مضبوط نظامِ عدل کا قیام

سپریم کورٹ میں ایڈونچرازم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ نظامِ عدل میں ججوں کی تقرری سب سے اہم ہے

gfhlb169@gmail.com

بہترین اور مضبوط نظامِ عدل ہر اچھے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔انسان فطرتاً جھگڑالو ہے، طاقتور کمزور پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔نظامِ عدل اگر مضبوط نہ ہو تو معاشرہ تیزی سے زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

پاکستان بنانے والوں نے نہ جانے کیاکیا خواب دیکھے ہوں گے لیکن آزادی کے 75 سال بعد ہمارا ملک مافیاز کی جنت بن چکا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا کمزور نظامِ عدل ہے۔یوں تو ہماری عدالتیں فیصلے سنا رہی ہیں لیکن پاکستان کے عوام اپنی عدلیہ سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ایک مضبوط نظام ِ عدل مجرمانہ ذہنیت کی حوصلہ شکنی اور مجرمانہ کاروائیوں کے آگے بند باندھتا ہے، مضبوط اور فعال نظامِ عدل معاشرے میں ہر ایک کے حقوق کا یکساں ضامن ہوتا ہے۔

معاشرے میں سوشل آرڈر برقرار رکھنے کے لیے انصاف کی فراہمی ضروری ہوتی ہے۔ جب لوگوں کو یہ یقین ہو کہ ان کی عدالتیں ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دیں گی تو ایسی ریاست کے شہریوں کے اندر بے پناہ اعتماد پیدا ہو جاتا ہے،ریاست کے اوپر بھروسہ جنم لیتا ہے ،شہری اپنی ریاست سے محبت کرنے لگتے ہیں اور شہریوں کی محبت و لگن کی وجہ سے ریاست مضبوط ہوتی ہے۔شہری کو یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی نا انصافی کا شکار ہوا تو صرف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی دیر ہے اس کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی ہے۔

اس کا ازالہ ہو جائے گا۔نظامِ عدل اگر مضبوط ہو تو حکومت کی رِٹ مضبوط ہو جاتی ہے اور کسی کو بھی یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے میں انارکی پھیلائے اور انتشار کا باعث بنے۔انصاف کا ایک مضبوط نظام ہر شہری کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قانون کے سامنے جواب دہ سمجھے۔جب سارے شہری قانون کے سامنے برابر ہوں تو صاحب ثروت و اقتدار کسی بھی زیادتی کا مرتکب ہونے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتا ہے،یوں عوام زیادتیوں سے بچے رہتے ہیں۔ ایک مضبوط نظامِ عدل اصلی جمہوریت کی بنیاد بنتا ہے اور قانون کی حکمرانی یقینی بناتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججز نے سپریم کورٹ کو ایک خط لکھ کر عدالتی معاملات میں مداخلت کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے جس پر عدالتی کاروائی شروع ہو گئی ہے۔ 26اپریل کو لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج اور مستقبل کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے خطاب کیا۔آپ کا خطاب بہت پر مغز،اہم اور ہر حوالے سے قابل توجہ تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا نظامِ عدل اچھا نہیں۔بہت سے ججز ڈیلیور نہیں کر رہے۔ججز کو نکالنا،انھیں فارغ کرنا آسان نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بھی جج اپنا کام بخوبی نہ کر رہا ہو اسے بیس تیس سال تک برداشت کرنے کے بجائے فوراً نکال باہر کیا جائے۔ہمارا جوڈیشل انڈیکس 142ممالک میں 130ہے۔یہ انڈیکس ریٹنگ افسوسناک ہے۔اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔جس ملک میں نظامِ عدل اتنا کمزور ہو گا وہاں کوئی بھی نظام، نہیں چلے گا لیکن اگر نظامِ ِ انصاف مضبوط ہو تو دیگر ادارے بھی مضبوط ہو جاتے ہیں۔


انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اپنے اختیارات کمیٹی کو دے کر نظام کو مضبوط کرنے کی بنیاد ڈال دی ہے۔ ہمیں شخصیتوں اور افراد کے سحر سے نکل کر ایک مضبوط نظام کی جانب بڑھنا ہو گا۔

مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ ججوں کی بھرتی کے طریقے کار پر نظر ثانی اشد ضروری ہے۔ عدلیہ میں مداخلت کے خلاف پوری عدلیہ متحد ہے،پتہ نہیں کیوں کچھ حلقوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ سپریم کورٹ کو مضبوط اور ٹھیک کرنے کے لیے اسے نظام کے تابع کرنا ہوگا۔ ایک چیف جسٹس نظامِ انصاف کو ایک طرف لے جاتا ہے تو آنے والا چیف جسٹس دوسری طرف لے جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایڈونچرازم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ نظامِ عدل میں ججوں کی تقرری سب سے اہم ہے۔ جج اگر اچھے،باکردار اور اہلیت کے حامل ہوں تو ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔

امریکا میں فیڈرل کورٹ کا جج بننے کے لیے کوئی تعلیمی قابلیت نہیں رکھی گئی۔فیڈرل جج بننے کے لیے امریکا میں پیدا ہونا یا بچپن سے شہری ہونا بھی لازم نہیں۔وہاں ایک جج ایسا بھی تھا جس نے میٹرک بھی نہیں کیا ہوا تھا۔چودہ ججز امریکا میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔بھارت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت پانچ ججوں کا ایک کالیجیمCollegiumہے جو تقرری کی سفارش کرتا ہے۔اصل میں ججز کی تقرری تعلیم،اہلیت اور اعلیٰ کردار پر مبنی انتہائی شفاف طریقے سے ہونی چاہیے۔

سفارش بالکل بھی نہیں چلنی چاہیے ۔ہمارا نظامِ عدل سائل کو کنگال کر دیتا ہے۔غلط مقدمے کا اندراج کروانے والے پر مقدمے کی مکمل لاگت ڈالنی چاہیے تاکہ اوروں کو نصیحت ہو۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بہت اچھی باتیں ہوئیں لیکن بہتر نتیجہ تب نکل سکتا ہے جب ان باتوں پر عمل ہو۔آلٹرنیٹ جوڈیشل سسٹم کو جلد از جلد قائم کر کے جھگڑوں کو مقامی سظح پر ختم کرنا بہتر ہے۔ پنچایت ،ثالثی کونسل اور سمال ڈسپیوٹس کورٹس جلد از جلد قائم ہونی چاہئیں اور ان کو با اختیار بنا کر جھگڑوں کو مقامی سطح پر حل کریں۔

اس سے ہماری عدالتوں پر بوجھ کم ہو گا،ہمیں وکلاء کے کنڈکٹ کو بھی سدھارنے کی اشد ضرورت ہے۔وکلاء گردی کا خاتمہ ضرور ہونا چاہیے۔وکلاء بھی انصاف کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔بار کونسلز ججز پر دباؤ ڈالتی ہیں۔وکیل انصاف کے لیے نہیں بلکہ اپنے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔ہمیں جج تعینات کرتے ہوئے از حد احتیاط کا دامن پکڑنا ہو گا۔یہ مناسب ہوگا کہ جس کو بھی جج بنایا جا رہا ہو اس کا نام مشتہر کر کے اس کے محلے،اور علاقے کے لوگوں سے ایک ماہ کے اندر رائے لی جائے۔جج کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے کوئی میکانزم ہونا چاہیے۔

ہماری آبادی کا تقریباً نصف خواتین پر مشتمل ہے لیکن عدلیہ میں ان کی تعداد نسبتاً کافی کم ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ میں دو خواتین جج تعینات ہو چکی ہیں۔یہ تعداد بڑھا نی ہو گی۔

خواتین ملزموں اور درخواست گزاروں کے بہت سے ایسے معاملات ہوتے ہیں جن کو خواتین ججز بہتر حل کر سکتی ہیں۔عدالتی اہلکاروں اور ججز کی تربیت اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہت بہتری آ سکتی ہے۔تعلیم کے ساتھ تربیت،اہلیت کو بڑھاتی اور صلاحیتوں کو نکھارتی ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز کیس سنا جا رہا ہے، لگتا ہے صحیح سمت میں سفر شروع ہو گیا ہے۔
Load Next Story