بلندی اور پستی دونوں ہی آپ کے ہاتھ میں
بچوں کے لیے ہمارے افعال ہماری نصیحتوں سے زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں
آج ہم جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں اور ہمیں ٹیکنالوجی نے کچھ اس طرح سے زیر کیا ہے کہ آج کل کہا جاتا ہے کہ ''آج کل بچوں کی تربیت والدین سے زیادہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کررہے ہیں۔۔۔!''
اگر ہم 1990ء کی دہائی کی بات کریں، تو بچے عینک والا جن، ٹوم اینڈ جیری، ننجا ٹرٹلز، کھل جا سم سم وغیرہ دیکھتے تھے، جنھیں مخصوص اوقات میں دیکھا جاتا تھا اور اس کے بعد سائیکل چلانا، کرکٹ، چھپن چھپائی، پکڑم پکڑائی، کھوکھو، برف پانی وغیرہ جیسے جسمانی کھیل کھیلے جاتے تھے۔
اس کے بعد باقاعدہ اپنے اماں ابا کے ساتھ بھی بیٹھا جاتا تھا اور سونے سے پہلے رسائل پڑھے جاتے یا کتب بینی کر کے سویا جاتا تھا۔ اس قسم کے اوقات کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ جسمانی اوردماغی دونوں طور پر بچے صحت مند رہتے تھے۔ بچوں کے ساتھ مائیں بھی اپنی صحت کا خیال رکھتی اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتی تھیں کہ ان سے کوئی ایسی بھول چوک نہ ہو جو کل کو ان کی شخصیت کی بربادی کا سبب بنے۔
مگر آج دور تبدیل ہو چکا ہے۔ 'سوشل میڈیا' کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی خصوصی توجہ ہوتی ہے کہ فون پر بھی گفت و شنید جاری و ساری رہے اور پھر ایسے میں وہ عمل سرزد ہو جاتے ہیں، جو بچوں کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتے ہیں۔
اکثر فون پر بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کی برائیاں شروع کر دی جاتی ہیں اور پھرجس کی برائی کی گئی ہواس کا سامنا بچے سے ہو جائے اور بچہ آپ کی کہی ہوئی بات دہرا دے تو آپ شرمندہ ہوتی ہیں، حتیٰ کہ اس میں آپ کا قصور ہے یا بچے کا اس کا فیصلہ آپ خود کریں؟ اس طرح یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کی بہن کا فون آیا اور آپ بات نہیں کرنا چاہتیں تو آپ کہیں گی ''جاؤ کہہ دو امی سورہی ہیں۔''
ایسے میں وہ بچہ مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے کہ کیا جھوٹ بولنا غلط ہے یا صحیح؟ اور پھر جب وہ آپ سے جھوٹ بولتاہے، تو آپ غصے کا اظہار کرتی ہیں، مگر کیا آپ نے سوچا ہے اسے جھوٹ بولنا دراصل کس نے سیکھایا؟ وہی جو کہتے ہیں کہ کہنے سے زیادہ آپ کے عمل سے اثر ہوتا ہے۔
اسی طرح کوئی عمل کرتے ہوئے یہ بات سوچی جاتی ہے کہ ابھی توبچے کھیل رہے ہیں یا پھر مصروف ہیں، تو یہ ہمارے کسی عمل یا پھر بات پر کہاں غور کریں گے؟ اور یہی بات سوچ کر مائیں بچوں کے سامنے ایسی فلمیں اور ڈرامے وغیرہ دیکھ لیتی ہیں اوراس وقت ان کی سوچ یہی ہوتی ہیں کہ ان کے بچے چھوٹے ہیں اور کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔
بے شک وہ بچے اس ڈرامے میں ہونے والی سازشیں نہیں سمجھ سکتے، مگر وہ اس میں استعمال ہونے والی زبان ضرور سن سکتے ہیں اور پھر وہ اسی زبان کا استعمال اسکول اور دیگر جگہوں پر کرتے ہیں، تو پھر ماؤںکو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، حتیٰ کہ سوچا جائے، تو غلطی کس کی ہے آپ کی یا پھر بچے کی؟جو یہ سوچتی ہیں کہ کیا ہوا اگر انھوں نے کوئی پروگرام جو بچوں کی عمر سے مطابقت نہیں رکھتا، ان کے سامنے دیکھ لیا، تو اس سے بچوں کی ذات اور شخصیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
فرق تو بہت پڑتا ہے، یہ ذمہ داری تو ماؤں پر عائد ہوتی ہیں کہ بے شک فون پر بات کر کے یہ جواب دے دیں کہ میں فی الحال سونے جا رہی ہوں اور بچے کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ بچوں کے سامنے کسی پر نکتہ چینی کرنے سے گریز کریں، میڈیا میں موجود وہ مواد دیکھنے سے گریز کریں جو بچوں سے مطابقت نہ رکھتاہو ا ور ان کی شخصیت کو بگاڑنے کا باعث بنے۔
آج کے دور میںبچوں کی پرورش ایک انتہائی حساس معاملہ ہوگیا ہے، آج کل اس بات کی ذیادہ ضرورت ہوگئی کہ والدین اپنی بول چال، انداز، گفتگو، فعل سب کی طرف توجہ دے اور دھیان سے سر انجام دیں اور ٹی وی اور انٹرنیٹ سے ذیادہ ان کی پرورش خود کریں، کیوں کہ آج کل اس بات کی ضرورت نہیں کہ بیٹھا جائے اور بچے کو سمجھایا جائے اور پھر وہ سیکھے، آج توجو آپ کریں گے، کہیں گے، بچہ وہی سیکھے سمجھے اور کہے گا، کیوں کہ بچے تو پھر آپ ہی کے ہیں۔ بلندی اور پستی دونوں ہی آج آپ کے ہاتھ میں ہیں۔
