مفاہمت کی سیاست کو درپیش چیلنجز
اگرواقعی مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا ہے تو حکومت کا طرزعمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عملا مفاہمت کی عملی کے برعکس ہو
ملک کی سیاست اور معیشت کی ترقی کا بنیادی نقطہ تمام فریقین کے درمیان چند اہم اور بنیاد ی نکات پر اتفاق سے جڑا ہوا ہے۔
اتفاق سے مراد ہے کہ سیاسی یا گروہی مفادات کے بجائے پاکستان اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے پر اتفاق قائم کیا جائے۔ جو بھی فیصلہ سازی ہو اس میں ریاستی مفاد سمیت عوامی مفاد کو اہمیت ہونی چاہیے۔ اس وقت تمام فریقوں میں تقسیم کی لکیریں کافی گہری بھی ہیں اور ایک دوسرے پر بداعتمادی کے پہلووں کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت اجتماعی طور پر قومی مسائل کے حل کی تلاش میں فریقین میں سنجیدگی کا پہلو نظر نہیں آرہا ہے جب کہ عوام سنجیدہ اقدام کے منتظر ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں سیاسی اختلافات کی نوعیت دشمنی کا منظر بھی پیش کرتی ہے۔مکالمہ یا مفاہمت کا ایجنڈا کمزور اور سیاسی محاذآرائی، تناو، ٹکراو اور ایک دوسرے سے بدلہ کی سیاست نے ہم سب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ابھی حال ہی میں کاروباری حلقوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے جیل میں قید عمران خان سے مفاہمت کا راستہ نکالیں۔اسی طرح ایک فارمولہ سابق جنرل نعیم لودھی نے بھی دیا ہے کہ اگر عمران خان اس موجودہ حکومت کو دوبرس تک قبول کرلیں تو مفاہمت کی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔بنیادی طور پر مفاہمت کی سیاست ہی ہماری قومی ضرورت بنتی ہے کیونکہ ہم بطور ریاست جن داخلی، علاقائی اور عالمی مسائل کا شکار ہیں اس سے نمٹنے کی واحد کنجی قومی مفاہمت ہی ہے۔
ایک عمومی رائے یہ ہے کہ عمران خان مفاہمت سے انکاری ہے اور مفاہمت کی ہر کوشش کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے یا مفاہمت اس کی سیاسی ترجیحات کا ایجنڈا نہیں ہے۔ عمران خان کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ سیاسی قیادت سے بات چیت کرنے کے حامی نہیں اور براہ راست اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ایسی بہت سی باتوں میں وزن ہے اور عمران خان کے اپنے داخلی مسائل یا سیاسی حکمت عملیوں کے مقابلے میں غیر سیاسی حکمت عملیوں یا غیر سیاسی افراد کی سوچ وفکر کے ساتھ ان کی جڑت نے بھی ان کے لیے بھی اور قومی سیاست میں مسائل کو پیدا کیا ہے۔لیکن میں یہ بھی کہوں گا برسراقتدار سیاسی قیادت بھی عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی زیادہ حامی نہیں ہے۔اسی لیے مفاہمت اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتی۔
مفاہمت کی سیاست کی کنجی سازگار ماحول ہے۔ جب تک مفاہمت کا ماحول نہیں پیدا کیا جائے گا،مفاہمت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جو فریق بھی جتنا زیادہ اختیار رکھتا ہے اس پر اتنی ہی بڑی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔اس وقت مفاہمت کی سیاست کا ایک بڑا چیلنج ملکی سطح پر عدم سازگار ماحول اور سیاسی دشمنیوں پر مبنی ماحول ہے جو عملا رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے ٹکراؤ نے بہت سے معاملات کو نہ صرف پیچیدہ بلکہ بگاڑ بھی دیا ہے۔
یقینی طور پر عمران خان کو زیادہ سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنا چاہیے کیونکہ ٹکراو کی پالیسی ان کے حق میں نہیں لیکن یہ ذمے داری محض عمران خان تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ اس ذمے داری میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر بھی ہے اور دونوں کی جانب سے ذمے دارانہ کردار ہی مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ملکی سطح پر تلخیوں کا ماحول ہے جو وہ مل بیٹھنے کی سیاست کو پنپنے نہیں دے رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ی ایک جماعت کی قیادت کو جیلوں میں رکھ کر مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا خاصا مشکل کام ہے۔
