برصغیر گہوارہ امن یا راکھ کا ڈھیر
چونکہ میاں نواز شریف ایک مخصوص تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نو منتخب شدہ بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی غرض سے گئے تھے۔ نومنتخب بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف پاکستان کے وزیر اعظم کو بلکہ سارک ممالک کے تمام سربراہان مملکت و حکومت کو اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی، لہٰذا میاں محمد نواز شریف اپنے ہمراہ نئے بھارتی وزیر اعظم سے مذاکرات کا کوئی ایجنڈا لے کر نہیں گئے اس کے باوجود نومنتخب شدہ بھارتی صدر نریندر مودی نے انھیں بالخصوص ممبئی سانحے کے بارے میں کہا کہ اس کی تفصیلات جلد ازجلد طے کرکے ذمے داروں کو سزا کا مستوجب قرار دیا جائے۔
چونکہ میاں نواز شریف ایک مخصوص تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے اس لیے انھوں نے نریندر مودی سے تو کچھ نہ کہا لیکن بھارتی ذرایع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ممبئی سانحے کے بارے میں ضرور بتایا کہ یہ سانحہ عدالت میں پیش ہے اور جوں ہی کوئی فیصلہ یا نتیجہ سامنے آیا وہ اس پر عمل درآمد کریں گے۔ اب یہ تصور کرنا کہ بھارت کے ساتھ، گزشتہ چھیاسٹھ برس کے تنازعات اور کشیدگی ایک رات ہی میں حل ہوجائے گی اور چٹکی بجانے ہی تمام مسائل حل کر لیے جائیں گے ایک خواہش کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ''تھیوکریسی'' بنانے کے قائل نہ تھے۔ وہ اس ملک کو ایک دینی اور مذہبی ریاست بنانے کے شدید مخالف تھے کیونکہ وہ ایک لبرل، آزاد خیال اور روشن دماغ مسلمان سربراہ مملکت تھے جو اپنی ریاست کی حدود میں آباد تمام اقلیتی طبقات کی مذہبی آزادی کے دل کی گہرائیوں سے قائل تھے۔ آپ ان کی اگست 1947 کی اس تقریر کو پڑھ لیں جس میں انھوں نے کہا تھا آج سے تمام باشندے پاکستانی ہیں اور جو جہاں چاہے مذہبی عبادات کے لیے آزاد ہے۔ وہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے پاسدار اور نگہبان تھے۔لیکن بابائے قوم کے انتقال کے بعد اسمبلی میں ''قرارداد مقاصد'' بعض وجوہ سے منظور کروالی گئی جس کا مقصد پاکستان کو ایک دینی اور مذہبی ریاست بنانا تھا۔
''قرارداد مقاصد'' کے بطن سے ضیا الحق نے جنم لیا جو اسلام کا نام لے کر صرف اور صرف اپنے سیاسی اقتدار کو طول دینا چاہتا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو شاید یہ بات معلوم نہ تھی کہ ضیا کی اتنی عاجزی، کسر نفسی اور انکسار ایک دن ان کو پھانسی پر چڑھا دے گی۔ بھٹو صاحب نے قید سے رہا ہونے کے بعد جنرل ضیا الحق سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 6 کے تحت اس پر غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ بھٹو کے پھانسی چڑھنے کی اس سے بہتر وجہ اور بھلا کیا ہوسکتی ہے؟
جس سال یعنی 1979 کو بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا، اسی سال روسی افواج نے افغانستان پر فوج کشی کردی۔ امریکا اس فوج کشی کا شدید ترین مخالف تھا کیونکہ اسے اندیشہ تھا کہ روس افغانستان سے گرم پانیوں کی تلاش میں بلوچستان تک بھی پہنچ سکتا ہے اور یوں امریکی تیل بردار ٹینکروں کی بحری ناکہ بندی کرکے امریکی صنعتوں کا پہیہ جام کرسکتا ہے چنانچہ اس نے ضیا الحق کو اس کام کے لیے انتہائی موزوں اور مناسب سمجھتے ہوئے روسی افواج کی افغانستان سے انخلا کی ذمے داری اسے سونپ دی۔
دوسری طرف اسامہ بن لادن، جس کا تعلق یوں تو یمن سے تھا لیکن وہ سعودی عرب کے انتہائی مالدار گھرانے یعنی بن لادن سے تعلق رکھتا تھا، امریکی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ضیا الحق کے ساتھ اپنی بے اندازہ دولت کے ساتھ شامل ہوگیا آپ کبھی اس بات پر غور ضرور کیجیے گا کہ اسامہ بن لادن جو کبھی امریکی حکومت کا منظور نظر ہوا کرتا تھا اچانک امریکا مخالف کیسے اورکیونکر ہوگیا؟ کیا امریکی انتظامیہ نے روسی افواج کے افغانستان سے انخلا کے لیے اس سے کوئی وعدہ کر رکھا تھا جسے امریکی حکومت نے وفا نہیں کیا؟ آخر کیا وجہ اور سبب تھا کہ اسامہ بن لادن یوں امریکا سے بدظن ہوگیا حالاں کہ روسی افواج افغانستان سے واپس جاچکی تھیں۔ اور پھر ایک نیم شب کو اسے ایک پاکستانی شہر ایبٹ آباد کے ایک گھر میں بے دردی سے قتل کردیا۔
