بُک شیلف
ادبی کتابوں کا مجموعہ
خواتین کے امتیازی مسائل
تالیف :حافظ صلاح الدین یوسف ، صفحات : 421
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، لوئرمال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا، پھر نسل انسانی میں اضافے کے لیے اسے دو اصناف مرد اور عورت میں تقسیم کر دیا،ایک طاقت اور وجاہت کا منبع اور دوسری کو خوبصورتی اور حیا کا پیکر بنا دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب ایک نظام کو تشکیل دینے اور انسانوں میں محبت اور الفت بڑھانے کے لیے کیا۔
بعض چیزوں میں مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو بعض میں عورت کو مرد پر ۔ جدید دور میں عورت کے حقوق کے لیے بہت آواز اٹھائی جاتی ہے جبکہ یہ سب اسلام نے چودہ سوسال پہلے ہی طے کر دیا تھا اور عورت کو وہ عزت اور بلندی دی جس کی وہ حقدار تھی ، ورنہ اس سے قبل عورت کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھا جاتا تھا ۔
معروف دانشور عبدالمالک مجاہد کہتے ہیں ''کسی معاشرے اور تمدن کے استحکام کی بنیاد ازدواجی تعلقات کے حسن اور کمال پر منحصر ہے ۔ اسلام اس بنیاد کو ان تعلیمات کی روشنی میں پیش کرتا ہے جو کتاب و سنت کے پاکیزہ اور مستند ماخذ سے ملتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب و معاشرت میں عورت کو انتہائی تعظیم و تکریم کا درجہ دیا گیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے :
اس کی پیدائش پر اس کی تربیت کا ایک خاص نصاب اور نظام مقرر کیا گیا ہے۔
جوان ہونے پر عفت و عصمت کے ساتھ نکاح جیسی تقریب کے حوالے سے اسے ایک دوسرے خاندان کی تشکیل اور تربیت کی ذمے داری سونپی جاتی ہے ۔
ماں کی حیثیت سے وہ ایک صحت مند، مہذب اور اعلٰی اخلاقی اقدار کی نسل اسلامی معاشرے کے سپرد کرتی ہے۔
اس کے برعکس مغربی تہذیب اور معاشرہ عورت کی نہایت المناک مظلومیت اور محرومی کی تصویر پیش کرتا ہے ۔ وہاں بچیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، بے لگام آزادی اور مخلوط معاشرت کے کیا نتائج مرتب ہو رہے ہیں ، نیز فرنگی تہذیب و تمدن کے دوسرے اوضاع و اطوار کے نتیجے میں کیسے کیسے جرائم پرورش پا رہے ہیں اور کس قدر ہلاکت انگیز فسادات رونما ہو رہے ہیں ، ان پر خود مغرب کے صاحب ضمیر دانشور بھی چیخ اٹھے ہیں اور نوبت یہ آ گئی ہے کہ حال ہی میں برطانوی چرچ کے ایک پادری نے برطانوی ذرائع ابلاغ کو ایک مراسلہ بھیجا ہے۔
اس میں اس نے یہ تجویز دی ہے کہ مغربی معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لیے اسلام کے خاندانی نظام سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ اسلام نے عورت کو اتنا محترم درجہ دیا ہے اور اس کے لیے حقوق و رعایات کا ایسا سامان فراہم کیا ہے جس کی مثال کسی اور مذہب اور معاشرت میں نہیں ملتی ۔ بالخصوص وراثث کے احکام میں تو مردوں کے حصے کا تعین کرنے کے لیے عورت کے حصے کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔ اسلام عورت کو حفاظت ، عافیت اور طمانیت کا مکمل حصار فراہم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے بعض اسلامی ممالک میں مقامی اور علاقائی رسوم ورواج کو عالمگیر اسلامی تہذیب و معاشرت کی اقدار و روایات سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ شریعت سے متصادم یہ روایات سراسر جہالت پر مبنی ہیں۔''چودہ صدیاں پہلے خاتم النبینﷺ نے عورتوں کے حقوق اور احترام کے تحفظ کا جو چارٹر عطا کیا ، اس کے بغیر ہم ان کے سماجی اور معاشرتی رتبے میں اضافہ نہیں کر سکتے ۔
شریعت نے عورتوں کی صنفی اور معاشرتی حیثیت کی مناسبت سے ان کے جو امتیازی مسائل بیان کیے ہیں ان میں بہت سی حکمتیں اور فوائد شامل ہیں ۔ عبادت ، وراثتاور نکاح و طلاق کے علاوہ دیگر مسائل پر عورتوں کے امتیازی حقوق کے سلسلے میں ممتاز دینی مفکر حافظ صلاح الدین یوسف نے یہ بلند پایہ تحقیقی کتاب پیش کی ہے۔ اس کے مطالعہ و عمل سے ہماری محترم خواتین تعظیم و تکریم کی اونچی سے اونچی مسند پر فائز ہو سکتی ہیں ۔
