پاکستان ایک نظر میں بیرئیرز ہی گرائے گئے تھے کوئی قیامت تھوڑی آگئی تھی

بدقسمتی سے ہمارے یہاں مرنے والوں کے خون سے سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنی سیاست کو تقویت دیتی ہیں

اگر انتظامیہ کی جانب سے بیرئیر اور رکاوڑیں ہٹا بھی دی جاتی تو کون سی قیامت آجانی تھی اگر منہاج القرآن کے رہنماوں کے پاس عدالتی حکم موجود تھا تو عدالت سے دوبارہ رابطہ کرکے بیرئیر لگوائے جاسکتے تھے۔ فوٹو: ایکسپریس

ہر دور میں کسی نہ کسی سیاسی ومذہبی جماعت کی جانب سے حکومتی پالیسوں کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی جاتی رہی ہے ۔پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے۔ اپنے ذاتی یا اجتماعی ایشوبشمول مہنگائی ، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ کے حوالے سے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے اور ان کو منوانے کے لیے مختلف فورمز کو استعمال کیاجاتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے گزشتہ ایک سال سے آئین کی حکمرانی کے لیے تحریک شروع کر رکھی ہے ۔23جون کو ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈا سے وطن وآپس آکر اس تحریک کی قیادت کرنا چاہتے ہیں۔ ماڈل ٹاون لاہور میں منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکتر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور مرکزی آفس کے باہر لگائے گئے بیرئیرکو ہٹانے کے لیے 16جون کی شب پولیس ماڈل ٹاون پہنچی جہاں گزشتہ کئی سالوں سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے سامنے بیرئیرز اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے روڈ کو بند رکھا گیا تھا۔انتظامیہ کے مطابق اہلیان علاقہ کی جانب سے روڈ کو کھولنے کے لیے بہت سی درخواستیں موصول ہوئی تھیں جس کی بنا پر انتظامیہ کو رکاوٹیں ہٹانے پر اور روڈ کھولنے پر مجبور ہونا پڑا۔پولیس اور انتطامیہ جیسے ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر پہنچی وہاں اُنکو منہاج القرآن کے کارکنان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہاں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پولیس کو اچانک کئی سالوں بعداچانک رات کے 2 بچے کیوں خیال آیا کہ رکاوٹیں ہٹانی چاہیے اور پھر اِس فیصلے پر اتنی شدت کے ساتھ عملدرآمد کروایا گیا کہ حالات قابو سے باہر ہوگئے ۔ مگر دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری خود بھی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور مزاحمت کرنے کو گناہ تصور کرتے ہے آپ ہی نے فرمایا کہ ہتھیار اٹھانے والا اور مزاحمت کرنے والا باغی ہے اور اس کے خلاف کاروائی کرنا ثواب کا کام ہے ۔


پھر اِس واضح موقف کے باوجود آخر کیونکر منہاج القرآن کے کارکنان نے خود ہی اپنے قائد کے بیان اور فتویٰ کی نفی کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کے سامنے اِس قدر مزاحمت کی جس کے نتیجے میں بہت سے افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دونا پڑے۔تو کیا طاہر القادری اِن افراد کے بارے میں کوئی بیان جاری کرنے کی جسارت کریں گے جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اُلجھے اور نوبت یہاں تک آگئی۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے بیرئیر اور رکاوڑیں ہٹا بھی دی جاتی تو کون سی قیامت آجانی تھی جس کی وجہ سے معصوم اور بہت قیمتی جانیں ضائع کروا لی گئی ۔اگر منہاج القرآن کے رہنماوں کے پاس عدالتی حکم موجود تھا تو عدالت سے دوبارہ رابطہ کرکے بیرئیر لگوائے جاسکتے تھے لیکن اِس طرح قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا اِس طرح نہ ہنگامہ کھڑا ہوتا نہ معاملات اتنے طول پکڑتے ۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک المیہ ہے کہ مرنے والا تو ناحق مرجاتا ہے اور اُس کا قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک غریب ہوتا ہے یا پھر کسی سیاسی و مذہبی جماعت کا کارکن ہوتا ہے۔ اور پھر اِس خون سے یہ جماعتیں اپنی سیاست کو تقویت دیا کرتی ہے ۔ اِس بار بھی یہ ہورہا ہے۔ ایک طرف تو 8 افراد کا ناحق قتل ہوگیا مگر طاہر القادری کو اب بھی حکومت گرانے کی فکر ہے اور کہتے ہیں کہ اِن 8 افراد کے قصاص پر حکومت کی قربانی یقینی ہوگئی۔ بھلا کوئی ہے جو اُن سے پوچھے جناب حکومت گرانے سے پہلے اِس بات کا سوچیے کے اُن غریب لوگوں کے مستقبل کا کیا ہوگا جنہوں نے آپ کے گھر کے باہر لگے بیرئیرز کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک قربان کردی ۔ آپ اُن لوگوں کا سوچنے کے بجائے اب بھی 7 سمندر پار بیٹھ کر حکومت گرانے کے پروگرام بنارہے ہیں جبکہ دوسری جانب وزیراعلی پنجاب شہباز شریف المعروف خادم اعلی کی استعفا دینا پسند کریں گے؟ کیونکہ یہ واقعہ آپ کی ناک کے نیچے ہوا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ اُنہیں معلوم ہی نہیں کہ باہر کیا ہورہا ہے۔ اگر آپ کو معلوم تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے اور آپ نے کچھ نہیں کیا تو یہ ایک نااہلی ہے لیکن اگر آپ کو واقعی یہ نہیں معلوم تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے تو پھر شاید یہ جرم اور نکمہ پن ہے کیونکہ اگر آپ کو یہ نہیں معلوم کے آپ کے محلے میں کیا ہورہا ہے تو پھر آپ کو باقی ماندہ صوبے کا کیسے معلوم ہوگا؟ جو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story