کیمرے کی ایک آنکھ سے وہ وہ منظر دیکھے جو اپنی دونوں آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا تھا اختر مرزا
امریکا برطانیہ میں پھولوں کی اقسام ہم سے زیادہ مگر ان میں خوشبو نہیں، اختر مرزا
شوق دا مل کوئی نئیں۔ اس فرمودے کی اخترمرزا جیتی جاگتی مثال ہیں۔
علامہ اقبال کے اس کہے کو کہ شوق خود استاد بن جاتا ہے، دہراتے اورمستند جانتے ہیں۔ شاعر مشرق سے عالم خواب میں مل چکے ہیں۔ ایک رات خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ جب وہ اقبال کے فوٹونگیٹوکی باریک پنسل سے ری ٹچنگ کررہے تھے تواس اثنا میں اقبال ان کے والد کے ہمراہ تشریف لائے اور ان سے کہنے لگے''میری تصویرکواچھی طرح ری ٹچ کرنا۔''
علامہ اقبال کے نام سے ان کے کان بچپن سے آشنا ہوگئے تھے۔ ایک دن بچگانہ معصومیت میں والدہ سے استفسارکیا''یہ شہراقبال کیا ہوتا ہے۔''سیالکوٹ میں جس جگہ رہائش تھی، ادھرساتھ ہی اقبال منزل تھی، جس کو آتے جاتے بڑے اشتیاق سے دیکھا کرتے۔ والد خان بہادرمرزا محمد الدین سول انجینئر تھے ۔ ادب کا ذوق رکھتے تھے۔ اقبال کا بہت سا کلام انھیں حفظ تھا۔ مسدس حالی کے بھی پرشوق قاری تھے۔بیٹے اخترمرزا کو انھوں نے ایک خط میں اقبال کے ان لفظوں میں ہدایت کی تھی''اپنی دنیا آپ پیدا کر اگرزندوں میں ہے۔''
ان باتوں کے تناظر میں اقبال سے ایک طرح کی ذہنی قربت ان کو ہمیشہ رہی۔ فرزند اقبال ڈاکٹرجاوید اقبال سے بھی اخترمرزا کی میل ملاقات ہے۔ علامہ اقبال سے عالم خواب میں ایک بار ملنا رہا توفیض احمد فیض سے عالم بیداری میں کئی دفعہ ملے۔ اولین ملاقات 1956ء میں سیالکوٹ میں ہوئی جہاں وہ دیگر نامور شعرا کے ساتھ اقبال ڈے کے سلسلے میں آئے تھے۔ بڑے شوق سے آٹو گراف مانگا تو شاعر نے کمال اپنائیت سے دستخط کے ساتھ یہ شعر لکھا:
کب یاد میں تیرا ہاتھ نہیں،کب ہاتھ میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
فیض سے ان کی ملاقات لندن میں بھی ہوئی اورجب وہ اپنی زندگی کے آخری برس لاہور میں گزار رہے تھے تب بھی گاہے گاہے ان سے ملتے رہے۔ 1982ء میں انھوں نے آٹوگراف کے ساتھ مندرجہ ذیل شعر لکھ کر اختر مرزا کو دیا۔
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
اختر مرزا کی معروف صحافی خالد حسن سے دوستی مرے کالج سیالکوٹ میں پڑھنے کے دنوں میں مستحکم ہوئی اور پھر عمر بھر کے تعلق میں بدل گئی۔ خالد حسن کی دوستی اختر مرزا کے بڑے بھائی سکندر اور چھوٹے بھائی سلیم سے بھی تھی۔ خالد حسن کی سیالکوٹ سے جڑی یادوں کے بیان میں اختر مرزا کا ذکرکئی جگہ راہ پاتا ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں''اختراس وقت بھی اور اب بھی فوٹو گرافر ہے اور ان دنوں میں جب صرف چند لوگوں کے پاس کیمرہ ہوا کرتا تھا، وہ 35 ایم ایم zeissikon super ikonta کا کیمرہ لیے پھرتا تھا، جس کی مدد سے وہ عمدہ تصاویر کھنچتا۔ جب سیالکوٹ میں ہرکسی نے اس کے فن تصویر سازی کو تسلیم کر لیا تو اسے ''سپر'' اور ''کانٹا'' کے نام سے جانا گیا۔''