یہ کتاب ایک طرف اسلام کے معاشرتی نظام میں عورت کی اہمیت اور عظمت پر روشنی ڈالتی ہے اور دوسری طرف ان کے مسائل پر شریعت کی حکمت و افادیت بھی واضح کرتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب نے عورت کو جس طرح رسوا کیا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ہم سب کی فلاح اسلام کے دامن میں ہے۔ ہمیں مغربی تہذیب کو یکسر خیرباد کہہ دینا چاہیے اور اسلام کی فلاحی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ یہ کتاب اسی دعوت کی آئینہ دار ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ۔ تمام مسلمانوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
مصریات
مصنف: محمد سعید جاوید، قیمت:1600روپے، صفحات:216
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ،لاہور (03014208780)
مصر پراسراریت کی دھند میں لپٹا ہوا ہے ۔ اس سرزمین کا ذکر آتے ہی فراعین کی باقیات تصور میں در آتی ہیں ۔ فراعین کے مقبرے، ان کے محلات،ان کی دہشت اور حنوط شدہ ممی سب منٹوں میں عالم تصور میں گھوم جاتا ہے ۔ محمد سعید جاوید پانچ کتابوں کے مصنف ہیں اس کے علاوہ 'اچھی گزر گئی، ایسا تھا میرا کراچی، ریل کی جادو نگری اور تیری خاک میں ہے شرر' ادب میں خوبصورت اضافہ ہیں ۔
ان کا مصر کا سفر ان افراد کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جو مصر کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کیونکہ مصنف نے مصر کی زندگی کے کسی پہلو کو نہیں چھوڑا ، بڑی باریک بینی سے سب کچھ بیان کر دیا ہے وہ بھی بڑے دلچسپ اور خوبصورت انداز میں ، پڑھنے والا کتاب پکڑنے کے بعد اسے ختم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
معروف ادیب اور تربیت کار اختر عباس کہتے ہیں '' اس سفر نامے کی خوب صورتی اور دلچسپی اس کا شگفتہ انداز بیاں ہی نہیں واقعات کی ندرت بھی ہے اور مصنف کی سادگی اور معصومیت بھی ۔ وہ گناہ کا ذکر بھی دو ہاتھ پرے ہو کر کرتے ہیں، ایسے میں دل میں کسی ناہنجار قسم کے خیال کو آنے کا موقع اتنی آسانی سے کیسے دے سکتے تھے ۔
وہ اگر بار بار بخشیش مانگنے والے ویٹروں اور ڈرائیوروں کے جبر کا شکار ہوئے تو اپنے گائیڈوں کی بعض اداؤں پر بھی مرمٹے۔ آج کا مصر ایک بار پھر فرعونوں سے بھرا ہوا ہے ۔ کل ان کے مقبرے بنیں گے، پھر ممیاں بنیں گی ۔ کون جانے کہاں بکیں گی اور کن بھٹیوں میں جلائی جائیں گی ۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر فرعون تاریخ کی دیواروں میں گاڑ دیا جاتا ہے ۔ جب کبھی اس عہد کے خوفو کی قبر بنے گی تو پھر کوئی سعید جاوید سیاحت پر نکلے گا اور مصریات کا نیا باب لکھے گا ۔'' سیکرٹری ، ڈائریکٹر بزم اقبال پروفیسر محمد حنیف شاہد کہتے ہیں '' مصریات' ایک مختصر مگر بڑا ہی جامع سفر نامہ ہے ۔
سفر نامہ کیا ہے قدیم اور جدید مصر کی عمومی تاریخ ہے ۔ خاص طور پر کچھ اہم فرعونوں ، ان کی ملکاؤں ، ان کے انداز حکومت اور اس وقت کے معاشرتی حالات پر ایک ایسی دستاویز ہے ، جسے کسی دقیق اور پیچیدہ تاریخی حوالوں میں پڑے بغیر انتہائی سادگی سے تحریر کیا گیا ہے ۔
کتاب کا سحر قاری کو شروع سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور قاری سانس تک لینا بھول جاتا ہے اور پڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔کتاب سے مصریوں کے رویوں ، عادات و اطوار اور رہن سہن کے متعلق سیر حاصل معلومات ملتی ہیں ، مصنف اپنے بہترین و خوبصورت الفاظ اور استعاروں و محاورات کا استعمال کر کے اپنی بات میں جان ڈال دیتے ہیں اور ایک ایسا ماحول اور تاثر پیدا کر دیتے ہیں کہ قاری خود کو ان کے ساتھ ساتھ ہی مصر کی وادیوں میں گھومتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔ '' بہت شاندار کتاب ہے ۔ مصر کے بارے میں جاننے کے شوقین افراد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
