دہشت گردی سہولت کاروں کا خاتمہ ضروری
بلوچستان میں غیر مقامی افراد کو قتل کرنے کے زیادہ تر واقعات میں کچھ لسانی تنظیمیں ملوث رہی ہیں
گوادر میں دہشت گردوں نے سات مزدوروں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا، جن کا تعلق ضلع خانیوال سے بتایا گیا ہے۔ مزدور سربندر کے علاقے میں فش ہاربر جیٹی کے قریب ایک رہائشی کوارٹر میں سو رہے تھے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ گوادر میں بے گناہ مزدوروں کا قتل کھلی دہشت گردی ہے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا، ان کے خاتمے تک پیچھا کریں گے۔
بلوچستان میں غیر مقامی افراد کو قتل کرنے کے زیادہ تر واقعات میں کچھ لسانی تنظیمیں ملوث رہی ہیں۔ یہاں کشیدگی کی وجہ بہت سارے عناصر اور ایسے قوتیں ہیں جو محب وطن نہیں۔ لوگوں کے اغوا اور قتل میں بھی بھارتی اشاروں پرکام کرنے والی تنظیمیں ملوث ہیں۔ بھارت بلوچستان کے باغیوں کی نہ صرف پیٹھ ٹھونک رہا ہے بلکہ انھیں مالی وسائل بھی مہیا کر رہا ہے۔
بھارتی سازشوں کا مرکز افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقے ہیں جہاں بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض عناصر سی آئی اے اور بھارت سے رابطے میں ہیں اور وہ گاہے بگاہے سرحد کے پار دخل اندازی کرتے رہتے ہیں۔ پروپیگنڈا ساز ذہن معصوم بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف اکسا کر دہشت گردی اور دیگر خطرناک عزائم کو تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو تیزی آئی ہے، اس کی اصل وجہ چین کی جانب سے پاکستان میں سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اربوں ڈالرزکی سرمایہ کاری ہے۔ جس نے امریکا سمیت بہت سے ملکوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے ایک بڑے اور اہم منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے شروع ہوکر براستہ شاہراہِ ریشم قراقرم چین سے جا ملے گی۔
بظاہر تو یہ منصوبہ دو ملکوں کے درمیان تجارتی مقاصد کے لیے بنایا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وسط ایشیائی ملکوں سمیت دنیا کے تقریباً 60 ممالک اس منصوبے سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اس کے علاوہ بلوچستان میں دنیا کی بہترین 43 معدنیات کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ بلوچستان میں گوادر کی طرح مزید کئی گہری بندرگاہیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان گزشتہ 35 سالوں سے 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔ غیر ملکی ایجنسیاں اس صورتحال سے بہت فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ پاکستان عالمی برادری کی توجہ بار بار اس جانب مبذول کروا رہا ہے اور چاہتا ہے کہ افغان پناہ گزین عزت اور وقار کے ساتھ اپنے ملک واپس لوٹ جائیں اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ مضبوط اور خوشحال افغانستان پورے خطے اور پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے لیے بلوچستان کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ اور دشمن اس علاقے سے کون سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود دیے ہیں، اخبارات کی فائلیں دیکھیں ، بھارتی شدت پسند رہنماؤں کے بیان پڑھیں اور تو اور نریندر مودی کی تقاریر پڑھیں تو وہ بالکل واضح طور پر بلوچستان کا ذکرکرتے ہوئے ملتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے بنانے میں بھارت کا کردار اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے ان کی تقاریر نے کسی تحقیق کی ضرورت باقی نہیں چھوڑی۔ پاکستان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) اور افغان ایجنسی (NDS) ملکر پاکستان میں دہشت گردی کرواتے ہیں۔
بلوچستان میں طالبان بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں، لیکن بد قسمتی سے افغانستان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تعاون سامنے نہیں آیا ہے اور یہ دہشت گرد مختلف ناموں اور تنظیموں کے آلہ کار بن کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں اور خطے کے امن کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
گو کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مسلسل آپریشن بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن دہشت گردی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف آپریشن کرنے سے حل ہو جائے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس کا حقیقت پسندانہ اور علمی تجزیہ کرنا ضروری ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ملکی ادارے ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اب ان تنظیموں کا رخ کس طرف ہے؟
