بنگلہ دیش میں عسکریت پسند گروپ پر مقدمہ
استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ کالعدم تنظیم حرکت الجہاد الاسلامی نے ڈھاکہ کے ایک پارک میں منائی جانیوالی تقریب پر حملہ کیا تھا
بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کے خلاف فیصلے کا اعلان موخر کر دیا ہے جس پر الزام ہے کہ انھوں نے 2001 میں نئے بنگالی سال کی تقریبات کے جشن پر بم حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ واضح رہے نیا بنگالی سال 14 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ بنگالی نئے سال کی تقریب پر بم حملے کا مقدمہ 14 ملزموں پر قائم کیا گیا تھا جن میں گزشتہ روز 9 ملزموں کو نہایت سخت سیکیورٹی انتظامات کے ساتھ دارالحکومت ڈھاکہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت کے جج روح الامین نے کہا کہ وہ فیصلے کا اعلان آیندہ پیر کو (23 جون کو) کریں گے کیونکہ فیصلے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ کالعدم تنظیم حرکت الجہاد الاسلامی نے ڈھاکہ کے ایک پارک میں منائی جانے والی تقریب پر حملہ کیا تھا۔ تاہم صفائی کے وکلاء کا کہنا تھا کہ پولیس نے بے گناہ افراد کو تشدد کے ذریعے اعتراف جرم پر مجبور کیا ہے۔ نئے سال کے جشن کی تقریب پر بم مارنے کا الزام تنظیم کے سربراہ مفتی عبدالحنان اور ان کے گروپ پر عاید کیا گیا ہے۔ ان پر وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد پر 2004 میں قاتلانہ حملہ کی کوشش کا بھی الزام تھا جب حسینہ واجد اپوزیشن میں تھیں۔ یہ مقدمہ آٹھ سال تک چلتا رہا مگر ماتحت عدالت کوئی فیصلہ نہ کر سکی جس پر حکومت نے مقدمہ بڑی عدالت کو منتقل کر دیا۔
واضح رہے قبل ازیں حسینہ واجد کی حکومت بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لیڈر کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک کے دوران پاک فوج کی حمایت کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دے چکی ہے۔ اس اقدام کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی فضا بہت کشیدہ ہو گئی۔ نامزد ملزموں میں سے پانچ ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکے جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ اس مقدمے میں عبدالحنان کو پھانسی دیے جانے کا امکان ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں' عالمی سطح پر یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت اسلام پسندوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔
استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ کالعدم تنظیم حرکت الجہاد الاسلامی نے ڈھاکہ کے ایک پارک میں منائی جانے والی تقریب پر حملہ کیا تھا۔ تاہم صفائی کے وکلاء کا کہنا تھا کہ پولیس نے بے گناہ افراد کو تشدد کے ذریعے اعتراف جرم پر مجبور کیا ہے۔ نئے سال کے جشن کی تقریب پر بم مارنے کا الزام تنظیم کے سربراہ مفتی عبدالحنان اور ان کے گروپ پر عاید کیا گیا ہے۔ ان پر وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد پر 2004 میں قاتلانہ حملہ کی کوشش کا بھی الزام تھا جب حسینہ واجد اپوزیشن میں تھیں۔ یہ مقدمہ آٹھ سال تک چلتا رہا مگر ماتحت عدالت کوئی فیصلہ نہ کر سکی جس پر حکومت نے مقدمہ بڑی عدالت کو منتقل کر دیا۔
واضح رہے قبل ازیں حسینہ واجد کی حکومت بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لیڈر کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک کے دوران پاک فوج کی حمایت کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دے چکی ہے۔ اس اقدام کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی فضا بہت کشیدہ ہو گئی۔ نامزد ملزموں میں سے پانچ ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکے جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ اس مقدمے میں عبدالحنان کو پھانسی دیے جانے کا امکان ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں' عالمی سطح پر یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت اسلام پسندوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