یہ نقطہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اس وقت کا حکمران اتحاد خود بھی مفاہمت کی سیاست کا حامی نہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ مفاہمت کی سیاست سے عمران خان کو سیاسی راستہ ملے گا اور ہماری پہلے سے موجود سیاسی پوزیشن کو اور زیادہ نقصان ہوگا۔اس لیے مفاہمت کی بات کرنا آسان جب کہ ان پر عملدرآمد کافی مشکل ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد کی پس پردہ حکمت عملی یہ ہی ہے کہ پی ٹی آئی کو مزید تنہا کیا جائے۔
اگر واقعی مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا ہے تو حکومت کا طرز عمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عملا مفاہمت کی عملی کے برعکس ہو۔لیکن لگتا ہے کہ اس وقت سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں مفاہمت کی سیاست پر نہ صرف خود تقسیم ہیں بلکہ سب کو ہی انھوں نے تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔اسی طرح مفاہمت کی سیاست دوطرفہ ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہوتا کہ ایک فریق اپنے ایجنڈے کو مسلط کرنے کی کوشش کرے اور دوسرے فریق کو دباؤ میں رکھ کر مذاکرات اور مفاہمت کی بات کرے۔ مفاہمت کا فریم ورک واضح، شفاف اورسب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔کیونکہ مفاہمت اسی وقت کامیاب ہوگی، جب ایک دوسرے کو نیچا دکھانا مقصود نہ ہو۔
مفاہمت کی سیاست کچھ لو اور کچُھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے اور یہ نہ تو یکطرفہ ہوتی ہے اور نہ ہی ا س کو ہم کسی سیاسی تنہائی میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت مفاہمت کی سیاست کی حکمت عملیاں نتیجہ خیز نہیں کیونکہ ان میں سیاسی سوچ و فکر کا فقدان اور ایک دوسرے کی عدم قبولیت کا جزبہ بالادست ہے۔ ذہن کھولیں، کھلے ذہن، پختگی اور سیاسی دشمنی سے بالاتر ہوکرپالیسی کو سیاسی حکمت عملی کے تحت بنیاد بنا کر ہی ہم مفاہمت کو قومی سیاست کے ساتھ جوڑ کرمطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں گے۔
اتفاق سے مراد ہے کہ سیاسی یا گروہی مفادات کے بجائے پاکستان اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے پر اتفاق قائم کیا جائے۔ جو بھی فیصلہ سازی ہو اس میں ریاستی مفاد سمیت عوامی مفاد کو اہمیت ہونی چاہیے۔ اس وقت تمام فریقوں میں تقسیم کی لکیریں کافی گہری بھی ہیں اور ایک دوسرے پر بداعتمادی کے پہلووں کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت اجتماعی طور پر قومی مسائل کے حل کی تلاش میں فریقین میں سنجیدگی کا پہلو نظر نہیں آرہا ہے جب کہ عوام سنجیدہ اقدام کے منتظر ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں سیاسی اختلافات کی نوعیت دشمنی کا منظر بھی پیش کرتی ہے۔مکالمہ یا مفاہمت کا ایجنڈا کمزور اور سیاسی محاذآرائی، تناو، ٹکراو اور ایک دوسرے سے بدلہ کی سیاست نے ہم سب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ابھی حال ہی میں کاروباری حلقوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے جیل میں قید عمران خان سے مفاہمت کا راستہ نکالیں۔اسی طرح ایک فارمولہ سابق جنرل نعیم لودھی نے بھی دیا ہے کہ اگر عمران خان اس موجودہ حکومت کو دوبرس تک قبول کرلیں تو مفاہمت کی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔بنیادی طور پر مفاہمت کی سیاست ہی ہماری قومی ضرورت بنتی ہے کیونکہ ہم بطور ریاست جن داخلی، علاقائی اور عالمی مسائل کا شکار ہیں اس سے نمٹنے کی واحد کنجی قومی مفاہمت ہی ہے۔