نکے نکے دکھ
مصنفہ: پروین ملک، قیمت:300 روپے، صفحات:96
ناشر: پاکستان پنجابی ادبی بورڈ،کلب روڈ نرسنگھ داس گارڈن، شاہراہ قائد اعظم، لاہور، برائے رابطہ: (0423:6370520)
کہانی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کا تعارف کراتی ہے ۔ مصنف جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے بیان کر دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب پنجابی کہانیوں کا مجموعہ ہے ۔ مصنفہ بڑے خوبصورت انداز میں ہمارے معاشرے کے خفیہ اور عیاں گوشوں کو سامنے لاتی ہیں ۔ ان کا انداز ایسا ہے جیسے وہ قاری سے مخاطب ہوں۔ تحریر کی روانی قاری کو بہائے لیے جاتی ہے اور وہ ایک کہانی پڑھنے کے بعد اگلی کہانی پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
راجا رسالو پنجابی میں کہتے ہیں '' پروین ملک ہوراں نوں کہانی لکھن تے لوکاں تک اپڑان دا ول آوندا اے۔ اپنیاں کہانیاں وچ پینڈو تے شہری وسیب دا نقشہ ڈاڈھے انداز نال کھچیا اے ، پروین ملک ہوری معاشرے وچ کھلریاں ہوئیاں روایتاں نوں اپنیاں کہانیاں دا موضوع بناوندے نیں ۔ عورت اتے ہون والے ظلم تے جبر نوں نویلے انداز نال پیش کردے نیں۔ ایہناں کہانیاں وچ کجھ کہانیاں چھاچھی لہجے وچ لکھیاں گئیاں نیں ۔
پڑھن والا اوس علاقے دے وسیب توں جانو ہون دے نال نال زبان دی مٹھاس دا سواد وی ماتدا اے ۔'' کتاب میں روٹی مینڈھی کاٹھ دی ، تال ، جھلی ، اکھراں دی موت، پئی وگے ہرو ماہیا ، گواچے سمے دی خوشبو، ٹالھی تے میرے بچڑے ، ذات برادری ، کالیاں بھور اکھیاں ، بارھاں ورھیاں دا پندھ ، ایتھے کویں گزاریئے زندگی نوں ، بھکھڑا ، اک سی راجا ، تارے لاہنی ، تھیتھوں اتے اور لہو رنگ اکھیاں دا منظر نامہ کے عنوانات سے سولہ کہانیاں شامل کی گئی ہیں ۔ ہر کہانی کسی معاشرتی دکھ سے پردہ اٹھاتی ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
پکھیرو
قیمت:100 روپے، صفحات :80
ناشر: پنجابی بال ادبی بورڈ، (03004224210)
پنجابی زبان میں ایک عجب سا اپنا پن اور بے تکلفی ہے ، بلکہ یہ کہا جائے کہ پنجابی میں اپنے جذبات جس خوبصورتی سے بیان کئے جا سکتے ہیں اس درجے کو دوسری زبانیں نہیں پہنچ سکتیں ، بعض ایسے الفاظ ہیں کہ دوسری زبان میں اس کا متبادل ہی نہیں ہے۔ اگر متبادل بنا لیا جائے تو مزا نہیں آتا ۔ پکھیرو پنجابی زبان کا مہینہ وار رسالہ ہے جو بچوں کے لیے شائع کیا جا رہا ہے چاہیں تو بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ ب
ہت خوبصورت کہانیوں سے مزین کیا جاتا ہے ، آج کے ڈیجیٹل دور میں ایسے میگزین پنجابی ادب کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے ایسے میگزین گھر میں ضرور منگوائیں ۔ بہت خوبصورت کاوش ہیں ، ادب سے دلچسپی رکھنے والے ضرور مطالعہ کریں ۔
آباد ہوئے برباد ہوئے (خود نوشت)
مصنف: علی اکبر ناطق، قیمت:1500 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس اپ 03215440882
یہ ایک ایسے عام آدمی کی خود نوشت ہے جس کے اجداد اصفحان و توران سے نہیں آئے تھے، محمد بن قاسم کی فوج میں بھی شامل نہیں تھے، گھوڑوں کے سوداگر بھی نہیں تھے، سونے اور ریشمی کپڑے کا کاروبار بھی نہیں کرتے تھے، کبھی نواب یا نواب کے وزیر اعظم بھی نہیں رہے تھے، رام پور سے وظیفہ بھی نہیں کھاتے تھے، کابل سے تلواریں چلاتے ہوئے برصغیر میں نازل بھی نہیں ہوئے تھے، پنج ہزاری تھے نہ ہی پنج صدی ۔ ان کے لکھنو میں آموں کے باغات بھی نہیں تھے۔
باپ دادا سرکاری ملازمت میں سیکرٹری بھی نہیں رہے تھے۔ ظاہر اس خدمت میں انہیں کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں کوئی پلاٹ بھی نہیں ملا تھا ۔ نہ اجداد میں کوئی ترقی پسند تھا نہ ہی کوئی برصغیر کی تحریک آزادی میں شامل رہا۔ یہ عام آدمی کسی علمی ادبی سرکاری ادارے کا چیئرپرسن بھی نہیں رہا ۔ اس کے گھر میں حکومت سے ملنے والے کسی ایوارڈ کی ٹھیکری بھی نہیں مل سکتی ۔