1935ء میں سیالکوٹ میں آنکھ کھولنے والے اخترمرزا کے والد، مرزا محمد الدین سول انجینئر تھے۔ نوکری کے لیے ان کی پہلی تقرری پونا میں ہوئی۔ محکمہ انہارسندھ میں بھی فرائض انجام دیے۔ سکھر بیراج کی تعمیر میں پیش پیش رہے۔ 1940 ء میں انھوں نے بمبئی میں کنسٹرکشن اور واٹر پروفنگ کا کام شروع کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا چلا گیا۔ قابل ذکر بات ہے کہ بمبئی میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کی واٹرپروفنگ بھی انھوں نے کی اوراس سلسلے میں ان کی بانی ٔ پاکستان سے خط و کتابت بھی رہی۔
تقسیم کے بعد انھوں نے بمبئی میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ رہنا پسند کیا جبکہ اختر مرزا اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان میں رہے۔ ان کے والد نے 1958ء میں انھیں نئی موٹر کارفورڈ کونسل خرید کردی ، اس سال جون میں لاہور آئے تو فرزند دلبند سے کہنے لگے کہ مجھے اپنی کار میں سیالکوٹ لے چلو۔ ان کے بقول، وہ سارے رستے میں کلام اقبال گنگناتے رہے۔ سیالکوٹ میں ہی چند دن بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اختر مرزا کا ذکر اب تک ہم نے شخصیات کے حوالے سے کیا ہے، اب ہم مڑتے ہیں، فوٹوگرافی سے ان کے تعلق کی طرف۔
ان کی کیمرے سے دوستی بڑے فطری انداز میں ہوئی۔ سب سے پہلے انھوں نے تیس روپے میں باکس کیمرہ خریدا۔ اس دور میں فلم دو ڈھائی روپے میں مل جاتی۔ ایک سو بیس نمبر فلم کے بارہ پرنٹ تیار کرانے میں ڈھائی تین روپے کا خرچہ مزید اٹھ جاتا۔ فوٹوگرافی کا ہنر آزمانے کے لیے پہلے پہل اہلخانہ کو تختہ ٔ مشق بنایا۔ سفید کپڑے کو دیوار پر لگاکر ان کی خوب تصویریں کھینچتے۔ سستے کیمرے سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے سے مضطرب رہتے۔
بڑے بھائی احسان مرزا کے ہاں کراچی جاتے تو ان کے پاس موجود دو بہترین کیمروں کو بڑی حسرت سے تکتے اور تمنا کرتے کہ کاش! ایسے کیمرے ان کے ملکیت میں بھی ہوں۔ پیسے جوڑ جاڑ کر کوڈک براؤنی کیمرہ خرید لیا لیکن دماغ میں بھائی جیسے کیمروں کا سودا بدستور سمایا رہا۔ ایگفا کمپنی کے فولڈنگ کیمرے بازار میں آئے تو ان کی سنی گئی۔ 145 روپے میں خریدے گئے، اس کیمرے سے تصویروں کا رزلٹ اچھا آیا تو شوق کو مہمیز ملی۔ سونے پر سہاگا بڑے بھائی نے بھی اپنا ایک کیمرہ دان کردیا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
شوقیہ فوٹو گرافی میں عموماً لینڈ اسکیپ سے آغاز ہوتا ہے توایسا ہی کچھ معاملہ ان کے ساتھ گزرا۔ مناظرفطرت کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے رہے۔ آسمان کے بادلوں نے سب سے بڑھ کرمسحور کیا۔ان کی روش سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کا بننا بگڑنا انھیں حیرت میں ڈالتا۔ درختوں، پودوں، پھولوں اورپرندوں کو بھی انھوں نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔ جھیل سیف الملوک کے حسن کے دیوانے ہیں، جس کا شفاف پانی بھی انھوں نے بہت پیا۔ کہتے ہیں، امریکا اور برطانیہ میں پھولوں کی اقسام ہم سے بہت زیادہ ہیں لیکن ان پھولوں میں خوشبو نہیں جبکہ ہمارے ہاں کے پھولوں میں خوشبو ہے۔ اس پرہم نے ان سے کہا کہ خوشبو کے بغیر پھول کے بارے میں ظہیر کاشمیری نے کیا خوب مصرع کہا ہے:
