یکم مئی کے تقاضے اور مزدوروں کی صورت حال

ایک ایسی محنت کش تحریک کی ضرورت ہے جو محنت کشوں کے معاشی وسماجی مسائل کے بارے میں ایک انقلابی سیاسی نقطہ نظر رکھتی ہو

فوٹو : فائل

یکم مئی تحریک کا بنیادی محرک کام کے اوقات کا تعین، اجرتوں میں اضافہ اور تنظیم سازی کے حق سے جڑا ہوا تھا۔ عظیم مزدور مزاحمت کے اس علامتی دن کو گزرے 138 برس گزر چکے لیکن دنیا کے اربوں محنت کشوں کی تحریک آج بھی ان بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

ہم نے برطانوی نوآبادیاتی نظام کا جبر سہا، بٹوارے کی صورت آزادی حاصل کی، نئے ملک میں صدارتی نظام دیکھا، فوجی آمریتوں کی اذیتیں برداشت کیں، لولے ، لنگڑے اور مفلوج کیے پارلیمانی نظام کو بھگت رہے ہیں۔ اس تمام عرصہ میں چند ایک استثناء کے ساتھ محنت کش طبقہ جبر اور ظلم پر مبنی نظام پیداوار کے کولہو میں بیل کی طرح جتا ہی رہا ہے۔

نوآبادیاتی نظام سے آزادی کی جدوجہد ہو یا کہ آمریتوں کے خلاف جمہوری اقدار کی بحالی کی تحریک محنت کش طبقہ کے باشعور حصہ نے اپنے جثے سے بڑھ کر قربانی دی لیکن نتیجے کے طور ہر بار سیاسی معاشی اور سماجی طور مزید کم زور کیا گیا۔ محنت کش طبقے کی تنظیم سازی کی قوت سے خوف زدہ حکم ران طبقات نے مختلف انداز میں یونین سازی اور محنت کش تحریک کی بنیادوں پر کاری وار کیا اس عمل میں فوجی آمریتوں سے لے کر عوام کے ووٹ سے اقتدار حاصل کرنے والی جماعتیں تک شامل ہیں۔

اس جرم میں شریک تمام حکم رانوں کے طرزعمل ہی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں ساڑھے آٹھ کروڑ لیبر فورس میں سے ایک فی صد سے بھی کم محنت کش تنظیم سازی کے قانونی حق سے مستفید ہو رہے ہیں جن کی اکثریت پبلک سیکٹر کے اداروں سے منسلک ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں یونین میں منظم محنت کشوں کی تعداد نصف فی صد سے بھی کم ہے۔ یہ تناسب اس خطہ میں افغانستان کے بعد سب سے کم ترین سطح پر ہے۔ آزادی کے77 برس گزرنے کے باوجود کارگاہوں میں تنظیم سازی کے جمہوری عمل کی بیخ کنی کا مطلب ملک میں جمہوریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مترادف ہے۔

یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ کل لیبر فورس کا 62 فی صد یعنی سوا پانچ کروڑ محنت کشوں کا براہ راست تعلق سروسز اور صنعتی شعبے سے ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 84 فی صد ( تقریبا 285 ارب ڈالرز) پیدا کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے 95 فی صد اپنی قانونی شناخت کے لیے تحریری تقرر ناموں سے محروم ہیں یعنی وہ بنا کسی قانونی شناخت بے چہرہ کام پر مجبور ہیں۔ ان میں سے 90 فی صد محنت کش بارہ سے چودہ گھنٹے اور بعض شعبوں میں اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان محنت کشوں کے اضافی اوقات میں کام کی اجرت کی مد میں واجب الادا 32 ارب روپے ماہانہ مالکان چرا لیتے ہیں۔

اس مجرمانہ عمل کو مزید تقویت پہنچانے والے ٹھیکے داری نظام نے اجرت کے ساتھ ہفتہ وار چھٹی، آٹھ گھنٹے سے زائد کام کی دگنی اجرت کی ادائی کے قانونی حق کو دفن کردیا ہے۔ یہ اجرتی غلامی کا نظام اتنا طاقت ور ہے کہ نجی شعبے کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے خود اس لاقانونیت کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

