لاہور کے واقعات اور سیا سی تصویر
سیاست اور حقائق کو ایک طرف رکھیں اور وقتی طور پر یہ بھول جائیں کہ کون کہہ رہا ہے تو بات دل کو لگتی ہے ...
لاہور میں ہونے والے واقعات انتہائی قابل مذمت ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ 2014میں زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں سے انسانی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ حکومتوں کا موقف جو بھی ہو، ابھی تک ہونے والی ہلاکتوں، جن کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، کی ذمے داری ان تمام افراد پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے کھلے عام فائرنگ کا حکم دیا۔ اس قسم کا لائحہ عمل پہلے سے تیار کر لیا جاتا ہے۔
رکاوٹیں ہٹانے پر ممکنہ رد عمل اور پھر اس کے جواب میں پولیس کو کیا طریقہ کار اختیار کرنا تھا یہ سب طے نہیں ہوتا اور اگر مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے وہاں پر موجود پولیس نمایندگان کے اپنے فیصلوں کا شکار ہوئے تو بھی ذمے داری حکومت کے گلے ہی پڑے گی۔ اس تمام واقعے پر پنجاب کی حکومت نے اصولی موقف اپنانے کی کوشش کی ہے۔ رانا ثنا ء اللہ جو متنازعہ بیان دینے کے ماہر بن گئے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے لیڈر طاہر القادری کی رہائش گاہ کو غیر قانونی تجاوزات کے ذریعے محفوظ بنانے کے طریقے پر اعتراض اٹھا رہے تھے۔
سیاست اور حقائق کو ایک طرف رکھیں اور وقتی طور پر یہ بھول جائیں کہ کون کہہ رہا ہے تو بات دل کو لگتی ہے۔ سڑکیں، محلے، رہائش گاہیں ذاتی جاگیر نہیں ہیں، جن پر جب چاہیں قبضہ کر لیا جائے۔ ریاست کی اجازت کے بغیر بیئرئرز لگانے، رستے بند کرنے اور ملکی سر زمین پر بزور بازو قابض ہو کر مورچہ زن ہونے کی روایت صرف پاکستان جیسے ممالک میں ہی زندہ ہے۔ دنیا کا کوئی مہذب ملک، ریاست کی ایک اینٹ بھی ذاتی قبضے میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بندش ایک طویل عرصے سے موجود تھی۔ میاں شہباز شریف کی حکومت اور ان کے وزراء صاحبان کو اس اصول کا دھیان اس سے قبل کیوں نہیں آیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی دوسری آمد پر ہی ان کو قانون کے نفاذ میں عجلت کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ظاہر ہے اصولی موقف کے پیچھے بنیادی سیاسی محرکات ہیں۔ اسی وجہ سے اب پنجاب حکومت کی سچی بات بھی غلط محسوس ہو رہی ہے۔ ویسے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور دفتر کے ارد گرد قبضے سے قائم کیا ہوا اور اسلحے سے لیس نظام تحفظ انہونا نہیں ہے۔ کسی بھی بڑے سیاستدان کے ڈیرے پر چلے جائیں یہ رکاوٹیں اور خود سے قائم کی ہوئیں چیک پوسٹیں آپ کو ہر جگہ قانون کا منہ چڑھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر پنجاب حکومت کے پاس کل کے واقعات کا کوئی دفاع موجود نہیں ہے۔
اور پھر جس قسم کا سیاسی ماحول اب بن چکا ہے اس میں سرکاری نقطہ نظر سے بھی سنا ئی نہیں دے گا۔ نواز شریف مخالف جماعتوں نے خوشیاں منانی شروع کر دی ہیں۔ ان کے خیال میں شریف خاندان کا اونٹ اب لاشوں کے پہاڑ کے نیچے آ گیا ہے۔ جس کے دبائو سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی جماعت کو سیاسی طور پر اس سے بڑا موقع نہیں مل سکتا۔ وہ تو ہلکے لاٹھی چارج پر ہی ملک گیر احتجاج کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔ اب تو حقیقی لاشیں دستیاب ہو گئی ہیں۔ ان کو لے کر وہ پنجاب اور وفاقی حکومت کے گرد گھیرا اتنا تنگ کر سکتے ہیں کہ اس کا سانس لینا محال ہو جائے گا۔
ویسے بھی طاہر القادری کی پریس کانفرنس سے اس پالیسی کا اندازہ ہو گیا ہے جو انھوں نے واپس آ کر اپنا نی ہے۔ انسانی سانحے اور ان سے جنم لینے والے غم اور سوز سے بڑھ کر طاقت کے کھیل میں بھی نواز لیگ نے ان واقعات سے خود کو بدترین مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ اب سڑکوں پر نکلنے والوں کے جواز کے بارے میں وفاق اور پنجاب سوال نہیں اٹھا سکتے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی خاکی سازش کا شاخسانہ ہے۔ اب پاکستان عوامی تحریک کے ہرکارکن پر احتجاج میں موجود ہونا واجب ہے۔ اس ملک میں لاشوں کی سیاست کی لا متناہی گنجائش موجود ہے۔
