پاکستان کی خلائی سائنس میں اہم پیش رفت

پاکستان کی سائنسی ترقی میں یہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا

پاکستان کی سائنسی ترقی میں یہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ فوٹو: اسکرین گریب

خلائی سائنس کے شعبے میں امریکا اور روس کی ترقی اور مہارت مسلمہ ہے، چین اور بھارت نے بھی خلائی سائنس میں خاصی ترقی کی ہے، برطانیہ، فرانس اور جاپان بھی اس شعبے میں خاصی ترقی کر چکے ہیں، پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں، اس لیے پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر بھی ہیں کہ وہ خلائی سائنس میں کتنی ترقی کرتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق چین کے تعاون سے پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ "آئی کیوب قمر" چاند کے گرد چکر لگانے کے لیے خلا میں روانہ ہوگیا ہے۔ "آئی کیوب قمر" کو چین کی خلائی شٹل کے ذریعے خلا کی بلندیوں میں روانہ کیا گیا ہے اور یہ سبز ہلالی پرچم کا حامل ہے۔

خلائی سائنس میں پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس پیش رفت سے پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے، خبروں کے مطابق یہ سیٹلائٹ چین کے شہر ہینان کے "وینچینگ خلائی سینٹر" سے چین کے خلائی مشن "چینگ ای 6" کے ساتھ جمعہ کو دن 2 بج کر 27 منٹ پر خلا کے لیے روانہ ہوا۔

اعداد وشمار کے مطابق "آئی کیوب قمر" کا وزن 7 کلو گرام ہے۔ یہ 5 روز کے دوران 3لاکھ 84ہزار کلومیٹر کا سفرطے کرکے 8 مئی کو چاند کے مدار میں پہنچ جائے گا۔ سیٹلائٹ لانچنگ کے موقع پر انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آبادکے آڈیٹوریم میں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی، اس تقریب میں سیٹلائٹ بنانے والی ٹیم کے ارکان اور سیکڑوں طلبہ نے شرکت کی۔

لانچنگ آڈیٹوریم میں سیٹلائٹ روانہ ہونے کا منظر لائیو دکھایا گیا، جیسے ہی سیٹلائٹ خلا کی جانب روانہ ہوا، آڈیٹوریم میں موجود سائنسدانوں اورطلبہ نے نعرہ تکبیر، پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اسپارکو کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر تالیوں سے گونج اٹھا۔

میڈیا میں شایع ہونے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ "آئی کیوب قمر" کو انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی نے شنگھائی یونیورسٹی اور نیشنل سپیس ایجنسی اسپارکو کے تعاون سے ڈیزائن کیا جو 2 سال کی قلیل مدت میں تیار کیا گیا ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کی کور کمیٹی کے رکن ڈاکٹر خرم خورشید کے حوالے سے یہ خبر شایع ہوئی ہے کہ یہ دنیا کا پہلا مشن ہے جو چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرے گا، یہ سیٹلائٹ چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے دو آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے، ٹیسٹنگ اور قابلیت کے مراحل سے کامیابی سے گزرنے کے بعد اسے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ مشن 3 سے 6 ماہ تک چاند کے گرد چکر لگائے گا۔

اس کامیابی کے بعد پاکستان کے پاس چاند کی اپنی سیٹلائٹ تصاویر ہوں گی۔ چونکہ یہ سیٹلائٹ پاکستان کا ہے، اس لیے اس کا ڈیٹا بھی پاکستان ہی استعمال کرے گا تاہم چینی نیٹ ورک کے استعمال کی وجہ سے چین کے سائنس دان بھی یہ ڈیٹا استعمال کرسکتے ہیں۔

پاکستان کی سائنسی ترقی میں یہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ آج کی دنیا میں خلائی سائنس میں ترقی کرنا برتری حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ امریکا کا اسٹار وار پروگرام اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ آج بھی دنیا پر امریکا کی عسکری اور تکنیکی برتری خلائی سائنس میں ترقی کی بدولت ہے۔ بھارت کے خلائی سائنس دانوں نے چند ماہ پہلے "چندریان" نامی خلائی مشن چاند پر کامیابی سے اتار رکھا ہے۔ یقینا یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔


پاکستان کے عوام کی بھی یہ دلی تمنا ہے کہ پاکستان بھی اس شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دے۔ فی الحال پاکستان کے مشن کا بھارتی "چندریان" سے موازنہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ چندریاں بڑا مشن تھا جس نے چاند پر لینڈنگ کی جب کہ پاکستان کا "آئی کیوب قمر" مستقبل میں بڑے مشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک چھوٹا پروجیکٹ ہے، یہ چاند کے مدار میں چکر لگائے گا۔

ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے رکن ڈاکٹرریحان نے کہا کہ یہ چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرنے والا دنیا کا پہلا مشن 53 روز پر مشتمل ہوگا۔ مشن میں چاند کے چکر لگانا، ٹیک آف کرنا اور واپس پہنچنا شامل ہے۔ یہ 2 کلو گرام تک کا مادہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