خوشبو اڑی توپھول فقط رنگ رہ گیا
اختر مرزا کے خیال میں لینڈ اسکیپ فوٹوگرافی میں دوڑ دھوپ زیادہ ہے،دوسرے اس کا انت نہیں، اس کی بہ نسبت پورٹریٹ فوٹوگرافی کو آسان قرار دیتے ہیں، کہ اس میں چہرے کو مختلف زاویوں سے کیمرے کی گرفت میں لانا ہوتاہے۔پورٹریٹس بنانے میںوہ قدرتی روشنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کی دانست میں مصنوعی روشنی میں جس کی تصویربنانا ہوتی ہے، وہ بھی گھبراہٹ کا شکار رہتا ہے، اورتصویر میں وہ رنگ نہیں آتا جوقدرتی روشنی میں آسکتا ہے۔ان کے بقول''کیمرے کی ایک آنکھ سے وہ وہ منظر دیکھے ہیں،جو میں اپنی دونوں آنکھوں سے ملاحظہ نہ کر سکتا تھا۔'' کہتے ہیں کہ تصویر اتارنے کے لیے کلک کب کرنا ہے، اس کا اذن اندر سے ملتا ہے۔ فوٹوگرافرز کو وہ تاریخ کا محافظ سمجھتے ہیں۔
ان کا بتانا ہے کہ'' پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اسلحے کا استعمال کس طریقے سے ہوا، لاکھوں افراد کو کتنی بے دردی سے قتل کیا گیا، اس سارے کے بارے میں سمجھنے کے لیے تصویروں سے بہت مدد ملتی ہے۔ آفرین ہے، ان بہادر فوٹوگرافروں پرجو جان ہتھیلی پررکھ کرکام کرتے رہے۔ ان کے پاس آج کی طرح ہلکے پھلکے کیمرے بھی نہیں تھے، انھیںلوہے کے وزنی کیمروں کے ساتھ حرکت کرنی پڑتی تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت جو ظلم ہوااس کوبھی کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فسادات کے دوران کیا کچھ ہوا۔پرانے طرز معاشرت کو سمجھنے اور جاننے میں فوٹوگرافرز کا کام بہت کام آسکتا ہے۔ المناک واقعات کی تصویروں سے اس مقولے کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔''
لینڈ اسکیپ فوٹوگرافی بھی انھوں نے بہت کی لیکن اس کام میں ان کی شناخت کا بنیادی حوالہ پورٹریٹ فوٹوگرافی بنی، اوراس میں بھی زیادہ ترادیبوں کو انھوں نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا اورپھر ان تصویروں کو خوبصورت رائٹ اپ کے ساتھ کتاب کی صورت میں ''میراث ادب: اردو ریاست'' کے عنوان سے پیش کردیا۔ اس کام کی داد ممتاز ادیب انتظار حسین سے بھی ملی اور معروف نقاد انور سدید نے بھی اس کاوش کو سراہا۔ پورٹریٹ فوٹوگرافی کی طرف آنے کا معاملہ بھی دلچسپ رہا۔
جوانی میں سائیکل پر گلے میں کیمرہ لٹکائے آوارہ گردی کرتے پھرتے تھے۔ اس دشت نوردی میں ایک روزوہ اس کوچے میں جانکلے جہاں پرملنگ اپنے چیلوں میں گھرا بیٹھا تھا۔ مٹی کے بڑے سے کونڈے میں بھنگ گھوٹی جارہی تھی۔ ان کو سخت پیاس لگی تھی،اس لیے جب ایک چیلے نے ان سے پوچھا کہ وہ ادھر کیا کرتے پھررہے ہیںتو ان نے بتایا کہ پینے کو پانی چاہیے، ان کی یہ طلب پوری کردی توشہ پاکر انھوں نے کچھ اورمانگ لیا، جو کہ ملنگ کے لیے عجب سی بات تھی۔اصل میں انھوں نے پورٹریٹ بنانے کی اجازت مانگی تھی، جو پس وپیش کے بعد انھیں عطا کردی گئی۔
