یکم مئی … یوم مزدور اور اس کے تقاضے

ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے ۔

فوٹو : فائل

اسلام میں مزدوروں کے بہت سے حقوق ہیں جنھیں اسلام نے انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے، مزدور ہی اس قوم کا اثاثہ ہیں جو روزانہ کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدور وںکا کردار بہت اہم ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ حق تلفی بھی انہی کی کی جاتی ہے ۔

سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں ۔ ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے ۔ مزدوری ہر کوئی کرتا ہے، مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔ ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کر کے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت شخص کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے (طبرانی ) یہ فرما کر محنت کی قدرو قیمت اجاگر فرما دی ۔

نیز آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا (صحیح البخاری) آپﷺ کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپﷺ نے اپنی امت کے لیے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں (مسنداحمد، ابو داؤد) آپ ﷺ نے مزید فرمایا ''تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوںگا۔ ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی سے کام کروایا۔

کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی(صحیح البخاری) ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے مصافحہ کرتے وقت اس کے ہاتھوں پر کچھ نشانات دیکھے، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا روزی کمانے میں محنت مشقت کرنے کی وجہ سے، تو آپ ﷺنے اس کا ہاتھ چوم لیا ۔ مزید ارشاد فرمایا: مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دو (ابن ماجہ) جو کوئی غیر آباد زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے (گویا اس کی محنت نے اس کو مالکانہ حقوق عطاء کر دئیے) (احمد، ترمذی، ابو داؤد) اس کے برعکس جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ساری عمر محنت کرنے کے باوجود بھی محنت کش کو مالکانہ حقوق نہیں مل سکتے۔

کسی کے پاس غیر آباد زمین ہو جسے وہ خود کاشت کرے نہ کسی کو کاشت کے لئے دے تو اس کی زمین بحق سرکار ضبط ہو جائے گی (یعنی یا تو اس پر محنت کر کے اس سے خود فائدہ اٹھائے یا کسی دوسرے کو اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے ۔ جب یہ دونوں شکلیں نہیں بن رہیں، تو بیکار زمین پر حکومت قبضہ کر لے تا کہ وہ آگے کسی ضرورت مندکو دے سکے۔

یہاں بھی محنت ہی اصل بنیاد قرار پائی ہے)آپ ﷺ نے مضاربت یا شراکت میں سرمایہ کے ساتھ محنت کی پوزیشن برابر قرار دی ۔کسی کو آپ ﷺ نے کلہاڑا دے کر محنت کرنے کو کہا، کوئی جوان شخص آپ ﷺکے پاس مانگنے آیا تو آپ ﷺنے اس کو مثال سے توجہ دلائی کہ تمہارے پاس ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان، ناک اور زبان صحیح سالم موجود ہیں ۔ اس صورت میں تیرے پاس بے شمار دولت موجود ہے ۔

محنت کر کے کماؤ، مانگتا کیوں ہو ؟ یکم مئی کو مزدور کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جسے ''لیبر ڈے'' کہتے ہیں ۔ یہ کیوں منایا جاتا ہے اور کب سے ، ماضی میں تقریباً دو سو سال قبل پوری دنیا میں مزدوروں کی حالت قابل رحم تھی ۔ مزدور کی زندگی جانور سے بد تر ہوا کرتی تھی، مزدوروں سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ دن میں 16.16گھنٹے کام لیا جاتا اور مناسب اجرت بھی نہیں دی جاتی تھی ۔ مقررہ وقت سے زیادہ کام کروانے پر بھی اضافی اجرت نہیں دی جاتی تھی، غرض کہ ہر طرح سے مزدوروں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی اور ان کا بھر پور استحصال کیا جاتا۔ کام کرنے کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے، ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ فیکٹری، کمپنی یا مل کی طرف سے مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جا سکے ۔

مزدور کی ملازمت کا فیصلہ آجر کی مرضی پر ہوتا ۔ وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا ۔ ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا تھا اور چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں 1884 میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبریونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی ۔ قرارداد میں کچھ مطالبے رکھے گئے جن میں سب سے اہم مطالبہ ، مزدوروں کے کام کرنے کے16گھنٹوں کو کم کر کے8گھنٹے کیا جائے ۔