یہ اعترافی بیان اس عام آدمی ہی کا ہے ۔ اور یہ عام آدمی ہے علی اکبر ناطق ۔
جناب علی اکبر ناطق ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر ہیں ۔ 'آباد ہوئے برباد ہوئے' کے عنوان سے شائع ہونے والی اس 'خودنوشت' سے پہلے ان کے ناول، افسانوں اور شاعری کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی شخصیت کے باقی تفصیل آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔ اس خودنوشت کا ماحول کم و بیش ویسا ہی ہے جیسا آپ نے بلونت سنگھ کے ناولوں میں پڑھ رکھا ہے ۔ مجھے بھی اسی ماحول سے دلچسپی ہے۔ یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس نے مجھے اس خودنوشت سے جوڑا ۔ آپ کو بھی یہ منفرد خودنوشت خوب پسند آئے گی ۔ اس پسندیدگی کے ایک نہیں کئی اسباب ہیں ۔
علی اکبر ناطق نے زندگی کی پوری کہانی نہایت بے تکلفی لیکن پوری دیانت داری سے لکھی ۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے آباؤ اجداد میں سے ہر ایک کا خاکہ لکھا ۔ یہ سارے خاکے پڑھ کر خاصی حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے ہوئے مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور اس پر تقدس کی چادر چڑھا دیتے ہیں ، ان کی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور خامیاں چھپا لیتے ہیں ۔ تاہم علی اکبر ناطق نے ہر چیز بلا کم و کاست بیان کر دی ۔
اپنی دادی اماں کے ایک چچا زاد کے بارے میں یہاں تک بتا دیا کہ وہ علاقے سے گھوڑے اور خچر چوری کر کے منڈی میں بیچا کرتے تھے ۔ اسی طرح باقیوں کی بھی خوبیاں اور خامیاں یکساں بیان کر دیں ۔
کتاب کے ابتدائی ابواب میں ، آباؤ اجداد کے اس تذکرے کو آپ انڈیا کے علاقہ فیروز پور سے پاکستان کے علاقے اوکاڑہ تک کی داستانِ ہجرت بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے بعد مصنف کی اپنی زندگی کی کہانی شروع ہوتی ہے اور چلتی ہی رہتی ہے۔ اس میں ان مختلف لوگوں کے دلچسپ خاکے موجود ہیں جنہوں نے علی اکبر ناطق کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان میں اساتذہ کرام بھی ہیں ، ان کے گاؤں کی مشہور لیکن دلچسپ شخصیات بھی ہیں ، اور ان کے دوست بھی شامل ہیں ۔ گاؤں کے چار پاگلوں کے خاکے بھی ہیں اور علاقے کے جرائم پیشہ افراد کے بھی ۔ الغرضیکہ یہ خودنوشت ایک ایسے شخص کی ہے جس کی زندگی تجربات سے بھری ہوئی ہے اور جسے اپنی حیات میں طرح طرح کے سبق ملے ہیں ۔
یہ کتاب واقعات سے کا مجموعہ ہے ۔ ایک واقعہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی گود میں بیٹھنے کا بھی ہے ۔ یہ واقعہ نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا ۔ ایک واقعہ جناب احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات کا بھی ہے ۔ یہ بھی دلچسپ احوال ہے ۔ اسی طرح اپنے زمانہ طالب علمی کا مفصل تذکرہ کرتے ہیں اور روزگار کی خاطر جدوجہد کی کہانی بھی لکھتے ہیں ۔ کتاب کے 9 ابواب ہیں ۔
آخری باب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں میں روزگار کی تلاش میں گزرے شب و روز کا قصہ ہے ۔ میرے خیال میں کتاب کا سب سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز باب یہی ہے ۔ اس میں کھجوروں کے باغات بھی ہیں اور گدھوں پر کھجوریں لاد کر منڈی تک پہچانے والا علی اکبر بھی ۔ آدھی رات تک آگ پر دنبہ رکھ کر رزمیں گاتی، طبلے پیٹتی اور گوشت کھاتی حبشی عورتیں بھی ہیں اور چودھویں کے چاند کی چاندنی میں صحرا میں لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں جو مشہور عرب شاعر امراؤ القیس کے قصیدے اور عرب شعرا کی شاعری سنتے ہیں۔
علی اکبر ناطق نے اپنی داستان حیات ان گمنام مارے جانے والے شہیدوں کے نام کی ہے جنھیں انیس سو سینتالیس کی تقسیم نے کھا لیا تھا ۔ واقعتاً یہ ایک منفرد کہانی ہے ۔ اگر آپ کے اندر رومان کے جذبات مچلتے ہیں تو یہ خود نوشت ضرور پڑھیے گا ۔ یقیناً لطف اٹھائیں گے ۔