اگر ہم 1990ء کی دہائی کی بات کریں، تو بچے عینک والا جن، ٹوم اینڈ جیری، ننجا ٹرٹلز، کھل جا سم سم وغیرہ دیکھتے تھے، جنھیں مخصوص اوقات میں دیکھا جاتا تھا اور اس کے بعد سائیکل چلانا، کرکٹ، چھپن چھپائی، پکڑم پکڑائی، کھوکھو، برف پانی وغیرہ جیسے جسمانی کھیل کھیلے جاتے تھے۔
اس کے بعد باقاعدہ اپنے اماں ابا کے ساتھ بھی بیٹھا جاتا تھا اور سونے سے پہلے رسائل پڑھے جاتے یا کتب بینی کر کے سویا جاتا تھا۔ اس قسم کے اوقات کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ جسمانی اوردماغی دونوں طور پر بچے صحت مند رہتے تھے۔ بچوں کے ساتھ مائیں بھی اپنی صحت کا خیال رکھتی اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتی تھیں کہ ان سے کوئی ایسی بھول چوک نہ ہو جو کل کو ان کی شخصیت کی بربادی کا سبب بنے۔
مگر آج دور تبدیل ہو چکا ہے۔ 'سوشل میڈیا' کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی خصوصی توجہ ہوتی ہے کہ فون پر بھی گفت و شنید جاری و ساری رہے اور پھر ایسے میں وہ عمل سرزد ہو جاتے ہیں، جو بچوں کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتے ہیں۔
اکثر فون پر بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کی برائیاں شروع کر دی جاتی ہیں اور پھرجس کی برائی کی گئی ہواس کا سامنا بچے سے ہو جائے اور بچہ آپ کی کہی ہوئی بات دہرا دے تو آپ شرمندہ ہوتی ہیں، حتیٰ کہ اس میں آپ کا قصور ہے یا بچے کا اس کا فیصلہ آپ خود کریں؟ اس طرح یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کی بہن کا فون آیا اور آپ بات نہیں کرنا چاہتیں تو آپ کہیں گی ''جاؤ کہہ دو امی سورہی ہیں۔''
ایسے میں وہ بچہ مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے کہ کیا جھوٹ بولنا غلط ہے یا صحیح؟ اور پھر جب وہ آپ سے جھوٹ بولتاہے، تو آپ غصے کا اظہار کرتی ہیں، مگر کیا آپ نے سوچا ہے اسے جھوٹ بولنا دراصل کس نے سیکھایا؟ وہی جو کہتے ہیں کہ کہنے سے زیادہ آپ کے عمل سے اثر ہوتا ہے۔
اسی طرح کوئی عمل کرتے ہوئے یہ بات سوچی جاتی ہے کہ ابھی توبچے کھیل رہے ہیں یا پھر مصروف ہیں، تو یہ ہمارے کسی عمل یا پھر بات پر کہاں غور کریں گے؟ اور یہی بات سوچ کر مائیں بچوں کے سامنے ایسی فلمیں اور ڈرامے وغیرہ دیکھ لیتی ہیں اوراس وقت ان کی سوچ یہی ہوتی ہیں کہ ان کے بچے چھوٹے ہیں اور کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔
بے شک وہ بچے اس ڈرامے میں ہونے والی سازشیں نہیں سمجھ سکتے، مگر وہ اس میں استعمال ہونے والی زبان ضرور سن سکتے ہیں اور پھر وہ اسی زبان کا استعمال اسکول اور دیگر جگہوں پر کرتے ہیں، تو پھر ماؤںکو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، حتیٰ کہ سوچا جائے، تو غلطی کس کی ہے آپ کی یا پھر بچے کی؟جو یہ سوچتی ہیں کہ کیا ہوا اگر انھوں نے کوئی پروگرام جو بچوں کی عمر سے مطابقت نہیں رکھتا، ان کے سامنے دیکھ لیا، تو اس سے بچوں کی ذات اور شخصیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
فرق تو بہت پڑتا ہے، یہ ذمہ داری تو ماؤں پر عائد ہوتی ہیں کہ بے شک فون پر بات کر کے یہ جواب دے دیں کہ میں فی الحال سونے جا رہی ہوں اور بچے کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ بچوں کے سامنے کسی پر نکتہ چینی کرنے سے گریز کریں، میڈیا میں موجود وہ مواد دیکھنے سے گریز کریں جو بچوں سے مطابقت نہ رکھتاہو ا ور ان کی شخصیت کو بگاڑنے کا باعث بنے۔
آج کے دور میںبچوں کی پرورش ایک انتہائی حساس معاملہ ہوگیا ہے، آج کل اس بات کی ذیادہ ضرورت ہوگئی کہ والدین اپنی بول چال، انداز، گفتگو، فعل سب کی طرف توجہ دے اور دھیان سے سر انجام دیں اور ٹی وی اور انٹرنیٹ سے ذیادہ ان کی پرورش خود کریں، کیوں کہ آج کل اس بات کی ضرورت نہیں کہ بیٹھا جائے اور بچے کو سمجھایا جائے اور پھر وہ سیکھے، آج توجو آپ کریں گے، کہیں گے، بچہ وہی سیکھے سمجھے اور کہے گا، کیوں کہ بچے تو پھر آپ ہی کے ہیں۔ بلندی اور پستی دونوں ہی آج آپ کے ہاتھ میں ہیں۔