پنجاب حکومت وقتی طور پر اس معاملہ سے نپٹنے کے لیے انتظامی، انضباطی کارروائیاں کر کے لواحقین کو تسلی دے سکتی ہے۔ ذمے داروں کے خلاف مقدمہ اور اس دنیا سے چلے جانے والوں کے خاندان کو معاوضہ کا اعلان کر کے کچھ مشکل کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان، ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر اس تمام حکومتی اقدامات کو غیر موثر کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں (کل فاروق ستار اور جاوید ہاشمی کو اکٹھا کھڑا دیکھ کر پاکستان تحریک انصاف کراچی کے کارکنان کا خیال آ رہا تھا، یقیناً دونوں قیادتوں کی اس قربت سے کافی مطمئن ہوں گے) حکومت کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے سپاہی اور افسران پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے آتشیں اسلحے کے استعمال کا نشانہ بنے ہیں۔
اگر یہ دعویٰ حتمی شواہد کے ساتھ ثابت ہو جاتا ہے تو حکومت کے لیے اس طوفان کے سامنے کھڑا ہونا آسان ہو جائے گا۔ پولیس اہلکاروں پر حملہ ریاست کے خلاف سنگین جرائم میں آتا ہے اور قانونی طور پر ایسے حالات میں شدید رد عمل کا جواز بڑھ جاتا ہے۔ اگر پولیس پر ہونے والے مبینہ حملے کے شواہد نہیں ملتے تو آپ سمجھ لیں کہ پنجاب اور وفاق کی حکومت کو اس وقت ایک مشکل ترین گھڑی کا سامنا ہے۔ شہباز شریف کی پریس کانفرنس بحران کے اس سنجیدہ زاویے کو واضح کرتی ہے جس میں یہ ملک اس وقت پھنس گیا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے سر ی لنکا کے دورے کو موخر کر کے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ ملک کی افواج اس بگڑتی ہوئی صورت حال کو کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب یہ قوم اپنی قیادت کے مطابق حالت جنگ میں ہے۔ سیاسی جنگ کا شکار ہونے والے حکمران حقیقی جنگ کیا اور کیسے لڑیں گے۔ یہ معاملہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کہنے کو شمالی وزیرستان میں قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے مگر حقیقت میں اب اصل لڑائی لاہور اور اسلام آباد میں لڑی جائے گی۔
رکاوٹیں ہٹانے پر ممکنہ رد عمل اور پھر اس کے جواب میں پولیس کو کیا طریقہ کار اختیار کرنا تھا یہ سب طے نہیں ہوتا اور اگر مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے وہاں پر موجود پولیس نمایندگان کے اپنے فیصلوں کا شکار ہوئے تو بھی ذمے داری حکومت کے گلے ہی پڑے گی۔ اس تمام واقعے پر پنجاب کی حکومت نے اصولی موقف اپنانے کی کوشش کی ہے۔ رانا ثنا ء اللہ جو متنازعہ بیان دینے کے ماہر بن گئے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے لیڈر طاہر القادری کی رہائش گاہ کو غیر قانونی تجاوزات کے ذریعے محفوظ بنانے کے طریقے پر اعتراض اٹھا رہے تھے۔
سیاست اور حقائق کو ایک طرف رکھیں اور وقتی طور پر یہ بھول جائیں کہ کون کہہ رہا ہے تو بات دل کو لگتی ہے۔ سڑکیں، محلے، رہائش گاہیں ذاتی جاگیر نہیں ہیں، جن پر جب چاہیں قبضہ کر لیا جائے۔ ریاست کی اجازت کے بغیر بیئرئرز لگانے، رستے بند کرنے اور ملکی سر زمین پر بزور بازو قابض ہو کر مورچہ زن ہونے کی روایت صرف پاکستان جیسے ممالک میں ہی زندہ ہے۔ دنیا کا کوئی مہذب ملک، ریاست کی ایک اینٹ بھی ذاتی قبضے میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بندش ایک طویل عرصے سے موجود تھی۔ میاں شہباز شریف کی حکومت اور ان کے وزراء صاحبان کو اس اصول کا دھیان اس سے قبل کیوں نہیں آیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی دوسری آمد پر ہی ان کو قانون کے نفاذ میں عجلت کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ظاہر ہے اصولی موقف کے پیچھے بنیادی سیاسی محرکات ہیں۔ اسی وجہ سے اب پنجاب حکومت کی سچی بات بھی غلط محسوس ہو رہی ہے۔ ویسے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور دفتر کے ارد گرد قبضے سے قائم کیا ہوا اور اسلحے سے لیس نظام تحفظ انہونا نہیں ہے۔ کسی بھی بڑے سیاستدان کے ڈیرے پر چلے جائیں یہ رکاوٹیں اور خود سے قائم کی ہوئیں چیک پوسٹیں آپ کو ہر جگہ قانون کا منہ چڑھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر پنجاب حکومت کے پاس کل کے واقعات کا کوئی دفاع موجود نہیں ہے۔
