پاکستان ایک نظر میں آخر کوئی تو بتائے
بچے کی ایک آہ پر تڑپ جانیوالی ماں جب اپنی دوسالہ بچی کوبس میں چھوڑ جاتی ہےتواس کے جذبات کیا ہوتے ہیں کبھی کسی نے سوچا؟
میں بہت حساس بندہ ہوں۔۔ اتنا حساس شاید آج کل کی دنیا میں نہیں ہونا چاہئیے۔۔۔
بہت کچھ سنتا ہوں اور سن کر دماغ لرزتا ہے اور دل پھٹتا ہے۔۔
کچھ دن قبل ایک عورت نے بچوں سمیت ٹرین کے آگے چھلانگ لگا دی۔۔۔
ایک باپ نے اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا۔۔
ایک آدمی نے اپنے بچوں کو راوی میں پھینک دیا۔۔
ایک عورت اپنی دو سال کی بچی کو بس میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ ۔
کوئی پوچھے یار۔۔کوئی تو پوچھے۔۔۔ !
ان سب کا جرم کیا تھا۔۔۔ ۔صرف غربت۔۔
کوئی سوچے تو ۔۔۔ بچوں کی انگلی تھامے وہ عورت جب ریل کی طرف جا رہی ہو گی تو بچوں کو کیا کہہ کر لائی ہوگی۔۔بھری آنکھوں سےکس چیز کا بہلاوا دیا ہو گا بچوں کو۔۔۔ ۔سخت گرمی میں بچوں کو کیسے بھوکے پیاسے لائی ہو گی کہ پاس کچھ نہ تھا کھانے کو۔۔۔ ۔کس کس طرح دل نہ پھٹا ہو گا اس کا۔۔ اپنے جگر کے ٹکروں کو آخری بار کتنا چوما ہو گا اس بے کس نے۔۔۔
اور۔۔۔ بچوں کے ذہن میں کیا ہو گا۔۔۔ بس یہ کہ ارد گرد کی چیزوں کو تجسس اور حیرانگی بھری آنکھوں سے دیکھتے چلے جا رہے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ ماں آج ہمیں کدھر لے کر جارہی ہے۔۔۔ بھوک سے کرلاتے نہ ہوں گے کیا۔۔۔ یا شاید اسی امید پر کہ ماں شاید کھانا کھلانے لے کر جارہی ہے۔۔۔
اگر ان کے پاس کھانے کو کچھ ہوتا تو کیا یہ ماں ٹرین کے آگے کودتی۔۔۔ !!
کوئی تو بتاؤ۔۔!!
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ کو کتنی خوشی ہوتی ہے۔۔۔ یہ ایک باپ ہی جان سکتا ہے۔۔
اس کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے متعلق طرح طرح کے خواب ہوتے ہیں۔۔۔ عالم تصور میں انہیں افسر بنا دیکھتا ہے۔۔
ان کی ہر آسائش کے لئے دنیا بھر کا آرام خود پر حرام کرتا ہے ۔۔۔
بچوں کی ایک کاپی کتاب کے لئے سارا سارا سال اوور ٹائم لگاتا ہے۔۔لیکن جب کاپی کتاب تو دور ۔۔کچھ کھانے کو بھی نہیں رہتا تو قرضے لیتا ہے۔۔انہیں اتارنے کیلئے اور پھرقرضے لیتا ہے اور جب قرضے ملنے بند ہو جاتے ہیں ۔۔۔ تو ہر طرح کا کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے
لیکن کھانے کے لیے کچھ کما نہیں سکتا۔۔۔۔ شام کو گھر آ کے بیمار بیوی کا چہرہ دیکھتا ہے۔۔۔ بچے بھوک سے تلملا رہے ہوتے ہیں۔۔۔
اسے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ تو کن کن خیالوں سے لڑتا ہے ۔۔۔ کوئی تو سمجھے نا اس بات کو بھی۔
بچوں کی پیدائش سے لے کر اب تک کی زندگی اس کی نگاہوں میں سے گزرتی ہے۔۔۔ بچوں کے ساتھ گزاری عیدیں۔۔ بچوں کو دی ہوئی عیدی اور بچوں کے چہرے کی گزری خوشی بھی اسے تڑپاتی ہے۔۔ بچوں کو گود میں اٹھانا اسے بھی یاد آتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ کیا کرے ۔۔۔ اسے کچھ نظر نہیں آتا آگے۔۔ بچے کھانے کی کمی سے لاغر ہیں۔۔ شاید ایسے ہی کسی دن مر جائیں ۔۔۔ تو اتنا سسکانا کیوں بچوں کو۔۔۔ ایک ہی دفعہ قصہ تمام کرو کہ آگے بھی تو سسک سسک کر مرنا ہے۔۔
انہی جذبات میں وہ کمرے سے باہر نکلتا ہے اور بچوں کو چومتا ہے اور ایک آخری حسرت بھری نگاہ سے انہیں دیکھتا ہے۔۔۔
پھر کیا باپ سنگدل تھا۔۔۔ کوئی بتاؤ یار۔۔ کوئی تو بتا دو۔۔!!