(تبصرہ نگار: عبید اللہ عابد)
تالیف :حافظ صلاح الدین یوسف ، صفحات : 421
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، لوئرمال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا، پھر نسل انسانی میں اضافے کے لیے اسے دو اصناف مرد اور عورت میں تقسیم کر دیا،ایک طاقت اور وجاہت کا منبع اور دوسری کو خوبصورتی اور حیا کا پیکر بنا دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب ایک نظام کو تشکیل دینے اور انسانوں میں محبت اور الفت بڑھانے کے لیے کیا۔
بعض چیزوں میں مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو بعض میں عورت کو مرد پر ۔ جدید دور میں عورت کے حقوق کے لیے بہت آواز اٹھائی جاتی ہے جبکہ یہ سب اسلام نے چودہ سوسال پہلے ہی طے کر دیا تھا اور عورت کو وہ عزت اور بلندی دی جس کی وہ حقدار تھی ، ورنہ اس سے قبل عورت کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھا جاتا تھا ۔
معروف دانشور عبدالمالک مجاہد کہتے ہیں ''کسی معاشرے اور تمدن کے استحکام کی بنیاد ازدواجی تعلقات کے حسن اور کمال پر منحصر ہے ۔ اسلام اس بنیاد کو ان تعلیمات کی روشنی میں پیش کرتا ہے جو کتاب و سنت کے پاکیزہ اور مستند ماخذ سے ملتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب و معاشرت میں عورت کو انتہائی تعظیم و تکریم کا درجہ دیا گیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے :
اس کی پیدائش پر اس کی تربیت کا ایک خاص نصاب اور نظام مقرر کیا گیا ہے۔
جوان ہونے پر عفت و عصمت کے ساتھ نکاح جیسی تقریب کے حوالے سے اسے ایک دوسرے خاندان کی تشکیل اور تربیت کی ذمے داری سونپی جاتی ہے ۔
ماں کی حیثیت سے وہ ایک صحت مند، مہذب اور اعلٰی اخلاقی اقدار کی نسل اسلامی معاشرے کے سپرد کرتی ہے۔
اس کے برعکس مغربی تہذیب اور معاشرہ عورت کی نہایت المناک مظلومیت اور محرومی کی تصویر پیش کرتا ہے ۔ وہاں بچیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، بے لگام آزادی اور مخلوط معاشرت کے کیا نتائج مرتب ہو رہے ہیں ، نیز فرنگی تہذیب و تمدن کے دوسرے اوضاع و اطوار کے نتیجے میں کیسے کیسے جرائم پرورش پا رہے ہیں اور کس قدر ہلاکت انگیز فسادات رونما ہو رہے ہیں ، ان پر خود مغرب کے صاحب ضمیر دانشور بھی چیخ اٹھے ہیں اور نوبت یہ آ گئی ہے کہ حال ہی میں برطانوی چرچ کے ایک پادری نے برطانوی ذرائع ابلاغ کو ایک مراسلہ بھیجا ہے۔
اس میں اس نے یہ تجویز دی ہے کہ مغربی معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لیے اسلام کے خاندانی نظام سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ اسلام نے عورت کو اتنا محترم درجہ دیا ہے اور اس کے لیے حقوق و رعایات کا ایسا سامان فراہم کیا ہے جس کی مثال کسی اور مذہب اور معاشرت میں نہیں ملتی ۔ بالخصوص وراثث کے احکام میں تو مردوں کے حصے کا تعین کرنے کے لیے عورت کے حصے کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔ اسلام عورت کو حفاظت ، عافیت اور طمانیت کا مکمل حصار فراہم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے بعض اسلامی ممالک میں مقامی اور علاقائی رسوم ورواج کو عالمگیر اسلامی تہذیب و معاشرت کی اقدار و روایات سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ شریعت سے متصادم یہ روایات سراسر جہالت پر مبنی ہیں۔''چودہ صدیاں پہلے خاتم النبینﷺ نے عورتوں کے حقوق اور احترام کے تحفظ کا جو چارٹر عطا کیا ، اس کے بغیر ہم ان کے سماجی اور معاشرتی رتبے میں اضافہ نہیں کر سکتے ۔
شریعت نے عورتوں کی صنفی اور معاشرتی حیثیت کی مناسبت سے ان کے جو امتیازی مسائل بیان کیے ہیں ان میں بہت سی حکمتیں اور فوائد شامل ہیں ۔ عبادت ، وراثتاور نکاح و طلاق کے علاوہ دیگر مسائل پر عورتوں کے امتیازی حقوق کے سلسلے میں ممتاز دینی مفکر حافظ صلاح الدین یوسف نے یہ بلند پایہ تحقیقی کتاب پیش کی ہے۔ اس کے مطالعہ و عمل سے ہماری محترم خواتین تعظیم و تکریم کی اونچی سے اونچی مسند پر فائز ہو سکتی ہیں ۔