تصویر بن گئی۔ دھل کرسامنے آئی تو انھیں اچھی لگی اور ان کو احساس ہوا کہ وہ پورٹریٹ فوٹوگرافی میں انفرادی رنگ جماسکتے ہیں، بس پھر چل سوچل۔ اپنے اس کام کا رخ ادیبوں اور آرٹسٹوں کی طرف کرنے کا معاملہ یہ رہا کہ تیس بتیس برس قبل کراچی سے ان کے دوست اور معروف آرٹسٹ آزر زوبی کراچی سے آئے تویہ ان کے ساتھ اشفاق احمد کے ہاں گئے۔ ادھر یکبارگی انھیں یہ خیال آیا کہ کیوں ناان لمحوں کی قدر کرتے ہوئے کیمرے کو جنبش دی جائے۔ اشفاق احمد سے درخواست کی تو پہلے توانھوں نے ٹالنا چاہا لیکن پھر مان گئے۔ وہ مان گئے تو پھر بانو قدسیہ کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔
ان دونوں میاں بیوی کی تصاویر اتار لیں۔ ان کے اچھے نتائج نے حوصلہ بلند کردیا۔ اس کے بعد انھوں نے برصغیر کے جید ادیبوں کے پورٹریٹ بنائے۔ ادیبوں سے ہٹ کر بھی لوگ ان کے ریڈار میں آئے، جن میں دلیپ کمار،جاوید اختر، ضیاء محی الدین ، اعتزاز احسن اورطارق علی جیسے نامور بھی شامل ہیں۔پورٹریٹ بنانے میں ان کی تلخ یاد کوئی نہیں۔ سب نے ان کے ساتھ تعاون کیا اورناز نخروں سے گریزاں رہے۔ بس ایک دو ادیبوں نے طے شدہ وقت پرملاقات سے گریز کیا۔
پرتو روہیلہ کی تصویریں انھوں نے بنالیں مگرخود کو اس سے مطمئن نہ پایا تودوبارہ ان سے وقت مانگاجو انھوں نے خوش دلی سے دے دیا۔ جوانی میں پڑھنے سے شغف بڑھاتواے حمید کا رومانوی اور شفیق الرحمن کا پرمزاح انداز ان کے دل کو بھایا۔ اپنے ان محبوب لکھاریوں کے پورٹریٹ بنانا بہت خوش گوار تجربہ رہا۔ وہ اچھی تصویر بنا لیتے ہیں، اس کا اندازہ بہتوں کو پہلے سے تھا لیکن وہ اچھا لکھ بھی سکتے ہیں،اس کی غمازی '' میراث ادب: اردو ریاست'' سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ پورٹریٹ فوٹوگرافی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینے کے بعد کیمرے کے ہنر میں مہارت کے لیے تگ دو میں وہ مصروف رہے توساتھ میں اس کام کے بڑوں کی تخلیقات کو بھی دیکھا اور پرکھا۔ پسندیدہ پورٹریٹ فوٹوگرافرز میں یوسف کرش،رچرڈ ایویڈن اور ہالزمین کا نام لیتے ہیں۔
پاکستان کے وہ فوٹوگرافر جو گمنامی میں رہے اور انھیں پذیرائی نہ ملی، ان میں وہ لینڈ اسکیپ فوٹوگرافر اسد علی اور شیخ ریاض علی کا ذکر کرتے ہیں۔ اختر مرزا پرانی نسل کے ان لوگوں میں سے نہیں جو نئے زمانے کی تبدیلیوں کو قبول کرنے میں عارسمجھتے ہیں،بلکہ اس حوالے سے ان کا رویہ بڑا مثبت ہے اوران کے پاس پرانے کیمروں کے ساتھ جدید ترین ڈیجیٹل کیمرے بھی ہیں۔اختر مرزا اگر طویل عرصے سے شوقیہ فوٹو گرافی سے متعلق ہیں تو اس میں ان کی معاشی آسودگی کو بھی دخل ہے۔ وہ عمر بھر اپنا مستحکم کاروبار کرتے رہے۔ 1967ء میں ان کی زندگی میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی جب انھوں نے اپنا ناتا روحانیت کی دنیا سے جوڑا اور ابوانیس صوفی محمد برکت علی لدھیانوی کو اپنا مرشد مان لیا۔
