ماڈل ٹاؤن آپریشن حکومت کیخلاف گرینڈ الائنس کی بنیاد بن سکتا ہے

بعض میڈیا چینلز یہ بریکنگ نیوز نشر کرتے رہے ہیں کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کا حکم دیا تھا

بعض میڈیا چینلز یہ بریکنگ نیوز نشر کرتے رہے ہیں کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کا حکم دیا تھا۔ فوٹو : محمود قریشی / ایکسپریس

لاہور:
لاہور پولیس کے سینکڑوں ''شیر دل''جوانوں نے ماڈل ٹاون میں پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی دفتر اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائشگاہ کے باہر سڑک پر موجود بیرئیرز کو ہٹانے کیلئے شب خون مار کر 8 بے گناہ سیاسی کارکنوں کو جاں بحق اور 51 کارکنوں کو گولیاں مار کر ملک میں ایک نئے سیاسی انتشار اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کی بنیاد رکھ دی ہے۔

پولیس اہلکاروں کی گولیوں سے جاں بحق ہونے والے عوامی تحریک کے 8 بے گناہ کارکنوں کی ہلاکت مسلم لیگ (ن) کے ماتھے پر ہمیشہ کیلئے ایک بدنما داغ بنی رہے گی ۔ سوموار اور منگل کی درمیانی شب تقریبا دو بجے لاہور پولیس نے ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائشگاہ پر دھاوا بولا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائشگاہ کے باہر قائم بیرئیرز اور کنکریٹ بلاکس کی وجہ سے یہ علاقہ ''نو گو ایریا'' بنا ہوا تھا جس کی وجہ سے مقامی آبادی کی جانب سے شکایات موصول ہوئی تھیں جس پر ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ کارروائی کی گئی۔

ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے تو ہر وی آئی پی نے اپنے اپنے گھر کے سامنے، ہر سرکاری دفتر کے ارد گرد بیرئیرز لگے ہوئے ہیں لیکن ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک سڑک پر رکھے چند بیرئیرز کو ہٹانے کیلئے ایک ہزار کے لگ بھگ پولیس فورس جس کی قیادت ایس ایس پی لاہور سمیت درجنوں ایس پیز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کر رہے تھے، اس نے رات دو بجے کارروائی کی اور خودکار ہتھیاروں سے لیس سینکڑوں اہلکاروں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی ہو۔

ٹی وی چینلز پر دکھائی دینے والے مناظر میں پولیس اہلکاروں نے جس بربریت اور درندگی کے ساتھ عوامی تحریک کے کارکنوں پر وحشیانہ تشدد کیا ہے وہ پہلے سے دی گئی ہدایات کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق گجر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے پولیس پر پہلے فائرنگ کی جبکہ 56 گرفتار کارکنوں سے جدید خودکار ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں۔

صورتحال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ پنجاب حکومت کیلئے اس سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے ہمیشہ کی طرح اس واقعہ کا بھی نوٹس لیتے ہوئے جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب نے ایک ہنگامی اجلاس میں پولیس کی سخت سرزنش بھی کی ہے ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی میاں شہباز شریف سے فون پر رابطہ کر کے تفصیلات معلوم کی ہیں۔

پولیس بربریت کے اس خوفناک واقعہ کے خلاف ملک بھر کی سیاسی، مذہبی، سماجی اور کاروباری تنظیموں سمیت عوامی حلقے سراپا احتجاج بن چکے ہیں اور سب اہم رہنماؤں کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری پرویز الہی نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت لاہور کو وزیرستان بنانا چاہتی ہے۔ پاک فوج کی حمایت کرنے والی جماعتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ایم کیو ایم نے آج(بدھ) ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سنی اتحاد کونسل، تحریک جعفریہ کے رہنماوں، تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین سمیت متعدد قومی رہنماؤں نے اپنے بیانات میں پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