ٹھیکے داری نظام بنیادی طور پر مالکان کے قانونی حقوق کی ادائی سے فرار کا راستہ ہے۔ لاقانونیت قانون قرار پائی ہے ، ٹھیکے داری کا کوئی قانونی جواز نہیں، سپریم کورٹ اس غیر انسانی نظام کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے لیکن سرمایہ کا عفریت اتنا طاقت ور اور بدمست ہے کہ کسی قانونی قدغن کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ گگ GIG اکانومی ایک نیا عذاب بن کر نمودار ہو رہی ہے جسے عفریت عام میں آن لائین بزنس کا نام دیا گیا ہے جس میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور قانون کے کسی دائرے میں ابھی تک آتے ہی نہیں ہیں اور وہ بدترین استحصال کا شکار ہیں۔

مزدوروں کی صورت حال کا منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ ملازمت کے تقررنامے نہیں ملتے، اجرتوں اور کام کے اوقات کار کا نظام مکمل طور پر تباہ اور تنظیم سازی کا حق چھینا جا چکا ہے اس پر مستزاد بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پورے لاؤ لشکر سمیت عوام اور محنت کش طبقے کو غلامی کا طوق پہنانے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا حکم ہے کہ موجودہ معاشی ابتری سے سے نجات کے لیے محنت کشوں کی زندگیوں کو جہنم بنایا جائے اور قربانی کے نام پر انہیں مہنگائی ، نج کاری ، بیماری اور بے روزگاری کے دل دل میں مزید دھکیل دیا جائے۔

حکم ران طبقات اس بحرانی کیفیت میں خود کسی بھی قسم کی مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں اور نہ ہی ان کی ترجیحات میں شامل ہے کہ بحران کی حقیقی وجوہات کا حل تلاش کیا جائے۔ یہ بحران کے حل کے لیے زرعی اصلاحات کے لیے تیار نہیں ، وفاقی انتظامی اور غیر ضروری دفاعی اخراجات میں کٹوتی نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ یہ وہ مقدس دائرے ہیں جنہیں توڑنا تو درکنار ان پر بات کرنا بھی گناہ کبیرہ گنا جائے گا۔


آج ایک بار حکم راں طبقات بحران سے نکلنے کے لیے محنت کش عوام ہی سے قربانی کا تقاضا کر رہے ہیں اور آئی ایم ایف کے تجویز کردہ نسخہ پر عمل درآمد کرتے بجلی، گیس، پانی اور ادویات کو مہنگا کر ہے ہیں، اشیاء خورونوش پر سبسڈی ختم کی جا رہی ہے۔ صحت، تعلیم اور سروسز کے شعبوں کو تجارت بنا کر سوشل ڈارون ازم کو فروغ دیا اور رہے سہے پبلک سیکٹر کے قیمتی اثاثوں کو اونے پونے من پسند تاجروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان نے اب تک آئی ایم ایف کے 24 پروگرامز تک رسائی حاصل کی ہے جس کا نتیجہ غربت، افلاس، بیماری اور بے روزگاری ہی کی صورت میں نکلا ہے۔ گزری ایک دھائی میں تقریباً ساڑھے نو کروڑ انسان غربت کی لکیر سے نیچے یعنی جان وروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ یہ انہیں پالیسیوں کا بدتر اثر ہے کہ پچھلے ایک سال میں ایک کروڑ بیس لاکھ افراد غربت کی لپیٹ میں آئے ہیں۔

ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر پچھلے تیس سالوں میں 178 حکومتی ادارے بیچ کھائے ان سے حاصل ساڑھے چھے ارب ڈالرز کہاں گئے اور ان بیچے گئے اداروں کی صورت حال کیا ہے، کوئی نہیں جانتا اور اگر جانتا بھی ہے تو اس کا احتساب کرنے کو تیار نہیں۔ اب ایک بار پھر 25 پبلک اداروں کو بیچ کھانے کا ارادہ ہے اور نتیجہ وہی نکلے کا جو پہلے نکلا تھا۔

اس وقت ملک میں تقریبا تمام بڑی سیاسی جماعتیں وفاقی و صوبائی سطح پر حکومتی بندوبست کا حصہ ہیں۔ لیکن اپنے تمام فروعی و شخصی اختلافات کے باوجود آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد اور مزدور دشمنی میں ان کے موقف میں رتی بھر کا فرق نہیں۔ آپ دیکھیے پہلے مرحلے میں وزارتوں کی تشکیل میں کسی بھی صوبہ نے لیبر منسٹر کو شامل ہی نہیں کیا جب کہ صوبائی، وفاقی اسمبلی اور سینیٹ میں محنت کش نمائندوں کی عدم موجودگی ان سیاسی جماعتوں کے طبقاتی کردار کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔

ملک کی سیاسی جماعتوں کی طبقاتی ساخت اور سیاسی و سماجی نقطہ نظر اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ انہیں مزدوروں کی زندگیوں میں بہتری سے کوئی سروکار نہیں اور لیبر قوانین پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

اب لیبر قوانین ہی کو لیجیے ان قوانین کی تشکیل ایک سہ فریقی مشاورتی عمل کے نتیجے میں ہوتی ہے جس میں آجر، اجیر اور حکومتی نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ گو اس عمل میں ہمیشہ مالکان کو حکومتی فریق کا تعاون حاصل رہتا ہے اس کے باوجود جو قوانین بنائے جاتے ہیں ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان میں رائج لیبر قوانین سو سال پر محیط ارتقائی عمل کا تسلسل ہیں۔ ریاست پاکستان نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے 38 کنونشنز کی توثیق کی ہے جس میں نو بنیادی کنونشنز بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے 2014 میں دس سال کے لیے یورپی یونین سے The Generalized Scheme of Preferences Plus (GSP+) کے تحت پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک بنا یا نہایت ہی قلیل ڈیوٹی رسائی حاصل کی جس کا حجم ساڑھے چھے ارب یورو سے بڑھ کر تقریبا 13 ارب یورو تک پہنچ چکا ہے۔ اس سہولت کے عوض پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ ملک میں انسانی و لیبر سے متعلق 29 بین الاقوامی کنونشنز کی پاس داری کو یقینی بنایا جائے گا لیکن دس برس گزرنے کے باوجود محنت کش طبقہ کے حقوق مزید غصب کیے جا چکے ہیں۔

یورپ میں نئے قوانین کے اجرا کی تحریک زوروں پر ہے جو کمپنیوں اور سرمائے کو بین الاقوامی سپلائی چین میں لیبر حقوق پر عمل درآمد کا پابند بناتے ہیں لیکن طاقت ور سرمایہ دار حلقے اسے ناکام بنانے میں آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارے نزدیک سرمایہ کا استحصال بین الاقوامی ہے تو انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت ہی لیبر حقوق کی پاس داری پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ گو سرمایہ اور منافع کی جبلت میں ہے کہ وہ کسی قانون اور پابندی کو تسلیم نہیں کرتا لیکن جان دار منظم مقامی و بین الاقوامی محنت کش تحریک اسے ایسا کرنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایسے بین الاقوامی قوانین کی منظوری میں پاکستان کے محنت کشوں کی مسلسل جدوجہد اور سانحہ بلدیہ کے ان 260 محنت کشوں کا خون بھی شامل ہے جو ایک جرمن برانڈ کے لیے انتہائی غیرانسانی ماحول میں مال تیار کرتے تھے۔ لیکن ہمارے حکم راں اور سرمایہ دار طبقہ دنیا کی بدلتی صورت حال میں مزدوروں کے حقوق اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کو ضروری نہیں سمجھتے جس کا جلد ہی انہیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

اجرتوں کی چوری ، اوقات کار کی خلاف ورزی، شناخت سے محرومی، تنظیم سازی پر قدغن، جنسی تعصب و ہراسگی ، کارگاہوں میں غیر انسانی ماحول یہ وہ سرمایہ کی بھیانک شکل ہے جس کے خلاف ایک بڑی جنگ کی ضرورت آن پہنچی ہے۔ ایک ایسی محنت کش تحریک کی ضرورت ہے جو محنت کشوں کے معاشی و سماجی مسائل کے بارے میں ایک انقلابی سیاسی نقطہ نظر رکھتی ہو۔

سرمایہ کے عفریت کو کارگاہوں ہی میں نہیں گلی محلوں اور چوراہوں پر بھی چیلنج کرنے کے ضرورت ہے۔ ایسے وقت میں جب محنت کشوں کی معاشی و سیاسی تحریکیں کو معروضی حقائق سے نظریں چرا کر موضوعی صورت اختیار کرتے بے سمتی کا شکار ہونے کی بجائے نئے انداز میں خود کو منظم کرنے کے راستے تلاش کرنے چاہییں۔ اس کا پہلا قدم عوام اور خصوصا محنت کشوں سے جڑت میں ہی مضمر ہے۔
Load Next Story