گراں فروشی اور حکومتی بے حسی

بجٹ کیا تھا ہر سال کی طرح اعداد و شمار کا گورکھ دھندا تھا جس سے ہمیشہ کی طرح عوام کو کوئی فائدہ ہو

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

NEW DELHI:
آ گیا وہ شاہکار جس کا انتظار تھا، وہ شاہکار جو ہر سال جون کے اوائل میں آتا ہے اور مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کی ماری بیچاری عوام پر پھر سارا سال مزید بجلیاں گراتا رہتا ہے، اس بار بھی بجٹ کی بس کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔

بجٹ کیا تھا ہر سال کی طرح اعداد و شمار کا گورکھ دھندا تھا جس سے ہمیشہ کی طرح عوام کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی ان کے دیگر چھوٹے بڑے عام مسائل حل ہونے کی کوئی خاطرخواہ امید ہی ہے، موجودہ بجٹ میں جہاں ٹیکسوں کی بھر مار نظر آتی ہے وہاں ایک مزدور کی کم از کم ماہانہ بارہ ہزار اجرت میں آج کے اس مہنگے ترین دور میں دو وقت کی روٹی بھی ناممکن معلوم ہوتی ہے جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے صرف 10 فیصد اضافہ محض ایک مذاق اور اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے والی بات ہے پھر کم وسائل اور زیادہ مسائل خودکار طریقے سے عوام کو چوری، لوٹ مار، دھوکہ دہی، فریب، ملاوٹ، گراں فروشی اور دیگر قبیح اور سنگین ترین خطرناک و قابل مذمت جرائم میں مبتلا کرنے میں متحرک و معاون ثابت ہوتے ہیں لہٰذا پھر قدرتی و فطری طور پر اس جانب میلان و رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔

کوئی بھی انسان اپنی اولاد اور خونی رشتوں کو بھوکا ننگا، بلکتا سسکتا، تکالیف اور مصائب و آلام اور آزمائش میں مبتلا نہیں دیکھ سکتا۔ لہٰذا اس طرح معاشرہ مختلف النوع جرائم کی آماجگاہ بن جاتا ہے، آج ہمارا پاکستانی معاشرہ اس کی منہ بولتی تصویر ہے جس میں غربت، بے روزگاری، افراط زر اور گراں فروشی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور جس کے لیے ہماری کسی حکومت نے کبھی کوئی سنگ میل طے نہیں کیا۔

پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ان ترقی پذیر اور مسائل و چیلنجز میں گھرے ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے عوام سال بھر مہنگائی کے طوفان میں گھرے رہتے ہیں اور گراں فروشی و افراط زر کی آسمان سے باتیں کرتی لہریں اکثر اپنے ساتھ کئی گھرانے بہا لے جاتی ہیں، کبھی گھر کا کوئی سربراہ حالات سے لڑتے لڑتے خودکشی کر گزرتا ہے تو کبھی کوئی ماں، خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے لخت جگر کا گلا گھوٹ کر اسے بھوک پیاس کی تکالیف سے آزاد کرا کے ہمیشہ کی تفکرات سے آزاد پرسکون نیند سلا دیتی ہے۔

عجیب نظام ہے اس ملک کا یہاں امیر زیادہ کھانے پینے، فوڈ پوائزن میں مبتلا ہو کر مرتا ہے تو غریب روٹی کو ترستے سسکتے، بلکتے ایڑیاں رگرتے، قحط و افلاس سے جان دیتا ہے۔ اب دیکھیے ذرا رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی عام مہینوں کی نسبت اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کے اس ماہ مبارک میں گراں فروشوں، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی گویا لاٹری نکل آتی ہے اور ان کی من مانیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں اشیائے خور و نوش کے نرخ کسی بھی تہوار بشمول ماہ صیام و قیام کی آمد کے ساتھ ہی خصوصی طور پر بڑھ جاتے ہیں، ہمارے تاجر اس ماہ مبارک میں گویا پورے سال کی کمائی کرنا چاہتے ہیں جسے وہ ''سیزن'' کا نام دیتے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کو آپ دیکھیے چین، امریکا، برطانیہ، جاپان، فرانس، اٹلی وغیرہ کی معیشت کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ وہاں اشیائے صرف کی قیمتوں میں استحکام پایا جاتا ہے کہ وہاں مذہبی تہواروں خصوصاً کرسمس سے قبل ہی مختلف اشیا تیار کرنے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر دیتی ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ اسٹورز والے بھی اپنے منافعے میں خاطر خواہ کمی کرتے ہیں، ان احسن اقدامات کی بدولت غریب اور متوسط طبقے بھی کرسمس کی خوشیوں میں برابر شریک ہو کر اپنے مذہبی تہوار کی مسرتوں اور شادمانیوں سے مکمل لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہر سال ایسے مستحسن اقدام ان ممالک میں خوش نما مناظر پیش کرتے ہیں۔