اس کے علاوہ اب اس معاملہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اب صرف ایک یا دو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور نہ ہی ان سے معاہدے کرنے سے امن قائم ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی بیسیوں تنظیمیں ہیں اور وہ آپس میں اتحاد بناتی بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر اتحاد ختم بھی کر دیتی ہیں۔ ان تنظیموں کے درمیان سرحدیں واضح نہیں ہیں، اگر حکومت ایک تنظیم سے معاہدہ یا مفاہمت کرے گی تو اس کے کئی دہشت گرد دوسری تنظیم کا رخ کر لیں گے اور مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔
دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا مسلسل جائزہ لینا اور اس کی کارروائیوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اس ذہنی رو سے اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ لوگوں سے لے کر کم تعلیم یافتہ تک سب متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچ مغربی ممالک میں بھی لوگوں کو اپنے دام میں پھنسا رہی ہے اور پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ کئی دہائیوں میں بیسیوں ایسی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں اور ماضی میں کئی مرتبہ یہ تنظیمیں آپس میں اتحاد بھی کرتی رہی ہیں اور بعض گروہوں کی اہمیت پہلے سے کافی کم بھی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی ایسی نئی تنظیمیں وجود میں آ کر اپنی کارروائیوں کا آغاز کر رہی ہیں۔ ایسی تنظیمیں ماضی میں بننے والی تنظیموں کو اپنے ماڈل کے طور پر سامنے رکھتی ہیں اور کسی حد تک ان کی پیروی بھی کرتی ہیں۔
اس لیے اس دور میں شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس قسم کی تنظیموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس قسم کی انتہا پسندی کے علاج کے لیے آپریشن تو کرنے پڑتے ہیں لیکن جب تک ان کے پھیلائے ہوئے نظریات کا رد نہ کیا جائے تب تک ان کا مکمل سد باب کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اور اس کے لیے سب سے پہلے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانی والی تاریخ کو درست کرنا ضروری ہوگا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج تک محدود نہیں۔ یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے، یہ سرحد پرکسی دشمن ملک سے نہیں بلکہ اندرکے دشمن کے خلاف لڑی جارہی ہے۔
دشمن کو پہچاننا بھی مشکل ہے،اس کی وضع قطع، حلیہ وحال، زبان و بیان ہم سے مختلف نہیں۔ مزید مشکل یہ ہے کہ دشمن کو اندر سے سہولت کاربھی میسر ہیں، یہاں اسے مجاہد سمجھنے والے بھی ہیں۔ جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں، یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے۔اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس جوش وخروش سے یہ جنگجو اورکلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبے سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔
جنھوں نے اس کلچر کے فروغ کا فریضہ سرانجام دیا، وہی جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کرسکتے ہیں۔ وہی بتا سکتے ہیں کہ جہاد کو فساد بنانے والوں نے کس کو فائدہ پہنچایا، ہزاروں معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں اورامن و امان کو بربادکرنے والوں نے کس کے ایجنڈے آگے بڑھایا۔
ہمیں طالبان کی موجودہ کابل انتظامیہ سے پاکستان اور خطے میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کی اس لیے توقعات وابستہ ہوئی تھیں کہ پاکستان کی جانب سے امریکا اور طالبان کے مابین امن عمل کے لیے موثرکردار ادا کرنے کے نتیجے میں ہی امریکا کے افغانستان سے انخلاء اور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی مگر ان کی جانب سے ہمیں ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آنے کے بجائے بدترین دشمنی پر مبنی پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے جس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی تضحیک کا اہتمام کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی بھی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ چنانچہ گزشتہ دو سال سے ہم بالخصوص افغانستان سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کی وارداتوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کو پاکستان سے واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں غالب تعداد پاکستان میں گزشتہ 45 سال سے مقیم افغان مہاجرین کی ہے جن میں سے بعض یہاں ناجائز کاروبار، بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں تک میں ملوث تھے۔