مزدوروں کا کہنا تھاکہ 8 گھنٹے کام کے لیے8گھنٹے آرام کے لیے اور8 گھنٹے ہماری مرضی سے گزارنے کے لیے ۔ اس مطالبے پر یکم مئی سے عمل کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، لیکن اس مطالبہ کو تمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی ہی کو ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور کہا جب تک مطالبات مانے نہیں جاتے یہ تحریک جاری رہے گی۔16گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں8 گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔

اسی وجہ سے اپریل1886 تک تقریباً ڈھائی لاکھ سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہو گئے ۔ اس تحریک کا آغاز امریکہ کے شہر ''شگاگو''سے ہوا۔ ہڑتال سے نپٹنے کے لیے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا ۔ تاریخ کا آغاز یکم مئی سے ہوگیا۔ پہلے روز ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی2 مئی کو بھی ہڑتال بہت کامیاب اور پُر امن رہی۔ لیکن تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے چار مزدور ہلاک اور بہت زخمی ہو گے۔


اس واقعہ کے خلاف تحریک کے منتظمین نے اگلے ہی روز 4 مئی کو ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کیا۔ جلسہ پُر امن تھا، لیکن آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اچانک فائرنگ شروع کردی،جس سے کئی مزدور ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرنیڈ سے حملہ کیا گیا،جس کی وجہ سے ایک پولیس والا ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے، اس حملے کو بہانہ بنا کر پولیس نے گھر گھر چھاپے مارے اور بائیں بازو اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا، ایک جعلی مقدمے میں آ ٹھ مز دور رہنماؤں کو سزائے موت دی گئی تھی۔

البرٹ پار سن، آ گسٹ سپائز،ایڈولف فشر اور جارج ا ینجل کو 11 نومبر1887کو پھانسی دے دی گئی۔ لوئیس لنگ نے جیل میں خود کشی کر لی اور باقی تینوں کو1893میں معاف کر کے رہا کر دیا گیا۔ مئی کی اس مزدور تحریک نے آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے متعلق شعور میں انتہائی اضافہ کیا، ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا تھا کہ ''مئی1886 کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعے کے بعد ہوئی ہے''۔

البرٹ پارسن کی بیوہ لوسی پارسن نے کہا''دنیا کے غریبوں کو چاہیے کہ اپنی نفرت کو ان طبقوں کی طرف موڑ دیں جو انکی غربت کے ذمہ دار ہیں یعنی سر ما یہ دار طبقہ''۔ جب مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کر کے ہوا میں لہرا دیا، اسکے بعد مزدور تحریک کا جھنڈاہمیشہ سرخ رہا ۔1889 میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890 کو یومِ مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ۔ اس دن کی تقریبات بہت کامیاب رہیں۔ اسکے بعد یہ دن ''عالمی یوم مزدور'' کے طور پر منایا جانے لگا سوائے امریکہ ، کینیڈا اورجنوبی افریقہ کے ۔ جنوبی افریقہ میں غالباً نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد یوم مئی وہاں بھی منایا جانے لگا۔

یکم مئی پوری دنیا میں ''یومِ مزدور'' کی شکل میں منایا جانے لگا اور دھیرے دھیرے دوسرے ممالک نے بھی یکم مئی کو ''یومِ مزدور'' کے طور پر منانا شروع کر دیا ۔ دیکھا جائے ہندستان میں مزدوروں کے اتحاد کو یاد کیا جائے، تو اس کی مثال 1862میں اپریل مئی کے دوران تقریباً 2100 مزدوروں کے ذریعے ہاوڑہ ریلوے اسٹیشن پر کی گئی ہڑتال ہے، اس ہڑتال میں بھی مزدوروں کا اصل مطالبہ کام کے اوقات کو گھٹا کر 8 گھنٹے کرنا تھا ۔