یہ کتاب ایک طرف اسلام کے معاشرتی نظام میں عورت کی اہمیت اور عظمت پر روشنی ڈالتی ہے اور دوسری طرف ان کے مسائل پر شریعت کی حکمت و افادیت بھی واضح کرتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب نے عورت کو جس طرح رسوا کیا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ہم سب کی فلاح اسلام کے دامن میں ہے۔ ہمیں مغربی تہذیب کو یکسر خیرباد کہہ دینا چاہیے اور اسلام کی فلاحی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ یہ کتاب اسی دعوت کی آئینہ دار ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ۔ تمام مسلمانوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
مصریات
مصنف: محمد سعید جاوید، قیمت:1600روپے، صفحات:216
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ،لاہور (03014208780)
مصر پراسراریت کی دھند میں لپٹا ہوا ہے ۔ اس سرزمین کا ذکر آتے ہی فراعین کی باقیات تصور میں در آتی ہیں ۔ فراعین کے مقبرے، ان کے محلات،ان کی دہشت اور حنوط شدہ ممی سب منٹوں میں عالم تصور میں گھوم جاتا ہے ۔ محمد سعید جاوید پانچ کتابوں کے مصنف ہیں اس کے علاوہ 'اچھی گزر گئی، ایسا تھا میرا کراچی، ریل کی جادو نگری اور تیری خاک میں ہے شرر' ادب میں خوبصورت اضافہ ہیں ۔
ان کا مصر کا سفر ان افراد کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جو مصر کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کیونکہ مصنف نے مصر کی زندگی کے کسی پہلو کو نہیں چھوڑا ، بڑی باریک بینی سے سب کچھ بیان کر دیا ہے وہ بھی بڑے دلچسپ اور خوبصورت انداز میں ، پڑھنے والا کتاب پکڑنے کے بعد اسے ختم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
معروف ادیب اور تربیت کار اختر عباس کہتے ہیں '' اس سفر نامے کی خوب صورتی اور دلچسپی اس کا شگفتہ انداز بیاں ہی نہیں واقعات کی ندرت بھی ہے اور مصنف کی سادگی اور معصومیت بھی ۔ وہ گناہ کا ذکر بھی دو ہاتھ پرے ہو کر کرتے ہیں، ایسے میں دل میں کسی ناہنجار قسم کے خیال کو آنے کا موقع اتنی آسانی سے کیسے دے سکتے تھے ۔
وہ اگر بار بار بخشیش مانگنے والے ویٹروں اور ڈرائیوروں کے جبر کا شکار ہوئے تو اپنے گائیڈوں کی بعض اداؤں پر بھی مرمٹے۔ آج کا مصر ایک بار پھر فرعونوں سے بھرا ہوا ہے ۔ کل ان کے مقبرے بنیں گے، پھر ممیاں بنیں گی ۔ کون جانے کہاں بکیں گی اور کن بھٹیوں میں جلائی جائیں گی ۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر فرعون تاریخ کی دیواروں میں گاڑ دیا جاتا ہے ۔ جب کبھی اس عہد کے خوفو کی قبر بنے گی تو پھر کوئی سعید جاوید سیاحت پر نکلے گا اور مصریات کا نیا باب لکھے گا ۔'' سیکرٹری ، ڈائریکٹر بزم اقبال پروفیسر محمد حنیف شاہد کہتے ہیں '' مصریات' ایک مختصر مگر بڑا ہی جامع سفر نامہ ہے ۔
سفر نامہ کیا ہے قدیم اور جدید مصر کی عمومی تاریخ ہے ۔ خاص طور پر کچھ اہم فرعونوں ، ان کی ملکاؤں ، ان کے انداز حکومت اور اس وقت کے معاشرتی حالات پر ایک ایسی دستاویز ہے ، جسے کسی دقیق اور پیچیدہ تاریخی حوالوں میں پڑے بغیر انتہائی سادگی سے تحریر کیا گیا ہے ۔
کتاب کا سحر قاری کو شروع سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور قاری سانس تک لینا بھول جاتا ہے اور پڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔کتاب سے مصریوں کے رویوں ، عادات و اطوار اور رہن سہن کے متعلق سیر حاصل معلومات ملتی ہیں ، مصنف اپنے بہترین و خوبصورت الفاظ اور استعاروں و محاورات کا استعمال کر کے اپنی بات میں جان ڈال دیتے ہیں اور ایک ایسا ماحول اور تاثر پیدا کر دیتے ہیں کہ قاری خود کو ان کے ساتھ ساتھ ہی مصر کی وادیوں میں گھومتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔ '' بہت شاندار کتاب ہے ۔ مصر کے بارے میں جاننے کے شوقین افراد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