ایک عمومی رائے یہ ہے کہ عمران خان مفاہمت سے انکاری ہے اور مفاہمت کی ہر کوشش کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے یا مفاہمت اس کی سیاسی ترجیحات کا ایجنڈا نہیں ہے۔ عمران خان کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ سیاسی قیادت سے بات چیت کرنے کے حامی نہیں اور براہ راست اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ایسی بہت سی باتوں میں وزن ہے اور عمران خان کے اپنے داخلی مسائل یا سیاسی حکمت عملیوں کے مقابلے میں غیر سیاسی حکمت عملیوں یا غیر سیاسی افراد کی سوچ وفکر کے ساتھ ان کی جڑت نے بھی ان کے لیے بھی اور قومی سیاست میں مسائل کو پیدا کیا ہے۔لیکن میں یہ بھی کہوں گا برسراقتدار سیاسی قیادت بھی عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی زیادہ حامی نہیں ہے۔اسی لیے مفاہمت اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتی۔
مفاہمت کی سیاست کی کنجی سازگار ماحول ہے۔ جب تک مفاہمت کا ماحول نہیں پیدا کیا جائے گا،مفاہمت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جو فریق بھی جتنا زیادہ اختیار رکھتا ہے اس پر اتنی ہی بڑی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔اس وقت مفاہمت کی سیاست کا ایک بڑا چیلنج ملکی سطح پر عدم سازگار ماحول اور سیاسی دشمنیوں پر مبنی ماحول ہے جو عملا رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے ٹکراؤ نے بہت سے معاملات کو نہ صرف پیچیدہ بلکہ بگاڑ بھی دیا ہے۔
یقینی طور پر عمران خان کو زیادہ سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنا چاہیے کیونکہ ٹکراو کی پالیسی ان کے حق میں نہیں لیکن یہ ذمے داری محض عمران خان تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ اس ذمے داری میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر بھی ہے اور دونوں کی جانب سے ذمے دارانہ کردار ہی مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ملکی سطح پر تلخیوں کا ماحول ہے جو وہ مل بیٹھنے کی سیاست کو پنپنے نہیں دے رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ی ایک جماعت کی قیادت کو جیلوں میں رکھ کر مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا خاصا مشکل کام ہے۔
یہ نقطہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اس وقت کا حکمران اتحاد خود بھی مفاہمت کی سیاست کا حامی نہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ مفاہمت کی سیاست سے عمران خان کو سیاسی راستہ ملے گا اور ہماری پہلے سے موجود سیاسی پوزیشن کو اور زیادہ نقصان ہوگا۔اس لیے مفاہمت کی بات کرنا آسان جب کہ ان پر عملدرآمد کافی مشکل ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد کی پس پردہ حکمت عملی یہ ہی ہے کہ پی ٹی آئی کو مزید تنہا کیا جائے۔
اگر واقعی مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا ہے تو حکومت کا طرز عمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جو عملا مفاہمت کی عملی کے برعکس ہو۔لیکن لگتا ہے کہ اس وقت سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں مفاہمت کی سیاست پر نہ صرف خود تقسیم ہیں بلکہ سب کو ہی انھوں نے تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔اسی طرح مفاہمت کی سیاست دوطرفہ ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہوتا کہ ایک فریق اپنے ایجنڈے کو مسلط کرنے کی کوشش کرے اور دوسرے فریق کو دباؤ میں رکھ کر مذاکرات اور مفاہمت کی بات کرے۔ مفاہمت کا فریم ورک واضح، شفاف اورسب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔کیونکہ مفاہمت اسی وقت کامیاب ہوگی، جب ایک دوسرے کو نیچا دکھانا مقصود نہ ہو۔
مفاہمت کی سیاست کچھ لو اور کچُھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے اور یہ نہ تو یکطرفہ ہوتی ہے اور نہ ہی ا س کو ہم کسی سیاسی تنہائی میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت مفاہمت کی سیاست کی حکمت عملیاں نتیجہ خیز نہیں کیونکہ ان میں سیاسی سوچ و فکر کا فقدان اور ایک دوسرے کی عدم قبولیت کا جزبہ بالادست ہے۔ ذہن کھولیں، کھلے ذہن، پختگی اور سیاسی دشمنی سے بالاتر ہوکرپالیسی کو سیاسی حکمت عملی کے تحت بنیاد بنا کر ہی ہم مفاہمت کو قومی سیاست کے ساتھ جوڑ کرمطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں گے۔