ماں کو اپنی اولاد سے بہت پیار ہوتا ہے۔۔۔ خود بھوکی رہ لیتی ہے لیکن اولاد کا بھوکا رہنا اسے گوارا نہیں۔۔۔ خود بیماری سے تڑپتی رہے گی لیکن بچہ بیمار ہوگا تو ہر جتن کر کے دوا لے آئے گی۔۔ بچہ بستر گیلا کر دے تو خود گیلی جگہ پر لیٹ جائے گی لیکن اپنے لال کو خشک جگہ پر کر دے گی کہ کہیں اسے سردی نہ لگے۔۔ کہیں یہ بیمار نہ ہو جائے کہ میری جان ہے اس میں۔۔۔ بچہ بیمار ہو گا تو اس کی ایک آہ سے ماں کی جان نکلے گی۔۔
تو۔۔۔ بچے کی ایک آہ پر تڑپ تڑپ جانے والی جب اپنی دو سالہ بچی کو بس میں چھوڑ جاتی ہے تو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔۔کبھی کسی نے سوچا۔۔!
کوئی تو مجھے بتائے۔۔۔ !!
بس کو جاتے کب تک دیکھا ہو گا اس نے۔۔۔ !!
"ہائے ۔۔ بچی رو نہ رہی ہو۔۔ اسے بھوک لگی ہو گی۔۔۔ اکیلی ہے ۔۔ کوئی چوٹ تو نہ لگے گی اسے۔۔۔ "
کس کس طرح نہ ٹوٹی ہو گی وہ ماں۔۔۔ !!
دوپٹہ منہ میں دئیے جگر پاش پاش نہ ہوا ہو گا اس کا۔۔۔ !!
آنکھوں سے بھل بھل آنسو نہ بہے ہوں گے کیا۔۔۔ !!
اس کے پاس کچھ تھا کیا اپنی بچی کو کھلانے کو۔۔۔ !!
گر ہوتا تو ایسے الگ کرتی کیا اپنے جگر کے ٹکڑے کو۔۔۔ ۔!!
کوئی تو بتا دو۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بہت کچھ سنتا ہوں اور سن کر دماغ لرزتا ہے اور دل پھٹتا ہے۔۔
کچھ دن قبل ایک عورت نے بچوں سمیت ٹرین کے آگے چھلانگ لگا دی۔۔۔
ایک باپ نے اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا۔۔
ایک آدمی نے اپنے بچوں کو راوی میں پھینک دیا۔۔
ایک عورت اپنی دو سال کی بچی کو بس میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ ۔
کوئی پوچھے یار۔۔کوئی تو پوچھے۔۔۔ !
ان سب کا جرم کیا تھا۔۔۔ ۔صرف غربت۔۔
کوئی سوچے تو ۔۔۔ بچوں کی انگلی تھامے وہ عورت جب ریل کی طرف جا رہی ہو گی تو بچوں کو کیا کہہ کر لائی ہوگی۔۔بھری آنکھوں سےکس چیز کا بہلاوا دیا ہو گا بچوں کو۔۔۔ ۔سخت گرمی میں بچوں کو کیسے بھوکے پیاسے لائی ہو گی کہ پاس کچھ نہ تھا کھانے کو۔۔۔ ۔کس کس طرح دل نہ پھٹا ہو گا اس کا۔۔ اپنے جگر کے ٹکروں کو آخری بار کتنا چوما ہو گا اس بے کس نے۔۔۔
اور۔۔۔ بچوں کے ذہن میں کیا ہو گا۔۔۔ بس یہ کہ ارد گرد کی چیزوں کو تجسس اور حیرانگی بھری آنکھوں سے دیکھتے چلے جا رہے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ ماں آج ہمیں کدھر لے کر جارہی ہے۔۔۔ بھوک سے کرلاتے نہ ہوں گے کیا۔۔۔ یا شاید اسی امید پر کہ ماں شاید کھانا کھلانے لے کر جارہی ہے۔۔۔
اگر ان کے پاس کھانے کو کچھ ہوتا تو کیا یہ ماں ٹرین کے آگے کودتی۔۔۔ !!
کوئی تو بتاؤ۔۔!!