علامہ اقبال کے اس کہے کو کہ شوق خود استاد بن جاتا ہے، دہراتے اورمستند جانتے ہیں۔ شاعر مشرق سے عالم خواب میں مل چکے ہیں۔ ایک رات خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ جب وہ اقبال کے فوٹونگیٹوکی باریک پنسل سے ری ٹچنگ کررہے تھے تواس اثنا میں اقبال ان کے والد کے ہمراہ تشریف لائے اور ان سے کہنے لگے''میری تصویرکواچھی طرح ری ٹچ کرنا۔''
علامہ اقبال کے نام سے ان کے کان بچپن سے آشنا ہوگئے تھے۔ ایک دن بچگانہ معصومیت میں والدہ سے استفسارکیا''یہ شہراقبال کیا ہوتا ہے۔''سیالکوٹ میں جس جگہ رہائش تھی، ادھرساتھ ہی اقبال منزل تھی، جس کو آتے جاتے بڑے اشتیاق سے دیکھا کرتے۔ والد خان بہادرمرزا محمد الدین سول انجینئر تھے ۔ ادب کا ذوق رکھتے تھے۔ اقبال کا بہت سا کلام انھیں حفظ تھا۔ مسدس حالی کے بھی پرشوق قاری تھے۔بیٹے اخترمرزا کو انھوں نے ایک خط میں اقبال کے ان لفظوں میں ہدایت کی تھی''اپنی دنیا آپ پیدا کر اگرزندوں میں ہے۔''
ان باتوں کے تناظر میں اقبال سے ایک طرح کی ذہنی قربت ان کو ہمیشہ رہی۔ فرزند اقبال ڈاکٹرجاوید اقبال سے بھی اخترمرزا کی میل ملاقات ہے۔ علامہ اقبال سے عالم خواب میں ایک بار ملنا رہا توفیض احمد فیض سے عالم بیداری میں کئی دفعہ ملے۔ اولین ملاقات 1956ء میں سیالکوٹ میں ہوئی جہاں وہ دیگر نامور شعرا کے ساتھ اقبال ڈے کے سلسلے میں آئے تھے۔ بڑے شوق سے آٹو گراف مانگا تو شاعر نے کمال اپنائیت سے دستخط کے ساتھ یہ شعر لکھا:
کب یاد میں تیرا ہاتھ نہیں،کب ہاتھ میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
فیض سے ان کی ملاقات لندن میں بھی ہوئی اورجب وہ اپنی زندگی کے آخری برس لاہور میں گزار رہے تھے تب بھی گاہے گاہے ان سے ملتے رہے۔ 1982ء میں انھوں نے آٹوگراف کے ساتھ مندرجہ ذیل شعر لکھ کر اختر مرزا کو دیا۔
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
اختر مرزا کی معروف صحافی خالد حسن سے دوستی مرے کالج سیالکوٹ میں پڑھنے کے دنوں میں مستحکم ہوئی اور پھر عمر بھر کے تعلق میں بدل گئی۔ خالد حسن کی دوستی اختر مرزا کے بڑے بھائی سکندر اور چھوٹے بھائی سلیم سے بھی تھی۔ خالد حسن کی سیالکوٹ سے جڑی یادوں کے بیان میں اختر مرزا کا ذکرکئی جگہ راہ پاتا ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں''اختراس وقت بھی اور اب بھی فوٹو گرافر ہے اور ان دنوں میں جب صرف چند لوگوں کے پاس کیمرہ ہوا کرتا تھا، وہ 35 ایم ایم zeissikon super ikonta کا کیمرہ لیے پھرتا تھا، جس کی مدد سے وہ عمدہ تصاویر کھنچتا۔ جب سیالکوٹ میں ہرکسی نے اس کے فن تصویر سازی کو تسلیم کر لیا تو اسے ''سپر'' اور ''کانٹا'' کے نام سے جانا گیا۔''