آئی ایس ٹی حکام نے بتایا کہ 2022میں چین کی نیشنل سپیس ایجنسی نے ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن کے ذریعے رکن ممالک کو چاند کے مدار تک مفت پہنچنے کا منفرد موقع فراہم کیا، اس پر رکن ممالک جن میں پاکستان، بنگلا دیش، چین، ایران، پیرو، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی شامل ہیں، سب نے اپنے منصوبے بھیجے، انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی نے پاکستان کی جانب سے منصوبہ جمع کرایا، 8 ممالک میں سے صرف پاکستان کا منصوبہ قبول کیا گیا ہے۔ یقینا جو ایک خوش آیند بات ہے اور پاکستان کے سائنس دانوں کی محنت کا واضح ثبوت ہے۔

اس سیٹلائٹ کی روانگی سے پاک چین تعلقات میں ایک اور اہم سنگ میل کا اضافہ ہوا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آئی کیوب قمر کی کامیاب لانچنگ پاکستان کے خلائی پروگرام کے لیے سنگ میل ثابت ہو گی، پوری پاکستانی قوم کو اس اہم کامیابی پر فخر ہے۔

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بھی چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ بھجوانے پر قوم اور سائنسدانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری میدان کی طرح اس میدان میں بھی ہمارے سائنسدان، انجینئرز اور ہنرمند اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں، اس اہم کامیابی سے پاکستان خلا کے بامقصد استعمال کے نئے دور میں داخل ہو گیا ہے اور سیٹلائٹ کمیونی کیشن کے شعبے میں پاکستان کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔

پاکستان اپنے محدود وسائل کے باوجود سائنسی ترقی میں آگے بڑھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ پاکستانی سائنس دانوں کی یہ ہمت اور ذہانت ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود انھوں نے دن رات محنت کر کے سیٹلائٹ تیار کیا جو کامیابی سے خلائی سفر پر روانہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور دیگر ممالک کے پاس وسائل کہیں زیادہ ہیں۔ سنگاپور، ایران اور ترکی وغیرہ بھی پاکستان سے زیادہ بجٹ سائنسی ترقی پر خرچ کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان نے دیگر ممالک کی نسبت سائنسی شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

چین کے تعاون سے بھیجے گئے "آئی کیوب قمر" کی کامیابی کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اس شعبے میں مزید کامیابی حاصل کرے گا۔ اس سلسلے میں بھارت کے سائنس دانوں کی مثال کو اپنایا جا سکتا ہے۔ بھارتی خلائی مشن "چندریان" پر انتہائی کم لاگت آئی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور روس وغیرہ نے اپنے جو مشن چاند پر اتارے ہیں، ان پر لاگت کہیں زیادہ آئی ہے۔ گو بھارت کا مشن ناکام بھی ہوا، خاص طور پر وہ مشن جو سارا سفر کامیابی سے طے کر کے منزل کے انتہائی قریب پہنچ کر ناکام ہوا، اس سے یہی لگتا تھا کہ شاید بھارت دوبارہ اتنی جلدی اپنا مشن چاند پر نہیں بھیج سکے گا لیکن بھارت کے سائنس دانوں نے محنت جاری رکھی، جو نقائص سے انھیں دور کیا اور پھر کامیابی حاصل کی اور وہ بھی انتہائی کم خرچ میں۔ پاکستان کو بھی اس طریقے پر چلنا ہو گا۔

پاکستان معاشی حوالے سے مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ غیرملکی اور ملکی قرضوں کے بوجھ نے ملکی معیشت کا سانس روک رکھا ہے۔ بہرحال اب پاکستان کسی حد تک معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ قرض پروگرام کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں، اس وجہ سے دنیا کے دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کرنے میں بھی آسانی پیدا ہو گئی ہے لیکن ایسی صورت حال میں خلائی شعبے کے لیے بھاری رقوم کا بندوبست کرنا انتہائی جان جوکھم کا کام ہے۔

ہمارے پالیسی سازوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں اور بجٹ سازی میں ضروری شعبوں کے لیے رقم مختص کریں۔ تعلیم خصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے ماضی کے مقابلے میں زیادہ رقم مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں اور ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں کو اس حوالے سے آگے بڑھ کر کردار کرنے کی ضرورت ہے۔

کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس ملک کی رولنگ کلاس اپنی مراعات کم نہیں کرتی۔ پاکستان کے پاس پوٹینشل موجود ہے۔ افرادی قوت بھی موجود ہے اور ذہانت ومہارت کی بھی کوئی کمی نہیں۔ پاکستان کی رولنگ کلاس ریاست کے سسٹم میں جو چور دروازوں کو آئین اور قانون سازی کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دے تو پاکستان کے لیے غیرملکی قرض اتارنا بھی ممکن ہو جائے گا اور معاشی استحکام بھی حاصل ہو جائے گا۔
Load Next Story