مذہبی اور دینی انتہا پسندی بھارت میں بھی ہے اور پاکستان میں بھی۔ دونوں جانب ایسے انتہا پسند اور شدت پرست عناصر موجود ہیں جو یا تو ''ہندوتوا'' کا غلبہ چاہتے ہیں یا ''اسلام'' کا۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ بھارت میں تو راشٹریہ سیوک سنگھ کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعظم بھاری اکثریت سے منتخب بھی ہوچکا ہے لیکن آفرین ہے اسی بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر کہ وہ میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں بس پر سفر کرکے پاکستان آئے۔
امن، محبت اور خوشحالی کی باتیں کیں اور مینار پاکستان بھی گئے لیکن بعدازاں کارگل ایڈونچر نے سب ہی کچھ خاک میں ملا دیا۔ قارئین ابھی اس بات کو بھی نہیں بھولے ہوں گے کہ بھارت کے ''باپو'' یعنی موہن داس کرم چند گاندھی نے دہلی میں برلا ہاؤس میں مرن برت رکھا تھا کہ مسلمانوں کو تقسیم کے بعد ان کا جائز مالی حصہ دے دیا جائے اور اب جب کہ پاکستان بن چکا ہے، ہندوستان سے پاکستان جانے والے مسلمانوں کو محفوظ راستہ دے دیا جائے۔ یہ مطالبات سراسر مسلمانوں کے حق میں تھے اسی لیے راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک انتہا پسند ہندو نے مہاتما گاندھی کو مرن برت کے دوران پستول سے فائر کرکے قتل کردیا۔ اس انتہا پسند ہندو کا نام تھا ناتھو رام گوڈسے!
اگر دونوں ممالک کے مذہبی انتہا پسند عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اس بار جو جنگ ہوسکتی ہے وہ ''روایتی ہتھیاروں'' سے لڑی جائے گی تو وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اس بار پاک بھارت جنگ ''ایٹمی ہتھیاروں'' سے لڑی جائے گی کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو صرف انسانوں کی راکھ بچے گی نہ تو ہندوتوا کا غلبہ ہوگا نہ اسلام کا۔ ابھی میاں نواز شریف کے دورہ دہلی کے دوران کسی بھارتی منصب دار نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ایٹمی طاقت سے اس پر حملہ کردیا جائے۔
مہاشے جی! طاقت اور قوت سے تنازعات حل کرنے کا زمانہ گزر چکا۔ اب صرف مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے دیرینہ تنازعات اور مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کی مثال امریکا اور چین۔ چین اور بھارت، شمالی کوریا جنوبی کوریا اور سب سے بڑھ کر یورپی یونین کے قیام سے دی جاسکتی ہے جن کے مابین تنازعات بھی موجود ہیں، جن پر گفت و شنید جاری ہے، اور معمول کے تعلقات بھی قائم ہیں۔ اگر بھارت اور پاکستان کو امن، محبت، خوشحالی اور باہمی تعاون کے ذریعے قائم رہنا ہے تو مذاکرات، گفت و شنید اور بات چیت ہی اس کا واحد حل ہے۔ کم ازکم یورپین یونین کا قیام تو اسی حقیقت کا ایک واضح ثبوت ہے۔
اب یہ فیصلہ بھارت اور پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں کو کرنا ہے کہ آیا وہ برصغیر کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں یا بارود اور راکھ کا ڈھیر؟ اگر ہندوتوا اور اسلام کا غلبہ منظور ہے تو اس مقصد کے لیے رقبہ اور آبادی یکسر ضروری ہے ورنہ ایسا کرنا ممکن نہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے مابین اگر ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ چھڑگئی تو نہ بھارت رہے گا نہ پاکستان! دونوں اطراف کے انتہا پسندوں کا بھی خاتمہ بالخیر ہوجائے گا۔
لہٰذا مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں ممالک اپنے دیرینہ تنازعات مذاکرات، گفت و شنید اور بات چیت سے ہی حل کرلیں جنگ تو مسائل کو جنم دیتی ہے انھیں حل کبھی نہیں کرتی۔ اگر آپ نے ایٹمی جنگ کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے کا سوچ ہی رکھا ہے تو ہم اس کے سوائے اور کیا کہہ سکتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