اور پھر جس قسم کا سیاسی ماحول اب بن چکا ہے اس میں سرکاری نقطہ نظر سے بھی سنا ئی نہیں دے گا۔ نواز شریف مخالف جماعتوں نے خوشیاں منانی شروع کر دی ہیں۔ ان کے خیال میں شریف خاندان کا اونٹ اب لاشوں کے پہاڑ کے نیچے آ گیا ہے۔ جس کے دبائو سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی جماعت کو سیاسی طور پر اس سے بڑا موقع نہیں مل سکتا۔ وہ تو ہلکے لاٹھی چارج پر ہی ملک گیر احتجاج کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔ اب تو حقیقی لاشیں دستیاب ہو گئی ہیں۔ ان کو لے کر وہ پنجاب اور وفاقی حکومت کے گرد گھیرا اتنا تنگ کر سکتے ہیں کہ اس کا سانس لینا محال ہو جائے گا۔
ویسے بھی طاہر القادری کی پریس کانفرنس سے اس پالیسی کا اندازہ ہو گیا ہے جو انھوں نے واپس آ کر اپنا نی ہے۔ انسانی سانحے اور ان سے جنم لینے والے غم اور سوز سے بڑھ کر طاقت کے کھیل میں بھی نواز لیگ نے ان واقعات سے خود کو بدترین مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ اب سڑکوں پر نکلنے والوں کے جواز کے بارے میں وفاق اور پنجاب سوال نہیں اٹھا سکتے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی خاکی سازش کا شاخسانہ ہے۔ اب پاکستان عوامی تحریک کے ہرکارکن پر احتجاج میں موجود ہونا واجب ہے۔ اس ملک میں لاشوں کی سیاست کی لا متناہی گنجائش موجود ہے۔
پنجاب حکومت وقتی طور پر اس معاملہ سے نپٹنے کے لیے انتظامی، انضباطی کارروائیاں کر کے لواحقین کو تسلی دے سکتی ہے۔ ذمے داروں کے خلاف مقدمہ اور اس دنیا سے چلے جانے والوں کے خاندان کو معاوضہ کا اعلان کر کے کچھ مشکل کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان، ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر اس تمام حکومتی اقدامات کو غیر موثر کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں (کل فاروق ستار اور جاوید ہاشمی کو اکٹھا کھڑا دیکھ کر پاکستان تحریک انصاف کراچی کے کارکنان کا خیال آ رہا تھا، یقیناً دونوں قیادتوں کی اس قربت سے کافی مطمئن ہوں گے) حکومت کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے سپاہی اور افسران پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے آتشیں اسلحے کے استعمال کا نشانہ بنے ہیں۔
اگر یہ دعویٰ حتمی شواہد کے ساتھ ثابت ہو جاتا ہے تو حکومت کے لیے اس طوفان کے سامنے کھڑا ہونا آسان ہو جائے گا۔ پولیس اہلکاروں پر حملہ ریاست کے خلاف سنگین جرائم میں آتا ہے اور قانونی طور پر ایسے حالات میں شدید رد عمل کا جواز بڑھ جاتا ہے۔ اگر پولیس پر ہونے والے مبینہ حملے کے شواہد نہیں ملتے تو آپ سمجھ لیں کہ پنجاب اور وفاق کی حکومت کو اس وقت ایک مشکل ترین گھڑی کا سامنا ہے۔ شہباز شریف کی پریس کانفرنس بحران کے اس سنجیدہ زاویے کو واضح کرتی ہے جس میں یہ ملک اس وقت پھنس گیا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے سر ی لنکا کے دورے کو موخر کر کے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ ملک کی افواج اس بگڑتی ہوئی صورت حال کو کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب یہ قوم اپنی قیادت کے مطابق حالت جنگ میں ہے۔ سیاسی جنگ کا شکار ہونے والے حکمران حقیقی جنگ کیا اور کیسے لڑیں گے۔ یہ معاملہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کہنے کو شمالی وزیرستان میں قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے مگر حقیقت میں اب اصل لڑائی لاہور اور اسلام آباد میں لڑی جائے گی۔