1935ء میں سیالکوٹ میں آنکھ کھولنے والے اخترمرزا کے والد، مرزا محمد الدین سول انجینئر تھے۔ نوکری کے لیے ان کی پہلی تقرری پونا میں ہوئی۔ محکمہ انہارسندھ میں بھی فرائض انجام دیے۔ سکھر بیراج کی تعمیر میں پیش پیش رہے۔ 1940 ء میں انھوں نے بمبئی میں کنسٹرکشن اور واٹر پروفنگ کا کام شروع کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا چلا گیا۔ قابل ذکر بات ہے کہ بمبئی میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کی واٹرپروفنگ بھی انھوں نے کی اوراس سلسلے میں ان کی بانی ٔ پاکستان سے خط و کتابت بھی رہی۔
تقسیم کے بعد انھوں نے بمبئی میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ رہنا پسند کیا جبکہ اختر مرزا اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان میں رہے۔ ان کے والد نے 1958ء میں انھیں نئی موٹر کارفورڈ کونسل خرید کردی ، اس سال جون میں لاہور آئے تو فرزند دلبند سے کہنے لگے کہ مجھے اپنی کار میں سیالکوٹ لے چلو۔ ان کے بقول، وہ سارے رستے میں کلام اقبال گنگناتے رہے۔ سیالکوٹ میں ہی چند دن بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اختر مرزا کا ذکر اب تک ہم نے شخصیات کے حوالے سے کیا ہے، اب ہم مڑتے ہیں، فوٹوگرافی سے ان کے تعلق کی طرف۔
ان کی کیمرے سے دوستی بڑے فطری انداز میں ہوئی۔ سب سے پہلے انھوں نے تیس روپے میں باکس کیمرہ خریدا۔ اس دور میں فلم دو ڈھائی روپے میں مل جاتی۔ ایک سو بیس نمبر فلم کے بارہ پرنٹ تیار کرانے میں ڈھائی تین روپے کا خرچہ مزید اٹھ جاتا۔ فوٹوگرافی کا ہنر آزمانے کے لیے پہلے پہل اہلخانہ کو تختہ ٔ مشق بنایا۔ سفید کپڑے کو دیوار پر لگاکر ان کی خوب تصویریں کھینچتے۔ سستے کیمرے سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے سے مضطرب رہتے۔
بڑے بھائی احسان مرزا کے ہاں کراچی جاتے تو ان کے پاس موجود دو بہترین کیمروں کو بڑی حسرت سے تکتے اور تمنا کرتے کہ کاش! ایسے کیمرے ان کے ملکیت میں بھی ہوں۔ پیسے جوڑ جاڑ کر کوڈک براؤنی کیمرہ خرید لیا لیکن دماغ میں بھائی جیسے کیمروں کا سودا بدستور سمایا رہا۔ ایگفا کمپنی کے فولڈنگ کیمرے بازار میں آئے تو ان کی سنی گئی۔ 145 روپے میں خریدے گئے، اس کیمرے سے تصویروں کا رزلٹ اچھا آیا تو شوق کو مہمیز ملی۔ سونے پر سہاگا بڑے بھائی نے بھی اپنا ایک کیمرہ دان کردیا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
شوقیہ فوٹو گرافی میں عموماً لینڈ اسکیپ سے آغاز ہوتا ہے توایسا ہی کچھ معاملہ ان کے ساتھ گزرا۔ مناظرفطرت کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے رہے۔ آسمان کے بادلوں نے سب سے بڑھ کرمسحور کیا۔ان کی روش سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کا بننا بگڑنا انھیں حیرت میں ڈالتا۔ درختوں، پودوں، پھولوں اورپرندوں کو بھی انھوں نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔ جھیل سیف الملوک کے حسن کے دیوانے ہیں، جس کا شفاف پانی بھی انھوں نے بہت پیا۔ کہتے ہیں، امریکا اور برطانیہ میں پھولوں کی اقسام ہم سے بہت زیادہ ہیں لیکن ان پھولوں میں خوشبو نہیں جبکہ ہمارے ہاں کے پھولوں میں خوشبو ہے۔ اس پرہم نے ان سے کہا کہ خوشبو کے بغیر پھول کے بارے میں ظہیر کاشمیری نے کیا خوب مصرع کہا ہے:
