انقلاب کے پَردوں میں چُھپی خواہشیں

پھرلوگوں نے اُنھیں اُسی ٹولے کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے بھی دیکھا اوراعلیٰ عدلیہ کیخلاف مبینہ دھاندلی کا الزام لگاتے۔۔

mnoorani08@gmail.com

صاحب ِ علم و دانش جناب ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک بار پھر ملک میں انقلاب برپا کرنے کی خواہش اور تمنا ستانے لگی ہے۔ گزشتہ برس وہ جمہوریت نہیں ریاست بچانے کی سحر انگیز اور انقلاب پر ور حسرتیں لیے الیکشن سے چند روز قبل اسلام آباد میں ڈی چوک پر اپنے چاہنے والوں کے ہمراہ میلہ سجائے بیٹھے تھے۔ اُن چار دنوں میں اُنہوں نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ خود ایئر کنڈیشنڈ کنٹینر میں محفوظ و مطمئن اور عوام سخت سردی میں کسی انہونے انقلاب کی آمد کے انتظار میں حیران و پریشاں۔ چار دن تک وہ صاحب کبھی حکمرانوں کو یزیدی ٹولہ کہتے رہے اور کبھی سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔

پھر لوگوں نے اُنھیں اُسی ٹولے کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے بھی دیکھا اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مبینہ دھاندلی کا الزام لگاتے بھی دیکھا۔ کیسے کیسے دلنشیں اور مسرور کُن وعدے اور عہد و پیمان کیے گئے۔ حاضرین سے حلفیہ عہد لیا گیا کہ وہ ہر صورت میں اُس وقت تک ثابت قدمی اور دل جمعی سے دھرنے میں بیٹھے رہیں گے جب تک کہ کامیابی نہیں ہو جاتی۔ پھر اچانک چار روز بعد اُسی یزیدی حکمرانوں کے ساتھ ایک ایسے سجھوتے کے تحت دھرنا ختم کرنے کا اعلان فرماتے ہیں جس کے طے شدہ معاملات اور نکات ابتدا ہی سے مبہم اور مشکوک تھے اور جس پر عملدرآمد کا کوئی امکان بھی نہ تھا۔

بس شیخ الاسلام کو اپنے لوگوں کے سامنے دھرنے کا باعزت خاتمہ مطلوب تھا جو بطریق ِ احسن ترتیب دے دیا گیا۔ پھر اپنے وطن سے محبت کا دم بھرنے والے کینیڈین شہریت کے حامل جناب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب جہاں سے تشریف لائے تھے ایک بار پھر وہیں جا بسے۔ اب ایک سال بعد اُنھیں پھر اپنی قوم کا درد ستانے لگانے لگا ہے ا ور وہ اِس قوم کو موجودہ حکمرانوں سے نجات دلانے کے لیے بڑے مضطرب و بے چین ہوئے جا رہے ہیں۔ اُن کی دانست میں موجودہ حکمران ملک کو تباہ و برباد کر رہے ہیں او ر اگر وہ مزید بر سرِاقتدار رہے تو خدانخواستہ وطنِ عزیز اپنا وجود و سالمیت بھی برقرار نہ رکھ پائے گا۔

اِس خوفناک اور ابتر صورتحال سے ملک کو باہر نکالنے والے وہی ایک پُر خلوص واحد مسیحا اور نجات دہندہ بنکر اُبھرے ہیں۔ ملک کے اندر ہزاروں سیاستدانوں میں کوئی بھی اُن کے ہم پلہ اور ہم پایہ نہیں ہے۔ قوم کا درد اور دکھ اُنھیں سخت بے چین کیے جا رہا ہے اور وہ مجبوراً 23 جون کو اسلام آباد میں اُتر رہے ہیں۔ اُن کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کرنے والوں میں سرِ فہرست شیخ رشید اور چوہدری برادران ہیں جو گزشتہ سات برسوں سے اقتدار کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں لیکن بھر پور عوامی پذیرائی اُنھیں تاحال نصیب نہ ہو سکی ہے۔ لہٰذا وہ کسی ایسے کاندھوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جن پر سوار ہو کر وہ اسلام آباد میں حکمرانی کے مزے لوٹ سکیں۔

جناب شیخ رشید کی بے چینی کا حال تو ایسا ہے کہ وہ کبھی عمران خان کو حکومت کے خلاف محاذ آرائی پر اُکساتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی چوہدری برادران کو اور جب اِن دونوں سے اُنھیں نا اُمیدی ہونے لگتی ہے تو وہ کسی تیسرے شخص کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت گرانے کی اپنی پیشین گوئیوں کو درست اور صحیح ثابت کرنے کی جستجو میں وہ گزشتہ چھ برسوں سے سرگرداں ہیں لیکن اُنھیں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ پہلے وہ زرداری صاحب کی حکومت کے خاتمے کی نئی نئی تاریخیں دیتے رہے اب یہی کام اُنہوں نے اِس حکومت کے خلاف بھی شروع کر رکھا ہے۔ اپنے خوابوں کی حسین تعبیر کے لیے اُنہوں نے افواجِ پاکستان سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کی ہیں۔ دیکھتے ہیں کب اُنھیں سر خروئی نصیب ہوتی ہے۔