ہماری انتظامیہ بھی عوام کے وسیع تر مفاد میں فیصلوں کی بجائے تاجروں اور دکانداروں کی مرضی و منشا سے اشیائے صرف کی قیمتیں مقرر کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر شخص مہنگائی کا رونا روتا نظر آتا ہے جب کہ دکانداروں کا موقف ہوتا ہے کہ ہمیں اوپر ہی سے مہنگی ملتی ہیں ہم کیا کریں؟ ہمیں بھی تو اپنا گھر چلانے کے لیے تھوڑا بہت منافع کمانا ہی ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے یہی واضح ہوتا ہے کہ درحقیقت حکومت کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ہی سنجیدہ ہے اختیارات کے باوجود انتظامیہ مہنگائی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتی۔

اس ماہ میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا وجود نظر نہیں آتا جگہ جگہ مراکز شکایات قائم ہو جاتے ہیں لیکن صرف دکھاوے کے لیے، انتظامیہ کی ملی بھگت سے دکاندار، ٹھیلے والے، پھلوں اور سبزیوں والے عوام سے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں، پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں مقرر کرنا اور ان پر عمل درآمد کرانا حکومت، انتظامیہ اور کمیٹیوں کی ذمے داری ہے تاہم ماہ مبارک میں سب کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے حکومت کی جانب سے بظاہر ہر سال ماہ صیام کے قریب قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول میں رکھنے اور منافع خوروں و گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کے اعلانات تو کر دیے جاتے ہیں لیکن درحقیقت یہ تمام حکومتی دعوے اور سرکاری اعلانات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور عوام کو دراصل کوئی ریلیف نصیب نہیں ہوتا۔

ملک بھر میں آٹا، چاول، دالیں، گھی، شکر، تیل اور سبزیوں سمیت پھلوں کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ماضی کے مقابلے میں ان اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور روٹی غریب کی پہنچ سے روز بروز دور ہوتی جا رہی ہے، دوسرے مہینوں کی نسبت رمضان المبارک کے مہینے میں لوگوں کے اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ معمول سے کہیں بڑھ جاتے ہیں، شکر، گھی، تیل، کھجلہ، پھینی، سبزیوں اور دالوں سمیت پھلوں کا استعمال کئی گنا بڑھ جاتا ہے، مسلمانوں کے دسترخوان کشادہ ہو جاتے ہیں۔

ہر مومن کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ افطار میں دوسرے بھائیوں کو بھی شریک کرے لیکن مصنوعی گرانی ان کے معاشی بوجھ میں اضافہ کر دیتی ہے حالانکہ یورپی ممالک کی طرح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماہ صیام و قیام کے احترام میں تاجر اور تیار کنندہ ادارے قیمتوں میں از خود کمی کر دیں تا کہ عوام کو ریلیف اور امیروں کے ساتھ ساتھ غربا بھی ماہ مبارک کی خوشیوں کو سمیٹ سکیں۔ تاہم بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک عرصے سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ اس ماہ مقدس کو ''سیزن'' کا نام دے کر دگنا منافع کمایا جاتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے اصل صارف، متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، سرکاری سطح پر ان کا کوئی نمایندہ ہے نہ ہی غیر سرکاری سطح پر ان کے حقوق کے لیے سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے، یہاں قائم صارفین کی انجمنوں کا عوام سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی حکومت یا میڈیا میں ان کا کوئی اثر ہے۔ امریکا میں ایک مرتبہ دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں نے 4 سینٹ فی لیٹر قیمت بڑھا دی تھی، اگرچہ یہ اضافہ زیادہ نہ تھا مگر بچوں کے والدین نے زبردست احتجاج کیا، پرنٹ میڈیا نے بے شمار کالموں، خطوں اور اداریوں کے ذریعے اس مہم کی زبردست حمایت کی غرض کہ دودھ والوں نے اضافہ واپس لے لیا۔

اس وقت قیمتیں عام صارفین کے بس سے باہر ہیں، دو تین بچوں پر مشتمل خاندان کے لیے اپنے گھر کا بجٹ بنانا انتہائی مشکل ہے جو شخص مزدور کی کم از کم اجرت بارہ ہزار کا ملازم ہے اس کے لیے بھی اپنی سفید پوشی برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے ۔ اشیائے صرف کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی بلز نے بھی غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوامی مسائل کے حل کے ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور تسلی بخش اقدام اٹھاتے ہوئے حقیقی معنوں میں پائیدار سنگ میل طے کرے، بصورت دیگر یہ تمام صورتحال کسی بھی سماجی بحران، معاشرتی طوفان یا عوامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے اور بے شمار مسائل سے چور چور نیند مدہوش میں مست اور خواب غفلت میں غرق یہ نادان و مظلوم عوام کبھی بھی بیدار ہو سکتی ہے۔
Load Next Story