خوشبو اڑی توپھول فقط رنگ رہ گیا
اختر مرزا کے خیال میں لینڈ اسکیپ فوٹوگرافی میں دوڑ دھوپ زیادہ ہے،دوسرے اس کا انت نہیں، اس کی بہ نسبت پورٹریٹ فوٹوگرافی کو آسان قرار دیتے ہیں، کہ اس میں چہرے کو مختلف زاویوں سے کیمرے کی گرفت میں لانا ہوتاہے۔پورٹریٹس بنانے میںوہ قدرتی روشنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کی دانست میں مصنوعی روشنی میں جس کی تصویربنانا ہوتی ہے، وہ بھی گھبراہٹ کا شکار رہتا ہے، اورتصویر میں وہ رنگ نہیں آتا جوقدرتی روشنی میں آسکتا ہے۔ان کے بقول''کیمرے کی ایک آنکھ سے وہ وہ منظر دیکھے ہیں،جو میں اپنی دونوں آنکھوں سے ملاحظہ نہ کر سکتا تھا۔'' کہتے ہیں کہ تصویر اتارنے کے لیے کلک کب کرنا ہے، اس کا اذن اندر سے ملتا ہے۔ فوٹوگرافرز کو وہ تاریخ کا محافظ سمجھتے ہیں۔
ان کا بتانا ہے کہ'' پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اسلحے کا استعمال کس طریقے سے ہوا، لاکھوں افراد کو کتنی بے دردی سے قتل کیا گیا، اس سارے کے بارے میں سمجھنے کے لیے تصویروں سے بہت مدد ملتی ہے۔ آفرین ہے، ان بہادر فوٹوگرافروں پرجو جان ہتھیلی پررکھ کرکام کرتے رہے۔ ان کے پاس آج کی طرح ہلکے پھلکے کیمرے بھی نہیں تھے، انھیںلوہے کے وزنی کیمروں کے ساتھ حرکت کرنی پڑتی تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت جو ظلم ہوااس کوبھی کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فسادات کے دوران کیا کچھ ہوا۔پرانے طرز معاشرت کو سمجھنے اور جاننے میں فوٹوگرافرز کا کام بہت کام آسکتا ہے۔ المناک واقعات کی تصویروں سے اس مقولے کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔''
لینڈ اسکیپ فوٹوگرافی بھی انھوں نے بہت کی لیکن اس کام میں ان کی شناخت کا بنیادی حوالہ پورٹریٹ فوٹوگرافی بنی، اوراس میں بھی زیادہ ترادیبوں کو انھوں نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا اورپھر ان تصویروں کو خوبصورت رائٹ اپ کے ساتھ کتاب کی صورت میں ''میراث ادب: اردو ریاست'' کے عنوان سے پیش کردیا۔ اس کام کی داد ممتاز ادیب انتظار حسین سے بھی ملی اور معروف نقاد انور سدید نے بھی اس کاوش کو سراہا۔ پورٹریٹ فوٹوگرافی کی طرف آنے کا معاملہ بھی دلچسپ رہا۔
جوانی میں سائیکل پر گلے میں کیمرہ لٹکائے آوارہ گردی کرتے پھرتے تھے۔ اس دشت نوردی میں ایک روزوہ اس کوچے میں جانکلے جہاں پرملنگ اپنے چیلوں میں گھرا بیٹھا تھا۔ مٹی کے بڑے سے کونڈے میں بھنگ گھوٹی جارہی تھی۔ ان کو سخت پیاس لگی تھی،اس لیے جب ایک چیلے نے ان سے پوچھا کہ وہ ادھر کیا کرتے پھررہے ہیںتو ان نے بتایا کہ پینے کو پانی چاہیے، ان کی یہ طلب پوری کردی توشہ پاکر انھوں نے کچھ اورمانگ لیا، جو کہ ملنگ کے لیے عجب سی بات تھی۔اصل میں انھوں نے پورٹریٹ بنانے کی اجازت مانگی تھی، جو پس وپیش کے بعد انھیں عطا کردی گئی۔