نکے نکے دکھ
مصنفہ: پروین ملک، قیمت:300 روپے، صفحات:96
ناشر: پاکستان پنجابی ادبی بورڈ،کلب روڈ نرسنگھ داس گارڈن، شاہراہ قائد اعظم، لاہور، برائے رابطہ: (0423:6370520)
کہانی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کا تعارف کراتی ہے ۔ مصنف جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے بیان کر دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب پنجابی کہانیوں کا مجموعہ ہے ۔ مصنفہ بڑے خوبصورت انداز میں ہمارے معاشرے کے خفیہ اور عیاں گوشوں کو سامنے لاتی ہیں ۔ ان کا انداز ایسا ہے جیسے وہ قاری سے مخاطب ہوں۔ تحریر کی روانی قاری کو بہائے لیے جاتی ہے اور وہ ایک کہانی پڑھنے کے بعد اگلی کہانی پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
راجا رسالو پنجابی میں کہتے ہیں '' پروین ملک ہوراں نوں کہانی لکھن تے لوکاں تک اپڑان دا ول آوندا اے۔ اپنیاں کہانیاں وچ پینڈو تے شہری وسیب دا نقشہ ڈاڈھے انداز نال کھچیا اے ، پروین ملک ہوری معاشرے وچ کھلریاں ہوئیاں روایتاں نوں اپنیاں کہانیاں دا موضوع بناوندے نیں ۔ عورت اتے ہون والے ظلم تے جبر نوں نویلے انداز نال پیش کردے نیں۔ ایہناں کہانیاں وچ کجھ کہانیاں چھاچھی لہجے وچ لکھیاں گئیاں نیں ۔
پڑھن والا اوس علاقے دے وسیب توں جانو ہون دے نال نال زبان دی مٹھاس دا سواد وی ماتدا اے ۔'' کتاب میں روٹی مینڈھی کاٹھ دی ، تال ، جھلی ، اکھراں دی موت، پئی وگے ہرو ماہیا ، گواچے سمے دی خوشبو، ٹالھی تے میرے بچڑے ، ذات برادری ، کالیاں بھور اکھیاں ، بارھاں ورھیاں دا پندھ ، ایتھے کویں گزاریئے زندگی نوں ، بھکھڑا ، اک سی راجا ، تارے لاہنی ، تھیتھوں اتے اور لہو رنگ اکھیاں دا منظر نامہ کے عنوانات سے سولہ کہانیاں شامل کی گئی ہیں ۔ ہر کہانی کسی معاشرتی دکھ سے پردہ اٹھاتی ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
پکھیرو
قیمت:100 روپے، صفحات :80
ناشر: پنجابی بال ادبی بورڈ، (03004224210)
پنجابی زبان میں ایک عجب سا اپنا پن اور بے تکلفی ہے ، بلکہ یہ کہا جائے کہ پنجابی میں اپنے جذبات جس خوبصورتی سے بیان کئے جا سکتے ہیں اس درجے کو دوسری زبانیں نہیں پہنچ سکتیں ، بعض ایسے الفاظ ہیں کہ دوسری زبان میں اس کا متبادل ہی نہیں ہے۔ اگر متبادل بنا لیا جائے تو مزا نہیں آتا ۔ پکھیرو پنجابی زبان کا مہینہ وار رسالہ ہے جو بچوں کے لیے شائع کیا جا رہا ہے چاہیں تو بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ ب
ہت خوبصورت کہانیوں سے مزین کیا جاتا ہے ، آج کے ڈیجیٹل دور میں ایسے میگزین پنجابی ادب کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے ایسے میگزین گھر میں ضرور منگوائیں ۔ بہت خوبصورت کاوش ہیں ، ادب سے دلچسپی رکھنے والے ضرور مطالعہ کریں ۔
آباد ہوئے برباد ہوئے (خود نوشت)
مصنف: علی اکبر ناطق، قیمت:1500 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس اپ 03215440882
یہ ایک ایسے عام آدمی کی خود نوشت ہے جس کے اجداد اصفحان و توران سے نہیں آئے تھے، محمد بن قاسم کی فوج میں بھی شامل نہیں تھے، گھوڑوں کے سوداگر بھی نہیں تھے، سونے اور ریشمی کپڑے کا کاروبار بھی نہیں کرتے تھے، کبھی نواب یا نواب کے وزیر اعظم بھی نہیں رہے تھے، رام پور سے وظیفہ بھی نہیں کھاتے تھے، کابل سے تلواریں چلاتے ہوئے برصغیر میں نازل بھی نہیں ہوئے تھے، پنج ہزاری تھے نہ ہی پنج صدی ۔ ان کے لکھنو میں آموں کے باغات بھی نہیں تھے۔
باپ دادا سرکاری ملازمت میں سیکرٹری بھی نہیں رہے تھے۔ ظاہر اس خدمت میں انہیں کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں کوئی پلاٹ بھی نہیں ملا تھا ۔ نہ اجداد میں کوئی ترقی پسند تھا نہ ہی کوئی برصغیر کی تحریک آزادی میں شامل رہا۔ یہ عام آدمی کسی علمی ادبی سرکاری ادارے کا چیئرپرسن بھی نہیں رہا ۔ اس کے گھر میں حکومت سے ملنے والے کسی ایوارڈ کی ٹھیکری بھی نہیں مل سکتی ۔
