ن لیگ میں طاقت کے توازن کی تبدیلی……
یہ بحث کہ نائب وزیراعظم کا عہدہ غیرآئینی یا نمائشی ہوتا ہے، یہ غیر متعلقہ مباحثہ ہے
وزیر خارجہ اسحاق ڈارکی بطور نائب وزیراعظم تقرری پر مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم کے عہدے تفویض کیے جانے کا اعلان ایسے وقت سامنے آیا جب وزیر اعظم شہباز شریف اور خود وزیر خارجہ اسحاق ڈار ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب میں تھے۔
کابینہ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے مطابق یہ تقرری 28 اپریل 2024 سے موثر ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق رولز آف بزنس 1973 وزیراعظم کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں معاونت کے لیے نائب وزیر اعظم سمیت کوئی بھی تقرری کر سکتے ہیں۔
یہ بحث کہ نائب وزیراعظم کا عہدہ غیرآئینی یا نمائشی ہوتا ہے، یہ غیر متعلقہ مباحثہ ہے،کیونکہ ماضی میں نائب وزیر اعظم کی تقرری کی ایک سے زائد مثالیں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، اگر ہم پاکستان میں نائب وزیر اعظم کی تقرری کا تاریخی طور پر جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسحاق ڈار پاکستان کے چوتھے نائب وزیر اعظم مقرر ہوئے ہیں۔
اسحاق ڈار چار بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ وہ دو بار سینیٹ کے رکن بھی رہے، وہ2008 میں مختصر مدت کے لیے وزیر خزانہ کے عہدے پر رہے اور 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعد وزیر خزانہ کے لیے انہی کا نام سامنے آتا رہا ہے۔
ملک کی تاریخ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے نائب وزیر اعظم بنے تھے، انہیں سقوط مشرقی پاکستان سے صرف ایک ہفتے قبل سات دسمبر 1971 میں اس عہدے پر فائزکیا گیا تھا، جبکہ سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنما نور الامین کو وزیر اعظم مقررکیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نائب وزیر اعظم کے عہدے پر محض دو ہفتوں تک ہی تعینات رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، جو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز رکھتی ہیں، کی طرح بیگم نصرت بھٹو کو ملک کی پہلی خاتون نائب وزیر اعظم مقرر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ پارلیمانی تاریخ میں نصرت بھٹو کو دوسرا نائب وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
جون 2012 میں پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم اور موجودہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو اس وقت کے وزیر اعظم پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف نے نائب وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ چوہدری پرویز الہی ملکی جمہوری تاریخ کے تیسرے نائب وزیر اعظم ہیں۔
راجا پرویز اشرف کی حکومت سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم بنانے سے انکارکردیا تھا، تاہم ان کی برطرفی کے بعد پی ایم ایل کیو نے دیگر مطالبات کے علاوہ پیشگی شرط کے طور پر نائب وزیر اعظم کے دفتر کے قیام کو بھی پیش کیا تھا، پرویز الٰہی اس عہدے پر مارچ 2013 تک تعینات رہے تھے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں معروضی حقائق کی روشنی میں اسحاق ڈارکو اضافی منصب پر تقرری کا جائزہ لیں تو اس کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ نائب وزیر اعظم کا عہدہ محض نمائشی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا تو یہ سوچنا اور سمجھنا غلط اور موجودہ زمینی حقائق کے منافی ہوگا، اسحاق ڈارکی نواز شریف سے قربت کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مسلم لیگ ن میں اثر و رسوخ حاصل ہے، وہ بطور وزیر خارجہ ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کے عمل کی نگرانی کرتے رہے ہیں، تو یہ امر خارج از امکان ہوگا کہ نائب وزیراعظم بننے کے بعد وہ معاشی معاملات سے دور رہیں گے۔
اگرچہ وہ ایس آئی ایف سی کی فیصلہ سازی پر اثرانداز نہیں ہوپائیں گے لیکن اگر سیاسی سطح پر حکومتی فیصلے ہورہے ہوں تو وزیر خارجہ یا نائب وزیراعظم وہاں موجود ہوں گے۔ درحقیقت اقتصادی اور مالیاتی معاملات میں وہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کے فیصلوں کا اثر وہاں ہوگا جہاں شہباز شریف بطور وزیراعظم کام کر رہے ہیں۔ یہ قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور حکومتی ترجمانوں کے علاوہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ ایک معمول کا فیصلہ ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔
بعض تجزیہ نگار اس تقرری کو پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی مکمل اور بااختیار وزیراعظم بننے کی کوشش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف اب کی بار خود اقتدار میں نہیں ہیں لیکن حکمران جماعت کے قائد ہونے کی حیثیت سے وہ خود کو کنگ میکر ضرور سمجھ رہے تھے، ان تجزیہ نگاروں کی یہ رائے ہے کہ اسحاق ڈار کی تقرری کے ذریعے نواز شریف نے نہ صرف جماعت کے اندر بلکہ حکومتی سطح پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے بلکہ واپس حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسحاق ڈارکی تقرری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ آنیوالا وقت ہی بتا سکے گا کہ اسحاق ڈار بطور ڈپٹی وزیر اعظم، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے یا نہیں؟ اس تقرری کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈارکو نائب وزیر اعظم مقررکرنے کی خواہش اگر وزیر اعظم شہباز شریف کی ہوتی تو یہ تقرری کابینہ کے اعلان کیساتھ ہی ہوجاتی، اب اسحاق ڈارکی بطور نائب وزیر اعظم تقرری سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ شاید میاں نواز شریف کچھ تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ تقرری شاید مسلم لیگ ن کے اندرطاقت کا توازن تبدیل کرنے کی جانب پہلا قدم بھی ہوسکتا ہے۔