یہ نکتہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ 48 گھنٹے قبل پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کیا تھا اور ملک بھر میں قومی یکجہتی کی ایک فضا قائم ہو رہی تھی ۔ ایسے میں محض چند بیرئیرز ہٹانے کے نام پر پولیس کی جانب سے خونی آپریشن کی کیا ضرورت تھی۔ باخبر حلقوں کے مطابق عسکری قیادت بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر غصہ میں ہے اور ان کی رائے میں اس وقت ایسے کسی پولیس آپریشن کی ضرورت نہیں تھی جس سے ملک میں سیاسی انارکی پھیلے اور شمالی وزیرستان آپریشن پر اثر پڑے۔


وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اور لاہور پولیس کے سربراہ چوہدری شفیق گجر جو مرضی بیان بازی کریں اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کریں۔ ملک کے ہر ٹی وی چینل کی سکرین پر گھنٹوں دکھائے جانے والے مناظر اس حقیقت کو آشکار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہزاروں پولیس اہلکاروں پر مشتمل پولیس فورس کا یہ شب خون صرف سڑک پر موجود رکاوٹیں ہٹانے کیلئے نہیں تھا بلکہ اس کے پس پردہ سیاسی عزائم تھے جن کے تانے بانے 23 جون کو ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان واپسی سے جڑے حکومتی خوف سے ملتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تو کئی روز پہلے کہہ دیا تھا کہ حکومت ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد سے خوفزدہ ہو کر کچھ بڑا کرنے والی ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے میڈیا میں یہ خبریں ''لیک'' کی گئی تھیں کہ ایف آئی اے نے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ حکومت کے خلاف جس بھی سیاسی تحریک میں کارکنوں کا خون شامل ہوا، اس تحریک کا خاتمہ حکومت کی برخاستگی پر ہوا ہے۔

گزشتہ روز بھی یہ خبریں میڈیا میں''لیک''کروائی گئیں کہ وزیر اعلی پنجاب کو ماڈل ٹاون آپریشن سے لا علم رکھا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت بالخصوص پنجاب میں میاں شہباز شریف صاحب کے دور اقتدار میں تو بیوروکریسی کی چڑیا ''ان''کی مرضی کے بغیر پر بھی نہیں مار سکتی تو پھر کون اس بات پر یقین کرے کہ 13 گھنٹے تک جاری رہنے والے پولیس آپریشن سے ارباب اقتدار لا علم تھے۔



ایس ایس پی یا ایس پی عہدے کا افسر اس قسم کے تصادم کی صورتحال میں لاٹھی چارج کرنے کا حکم تو اپنی مرضی سے جاری کر سکتا ہے مگر مظاہرین پر خودکار ہتھیاروں کے ذریعے براہ راست گولیاں چلانے کا حکم کوئی پولیس افسر ذاتی حیثیت میں دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ ایسا کوئی بھی حکم نہ صرف اس کے پروفیشنل کیرئر کا خاتمہ کر دے گا بلکہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیل دے گا۔

گزشتہ روز بعض میڈیا چینلز یہ بریکنگ نیوز نشر کرتے رہے ہیں کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کا حکم دیا تھا جبکہ بعض ٹی وی چینلز یہ خبر نشر کرتے رہے کہ موقع پر موجود ایس ایس پی آپریشن رانا جبار نے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کا حکم دیا تھا۔ غیر جانبدار انکوائری ہوئی تو معلوم ہو جائے گا کہ براہ راست فائرنگ کے احکامات کس شخصیت نے جاری کیے تھے۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے 8 کارکنوں کے قتل کا مقدمہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، چوہدری نثار، عابد شیر علی، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، ایس ایس پی آپریشن اور ایس پی ماڈل ٹاون کے خلاف درج کروانے کا اعلان کیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون پاکستان کی سیاست کا رخ موڑ سکتا ہے اور اس واقعے کے بعد حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس بننے کے امکانات واضح ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور معاملے کو اپنی ہٹ دھرمی کا شکار نہ ہونے دے۔ عوامی تحریک کی قیادت بھی اپنے کارکنوں کو اس واقعے کے خلاف پر امن احتجاج کی ہدایت کرے کیونکہ اس وقت ملکی افواج وزیرستان میں ملکی سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اگر ملک کے اندر انارکی پھیلی تو ان کی توجہ بٹ جائے گی جو کہ نہ تو فوجی آپریشن کے لیے سودمند ہے اور نہ ہی جمہوریت کے لیے۔
Load Next Story