تصویر بن گئی۔ دھل کرسامنے آئی تو انھیں اچھی لگی اور ان کو احساس ہوا کہ وہ پورٹریٹ فوٹوگرافی میں انفرادی رنگ جماسکتے ہیں، بس پھر چل سوچل۔ اپنے اس کام کا رخ ادیبوں اور آرٹسٹوں کی طرف کرنے کا معاملہ یہ رہا کہ تیس بتیس برس قبل کراچی سے ان کے دوست اور معروف آرٹسٹ آزر زوبی کراچی سے آئے تویہ ان کے ساتھ اشفاق احمد کے ہاں گئے۔ ادھر یکبارگی انھیں یہ خیال آیا کہ کیوں ناان لمحوں کی قدر کرتے ہوئے کیمرے کو جنبش دی جائے۔ اشفاق احمد سے درخواست کی تو پہلے توانھوں نے ٹالنا چاہا لیکن پھر مان گئے۔ وہ مان گئے تو پھر بانو قدسیہ کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔
ان دونوں میاں بیوی کی تصاویر اتار لیں۔ ان کے اچھے نتائج نے حوصلہ بلند کردیا۔ اس کے بعد انھوں نے برصغیر کے جید ادیبوں کے پورٹریٹ بنائے۔ ادیبوں سے ہٹ کر بھی لوگ ان کے ریڈار میں آئے، جن میں دلیپ کمار،جاوید اختر، ضیاء محی الدین ، اعتزاز احسن اورطارق علی جیسے نامور بھی شامل ہیں۔پورٹریٹ بنانے میں ان کی تلخ یاد کوئی نہیں۔ سب نے ان کے ساتھ تعاون کیا اورناز نخروں سے گریزاں رہے۔ بس ایک دو ادیبوں نے طے شدہ وقت پرملاقات سے گریز کیا۔
پرتو روہیلہ کی تصویریں انھوں نے بنالیں مگرخود کو اس سے مطمئن نہ پایا تودوبارہ ان سے وقت مانگاجو انھوں نے خوش دلی سے دے دیا۔ جوانی میں پڑھنے سے شغف بڑھاتواے حمید کا رومانوی اور شفیق الرحمن کا پرمزاح انداز ان کے دل کو بھایا۔ اپنے ان محبوب لکھاریوں کے پورٹریٹ بنانا بہت خوش گوار تجربہ رہا۔ وہ اچھی تصویر بنا لیتے ہیں، اس کا اندازہ بہتوں کو پہلے سے تھا لیکن وہ اچھا لکھ بھی سکتے ہیں،اس کی غمازی '' میراث ادب: اردو ریاست'' سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ پورٹریٹ فوٹوگرافی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینے کے بعد کیمرے کے ہنر میں مہارت کے لیے تگ دو میں وہ مصروف رہے توساتھ میں اس کام کے بڑوں کی تخلیقات کو بھی دیکھا اور پرکھا۔ پسندیدہ پورٹریٹ فوٹوگرافرز میں یوسف کرش،رچرڈ ایویڈن اور ہالزمین کا نام لیتے ہیں۔
پاکستان کے وہ فوٹوگرافر جو گمنامی میں رہے اور انھیں پذیرائی نہ ملی، ان میں وہ لینڈ اسکیپ فوٹوگرافر اسد علی اور شیخ ریاض علی کا ذکر کرتے ہیں۔ اختر مرزا پرانی نسل کے ان لوگوں میں سے نہیں جو نئے زمانے کی تبدیلیوں کو قبول کرنے میں عارسمجھتے ہیں،بلکہ اس حوالے سے ان کا رویہ بڑا مثبت ہے اوران کے پاس پرانے کیمروں کے ساتھ جدید ترین ڈیجیٹل کیمرے بھی ہیں۔اختر مرزا اگر طویل عرصے سے شوقیہ فوٹو گرافی سے متعلق ہیں تو اس میں ان کی معاشی آسودگی کو بھی دخل ہے۔ وہ عمر بھر اپنا مستحکم کاروبار کرتے رہے۔ 1967ء میں ان کی زندگی میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی جب انھوں نے اپنا ناتا روحانیت کی دنیا سے جوڑا اور ابوانیس صوفی محمد برکت علی لدھیانوی کو اپنا مرشد مان لیا۔