ہماری فوجی قیادت فی الحال سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے گریزاں ہے اِسی لیے شیخ رشید کے ارمانوں کو قرار نہیں مل پا رہا اور اب وہ مجبوراً شیخ الاسلام کے ساتھ مل کریہ معرکہ سر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی دونوں بھائی جناب پرویز مشرف کے جانے کے بعد مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ اُن کی بنائی ہوئی (ق) لیگ شیرازہ بندی کے عمل سے دوچار ہے اور عوام الناس کی کوئی تھوڑی سی توجہ بھی اُن کی دل جوئی کے لیے میسر نہیں۔ اپنا سیاسی بخار اُتارنے کے لیے اُنھیں طاہرالقادری سے بہتر شخص کوئی مل نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا پہلی فرصت میں وہ لندن یاترا کے سفر پر نکل پڑے اور شیخ الاسلام کو اپنی تمام حمایتوں اور ہمدردیوں کا یقین دلا کر خود اپنے سیاسی وجود کے بھی باقی رہنے کا ساماں پیدا کر گئے۔

گزشتہ برس اُنھیں یہ خیال اِس لیے نہ آیا چونکہ وہ اُس وقت اپنے فرزندِ ارجمند محسن الٰہی کو بچانے کی غرض سے زرداری صاحب کے ہم نوالہ اور ہم رکاب بنے ہوئے تھے۔ اِدھر ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل سے فارغ ہونے والے ایک اینکر نے بھی اگلے چند ماہ اُسی انقلابی رہنما کے ہمراہ ساتھ نبھانے کا اعلان کر دیا ہے جس کا پاکستان میں مستقل قیام کسی طور ممکن ہی نہیں ہے۔ اُنھیں پاکستان سے زیادہ کینیڈا کی شہریت عزیز ہے جہاں اُن مصائب و مشکلات کا ہرگز سامنا نہیں رہتا جن سے اِس ملک کے لوگ روزانہ نبرد آزما ہیں۔

اِنہی چند ساتھیوں کی حمایت اور شہ پر طاہرالقادری اسلام آباد میں ہلچل مچانے تشریف لا رہے ہیں۔ بقول ڈاکٹر طاہر القادری23 جون کو منعقد ہونے والا دھرنا بالکل پُر امن اور توڑ پھوڑ اور تشدد سے مبرا ہو گا۔ لیکن اُن کا ساتھ نبھانے والوں کی نیت اور ارادوں کا ذمہ وہ ہرگز لینے کو تیار نہیں جو اُن کے ساتھ شامل ہی اِس مقصد سے ہوئے ہیں کہ موقعہ غنیمت جان کر اشتعال انگیزی اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے حکومت وقت کو ٹف ٹائم دے سکیں۔

جس انقلاب کے وہ بہت بڑے داعی اور دعویدار بن رہے ہیں اُس انقلاب کے خد و خال اور ممکنات خود اُن سمیت کسی کو بھی پتہ نہیں۔ وہ کِس طرح پایہ تکمیل کو پہنچے گا یہ ابھی تک واضح نہیں۔ جمہوریت اور موجودہ الیکشن کمیشن پر اُنھیں اعتماد اور یقین نہیں۔ اِسی لیے وہ ملکی انتخابات میں حصہ لینا بھی پسند نہیں فرماتے۔ توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کے وہ قائل نہیں پھر نجانے وہ کِس طرح اِس عوامی انقلاب کو کامیاب بنا پائیں گے۔ ہاں ایک بات یقینی ہے کہ اگر اِس لولی لنگڑی جمہوریت کا تیہ پانچا کر دیا جاتا ہے تو پھر نئی آنے والی حکومت جمہوری اور انقلابی ہر گز نہ ہوگی۔

ایک غیر جمہوری اور غیر آئینی حکومت ہمارے سروں پر مسلط کر دی جائے گی جو پھر کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو گی۔ نہ کوئی پارلیمنٹ ہو گی نہ کوئی عوامی عدالت۔ اُس کا جو دل چاہے گا وہ ہو کر رہے گا۔ اُس کا ہر حکم فرمانِ امروز کی مانند ہو گا جس کی تعمیل فوراً اور جبراً کی جائے گی۔ شاید الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی تمام آزادی سلب اور ضبط کر لی جائے گی۔ عوام کے مسائل کا حل اور ملک کی تعمیر و ترقی سب ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ ممکن ہے یہی خواہشیں اور تمنائیں اِس نام نہاد انقلاب کے پردوں میں چُھپی ہوں۔
Load Next Story