یہ اعترافی بیان اس عام آدمی ہی کا ہے ۔ اور یہ عام آدمی ہے علی اکبر ناطق ۔
جناب علی اکبر ناطق ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر ہیں ۔ 'آباد ہوئے برباد ہوئے' کے عنوان سے شائع ہونے والی اس 'خودنوشت' سے پہلے ان کے ناول، افسانوں اور شاعری کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی شخصیت کے باقی تفصیل آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔ اس خودنوشت کا ماحول کم و بیش ویسا ہی ہے جیسا آپ نے بلونت سنگھ کے ناولوں میں پڑھ رکھا ہے ۔ مجھے بھی اسی ماحول سے دلچسپی ہے۔ یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس نے مجھے اس خودنوشت سے جوڑا ۔ آپ کو بھی یہ منفرد خودنوشت خوب پسند آئے گی ۔ اس پسندیدگی کے ایک نہیں کئی اسباب ہیں ۔
علی اکبر ناطق نے زندگی کی پوری کہانی نہایت بے تکلفی لیکن پوری دیانت داری سے لکھی ۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے آباؤ اجداد میں سے ہر ایک کا خاکہ لکھا ۔ یہ سارے خاکے پڑھ کر خاصی حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے ہوئے مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور اس پر تقدس کی چادر چڑھا دیتے ہیں ، ان کی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور خامیاں چھپا لیتے ہیں ۔ تاہم علی اکبر ناطق نے ہر چیز بلا کم و کاست بیان کر دی ۔
اپنی دادی اماں کے ایک چچا زاد کے بارے میں یہاں تک بتا دیا کہ وہ علاقے سے گھوڑے اور خچر چوری کر کے منڈی میں بیچا کرتے تھے ۔ اسی طرح باقیوں کی بھی خوبیاں اور خامیاں یکساں بیان کر دیں ۔
کتاب کے ابتدائی ابواب میں ، آباؤ اجداد کے اس تذکرے کو آپ انڈیا کے علاقہ فیروز پور سے پاکستان کے علاقے اوکاڑہ تک کی داستانِ ہجرت بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے بعد مصنف کی اپنی زندگی کی کہانی شروع ہوتی ہے اور چلتی ہی رہتی ہے۔ اس میں ان مختلف لوگوں کے دلچسپ خاکے موجود ہیں جنہوں نے علی اکبر ناطق کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان میں اساتذہ کرام بھی ہیں ، ان کے گاؤں کی مشہور لیکن دلچسپ شخصیات بھی ہیں ، اور ان کے دوست بھی شامل ہیں ۔ گاؤں کے چار پاگلوں کے خاکے بھی ہیں اور علاقے کے جرائم پیشہ افراد کے بھی ۔ الغرضیکہ یہ خودنوشت ایک ایسے شخص کی ہے جس کی زندگی تجربات سے بھری ہوئی ہے اور جسے اپنی حیات میں طرح طرح کے سبق ملے ہیں ۔
یہ کتاب واقعات سے کا مجموعہ ہے ۔ ایک واقعہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی گود میں بیٹھنے کا بھی ہے ۔ یہ واقعہ نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا ۔ ایک واقعہ جناب احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات کا بھی ہے ۔ یہ بھی دلچسپ احوال ہے ۔ اسی طرح اپنے زمانہ طالب علمی کا مفصل تذکرہ کرتے ہیں اور روزگار کی خاطر جدوجہد کی کہانی بھی لکھتے ہیں ۔ کتاب کے 9 ابواب ہیں ۔
آخری باب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں میں روزگار کی تلاش میں گزرے شب و روز کا قصہ ہے ۔ میرے خیال میں کتاب کا سب سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز باب یہی ہے ۔ اس میں کھجوروں کے باغات بھی ہیں اور گدھوں پر کھجوریں لاد کر منڈی تک پہچانے والا علی اکبر بھی ۔ آدھی رات تک آگ پر دنبہ رکھ کر رزمیں گاتی، طبلے پیٹتی اور گوشت کھاتی حبشی عورتیں بھی ہیں اور چودھویں کے چاند کی چاندنی میں صحرا میں لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں جو مشہور عرب شاعر امراؤ القیس کے قصیدے اور عرب شعرا کی شاعری سنتے ہیں۔
علی اکبر ناطق نے اپنی داستان حیات ان گمنام مارے جانے والے شہیدوں کے نام کی ہے جنھیں انیس سو سینتالیس کی تقسیم نے کھا لیا تھا ۔ واقعتاً یہ ایک منفرد کہانی ہے ۔ اگر آپ کے اندر رومان کے جذبات مچلتے ہیں تو یہ خود نوشت ضرور پڑھیے گا ۔ یقیناً لطف اٹھائیں گے ۔
(تبصرہ نگار: عبید اللہ عابد)