فیض آباد دھرنا کیس سپریم کورٹ نے رپورٹ ٹی او آرز کے برخلاف قرار دے دی
کمیشن نے ایک فریق سے بیان حلفی لیا جبکہ دوسرے سے سادہ بیان لیا جو مساوی سلوک نہیں ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں کمیشن کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن نے فریقین سے غیرمساویانہ سلوک کیا اور دیے گئے ٹی او آرز کے برخلاف رپورٹ تیار کرلی۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا کہ کمیشن کی رپورٹ ٹی او آر کے برخلاف ہے اور کمیشن نے مینڈیٹ سے باہر جاکر اصرار کیا کہ ایک مخصوص شخص نے کچھ غلط نہیں کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن نے محض اس شخص کی کاغذ پر لکھی تردید پر انحصار کیا اور تمام فریقین سے مساوی سلوک نہیں کیا، ایک فریق سے بیان حلفی لیا جبکہ دوسرے سے سادہ بیان لے لیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کمیشن نے دونوں فریقین کو ایک دوسرے پر جرح کا موقع بھی نہیں دیا، رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک مایوس کن ہے، محض جملہ بازی اور اصطلاحات ہیں اور ٹھوس مواد نہیں ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ رپورٹ ٹھوس مواد سے خالی ہے، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کسی فریق کا بیان ہی نہیں لیا گیا۔
سپریم کورٹ نے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے سے متعلق کہا کہ اس حوالے سے اٹارنی جنرل دو ہفتے میں وفاقی حکومت کا جواب جمع کروائیں۔
کمیشن کے اراکین کو بیان کا موقع فراہم کرتے ہوئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انکواٸری کمیشن کے اراکین چاہیں تو تحریری جواب جمع کرا سکتے ہیں اور ذاتی حیثیت میں پیش بھی ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت انکواٸری کمشین کی رپورٹ پر اپنا جواب جمع کرائے۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا کہ کمیشن کی رپورٹ ٹی او آر کے برخلاف ہے اور کمیشن نے مینڈیٹ سے باہر جاکر اصرار کیا کہ ایک مخصوص شخص نے کچھ غلط نہیں کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن نے محض اس شخص کی کاغذ پر لکھی تردید پر انحصار کیا اور تمام فریقین سے مساوی سلوک نہیں کیا، ایک فریق سے بیان حلفی لیا جبکہ دوسرے سے سادہ بیان لے لیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کمیشن نے دونوں فریقین کو ایک دوسرے پر جرح کا موقع بھی نہیں دیا، رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک مایوس کن ہے، محض جملہ بازی اور اصطلاحات ہیں اور ٹھوس مواد نہیں ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ رپورٹ ٹھوس مواد سے خالی ہے، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کسی فریق کا بیان ہی نہیں لیا گیا۔
سپریم کورٹ نے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے سے متعلق کہا کہ اس حوالے سے اٹارنی جنرل دو ہفتے میں وفاقی حکومت کا جواب جمع کروائیں۔
کمیشن کے اراکین کو بیان کا موقع فراہم کرتے ہوئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انکواٸری کمیشن کے اراکین چاہیں تو تحریری جواب جمع کرا سکتے ہیں اور ذاتی حیثیت میں پیش بھی ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت انکواٸری کمشین کی رپورٹ پر اپنا جواب جمع کرائے۔