پاکستان کے اس فیصلے پر بھی کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور اس فیصلے کی مزاحمت کا عندیہ دیا گیا۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کے پس پردہ مقاصد و محرکات کا جامع تحقیقات کے ذریعے ٹھوس بنیادوں پر کھوج لگانا ضروری ہے اور اس حوالے سے ہماری حکمت عملی میں کسی قسم کی کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سدباب کیا جائے تاکہ ملک کے دشمنوں اور بدخواہوں کو کھلم کھلا دہشت گردی کے ذریعے ملک میں مزید افراتفری پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ گوادر میں بے گناہ مزدوروں کا قتل کھلی دہشت گردی ہے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا، ان کے خاتمے تک پیچھا کریں گے۔
بلوچستان میں غیر مقامی افراد کو قتل کرنے کے زیادہ تر واقعات میں کچھ لسانی تنظیمیں ملوث رہی ہیں۔ یہاں کشیدگی کی وجہ بہت سارے عناصر اور ایسے قوتیں ہیں جو محب وطن نہیں۔ لوگوں کے اغوا اور قتل میں بھی بھارتی اشاروں پرکام کرنے والی تنظیمیں ملوث ہیں۔ بھارت بلوچستان کے باغیوں کی نہ صرف پیٹھ ٹھونک رہا ہے بلکہ انھیں مالی وسائل بھی مہیا کر رہا ہے۔
بھارتی سازشوں کا مرکز افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقے ہیں جہاں بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض عناصر سی آئی اے اور بھارت سے رابطے میں ہیں اور وہ گاہے بگاہے سرحد کے پار دخل اندازی کرتے رہتے ہیں۔ پروپیگنڈا ساز ذہن معصوم بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف اکسا کر دہشت گردی اور دیگر خطرناک عزائم کو تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو تیزی آئی ہے، اس کی اصل وجہ چین کی جانب سے پاکستان میں سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اربوں ڈالرزکی سرمایہ کاری ہے۔ جس نے امریکا سمیت بہت سے ملکوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے ایک بڑے اور اہم منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے شروع ہوکر براستہ شاہراہِ ریشم قراقرم چین سے جا ملے گی۔
بظاہر تو یہ منصوبہ دو ملکوں کے درمیان تجارتی مقاصد کے لیے بنایا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وسط ایشیائی ملکوں سمیت دنیا کے تقریباً 60 ممالک اس منصوبے سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اس کے علاوہ بلوچستان میں دنیا کی بہترین 43 معدنیات کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ بلوچستان میں گوادر کی طرح مزید کئی گہری بندرگاہیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان گزشتہ 35 سالوں سے 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔ غیر ملکی ایجنسیاں اس صورتحال سے بہت فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ پاکستان عالمی برادری کی توجہ بار بار اس جانب مبذول کروا رہا ہے اور چاہتا ہے کہ افغان پناہ گزین عزت اور وقار کے ساتھ اپنے ملک واپس لوٹ جائیں اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ مضبوط اور خوشحال افغانستان پورے خطے اور پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے لیے بلوچستان کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ اور دشمن اس علاقے سے کون سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود دیے ہیں، اخبارات کی فائلیں دیکھیں ، بھارتی شدت پسند رہنماؤں کے بیان پڑھیں اور تو اور نریندر مودی کی تقاریر پڑھیں تو وہ بالکل واضح طور پر بلوچستان کا ذکرکرتے ہوئے ملتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے بنانے میں بھارت کا کردار اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے ان کی تقاریر نے کسی تحقیق کی ضرورت باقی نہیں چھوڑی۔ پاکستان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) اور افغان ایجنسی (NDS) ملکر پاکستان میں دہشت گردی کرواتے ہیں۔
بلوچستان میں طالبان بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں، لیکن بد قسمتی سے افغانستان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تعاون سامنے نہیں آیا ہے اور یہ دہشت گرد مختلف ناموں اور تنظیموں کے آلہ کار بن کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں اور خطے کے امن کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
گو کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مسلسل آپریشن بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن دہشت گردی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف آپریشن کرنے سے حل ہو جائے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس کا حقیقت پسندانہ اور علمی تجزیہ کرنا ضروری ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ملکی ادارے ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اب ان تنظیموں کا رخ کس طرف ہے؟
اس کے علاوہ اب اس معاملہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اب صرف ایک یا دو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور نہ ہی ان سے معاہدے کرنے سے امن قائم ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی بیسیوں تنظیمیں ہیں اور وہ آپس میں اتحاد بناتی بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر اتحاد ختم بھی کر دیتی ہیں۔ ان تنظیموں کے درمیان سرحدیں واضح نہیں ہیں، اگر حکومت ایک تنظیم سے معاہدہ یا مفاہمت کرے گی تو اس کے کئی دہشت گرد دوسری تنظیم کا رخ کر لیں گے اور مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔
دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا مسلسل جائزہ لینا اور اس کی کارروائیوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اس ذہنی رو سے اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ لوگوں سے لے کر کم تعلیم یافتہ تک سب متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچ مغربی ممالک میں بھی لوگوں کو اپنے دام میں پھنسا رہی ہے اور پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ کئی دہائیوں میں بیسیوں ایسی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں اور ماضی میں کئی مرتبہ یہ تنظیمیں آپس میں اتحاد بھی کرتی رہی ہیں اور بعض گروہوں کی اہمیت پہلے سے کافی کم بھی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی ایسی نئی تنظیمیں وجود میں آ کر اپنی کارروائیوں کا آغاز کر رہی ہیں۔ ایسی تنظیمیں ماضی میں بننے والی تنظیموں کو اپنے ماڈل کے طور پر سامنے رکھتی ہیں اور کسی حد تک ان کی پیروی بھی کرتی ہیں۔
اس لیے اس دور میں شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس قسم کی تنظیموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس قسم کی انتہا پسندی کے علاج کے لیے آپریشن تو کرنے پڑتے ہیں لیکن جب تک ان کے پھیلائے ہوئے نظریات کا رد نہ کیا جائے تب تک ان کا مکمل سد باب کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اور اس کے لیے سب سے پہلے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانی والی تاریخ کو درست کرنا ضروری ہوگا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج تک محدود نہیں۔ یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے، یہ سرحد پرکسی دشمن ملک سے نہیں بلکہ اندرکے دشمن کے خلاف لڑی جارہی ہے۔
دشمن کو پہچاننا بھی مشکل ہے،اس کی وضع قطع، حلیہ وحال، زبان و بیان ہم سے مختلف نہیں۔ مزید مشکل یہ ہے کہ دشمن کو اندر سے سہولت کاربھی میسر ہیں، یہاں اسے مجاہد سمجھنے والے بھی ہیں۔ جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں، یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے۔اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس جوش وخروش سے یہ جنگجو اورکلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبے سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔
جنھوں نے اس کلچر کے فروغ کا فریضہ سرانجام دیا، وہی جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کرسکتے ہیں۔ وہی بتا سکتے ہیں کہ جہاد کو فساد بنانے والوں نے کس کو فائدہ پہنچایا، ہزاروں معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں اورامن و امان کو بربادکرنے والوں نے کس کے ایجنڈے آگے بڑھایا۔
ہمیں طالبان کی موجودہ کابل انتظامیہ سے پاکستان اور خطے میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کی اس لیے توقعات وابستہ ہوئی تھیں کہ پاکستان کی جانب سے امریکا اور طالبان کے مابین امن عمل کے لیے موثرکردار ادا کرنے کے نتیجے میں ہی امریکا کے افغانستان سے انخلاء اور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی مگر ان کی جانب سے ہمیں ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آنے کے بجائے بدترین دشمنی پر مبنی پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے جس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی تضحیک کا اہتمام کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی بھی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ چنانچہ گزشتہ دو سال سے ہم بالخصوص افغانستان سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کی وارداتوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کو پاکستان سے واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں غالب تعداد پاکستان میں گزشتہ 45 سال سے مقیم افغان مہاجرین کی ہے جن میں سے بعض یہاں ناجائز کاروبار، بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں تک میں ملوث تھے۔
پاکستان کے اس فیصلے پر بھی کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور اس فیصلے کی مزاحمت کا عندیہ دیا گیا۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کے پس پردہ مقاصد و محرکات کا جامع تحقیقات کے ذریعے ٹھوس بنیادوں پر کھوج لگانا ضروری ہے اور اس حوالے سے ہماری حکمت عملی میں کسی قسم کی کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سدباب کیا جائے تاکہ ملک کے دشمنوں اور بدخواہوں کو کھلم کھلا دہشت گردی کے ذریعے ملک میں مزید افراتفری پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