کیا یہ کہنے کی بار بار ضرورت ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں امن سب سے اوپر ہے۔ امن ہوگا تو خوش حالی بھی آئے گی، روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوں گے۔ جنگ و جدل سے صرف آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو ایسے غیر ریاستی عناصر کے احمقانہ مشوروں پہ کان نہیں دھرنا چاہیے۔ جن کا ایجنڈا صرف اور صرف دشمنی ہے۔
چونکہ میاں نواز شریف ایک مخصوص تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے اس لیے انھوں نے نریندر مودی سے تو کچھ نہ کہا لیکن بھارتی ذرایع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ممبئی سانحے کے بارے میں ضرور بتایا کہ یہ سانحہ عدالت میں پیش ہے اور جوں ہی کوئی فیصلہ یا نتیجہ سامنے آیا وہ اس پر عمل درآمد کریں گے۔ اب یہ تصور کرنا کہ بھارت کے ساتھ، گزشتہ چھیاسٹھ برس کے تنازعات اور کشیدگی ایک رات ہی میں حل ہوجائے گی اور چٹکی بجانے ہی تمام مسائل حل کر لیے جائیں گے ایک خواہش کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ''تھیوکریسی'' بنانے کے قائل نہ تھے۔ وہ اس ملک کو ایک دینی اور مذہبی ریاست بنانے کے شدید مخالف تھے کیونکہ وہ ایک لبرل، آزاد خیال اور روشن دماغ مسلمان سربراہ مملکت تھے جو اپنی ریاست کی حدود میں آباد تمام اقلیتی طبقات کی مذہبی آزادی کے دل کی گہرائیوں سے قائل تھے۔ آپ ان کی اگست 1947 کی اس تقریر کو پڑھ لیں جس میں انھوں نے کہا تھا آج سے تمام باشندے پاکستانی ہیں اور جو جہاں چاہے مذہبی عبادات کے لیے آزاد ہے۔ وہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے پاسدار اور نگہبان تھے۔لیکن بابائے قوم کے انتقال کے بعد اسمبلی میں ''قرارداد مقاصد'' بعض وجوہ سے منظور کروالی گئی جس کا مقصد پاکستان کو ایک دینی اور مذہبی ریاست بنانا تھا۔
''قرارداد مقاصد'' کے بطن سے ضیا الحق نے جنم لیا جو اسلام کا نام لے کر صرف اور صرف اپنے سیاسی اقتدار کو طول دینا چاہتا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو شاید یہ بات معلوم نہ تھی کہ ضیا کی اتنی عاجزی، کسر نفسی اور انکسار ایک دن ان کو پھانسی پر چڑھا دے گی۔ بھٹو صاحب نے قید سے رہا ہونے کے بعد جنرل ضیا الحق سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 6 کے تحت اس پر غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ بھٹو کے پھانسی چڑھنے کی اس سے بہتر وجہ اور بھلا کیا ہوسکتی ہے؟
جس سال یعنی 1979 کو بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا، اسی سال روسی افواج نے افغانستان پر فوج کشی کردی۔ امریکا اس فوج کشی کا شدید ترین مخالف تھا کیونکہ اسے اندیشہ تھا کہ روس افغانستان سے گرم پانیوں کی تلاش میں بلوچستان تک بھی پہنچ سکتا ہے اور یوں امریکی تیل بردار ٹینکروں کی بحری ناکہ بندی کرکے امریکی صنعتوں کا پہیہ جام کرسکتا ہے چنانچہ اس نے ضیا الحق کو اس کام کے لیے انتہائی موزوں اور مناسب سمجھتے ہوئے روسی افواج کی افغانستان سے انخلا کی ذمے داری اسے سونپ دی۔
دوسری طرف اسامہ بن لادن، جس کا تعلق یوں تو یمن سے تھا لیکن وہ سعودی عرب کے انتہائی مالدار گھرانے یعنی بن لادن سے تعلق رکھتا تھا، امریکی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ضیا الحق کے ساتھ اپنی بے اندازہ دولت کے ساتھ شامل ہوگیا آپ کبھی اس بات پر غور ضرور کیجیے گا کہ اسامہ بن لادن جو کبھی امریکی حکومت کا منظور نظر ہوا کرتا تھا اچانک امریکا مخالف کیسے اورکیونکر ہوگیا؟ کیا امریکی انتظامیہ نے روسی افواج کے افغانستان سے انخلا کے لیے اس سے کوئی وعدہ کر رکھا تھا جسے امریکی حکومت نے وفا نہیں کیا؟ آخر کیا وجہ اور سبب تھا کہ اسامہ بن لادن یوں امریکا سے بدظن ہوگیا حالاں کہ روسی افواج افغانستان سے واپس جاچکی تھیں۔ اور پھر ایک نیم شب کو اسے ایک پاکستانی شہر ایبٹ آباد کے ایک گھر میں بے دردی سے قتل کردیا۔