یکم مئی کو ''یومِ مزدور'' کے طور پر ہندوستان میں1932 میں منایا گیا، جس کے بعد سے ہر سال یوم مزدور منایا جانے لگا اور اس موقعے پر جلسوں کا انعقاد کیا جانے لگا جس میں مزدوروں کی ترقی اور ان کے مفاد سے متعلق اقدامات کیے جانے لگے۔ مزدور طبقے کی عالمی تحریک بڑی تیزی سے پھیلی اور چالیس پچاس برسوں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مزدور طبقے کا انقلابی سرخ پرچم لہرانے لگا۔ اس تحریک اور ان کوششوں سے فیکٹری، مل، کارخانے اور ذرائع آمد ورفت کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے والے مزدوروں کو کسی حد تک راحت مل سکی اور انہیں ان کا حق بھی مل رہا ہے، مگر آج بھی مزدوروں کا ایک طبقہ مشکل ترین زندگی گزار رہا ہے۔

یہ وہ مزدور ہوتے ہیں، جو صبح ہوتے ہی مزدوری کے انتظار میں سڑک کے کنارے، کسی نکڑ یا چوک پر کھڑے ہو کر اپنی روزی کا انتظار کرتے ہیں، اگر مزدوری مل گئی، تو روزی نہیں تو روزہ ۔ ایسے مزدوروں کی جانب توجہ دی جائے، تو ہو سکتا ہے ان کی مشکل آسان ہو جائے۔آج جہاں مزدوروں کے حقوق سلب کر لئے گئے ہیں وہاں صورتحال یہ ہے کہ حکومتوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود معیشت میں بہتری آنے کی بجائے مزید ابتری آئی ہے، بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔

اس وقت ملک میں سنگین سیاسی و معاشی بحران ہے جس کی وجہ سے کاروبار بند ہیں، کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباؤکا شکار ہیں،کارخانوں اور فیکٹریوں کو تالے لگ رہے ہیں، ہزاروں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں جس کے اثرات ان سے وابستہ خاندانوں اور زیر کفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں ، گزشتہ چند ماہ کے دوران لاکھوں سے زیادہ نوجوان حالات سے تنگ آکر ملک سے باہر بھاگ گئے ہیں ، لوگ قانونی و غیر قانونی طریقوں سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔

کچھ لوگ دوسرے ممالک کی سرحد پر پکڑے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر بیرونی جیلوں میں گزار دیتے ہیں،کچھ سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور کچھ بارڈر فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر شعبہ زندگی زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ کھانا سب سے پہلے ان لوگوں کو ملے جو بھوک سے نڈھال ہیں لیکن یہاں سب سے پہلے کھانے پر وہ ٹوٹ پڑتے ہیں جن کی پہلے ہی توندیں نکلی ہوئی ہیں۔ مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھیتوں، کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے۔

مقامِ افسوس یہ ہے کہ عالمی سطح پر مزدوروں کا یہ دن بڑے اہتمام کے ساتھ منا کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقہ آج بھی سرمایہ داری نظام کے زیرتسلط بری طرح پس رہا ہے جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ موجودہ مہنگائی سے عام آدمی تو متاثر ہوا ہی ہے جبکہ مزدور طبقہ تو عملاً زندہ درگور ہو چکا ہے ۔ روزانہ بارہ سے 14 گھنٹے کام کرنے والے مزدور کو اتنی اجرت بھی نہیں ملتی جس سے وہ اپنے گھر کی کفالت کر سکے یہی وجہ ہے کہ اس طبقہ میں خودکشی کا رجحان عام ہے ۔ عالمی سطح پر مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا دن منا کر فرض پورا نہیں ہو جاتا اور نہ ہی حکومتوں کو کاغذی کارروائیوں میں انکی اجرت بڑھا کر مطمئن ہو جانا چاہیے۔

مزدور ایک قابل رحم طبقہ ہے مہنگائی کے تناسب سے ہی انکی اجرت مقرر ہونی چاہیے اور انکے حالات بہتر بنانے کیلئے مروجہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے' تب ہی انکے ساتھ یکجہتی کے تقاضے پورے ہو سکیں گے۔ حالات کا یہ تقاضا ہے کہ سرکا ری سطح پر مزدور کی اجرت سونے کی ایک تولہ قیمت کے برابر کی جائے اور اسلام نے مزدو ر کے جو حقوق و اسلوب طے کئے ہیں ان پر عمل درآمد کرایا جائے اور مزدور کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔
Load Next Story