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ کو کتنی خوشی ہوتی ہے۔۔۔ یہ ایک باپ ہی جان سکتا ہے۔۔
اس کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے متعلق طرح طرح کے خواب ہوتے ہیں۔۔۔ عالم تصور میں انہیں افسر بنا دیکھتا ہے۔۔
ان کی ہر آسائش کے لئے دنیا بھر کا آرام خود پر حرام کرتا ہے ۔۔۔
بچوں کی ایک کاپی کتاب کے لئے سارا سارا سال اوور ٹائم لگاتا ہے۔۔لیکن جب کاپی کتاب تو دور ۔۔کچھ کھانے کو بھی نہیں رہتا تو قرضے لیتا ہے۔۔انہیں اتارنے کیلئے اور پھرقرضے لیتا ہے اور جب قرضے ملنے بند ہو جاتے ہیں ۔۔۔ تو ہر طرح کا کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے
لیکن کھانے کے لیے کچھ کما نہیں سکتا۔۔۔۔ شام کو گھر آ کے بیمار بیوی کا چہرہ دیکھتا ہے۔۔۔ بچے بھوک سے تلملا رہے ہوتے ہیں۔۔۔
اسے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ تو کن کن خیالوں سے لڑتا ہے ۔۔۔ کوئی تو سمجھے نا اس بات کو بھی۔
بچوں کی پیدائش سے لے کر اب تک کی زندگی اس کی نگاہوں میں سے گزرتی ہے۔۔۔ بچوں کے ساتھ گزاری عیدیں۔۔ بچوں کو دی ہوئی عیدی اور بچوں کے چہرے کی گزری خوشی بھی اسے تڑپاتی ہے۔۔ بچوں کو گود میں اٹھانا اسے بھی یاد آتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ کیا کرے ۔۔۔ اسے کچھ نظر نہیں آتا آگے۔۔ بچے کھانے کی کمی سے لاغر ہیں۔۔ شاید ایسے ہی کسی دن مر جائیں ۔۔۔ تو اتنا سسکانا کیوں بچوں کو۔۔۔ ایک ہی دفعہ قصہ تمام کرو کہ آگے بھی تو سسک سسک کر مرنا ہے۔۔
انہی جذبات میں وہ کمرے سے باہر نکلتا ہے اور بچوں کو چومتا ہے اور ایک آخری حسرت بھری نگاہ سے انہیں دیکھتا ہے۔۔۔
پھر کیا باپ سنگدل تھا۔۔۔ کوئی بتاؤ یار۔۔ کوئی تو بتا دو۔۔!!
ماں کو اپنی اولاد سے بہت پیار ہوتا ہے۔۔۔ خود بھوکی رہ لیتی ہے لیکن اولاد کا بھوکا رہنا اسے گوارا نہیں۔۔۔ خود بیماری سے تڑپتی رہے گی لیکن بچہ بیمار ہوگا تو ہر جتن کر کے دوا لے آئے گی۔۔ بچہ بستر گیلا کر دے تو خود گیلی جگہ پر لیٹ جائے گی لیکن اپنے لال کو خشک جگہ پر کر دے گی کہ کہیں اسے سردی نہ لگے۔۔ کہیں یہ بیمار نہ ہو جائے کہ میری جان ہے اس میں۔۔۔ بچہ بیمار ہو گا تو اس کی ایک آہ سے ماں کی جان نکلے گی۔۔
تو۔۔۔ بچے کی ایک آہ پر تڑپ تڑپ جانے والی جب اپنی دو سالہ بچی کو بس میں چھوڑ جاتی ہے تو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔۔کبھی کسی نے سوچا۔۔!
کوئی تو مجھے بتائے۔۔۔ !!
بس کو جاتے کب تک دیکھا ہو گا اس نے۔۔۔ !!
"ہائے ۔۔ بچی رو نہ رہی ہو۔۔ اسے بھوک لگی ہو گی۔۔۔ اکیلی ہے ۔۔ کوئی چوٹ تو نہ لگے گی اسے۔۔۔ "
کس کس طرح نہ ٹوٹی ہو گی وہ ماں۔۔۔ !!
دوپٹہ منہ میں دئیے جگر پاش پاش نہ ہوا ہو گا اس کا۔۔۔ !!
آنکھوں سے بھل بھل آنسو نہ بہے ہوں گے کیا۔۔۔ !!
اس کے پاس کچھ تھا کیا اپنی بچی کو کھلانے کو۔۔۔ !!
گر ہوتا تو ایسے الگ کرتی کیا اپنے جگر کے ٹکڑے کو۔۔۔ ۔!!
کوئی تو بتا دو۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