اسحاق ڈار کے نائب وزیر اعظم بن جانے سے مسلم لیگ ن کے اندر طاقت کا توازن تبدیل ہوگا کہ نہیں، اگر تبدیل ہوا تو کس حد تک ہوگا۔ اس کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
کابینہ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے مطابق یہ تقرری 28 اپریل 2024 سے موثر ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق رولز آف بزنس 1973 وزیراعظم کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں معاونت کے لیے نائب وزیر اعظم سمیت کوئی بھی تقرری کر سکتے ہیں۔
یہ بحث کہ نائب وزیراعظم کا عہدہ غیرآئینی یا نمائشی ہوتا ہے، یہ غیر متعلقہ مباحثہ ہے،کیونکہ ماضی میں نائب وزیر اعظم کی تقرری کی ایک سے زائد مثالیں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، اگر ہم پاکستان میں نائب وزیر اعظم کی تقرری کا تاریخی طور پر جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسحاق ڈار پاکستان کے چوتھے نائب وزیر اعظم مقرر ہوئے ہیں۔
اسحاق ڈار چار بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ وہ دو بار سینیٹ کے رکن بھی رہے، وہ2008 میں مختصر مدت کے لیے وزیر خزانہ کے عہدے پر رہے اور 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعد وزیر خزانہ کے لیے انہی کا نام سامنے آتا رہا ہے۔
ملک کی تاریخ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے نائب وزیر اعظم بنے تھے، انہیں سقوط مشرقی پاکستان سے صرف ایک ہفتے قبل سات دسمبر 1971 میں اس عہدے پر فائزکیا گیا تھا، جبکہ سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنما نور الامین کو وزیر اعظم مقررکیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نائب وزیر اعظم کے عہدے پر محض دو ہفتوں تک ہی تعینات رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، جو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز رکھتی ہیں، کی طرح بیگم نصرت بھٹو کو ملک کی پہلی خاتون نائب وزیر اعظم مقرر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ پارلیمانی تاریخ میں نصرت بھٹو کو دوسرا نائب وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
جون 2012 میں پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم اور موجودہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو اس وقت کے وزیر اعظم پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف نے نائب وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ چوہدری پرویز الہی ملکی جمہوری تاریخ کے تیسرے نائب وزیر اعظم ہیں۔
راجا پرویز اشرف کی حکومت سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم بنانے سے انکارکردیا تھا، تاہم ان کی برطرفی کے بعد پی ایم ایل کیو نے دیگر مطالبات کے علاوہ پیشگی شرط کے طور پر نائب وزیر اعظم کے دفتر کے قیام کو بھی پیش کیا تھا، پرویز الٰہی اس عہدے پر مارچ 2013 تک تعینات رہے تھے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں معروضی حقائق کی روشنی میں اسحاق ڈارکو اضافی منصب پر تقرری کا جائزہ لیں تو اس کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ نائب وزیر اعظم کا عہدہ محض نمائشی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا تو یہ سوچنا اور سمجھنا غلط اور موجودہ زمینی حقائق کے منافی ہوگا، اسحاق ڈارکی نواز شریف سے قربت کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مسلم لیگ ن میں اثر و رسوخ حاصل ہے، وہ بطور وزیر خارجہ ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کے عمل کی نگرانی کرتے رہے ہیں، تو یہ امر خارج از امکان ہوگا کہ نائب وزیراعظم بننے کے بعد وہ معاشی معاملات سے دور رہیں گے۔
اگرچہ وہ ایس آئی ایف سی کی فیصلہ سازی پر اثرانداز نہیں ہوپائیں گے لیکن اگر سیاسی سطح پر حکومتی فیصلے ہورہے ہوں تو وزیر خارجہ یا نائب وزیراعظم وہاں موجود ہوں گے۔ درحقیقت اقتصادی اور مالیاتی معاملات میں وہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کے فیصلوں کا اثر وہاں ہوگا جہاں شہباز شریف بطور وزیراعظم کام کر رہے ہیں۔ یہ قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور حکومتی ترجمانوں کے علاوہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ ایک معمول کا فیصلہ ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔
بعض تجزیہ نگار اس تقرری کو پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی مکمل اور بااختیار وزیراعظم بننے کی کوشش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف اب کی بار خود اقتدار میں نہیں ہیں لیکن حکمران جماعت کے قائد ہونے کی حیثیت سے وہ خود کو کنگ میکر ضرور سمجھ رہے تھے، ان تجزیہ نگاروں کی یہ رائے ہے کہ اسحاق ڈار کی تقرری کے ذریعے نواز شریف نے نہ صرف جماعت کے اندر بلکہ حکومتی سطح پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے بلکہ واپس حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسحاق ڈارکی تقرری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ آنیوالا وقت ہی بتا سکے گا کہ اسحاق ڈار بطور ڈپٹی وزیر اعظم، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے یا نہیں؟ اس تقرری کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈارکو نائب وزیر اعظم مقررکرنے کی خواہش اگر وزیر اعظم شہباز شریف کی ہوتی تو یہ تقرری کابینہ کے اعلان کیساتھ ہی ہوجاتی، اب اسحاق ڈارکی بطور نائب وزیر اعظم تقرری سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ شاید میاں نواز شریف کچھ تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ تقرری شاید مسلم لیگ ن کے اندرطاقت کا توازن تبدیل کرنے کی جانب پہلا قدم بھی ہوسکتا ہے۔
اسحاق ڈار کے نائب وزیر اعظم بن جانے سے مسلم لیگ ن کے اندر طاقت کا توازن تبدیل ہوگا کہ نہیں، اگر تبدیل ہوا تو کس حد تک ہوگا۔ اس کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں ہے۔