یہ پالیسی ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے فوری نسخے کے طور پر اہم ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اکثر قانونی ابہام اور تنازعات کے حل میں تاخیر کے خدشات کو کسی خاص ملک میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ قانونی طریقہ کار کو آسان بنا کر، تنازعات کے حل کے متبادل طریقہ کار کو متعارف کروا کر اور منصفانہ اور بروقت قانونی چارہ جوئی کو یقینی بنا کر، پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اپنی کشش کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی عالمی معیشت میں، شفافیت وہ کرنسی ہے جو اعتماد پیدا کرتی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کار میزبان ملک کے ریگولیٹری فریم ورک، مالیاتی نظام اور کاروباری طریقوں کی شفافیت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان کو کھلی اور شفاف معلومات کو فروغ دینے، انسداد بدعنوانی کے اقدامات پر عمل درآمد اور افسر شاہی کے عمل کو ہموار کرکے شفافیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک پاکستان نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ لی ہے، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل کے قیام سے بیرونی سرمایہ کاری کے واضح اثرات سامنے آ رہے ہیں جس کے معاشی ثمرات براہِ راست عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔
مجموعی طور پر ملک میں معاشی بہتری کے اثرات نظر آرہے ہیں جن میں ترقی کی مجموعی آؤٹ لک بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس 2027 تک بڑھا دیا ہے جس کا براہِ راست اثر پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک رسائی ہے، یورپین یونین کا یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہے۔
اگر ہم مقامی سرمایہ کاروں یا کاروباری طبقات کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیں گے تو دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے جتنی بھی پرکشش پیشکش کر لی جائے وہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکے گی۔
جب بیرونی سرمایہ کار کسی ملک میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے پیش نظر وہ حالات ہوتے ہیں جس کا مقامی سرمایہ کار یا انڈسٹری کو سامنا ہوتا ہے، اگر کسی ملک میں انڈسٹری پھل پھول رہی ہو اور معاشی سرگرمیاں پائیدار بنیادوں پر بڑھ رہی ہوں تو حکومتوں کی خصوصی کاوشوں کے بغیر بھی سرمایہ کار خود چل کر اس ملک میں سرمایہ لگانے پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر مقامی سرمایہ کار کو اپنے سرمائے یا کاروبار کو چلانے کے لالے پڑے ہوئے ہوں تو باہر سے کون آ کر اس ملک میں نئی انڈسٹری لگانے یا سرمایہ کاری کرنے کا حوصلہ کرے گا۔
دنیا بھر میں کاروبار کرنے اور اسے بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور سرمایہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ بینک سمجھے جاتے ہیں۔ بینک ایک طرف لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بچتوں کو جمع کرتے ہیں اور دوسری طرف اس سرمائے کو کاروباری اداروں کو اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے مناسب شرائط پر فراہم کرکے معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے جب بھی کسی ملک میں معاشی ترقی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس کے لیے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کا کاروباری طبقہ بینکوں سے کتنا اور کس شرح پر قرض لے رہا ہے۔
سرمائے کی گردش کے اس نظام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک میں بینکوں سے قرض لینا آسان بنایا جاتا ہے تاکہ نئے کاروباری مواقعے سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف ملکی معیشت کو ترقی دی جا سکے بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرکے معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس طرح نہ صرف معیشت کا پہیہ چلتا ہے بلکہ بینکوں میں اپنی بچتیں جمع کروانے والے شہریوں کو بھی مناسب منافع حاصل ہوتا رہتا ہے۔
تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بینکوں کا یہ ماڈل اس کے بالکل الٹ ہے۔ یہاں عام آدمی تو دور کی بات ہے بڑے بڑے کاروباری اداروں کے لیے بھی بینکوں سے قرض لینا مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نجی بینکوں کو اپنا سرمایہ ایسے غیر پیداواری شعبوں میں لگانے کی سہولت دستیاب ہے جہاں بیش بہا منافع یقینی ہے۔
دوسری طرف بلند شرح سود نے بینکوں سے قرض لینے والے صنعتی و کاروباری اداروں کی ترقی کے عمل کو جامد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لحاظ سے لمحہ فکریہ ہیں کہ حکومتی محصولات میں اضافے کے باوجود حکومت بینکوں سے بھاری شرح سود پر بے دریغ قرضے لے رہی ہے اور اس کا بوجھ لامحالہ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
دوسری طرف اس طرح کی پالیسیوں کے سبب نجی شعبے کا بینکنگ سسٹم پر انحصار اور اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں نجی شعبے نے بینکوں سے بمشکل 35ارب روپے کا قرضہ لیا ہے جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ رقم 264 ارب روپے سے زائد تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بینکوں کی بلند شرح سود ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اسے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے لیکن بدقسمتی سے مشکل فیصلوں کا تمام بوجھ پاکستان کے غریب آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اشرافیہ ان تمام مشکلات سے ماورا ہو کر اپنی زندگی گزارتی ہے۔
غریب آدمی جو پہلے ہی گیس اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے اس کی ٹوٹی کمر پر مزید بوجھ لادا جائے گا۔ کاش ! ہمارے وزیر خزانہ ایسے اقدامات کریں کہ جس سے حکومتی حجم میں کمی ہو اور ایسے اداروں کو نجکاری کے ذریعے فروخت کیا جائے جو جونک کی طرح ملکی معیشت کو چمٹے ہوئے ہیں۔ مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
کاروبار کے لیے افسر شاہی کا سرخ فیتہ ختم کیا جائے، سرمایہ کار کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ایک محسن کے روپ میں دیکھا جائے تب ہی یہ معیشت درست سمت پر گامزن ہو سکتی ہے، غریب آدمی تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک قربانی دے رہا ہے اب تو اس میں ذبح ہونے کی سکت باقی نہیں پاکستانی قوم ریلیف ملنے کی منتظر ہے۔
ملک میں زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافے اور حکومتی و عسکری اداروں کی جانب سے ڈالر و اشیاء کی غیر قانونی اسمگلنگ و تجارت کی روک تھام کی بدولت پاکستانی روپے کی قدر میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے، اگر ملک ترقی و خوشحالی کے اسی راستے پر گامزن رہا تو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں متوقع کمی، بہتر فصل کی پیداوار، خوراک کی پیداوار، اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں بتدریج کمی ممکن نظر آتی ہے۔
مختصراً یہ کہ معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملک اسی راستے پر چلتا رہا تو راستے مستقبل میں مزید ہموار ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا، نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ امید کی، کمی صرف خلوصِ نیت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ہے جس کی جھلک حالیہ کاوشوں میں نظر آئی ہے۔