مذہبی اور دینی انتہا پسندی بھارت میں بھی ہے اور پاکستان میں بھی۔ دونوں جانب ایسے انتہا پسند اور شدت پرست عناصر موجود ہیں جو یا تو ''ہندوتوا'' کا غلبہ چاہتے ہیں یا ''اسلام'' کا۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ بھارت میں تو راشٹریہ سیوک سنگھ کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعظم بھاری اکثریت سے منتخب بھی ہوچکا ہے لیکن آفرین ہے اسی بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر کہ وہ میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں بس پر سفر کرکے پاکستان آئے۔
امن، محبت اور خوشحالی کی باتیں کیں اور مینار پاکستان بھی گئے لیکن بعدازاں کارگل ایڈونچر نے سب ہی کچھ خاک میں ملا دیا۔ قارئین ابھی اس بات کو بھی نہیں بھولے ہوں گے کہ بھارت کے ''باپو'' یعنی موہن داس کرم چند گاندھی نے دہلی میں برلا ہاؤس میں مرن برت رکھا تھا کہ مسلمانوں کو تقسیم کے بعد ان کا جائز مالی حصہ دے دیا جائے اور اب جب کہ پاکستان بن چکا ہے، ہندوستان سے پاکستان جانے والے مسلمانوں کو محفوظ راستہ دے دیا جائے۔ یہ مطالبات سراسر مسلمانوں کے حق میں تھے اسی لیے راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک انتہا پسند ہندو نے مہاتما گاندھی کو مرن برت کے دوران پستول سے فائر کرکے قتل کردیا۔ اس انتہا پسند ہندو کا نام تھا ناتھو رام گوڈسے!
اگر دونوں ممالک کے مذہبی انتہا پسند عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اس بار جو جنگ ہوسکتی ہے وہ ''روایتی ہتھیاروں'' سے لڑی جائے گی تو وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اس بار پاک بھارت جنگ ''ایٹمی ہتھیاروں'' سے لڑی جائے گی کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو صرف انسانوں کی راکھ بچے گی نہ تو ہندوتوا کا غلبہ ہوگا نہ اسلام کا۔ ابھی میاں نواز شریف کے دورہ دہلی کے دوران کسی بھارتی منصب دار نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ایٹمی طاقت سے اس پر حملہ کردیا جائے۔
مہاشے جی! طاقت اور قوت سے تنازعات حل کرنے کا زمانہ گزر چکا۔ اب صرف مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے دیرینہ تنازعات اور مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کی مثال امریکا اور چین۔ چین اور بھارت، شمالی کوریا جنوبی کوریا اور سب سے بڑھ کر یورپی یونین کے قیام سے دی جاسکتی ہے جن کے مابین تنازعات بھی موجود ہیں، جن پر گفت و شنید جاری ہے، اور معمول کے تعلقات بھی قائم ہیں۔ اگر بھارت اور پاکستان کو امن، محبت، خوشحالی اور باہمی تعاون کے ذریعے قائم رہنا ہے تو مذاکرات، گفت و شنید اور بات چیت ہی اس کا واحد حل ہے۔ کم ازکم یورپین یونین کا قیام تو اسی حقیقت کا ایک واضح ثبوت ہے۔
اب یہ فیصلہ بھارت اور پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں کو کرنا ہے کہ آیا وہ برصغیر کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں یا بارود اور راکھ کا ڈھیر؟ اگر ہندوتوا اور اسلام کا غلبہ منظور ہے تو اس مقصد کے لیے رقبہ اور آبادی یکسر ضروری ہے ورنہ ایسا کرنا ممکن نہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے مابین اگر ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ چھڑگئی تو نہ بھارت رہے گا نہ پاکستان! دونوں اطراف کے انتہا پسندوں کا بھی خاتمہ بالخیر ہوجائے گا۔
لہٰذا مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں ممالک اپنے دیرینہ تنازعات مذاکرات، گفت و شنید اور بات چیت سے ہی حل کرلیں جنگ تو مسائل کو جنم دیتی ہے انھیں حل کبھی نہیں کرتی۔ اگر آپ نے ایٹمی جنگ کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے کا سوچ ہی رکھا ہے تو ہم اس کے سوائے اور کیا کہہ سکتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
کیا یہ کہنے کی بار بار ضرورت ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں امن سب سے اوپر ہے۔ امن ہوگا تو خوش حالی بھی آئے گی، روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوں گے۔ جنگ و جدل سے صرف آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو ایسے غیر ریاستی عناصر کے احمقانہ مشوروں پہ کان نہیں دھرنا چاہیے۔ جن کا ایجنڈا صرف اور صرف دشمنی ہے۔